شکیل فاروقی ہمارے سب سے بڑے بھائی ہیں۔ وہ اردو انگریزی اور ہندی کے قادرالکلام شاعر ہیں۔ ان کی انگریزی نظموں کا مجموعہ ’’شیڈوز‘‘ کے عنوان سے 35 سال پہلے شائع ہوا تھا۔ ان کی حمدوں اور نعتوں کا مجموعہ ’’عقیدت کے پھول‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ شکیل فاروقی ریڈیو پاکستان کی ہندی سروس کے نگراں رہے ہیں۔ وہ ریڈیو پاکستان کراچی، حیدر آباد اور کوئٹہ کے اسٹیشن ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ گزشتہ دو دہائیوں سے روزنامہ ایکسپریس میں تواتر کے ساتھ کالم لکھ رہے ہیں۔ آج شکیل فاروقی صاحب کے ذکر خیر کا مرکزی حوالہ ان کا ایک حالیہ کالم ہے۔ اس کالم میں شکیل فاروقی صاحب نے بھارتی مسلمانوں کو ’’بیچارے‘‘ قرار دیا ہے۔ شکیل فاروقی صاحب نے اپنے کالم میں بھارتی مسلمانوں کی بیچارگی کی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ بیچارے بھارتی مسلمان کے عنوان سے فاروقی صاحب نے کیا لکھا انہیں کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے، لکھتے ہیں۔
’’بھارت میں بسنے والے مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم اور تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ انتہائی تشویش ناک صورت حال اختیار کرچکا ہے۔ یوں کہنے کو تو بھارت ایک سیکولر ریاست ہے لیکن میں صرف محض پروپیگنڈا ہے جس کا مقصد دنیا دکھاوے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں جب کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
1947ء کے بعد سے مسلم کش فسادات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور شاید کوئی دن ایسا ہوگا جب کہیں نہ کہیں مسلمان کو زدوکوب اور قتل نہ کیا گیا ہو۔
بھارت کی حکمراں جماعت کی سب سے زیادہ مسلم دشمن شریک انتہا پسند پارٹی راشٹریہ سوئم سنگھ جو آر ایس ایس کے نام سے مشہور ہے مسلمانوں کی جانی دشمن ہے اور سچ پوچھیے تو اس کے بانی ساورکرمونجے اور گروگول والکر کے علاوہ اس کے حامی بال گنگا دھرتلک اس کے زہریلے سانپوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلا۔ بدنام زمانہ انتہا پسند ہندو تنظیم شوسینا اسی کی شاخ ہے۔
انڈین نیشنل کانگریس جو بظاہر ایک سیکولر جماعت تھی اور جس کے سرکردہ رہنما گاندھی جی اور پنڈت نہرو تھے وہ بھی سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے جس میں سردار وَلب بھائی پٹیل، گووند وَلب پنتھ اور پرشوتم داس ٹنڈن جیسے متعصب ہندو شامل تھے جن کی اصلیت کو جاننے کے بعد بانی پاکستان محمد علی جناح نے کانگریس سے علٰیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ سب کے سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔
سَگل ہندو سماج نامی انتہا پسند تنظیم جس کے ڈانڈے آر ایس ایس سے ملے ہوئے ہیں مہاراشٹر میں مسلم مخالف ریلیاں نکال رہی ہے اور مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔
فساد کی اصل جڑ نام نہاد ’’لَوجہاد‘‘ اور ’’لینڈ جہاد‘‘ کے جھوٹے نعرے ہیں جنہیں مسلمانوں کے سر پر تھوپا جارہا ہے۔ یہ جھوٹی کہانیاں بھی گھڑی جارہی ہیں کہ مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اسلام قبول کرنے کے لیے اُکسا رہے ہیں۔ لینڈ جہاد کے نام پر یہ جھوٹی کہانیاں گھڑی جارہی ہیں کہ مسلمان اپنی مساجد تعمیر کرنے کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری زمینیں خرید رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اب تک ایسی پندرہ ریلیاں نکالی جاچکی ہیں۔(روزنامہ ایکسپریس، 11 پریل 2023)
پاکستان میں بھارتی مسلمانوں کو ’’بیچارے‘‘ سمجھنے کا عمل عام ہے۔ ہمارے بڑے بھائی صاحب کا زیر بحث کالم بھی پاکستان میں پائی جانے والی عمومی نفسیات کا ایک مظہر ہے۔ اس نفسیات کا ایک پس منظر ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کی ’’معاشی حالت‘‘ بھارتی مسلمانوں کی معاشی حالت سے بہتر ہے۔ چناں چہ پاکستان کے مسلمان خود کو طرّم خاں اور بھارتی مسلمانوں کو بیچارے سمجھتے ہیں۔ ہم پاکستانی مسلمانوں کو بھارتی مسلمانوں کے لیے لفظ بیچارے استعمال کرتے سنتے اور پڑھتے ہیں تو ہمیں اردو کی سب سے بڑی ناول نگار قرۃ العین حیدر کا ایک انٹرویو یاد آجاتا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے اس انٹرویو میں کہا تھا کہ جب بھی کوئی پاکستانی شاعر یا ادیب مجھ سے ملنے ممبئی آتا ہے وہ مجھ سے یہ ضرور پوچھتا ہے کہ آپ کے پاس کار ہے یا نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ کار محض ایک سواری تھی اب Status Symbol ہے۔ ورنہ ان حقائق سے قطع نظر کرکے دیکھا جائے تو بیسویں صدی میں جیسے مسلمان بھارت نے پیدا کیے ہیں ایسے مسلمان تو اس وقت مکے اور مدینے میں بھی نہیں پائے جاتے تھے۔ کیا ہمیں یاد نہیں کہ پاکستان بنگال، پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں بن رہا تھا اور تحریک پاکستان دلی، یوپی اور سی پی میں چل رہی تھی۔ بھارت کے مسلمان جانتے تھے کہ اگر پاکستان بن گیا تو وہ کبھی پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے۔ اس لیے کہ پاکستان مسلم اکثریتی علاقوں میں بنے گا۔ اس کے باوجود انہوں نے قیام پاکستان کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی۔ عجیب بات یہ تھی کہ پاکستان جن علاقوں میں بن رہا تھا وہاں تحریک پاکستان کا کوئی زور ہی نہیں تھا۔ پنجاب 1940 تک یعنی قیام پاکستان سے ایک سال پہلے تک یونینسٹ پارٹی کے قبضے میں تھا اور یونینسٹ پارٹی انگریزوں کی غلام اور کانگریس کی اتحادی تھی۔ کے پی کے سرحد ی گاندھی یعنی غفار خان کے قبضے میں تھا۔ بلوچستان تحریک پاکستان سے لاتعلق کھڑا تھا۔ صرف سندھ کی اسمبلی نے پاکستان کے حق میں ایک قرار داد منظور کی تھی اس قرار داد کے سوا سندھ کا تحریک پاکستان میں کوئی کردار نہ تھا۔ دوسری طرف یوپی، دلی اور سی پی میں ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان لے کر رہیں گے پاکستان‘‘ کا نعرہ گونج رہا تھا۔ جس زمانے میں یہ سب کچھ ہورہا تھا مکے اور مدینے تک میں عرب قوم پرستی چھائی ہوئی تھی۔ لیکن بھارتی مسلمان نسل، زبان اور جغرافیے سے بلند ہو کر صرف اسلام کی بنیاد پر سوچ اور عمل کررہے تھے۔ ان کی نظر میں پاکستان ایک مثالی اسلامی ریاست بننے والا تھا۔ بھارتی مسلمانوں کے اس کردار کی وجہ سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھارتی مسلمانوں کو ’’مینارۂ نور‘‘ قرار دیا تھا۔ قائداعظم کو بھارتی مسلمانوں سے اتنی محبت تھی کہ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں کسی نے کہا کہ پاکستان تو بن گیا ہے مگر بھارتی مسلمان قیادت سے محروم ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر قائداعظم نے کہا کہ اگر یہ اجلاس ایک قرارداد منظور کرے تو میں پاکستان چھوڑ کر ہندوستان چلا جاتا ہوں اور بھارتی مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہوں، آپ پاکستان سنبھالیں، قائداعظم کو بھارتی مسلمانوں کی اتنی فکر تھی کہ انہوں نے ایک بیان میں بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس نے اپنی مسلم اقلیت کے ساتھ ظلم کیا تو پاکستان خاموش نہیں رہے گا بلکہ بھارت میں مداخلت کرے گا۔ ظاہر ہے کہ مداخلت بیانات کے ذریعے نہیں ہوتی فوج کے ذریعے ہوتی ہے۔ دراصل پاکستان کا بنیادی تصور یہ تھا کہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے مضبوط اسلامی ریاست ہوگا اور وہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کا محافظ ہوگا۔ ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو بیچارے بھارتی مسلمان نہیں بیچارے پاکستانی مسلمان ہیں۔
پاکستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی بیچارگی یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کے نام پر ایک ملک تو بنالیا مگر وہ 75 سال میں اس ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی نہیں بنا سکے پاکستان کے سیاسی نظام میں اسلام کا کوئی اثر ہی نہیں۔ ہمارا پورا سیاسی نظام مغرب سے آیا ہوا ہے۔ ہماری عدالتیں قرآن و سنت کے مطابق فیصلے نہیں کرتیں بلکہ وہ مغرب کے عطا کردہ قوانین کے تحت فیصلے کرتی ہیں۔ ہمارا پورا تعلیمی نظام مغرب زدہ ہے۔ ہم صرف اپنے طالب علموں کو اسلامیات پڑھا کر اچھا مسلمان بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمیں خبر ہی نہیں کہ ہم بچوں کو جو دیگر دس مضامین پڑھاتے ہیں وہ طلبہ کے ذہن پر اسلام کا اثر پڑنے ہی نہیں دیتے۔ قرآن کہتا ہے کہ سود اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کے مترادف ہے مگر پاکستان کا پورا معاشی اور مالیاتی نظام سود پر کھڑا ہے۔
