اطلاعات کے مطابق بھارتی ادارے نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹربنگ نے 12 ویں کلاس کے نصاب سے مغلیہ سلطنت سے متعلق باب نکال دیے۔ ادارے کے ایک افسر نے بھارتی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ اس تبدیلی کا اطلاق 24-2023 کے تعلیمی سال پر ہوگا۔ بھارتی نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق 12 ویں جماعت کی پولیٹیکل سائنس کی کتاب سے ریاست گجرات کے فسادات اور ان پر نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کا باب بھی نکال دیا گیا ہے۔ اسی طرح 11 ویں کلاس کی عالمی تاریخ کی کتاب سے سینٹرل اسلامک لینڈز، ثقافتوں کی محاذ آرائی، صنعتی انقلاب سے متعلق باب بھی نکال دیے گئے ہیں۔ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے رہنما کپل شرما نے نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ اس سے مغلوں کی جھوٹی تاریخ سے نجات ملے گی اور ان سے جان چھوٹ گئی، جس میں چوروں، ڈاکوئوں کو بھارت کے سلطان اور شہنشاہ بنا کر تاریخ کی کتابوں میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے بجائے ہمیں یہ پڑھانا چاہیے کہ وہ مندروں، آرٹ، لٹریچر اور موسیقی سے کس قدر نفرت کرتے تھے۔ (روزنامہ دنیا 5 اپریل 2023ء)
ہندوستان میں اسلام اور ہندو ازم اور مسلمانوں اور ہندوئوں کی کشمکش حق و باطل کی کشمکش ہے۔ اور اس کشمکش کا اصول یہ ہے کہ جب حق آتا ہے تو باطل سرنگوں ہوجاتا ہے اس لیے کہ سر بلند ہونا حق اور سرنگوں ہونا باطل کا مقدر ہے۔ ایک بہت بڑا کمرہ اندھیرے بھرا ہوتا ہے کہ اچانک کمرے میں ایک چھوٹا سا چراغ روشن ہوجاتا ہے اور یہ چھوٹا سا چراغ پورے کمرے کے اندھیرے کو کھا جاتا ہے۔ اسلام تو آفتاب ہے، اس کے سامنے پوری دنیا کا اندھیرا بھی کچھ نہیں مگر بھارت کے انتہا پسند ہندو یہ بات نہیں سمجھتے۔ چناں چہ وہ آئے دن اسلام اور مسلمانوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال زیر بحث خبر میں موجود ہے۔ بی جے پی کے رہنما کپل شرما نے ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کو جھوٹ قرار دیا ہے۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے اور حق و باطل کی عالمگیر کشمکش کی تاریخ سے ثابت ہے کہ جھوٹ کبھی کہیں ایک ہزار سال کے لیے غالب نہیں رہا۔
محمد بن قاسم نے سندھ پر یلغار کی تھی تو ان کے پاس صرف 17 ہزار فوجی تھے۔ محمد بن قاسم کا مقابلا راجا داہر سے تھا جو ایک لاکھ کا لشکر لیے کھڑا تھا۔ 17 ہزار کا ایک لاکھ سے کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا مگر محمد بن قاسم اور ان کی فوج پر غزوئہ بدر کی روایت کا سایہ تھا۔ چناں چہ محمد بن قاسم کے 17 ہزار فوجیوں نے راجا داہر کے لشکر کو کاٹ کے رکھ دیا اور جو بچ گئے وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ تو کیا 17 ہزار فوجیوں کا ایک لاکھ پر غلبہ جھوٹ تھا؟ کیا محمد بن قاسم کی فتح سندھ کوئی غلط بیانی ہے؟ کوئی مکر ہے؟ کوئی فریب ہے؟ کیا یہ بھی مسلمانوں کا گھڑا ہوا کوئی جھوٹ ہے؟ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ محمد بن قاسم سندھ پر دو سال سے زیادہ حکمرانی کرتے رہے مگر اس دوران کپل شرما کا ہندوستان محمد بن قاسم اور ان کے ساتھ آنے والوں کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ کیا یہ تاریخی سچ نہیں ہے؟ اگرچہ سندھ میں محمد بن قاسم کا قیام مختصر تھا مگر انہوں نے مختصر وقت میں سندھ کے لوگوں کے دلوں کو فتح کرلیا۔ دو سال میں ہزاروں ہندو مسلمان ہوگئے اور جو مسلمان نہیں ہوئے وہ محمد بن قاسم کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ انہوں نے محمد بن قاسم کے مجسمے بنالیے۔ کیا یہ بھی مسلمانوں کا وضع کیا ہوا کوئی جھوٹ ہے؟
