اسلام اور باطل کی مزاحمت ہم معنی الفاظ ہیں۔ اسلام کا پہلا کلمہ یعنی کلمہ طیبہ باطل کی مزاحمت کا سب سے بڑا استعارہ ہے۔ یہ کلمہ لاالہ سے شروع ہوتا ہے۔ اس کلمے کا ترجمہ ہے نہیں ہے کوئی خدا سوائے اللہ کے اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ کلمہ تمام جھوٹے خدائوں کے انکار سے شروع ہورہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی مسلمان جب تک تمام جھوٹے خدائوں کا انکار نہ کردے اس وقت تک وہ الا اللہ کہنے کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ مسلمانوں کی مذہبی زندگی کا آغاز ہی مزاحمت سے ہوتا ہے۔ قرآن کا ایک نام فرقان ہے۔ یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا۔ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ اگر کوئی مسلمان حق و باطل میں فرق نہیں کرتا تو وہ مسلمان کہلانے کا مستحق ہی نہیں۔ اس لیے کہ مسلمان صرف حق و باطل میں فرق کرکے نہیں رہ جاتا۔ پھر وہ باطل پر حق کی بالادستی کا اعلان بھی کرتا ہے۔ پھر وہ حق کی قوت سے باطل کو مٹا کر بھی دکھاتا ہے۔ یعنی قرآن مجید فرقان حمید بھی ایک اعتبار سے کتاب مزاحمت ہے۔ آپ انبیا و مرسلین کی زندگی پر غور کریں۔ ان مقدس زندگیوں کا محوری نکتہ حق کا اعلان اور باطل کی مزاحمت ہے۔ سیدنا ابراہیم ؑ ایک فرد تھے۔ ان کے پاس کوئی فوج اور کوئی ریاست نہیں تھی۔ ان کے ساتھ کوئی قوم کیا ایک جماعت تک نہ تھی مگر انہیں حکم ہوا کہ وہ نمرود کی خدائی کا انکار کریں اور سیدنا ابراہیم ؑ نے نمرود کی خدائی کا انکار کیا۔ سیدنا نوحؑ بھی ایک فرد تھے۔ ان کے پاس بھی حکومت اور ریاست کی قوت نہیں تھی۔ سیدنا نوحؑ نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی اور صرف 60 لوگ ایمان لائے۔ یہاں تک کہ سیدنا نوحؑ کے بیٹے نے بھی آپ پر ایمان لانے سے انکار کردیا مگر اس کے باوجود سیدنا نوحؑ ساڑھے نو سو سال تک کفر اور شرک کی مزاحمت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ طوفان نوحؑ برپا ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا نوحؑ کی نافرمان قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ سیدنا موسیٰؑ کے پاس بھی سیاسی اور عسکری طاقت نہیں تھی۔ صرف سیدنا ہارونؑ آپ کے مددگار تھے۔ اس کے باوجود سیدنا موسیٰؑ کو حکم ہوا کہ وہ فرعون کی مزاحمت کریں اور آپ نے فرعون کی مزاحمت کی۔ یہاں تک کہ فرعون نے سیکڑوں جادوگر سیدنا موسیٰؑ کے سامنے لاکھڑے کیے۔ مگر سیدنا موسیٰؑ کے ساتھ معجزے کی طاقت تھی چناں چہ معجزے سے جادو کو شکست سے دوچار کیا۔
رسول اکرمؐ کی 13 سالہ مکی زندگی ناتوانی کی زندگی تھی۔ باطل کے پاس عسکری قوت بھی تھی۔ مالی وسائل بھی تھے۔ سماجی قوت بھی تھی۔ اس کے پاس عددی برتری بھی تھی۔ مگر رسول اکرمؐ کو حکم تھا کہ وہ باطل کی مزاحمت کریں۔ ایک موقع ایسا آیا کہ باطل نے آپ کو مفاہمت کو مشروط پیشکش کی۔ مگر رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند رکھ دو تو بھی حق پرستی سے دستبردار ہونے والا نہیں۔ باطل نے شعب ابی طالب میں تین سال تک رسول اکرمؐ کا محاصرہ کیا مگر رسول اکرمؐ ایک لمحے کے لیے بھی باطل کی مزاحمت سے دستبردار نہیں ہوئے۔ غزوئہ بدر حق و باطل کا فیصلہ کن معرکہ تھا۔ اس معرکے کی اہمیت یہ تھی کہ خود خدا کے رسول نے اپنی دعا میں خدا سے کہا کہ اگر آج سے مٹھی بھر لوگ کامیاب نہ ہوئے تو پھر روئے زمین پر خدا کا نام لیوا کوئی نہ ہوگا۔ اس معرکے کی اہمیت یہ تھی کہ ایک طرف مسلمانوں کا لشکر تھا جس میں صرف 313 لوگ تھے۔ دوسری طرف کفار اور مشرکین کا لشکر جرار تھا جس میں ایک ہزار لوگ شامل تھے۔ مسلمانوں کے پاس چند گھوڑے، چند تلواریں، چند زرہیں تھیں۔ دوسری جانب گھوڑوں، تلواروں، نیزوں اور زرہوں کی فراوانی تھی۔ دراصل خدا اس طاقت کے ہولناک عدم توازن کے ذریعے مسلمانوں کی آزمائش کررہا تھا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ مسلمان یقینی موت سے خوفزدہ ہوتے ہیں یا نہیں۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ طاقت کا عدم توازن مسلمانوں کو ہراساں کرتا ہے یا نہیں۔ مگر اللہ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کے ایمان مضبوط رہے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد کی۔ مسلمانوں کی تاریخ میں غزوئہ بدر کی اہمیت یہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام اہم عسکری معرکوں پر غزوہ بدر کا سایہ رہا ہے۔ طارق بن زیاد 18 ہزار کا لشکر لے کر اسپین پہنچے تھے۔ ان کے سامنے ایک لاکھ فوج کھڑی تھی۔ چنانچہ طارق بن زیاد نے وہ کشتیاں جلوادیں جن پر سوار ہو کر مسلمان اسپین آئے تھے۔ اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان سپاہیوں کے دل میں یہ خیال ہی نہ آئے کہ وہ میدان جنگ سے فرار ہوسکتے ہیں۔ طارق بن زیاد کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور مسلمانوں کے 18 ہزار کے لشکر نے ایک لاکھ فوج کو زیر کرلیا۔ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے آئے تو ان کے ساتھ 17 ہزار فوجی تھے اور سندھ کا راجا داہر ایک لاکھ کا لشکر لیے کھڑا تھا لیکن محمد بن قاسم نے 17 ہزار فوجیوں کے ذریعے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست فاش دی۔ بابر ہندوستان فتح کرنے آیا تو اس کے پاس صرف 8 ہزار فوجی تھے اور اس کے سامنے ایک لاکھ کا لشکر تھا۔ بابر کئی کوششوں کے باوجود حریفوں کو شکست دینے میں ناکام رہا۔ تب بابر نے عہد کیا کہ اب وہ کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ اس عہد کے بعد بابر نے 8 ہزار فوجیوں کے ذریعے ایک لاکھ کے لشکر کو ہرا کر ہندوستان فتح کرلیا۔
یہ ہندوستان کی تاریخ کا اہم پہلو ہے کہ مغل بادشاہ اکبر نے تمام ادیان کے اصولوں کو ملا کر دین الٰہی کے نام سے ایک نیا دین ایجاد کرلیا تھا۔ اس کے نتیجے میں اسلام پورے برصغیر میں بے یارومددگار ہوگیا تھا۔ اکبر کے اس تجربے کا اثر جہانگیر کے زمانے تک باقی رہا۔ چنانچہ مسلمانوں میں ترک عبادات کا رجحان پیدا ہوگیا تھا۔ دربار میں شعائر اسلام کا مذاق اڑایا جاتا۔ دربار میں بادشاہ کے سامنے سجدۂ تعظیمی کا رواج ہوگیا تھا۔ لوگ بادشاہ کے سامنے اس طرح جھکتے جس طرح نماز میں اللہ کے سامنے جھکتے ہیں۔ ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے گائے کے ذبیحے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ مجدد الف ثانیؒ ایک صوفی تھے مگر انہوں نے اس فضا میں بادشاہت کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ جناب مجدد الف ثانیؒ عوام میں مقبول تھے۔ چناں چہ بادشاہ کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں اس کے خلاف بغاوت نہ ہوجائے۔ چنانچہ اس نے مجدد الف ثانیؒ کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس نے سجدۂ تعظیمی کو ختم کردیا۔ اس نے گائے کے ذبیحے پر عائد پابندی ختم کردی۔ اس طرح ایک صوفی کی مزاحمت نے برصغیر میں اسلام کی سربلندی کی راہ ہموار کردی۔ شاہ ولی اللہ مجدد الف ثانیؒ کی طرح عالم بھی تھے، صوفی بھی اور فاروقی بھی۔ ان کے زمانے میں برصغیر کے مسلمانوں کو یہ مسئلہ لاحق ہوچکا تھا کہ وہ قرآن و حدیث کے علم سے کٹ کر رہ گئے تھے اور عمومی جہل کے خلاف جہاد کیے بغیر مسلمانوں کو قرآن و حدیث سے جوڑنا ممکن نہیں رہ گیا تھا۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ بعدازاں ان کے ایک فرزند نے قرآن کا اردو میں ترجمہ کیا۔ شاہ ولی اللہ نے معاشرے میں قرآن و حدیث کے درس کا سلسلہ قائم کیا۔ شاہ ولی اللہ کے زمانے میں مرہٹوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کردیا تھا۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ نے افغانستان کے حکمران احمد شاہ ابدالی کو خط لکھ کر مرہٹوں کی سرکوبی کی درخواست کی۔ احمد شاہ ابدالی نے شاہ ولی اللہ کے خط کی وجہ سے ہندوستان کا رُخ کیا اور مرہٹوں کا زور توڑ دیا۔
اکبر الٰہ آبادی کو لوگ ’’مزاحیہ شاعر‘‘ سمجھتے ہیں مگر اکبر ایک عظیم مزاحمتی شاعر تھے۔ اکبر کی عظمت یہ ہے کہ اقبال نے ان کے انتقال پر اکبر کے بیٹے کے نام خط میں لکھا تھا کہ تمہارے والد اتنے بڑے شاعر تھے کہ ایشیا میں ان جیسا کوئی شاعر موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اکبر نے اپنی شاعری سے مغرب کی فکری مزاحمت کا حق ادا کردیا۔ اکبر نے کہا۔
خدا کی ہستی میں شبہ کرنا اور اپنی ہستی کو مان لینا
پھر اس پہ طرئہ اس ادّعا کا کہ ہم ہیں اہلِ شعور ایسے
٭٭
دنیا میں بے خبر ہے جو پروردگار سے
شاید ہے زندہ اپنے ہی وہ اختیار سے
٭٭
