پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے 1973ء کا آئین بنانے والوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ طاقت کا محور عوام ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا۔ منتخب نمائندے منزل کا تعین کریں، پاک فوج پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے سفر میں ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے کہا کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے ہی آئین کو اختیار ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان اور پارلیمنٹ عوامی رائے کے مظہر ہیں۔ عوام اپنی رائے آئین اور پارلیمنٹ کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔
(روزنامہ جنگ کراچی، 15 اپریل 2023ء)
پاکستان کے جرنیل سیاست دانوں کو پسند نہیں کرتے مگر جب موقع ملتا ہے وہ سیاست دانوں کی طرح گفتگو کرتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر نے بھی قومی سلامتی کونسل کے ان کیمرہ اجلاس میں ایک سیاست دان کی طرح گفتگو کی ہے۔ اس گفتگو کا ٹھوس تاریخی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ جنرل عاصم منیر نے فرمایا ہے کہ پاکستان میں طاقت کا مرکز یا محور عوام ہیں۔ لیکن تلخ اور ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں جرنیل ہیں۔ چند سال پہلے شائع ہونے والے امریکا کے خفیہ پیپرز کے مطابق جنرل ایوب 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خط و کتابت کررہے تھے، وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاستدان نااہل ہیں اور وہ پاکستان کو تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ نہیں کرنے دے گی۔ 1954ء میں ملک کی سیاست عدم استحکام کا شکار تھی مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ جنرل ایوب امریکیوں سے خفیہ روابط استوار کرکے اپنے مارشل لا کی راہ ہموار کریں۔ پاکستان عوامی جدوجہد کا حاصل تھا۔ تحریک پاکستان میں جرنیلوں یا فوج کا کوئی کردار نہیں تھا اس لیے کہ اس وقت نہ جرنیل موجود تھے، نہ فوج موجود تھی۔ چناں چہ جنرل ایوب کا قومی سیاست میں کوئی کردار ہی نہیں تھا۔ بالفرض انہیں مارشل لا لگانا بھی تھا تو اس کے لیے امریکا کے آگے سجدہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ جنرل ایوب مارشل لا لگا کر بالغ حق رائے دہی
کی بنیاد پر انتخابات کراتے اور اقتدار فوری طور پر عوام کے منتخب نمائندوں اور پارلیمنٹ کے حوالے کرکے خود بیرکوں میں واپس چلے جاتے مگر جنرل ایوب نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے عوام کی تائید کے بجائے امریکا کی سرپرستی میں مارشل لا لگایا اور عوام کو اقتدار و اختیار کے کھیل سے 10 سال کے لیے باہر کردیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ پاکستان میں بالادستی عوام کی نہیں ہے جرنیلوں کی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اہمیت عوام کی خواہش کی نہیں جرنیلوں کے ڈنڈے کی ہے۔ جرنیل عوام کو طاقت کا محور خیال کرتے تو جنرل ایوب ملک میں ایک آدمی ایک ووٹ کا جمہوری اصول متعارف کراتے اور عوام کی اکثریت کی رائے سے صدر منتخب ہوتے۔ مگر جنرل ایوب نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے ملک میں بی ڈی سسٹم متعارف کرادیا جس کے تحت پورے ملک سے 80 ہزار افراد قوم کے نمائندے منتخب ہوئے اور پورے 80 ہزار بی ڈی ممبرز نے جنرل ایوب کو ملک کا صدر منتخب کردیا۔ جنرل ایوب کے زمانے میں قائداعظم کی بہن اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح عوام میں مقبول تھیں۔ وہ حقیقی معنوں میں عوام کو طاقت کا محور بنا سکتی تھیں۔ مگر جنرل ایوب نے ان کی عوامی ساکھ کو برباد کرنے کے لیے ملک کے بڑے بڑے اخبارات میں نصف صفحے کے ایسے اشتہارات شائع کرائے جن میں فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ ایک نوکر پیشہ حقیر جرنیل تو پاکستان کا مائی باپ بنا ہوا تھا اور ملک بنانے والے قائد اعظم کی بہن بھارتی ایجنٹ قرار دی جارہی تھیں۔ اس مثال سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں ابتدائی زمانے ہی سے طاقت کا محور عوام نہیں جرنیل اور ان کا ڈنڈا ہے۔ پاکستان میں عوام طاقت کا سرچشمہ ہوتے تو جنرل ایوب دس سال کی فوجی آمریت کے بعد عوام میں بڑے مقبول ہوتے مگر ایسا نہیں تھا۔ جنرل ایوب دس سال کے بعد بھی عوام میں مقبول نہیں تھے اس کے برعکس اس کے خلاف جو عوامی مظاہرے ہورہے تھے ان میں ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگ رہے تھے۔ لیکن چوں کہ پاکستان میں عوام طاقت کا سرچشمہ نہیں تھے اس لیے جنرل ایوب عوامی طاقت سے برطرف نہیں ہوئے بلکہ جنرل یحییٰ کی قیادت میں سینئر فوجی اہلکاروں نے ان کے خلاف بغاوت کی۔ اس بغاوت سے بھی ثابت ہوا کہ طاقت کا سرچشمہ جرنیل ہیں اور ایک جرنیل کو دوسرا جرنیل ہی کاٹ سکتا ہے۔ جنرل ایوب کے عہد کی ایک بہت اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے ملک میں ون یونٹ متعارف کرایا تھا اس کا مقصد مشرقی پاکستان کی اکثریت کو زیر و زبر کرنا اور بنگالیوں کو مغربی پاکستان کا غلام بنانا تھا۔ پاکستان میں عوام طاقت کا مرکز محور یا سرچشمہ ہوتے تو ملک میں کبھی بھی ون یونٹ کا تجربہ نہیں ہوسکتا تھا۔