محمد بن قاسم تو صرف سندھ فتح کرسکے مگر بابر نے پورا ہندوستان فتح کرکے دکھا دیا۔ بابر ہندوستان فتح کرنے آیا تو اس کے پاس صرف 8 ہزار فوجی تھے اور اس کے مقابل بھی ایک لاکھ کا لشکر تھا۔ کہاں 8 ہزار فوجی کہاں ایک لاکھ کا لشکر؟ بابر کئی دن تک ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکا۔ تب بابر کو اپنے کردار کی ایک بہت بڑی کمزوری کا پوری شدت سے احساس ہوا۔ بابر عظیم سپاہی تھا مگر وہ شراب نوشی کا عادی تھا۔ تب بابر نے عزم کیا کہ اب وہ کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ اس عزم کے معرض وجود میں آتے ہی 8 ہزار کی فوج نے ایک لاکھ کے لشکر کو زیر کرلیا۔ لیکن یہاں کپل شرما کیا ہر ہندو انتہا پسند کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ بابر کا مقابلہ کسی ہندو سے نہیں ایک مسلمان ابراہیم لودھی سے تھا۔ ہندوئوں کا ہندوستان تو اس وقت بھی چوڑیاں پہنے بیٹھا تھا۔ ہندوئوں کے ہندوستان میں دم خم ہوتا تو وہ بابر کی مزاحمت کرکے دکھاتا۔ ایک طرف صرف 8 ہزار کا لشکر تھا اور دوسری طرف 10 کروڑ ہندوئوں کا ہندوستان۔ 10 کروڑ ہندو اگر میدان جنگ میں 10 کروڑ پانی کے پیالے بھی بہا دیتے تو بابر کا لشکر ڈوب جاتا مگر 10 کروڑ ہندو صرف 8 ہزار مسلمانوں سے زیر ہوگئے۔ کیا یہ بھی مسلمانوں کا تخلیق کیا ہوا کوئی جھوٹ ہے؟ ٹھیریے یاد آیا۔ ایک ارب سے زیادہ ہندو تو اتنے بانجھ ہیں کہ وہ اپنے ملک کو کوئی نام تک نہیں دے سکے۔ ہندوستان کے دو نام ہیں۔ ہندوستان اور انڈیا۔ ہندوستان کو ہندوستان کا نام مسلمانوں نے دیا اور ہندوستان کو انڈیا کا نام انگریزوں کی عطا ہے۔ ہندو اپنے ملک کو ’’بھارت ورش‘‘ بھی کہتے ہیں لیکن یہ نام کہیں اور کیا خود بھارت میں بہت کم استعمال ہوتا ہے۔ کیا یہ بھی مسلمانوں کا گھڑا ہوا کوئی تاریخی جھوٹ ہے؟
مذاہب عالم کی تاریخ یہ ہے کہ بعض مذاہب کے ماننے والوں نے تلوار اور تاریخی جبر کے ذریعے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ مسلم اسپین مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلا تو عیسائی حکمرانوں نے مسلمانوں کے سامنے تین امکانات رکھے۔ عیسائی ہوجائو۔ ملک چھوڑ دو یا مرنے کے لیے تیار ہوجائو۔ بدقسمتی سے عیسائی حکمرانوں نے ان تینوں امکانات کو حقیقت میں ڈھالا۔ انہوں نے مسلمانوں کو قتل بھی کیا۔ ملک بدر بھی کیا اور طاقت کے زور سے عیسائی بھی بنایا۔ خود ہندوئوں نے ہندوستان میں بدھ ازم اور سکھ ازم کے پیروکاروں کے خلاف طاقت اور تاریخی جبر کے ہتھیار استعمال کیے۔ بدھ ازم برہمن ازم کے خلاف ایک بغاوت تھا۔ اس لیے کہ بدھ ازم میں ذات پات کا کوئی نظام نہیں تھا۔ چناں چہ برہمنوں نے گوتم بدھ کو ’’ملیچھ اوتار‘‘ یا ’’ناپاک پیغمبر‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے بدھ ازم کو کبھی ہندوستان کے قلب یعنی یوپی میں قدم نہ جمانے دیے۔ چناں چہ بدھ ازم کے پیروکار ہندوستان کے مضافات میں جا کر آباد ہوئے یعنی وہ علاقے جو آج پاکستان کا حصہ ہیں یا افغانستان، سکھ ازم ایک توحید پرست مذہب ہے مگر ہندوازم اور ہندوئوں کے تاریخی جبر نے سکھ ازم کو ہندوازم کی ایک شاخ بنا کر رکھ دیا ہے۔ سکھوں کے نام ہندوئوں کی طرح ہوتے ہیں۔ سکھ ہندوئوں کے تہوار ہولی، دیوالی مناتے ہیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں نے اپنے سیاسی اور عسکری غلبے کے ایک ہزار سال میں کبھی طاقت اور سرمائے سے ہندوئوں کو مسلمان نہیں بنایا۔ بناتے تو آج پورا ہندوستان مسلمان ہوتا۔ یہ مسلمانوں کی کوئی ذاتی خوبی نہیں۔ مسلمانوں کا دین صاف کہتا ہے دین میں کوئی جبر نہیں۔ اس کے باوجود آج برصغیر میں 65 کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ ان میں باہر سے آنے والے مسلمان مٹھی بھر ہیں۔ باقی سارے مسلمان ’’مقامی افراد‘‘ ہیں۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی روحانی فتح ہے اور اس فتح کا سہرا بادشاہوں کے نہیں صوفیا اور علما کے سر ہے۔ کیا یہ حقائق بھی مسلمانوں کا ایجاد کیا ہوا جھوٹ ہیں؟