منزلوں دور ان کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خوردبیں اور دوربیں تک ان کی بس اوقات سے
٭٭
علومِ دنیوی کی بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہوجاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا
٭٭
نئی تعلیم کو کیا واسطہ ہے آدمیت سے
جنابِ ڈارون کو حضرتِ انساں سے کیا مطلب
٭٭
نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
٭٭
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے
٭٭
شانِ مذہب پہ رہا فلسفہ حیران عوام
اس قدر جوشِ جنوں اور اس اعزاز کے ساتھ
اکبر الٰہ آبادی نے اردو شاعری میں مغرب کی مزاحمت کی جس روایت کا آغاز کیا تھا اسے اقبال نے عروج تک پہنچادیا۔ اقبال نے فرمایا۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک یہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
٭٭
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
٭٭
دلیلِ صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق پر آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی
عروق مردۂ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
اکبر اور اقبال نے مغرب اور باطل کی مزاحمت کا یہ کام شاعری میں کیا۔ مولانا مودودی نے وہی کام نثر میں کیا۔ انہوں نے جدید مغربی تہذیب کی بنیادوں پر شدید حملے کیے۔ مولانا نے جدید مغربی تہذیب کو ’’باطل‘‘ کہا۔ ’’جاہلیت خالصہ‘‘ کہہ کر پکارا۔ اسے ’’شجر خبیث‘‘ کا نام دیا۔ اس پر ’’تخم خبیث‘‘ ہونے کی مہر لگائی۔ مولانا مجدد وقت تھے اور وہ جانتے تھے کہ اسلام کا احیا مغرب کی مزاحمت کے بغیر ممکن نہیں ہوسکے گا۔ مولانا مودودی کی مزاحمتی فکر 1936ء سے اپنے جمال و جلال کا اظہار کررہی تھی۔ مولانا فرما رہے تھے۔
’’یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے۔
ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک اور پانی کے بہائو پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔
یہ ان بہادروں اور شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہیں، جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہائو کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہیں، جو صبغت اللہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں، اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
مسلمان جس کا نام ہے وہ تو دریا کے بہائو پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینش کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اُس راستے پر رواں کردے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہِ راست ہے، صراطِ مستقیم ہے۔
اگر دریا نے اپنا رخ اس راستے پر پھیر دیا ہے تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے کے لیے راضی ہو۔
حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے، وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا، اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صرف کردے گا، کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پروا نہ ہوگی، وہ ہر اُس نقصان کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو، حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہوجائیں اور پانی کی موجیں اس کو نیم جان کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں تب بھی اس کی روح ہرگز شکست نہ کھائے گی۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رَوپر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا‘‘۔
(’’اشارات‘‘، سید مودودی، ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘، اپریل 1936ء)
اسلام اور مسلمانوں کی مزاحمتی روش نے 20 ویں اور 21 ویں صدی میں غزوہ بدر کی روایت کو زندہ کیا ہے۔ افغانستان میں جہادی عمل نے 1980ء کی دہائی میں وقت کی سپر پاور سوویت یونین کو منہ کے بل گرایا۔ پھر 21 ویں صدی میں امریکا اور اس کے 48 اتحادیوں کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ کارنامہ ایک ایسے عہد میں انجام دیا جو مسلمانوں کا دور زوال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے مزاحمت ہی میں زندگی ہے۔ مزاحمت ہی میں معنی ہیں، مزاحمت ہی میں عزت ہے، مزاحمت ہی میں برکت ہے۔