ملک کی اعلیٰ عدالت سود کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے مگر میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف نے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا چنانچہ یہاں کسی انسانی ساختہ نظر یے کا علمبردار ملک کا حکمران نہیں ہونا چاہیے تھا مگر جنرل ایوب سیکولر تھے۔ بھٹو سوشلسٹ تھے۔ جنرل پرویز لبرل تھے۔ جنرل ضیا اسلام پسند تھے مگر ان کا اسلام ان کے سیاسی مفادات کے تابع تھا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر پاکستانی عوام کی تفریح ہولی وڈ اور بالی وڈ سے آرہی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر پاکستانی عوام کی خواہشات، آرزوئیں، تمنائیں اور خواب مغرب سے آرہے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بیچارے بھارتی مسلمان نہیں پاکستانی مسلمان ہیں۔
بھارتی مسلمانوں نے ایک نظریے کی بنیاد پر پاکستان بنایا تھا اور نظریے ہی کو پاکستان میں بالادست ہونا چاہیے تھا مگر پاکستان میں نظریے کے بجائے امریکا بالادست ہے۔ پاکستان میں مارشل لا آتا ہے تو امریکا کی مرضی سے آتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امریکی اشارے پر بحال ہوتی ہے۔ پاکستان کا دفاع امریکا مرکز یا Amarica Centric ہے۔ پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی مٹھی میں ہے۔ امریکا کے بعد ملک پر جرنیل بالادست ہیں۔ جرنیلوں اور فوج کا تحریک پاکستان میں کوئی کردار ہی نہیں تھا اس لیے کہ اس وقت نہ فوج تھی نہ جرنیل تھے مگر بیچارے پاکستانیوں کی گردن پر امریکا ہی نہیں جرنیل بھی پنجے گاڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ پاکستان اگر جمہوری ملک ہے تو اس کی سیاست کو ’’عوام مرکز‘‘ ہونا چاہیے تھا مگر پاکستان میں کہیں شریف خاندان پوجا جارہا ہے کہیں بھٹو خاندان کی آرتی اُتاری جارہی ہے، کہیں لوگ عمران خان کی جے جے کار کررہے ہیں، کہیں ابھی تک جیے الطاف کے نعرے لگ رہے ہیں، اس سے زیادہ عوام کی بیچارگی اور کیا ہوسکتی ہے؟
جب پاکستان بنا تھا تو وہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھا مگر پاکستانی مسلمان اس سب سے بڑی اسلامی ریاست کو سنبھال ہی نہ سکے۔ چنانچہ 1971ء میں آدھا پاکستان اوریجنل پاکستان سے الگ ہو کر بنگلا دیش بن گیا۔ پاکستانی مسلمان اگر بیچارے نہ ہوتے تو کیا یہ ممکن تھا۔ 1971ء میں صرف آدھا ملک ہی ختم نہیں ہوا ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ بھارتی مسلمانوں نے بھارت میں اقلیت ہوتے ہوئے بھی کبھی ہندوئوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے مگر ہمارے 90 ہزار فوجی بھارت کے آگے ہتھیار ڈال کر بھارت کے قیدی بن گئے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ 1947ء سے آج تک بھارت میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوئے مگر پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی قائداعظم کی فکر کے تحت بھارت سے اس کا حساب نہ لیا۔ لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے صرف بھارت کے مسلمانوں کو تنہا نہیں چھوڑا انہوں نے تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی کو ترک کیا ہے۔ 1971ء کے بحران میں مشرقی پاکستان میں بہاریوں کی ایک بڑی آبادی ایسی تھی جس نے فوج کے شانہ بشانہ دفاع پاکستان کی جنگ لڑی مگر ہمارے حکمران طبقے نے 1971ء کے سانحے کے بعد ان بہاریوں کو بنگلادیش ہی میں چھوڑ دیا اور ان کو پاکستان لانے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ 1971ء کے بحران میں البدر اور الشمس کے نوجوانوں نے فوج کے شانہ بشانہ دادِ شجاعت دی مگر فوجی خود تو ہتھیار ڈال کر جنگی قیدی بن کر محفوظ ہوگئے مگر انہوں نے البدر اور الشمس کے نوجوانوں کو مکتی باہنی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے کشمیریوں سے کہا کہ تم اگر بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھا لو اور اپنی تحریک کو تحریک کی بلند سطح پر لے آئو تو پاکستان تمہاری فوجی مدد کرے گا مگر جب کشمیریوں نے ایسا کر دکھایا تو انہیں جواب دیا گیا کہ کشمیر کے لیے پاکستان کو دائو پر نہیں لگایا جاسکتا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے یہ کہہ کر طالبان کو تسلیم کرایا کہ وہ ہمارے بچے ہیں مگر پھر نائن الیون کے بعد ہمارے حکمرانوں نے طالبان کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا یہ مثالیں بھی یہی بتاتی ہیں کہ بیچارے اصل میں پاکستانی ہیں۔