جنرل یحییٰ اقتدار میں آئے تو انہوں نے 1970ء میں ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول پر انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ ان انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کرلی۔ مگر جنرل یحییٰ نے اقتدار شیخ مجیب الرحمن اور ان کی جماعت کے حوالے کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا۔ یہ آپریشن پاکستان دشمن اقدام تھا اور اس آپریشن نے دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی پاکستان کو بنگلادیش میں تبدیل کردیا۔ اس صورت حال سے ایک بار پھر ثابت ہوا کہ پاکستان میں طاقت کا مرکز عوام نہیں جرنیل ہیں۔ حمودالرحمن کمیشن نے جنرل یحییٰ اور کئی دیگر جرنیلوں کے کورٹ مارشل کی سفارش کی۔ عوامی مطالبہ بھی یہی تھا مگر جنرل یحییٰ ٹھاٹ سے جیے اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیے گئے۔ عام آدمی دس ہزار روپے کی چوری بھی کرلیتا ہے تو اس کی زندگی عذاب بن جاتی ہے مگر جنرل یحییٰ اور ان کے رفقا نے ملک توڑ دیا لیکن ان کا احتساب نہ ہوسکا۔ اس منظرنامے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں جرنیل ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو پہلا متفقہ اسلامی آئین دیا۔ انہوں نے ملک کے جوہری پروگرام کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے عوام میں یہ جذبہ پیدا کیا کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ انہوں نے پاکستان میں اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس منعقد کرائی۔ انہوں نے شراب کو ممنوع قرار دیا۔ انہوں نے جمعے کی تعطیل کا اعلان کیا۔ بھٹو صاحب ملک میں عوامی قوت کا مظہر تھے مگر جنرل ضیا الحق نے نہ صرف یہ کہ بھٹو کو برطرف کرکے ملک پر مارشل لا مسلط کردیا بلکہ انہوں نے بھٹو کے عدالتی قتل کی راہ بھی ہموار کی۔ اس سے ایک بار پھر ثابت ہوا کہ پاکستان میں اہم عوام نہیں جرنیل ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے اقتدار میں آنے کے بعد 90 دن میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا مگر وہ 90 مہینے میں بھی انتخابات نہ کراسکے۔ انہوں نے انتخابات کرائے بھی تو غیر جماعتی بنیادوں پر حالاں کہ جمہوریت میں عوام کی قوت کا مظہر سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں عوام طاقت کا محور ہوتے تو جنرل ضیا الحق کبھی غیر جماعتی انتخابات کی راہ ہموار نہ کرتے۔ پیپلز پارٹی نے ایم آر ڈی کی پلیٹ فارم سے جنرل ضیا الحق کے خلاف تحریک چلائی مگر جنرل ضیا الحق نے طاقت کے زور سے ایم آر ڈی کی تحریک کو کچل دیا اور ثابت کیا کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں جرنیل ہیں۔ جنرل ضیا الحق دس سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے اور بالآخر امریکا نے ان کے طیارے کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کے طیارے تک صرف ملک کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی رسائی تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جنرل ضیا الحق کو فوج ہی کے عناصر نے راستے سے ہٹایا۔ اس سے بھی یہی ثابت ہوا کہ طاقت ور عوام نہیں فوج ہے۔ جنرل ضیا الحق خود تو چلے گئے مگر آئین میں جنرل ضیا الحق کی شامل کی گئی شق 58(2)B ان کے بعد بھی آئین میں موجود رہی اور اس کے تحت بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی دو دو حکومتیں برطرف کی گئیں۔ اس مثال سے بھی جرنیلوں ہی کی طاقت ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے جس وقت میاں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا اس وقت میاں نواز شریف کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ پاکستان میں عوام طاقت کا سرچشمہ اور پارلیمنٹ بالادست ہوتی تو جنرل پرویز کو کبھی اقتدار پر قبضے کی جرأت نہ ہوتی۔ جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کیا تو عوام اس کے سخت خلاف تھے
چناں چہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی مگر جنرل پرویز کے کان پر جوں تک رینگ کر نہ دی۔ اس صورت حال سے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ پاکستان میں اصل طاقت جرنیل کے پاس ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جنرل پرویز کے خلاف جو وکلا تحریک شروع ہوئی وہ کبھی کامیاب نہ ہوئی اگر اس کی پشت پر جنرل کیانی موجود نہ ہوتے۔ ہماری ایک بار آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل سے ملاقات ہوئی تو ہم نے ان سے پوچھا کہ فوج پاکستان کے لیے ہے یا پاکستان فوج کے لیے۔؟ کہنے لگے تمہارے سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ انہوں نے ایسا اس لیے کہا کہ وہ اگر یہ کہتے کہ فوج ملک کے لیے ہے تو وہ سفید جھوٹ بولتے اور اگر وہ یہ تسلیم کرتے کہ ملک فوج کے لیے ہے تو وہ ایک بڑے جرم کا اعتراف کرتے۔ دنیا میں ملک ہیں اور ان کے پاس فوجیں ہیں مگر ہمارے یہاں ایک فوج ہے جس کے پاس ایک ملک ہے۔ یہی اصل حقیقت ہے۔ باقی جو کچھ ہے پروپیگنڈا ہے۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل ہے۔ حقائق کو جھٹلانے کی روایت ہے۔ بلاشبہ آئین میں یہی کہا گیا ہے کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، مگر اسلامی جمہوری پاکستان کے کسی ایک شعبے میں بھی اسلام غالب نہیں ہے۔