ہندو تہذیب کی کمزوری اور اضمحلال کا ایک مظہر یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو ہندو ہندوستان کے حکمران بن کر نہیں ابھرے بلکہ تاریخی عمل نے مسلمانوں کی جگہ انگریزوں کو لاکھڑا کیا۔ ہندوئوں کی ’’نسائیت‘‘ کا عالم یہ ہے کہ نہ ہندو ایک ہزار سال تک مسلمانوں کا کچھ بگاڑ سکے نہ وہ پونے دو سو سال تک انگریزوں کا مقابلہ کرسکے۔ انگریزوں کا مقابلہ ٹیپو سلطان نے کیا اور وہ ایک مسلمان تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں اگرچہ کہیں کہیں ہندو بھی مسلمانوں کے ساتھ تھے مگر جنگ آزادی کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ انگریزوں نے 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کیا اس لیے کہ وہ جنگ آزادی کا ذمے دار مسلمانوں کو سمجھتے تھے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی اسلامی، تہذیبی اور تاریخی فتح کا ایک بہت بڑا مظہر پاکستان ہے،
مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کی اور جیسے ہی انہیں موقع ملا انہوں نے پاکستان کی صورت میں اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی سربلندی کے لیے پاکستان کے نام سے ایک بڑی ریاست حاصل کرلی۔ ہندوئوں نے قیام پاکستان کی راہ میں ہر رکاوٹ کھڑی کرلی مگر وہ قیام پاکستان کو روک نہ سکے۔ کیا یہ بھی مسلمانوں کا تیار کردہ ایک جھوٹ ہے؟
کپل شرما نے مسلمانوں پر مندروں، آرٹ لٹریچر اور موسیقی سے نفرت کا الزام عائد کیا ہے لیکن بدقسمتی سے ہندو ان میدانوں میں بھی مسلمانوں کے مقابل نہیں آسکے۔ ہندوئوں کے تہذیبی اور لسانی بنجر پن کی ایک بہت بڑی مثال یہ ہے کہ سنسکرت ہندوئوں کی مذہبی زبان ہے مگر ہندو اپنی مذہبی زبان کو بھی مرنے سے نہ روک سکے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی تہذیبی اور لسانی قوت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اپنے عہد زوال میں عربی، فارسی اور ہندی کے امتزاج سے اردو کی صورت میں ایک عظیم الشان نئی زبان خلق کر ڈالی۔ ویسے تو اردو کی عمر پانچ سو سال سے زیادہ ہے مگر جہاں سے اردو کا واضح تشخص سامنے آتا ہے وہ زمانہ تین سو سال سے زیادہ نہیں ہے مگر اتنے کم عرصے میں اردو نے تفسیر کا اتنا بڑا علم پیدا کیا ہے کہ ہندو تین سو برس میں اس کا پاسنگ بھی پیدا نہیں کرسکے۔ اردو نے تین سو سال میں میر، غالب اور اقبال جیسے عـظیم شاعر پیدا کیے۔ دوسرے تیسرے اور چوتھے درجے کے شاعروں کی تعداد ہزاروں اور اس سے کمتر درجے کے شعرا کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ یہ ایک صریح جھوٹ ہے کہ مسلمانوں نے مندروں سے نفرت کی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اورنگ زیب نے بلاشبہ ریاست کے خلاف سازش کرنے والے بعض مندروں کو منہدم کردیا مگر اس نے اپنی جیب خاص سے مندر تعمیر بھی کروائے۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے فن تعمیر میں تاج محل، دہلی اور لاہور کی شاہی مساجد، دہلی کا لال قلعہ اور قطب مینار جیسی عالمگیر شہرت کی حامل عمارتیں تخلیق کیں۔ کپل شرما بتائیں کہ ہندوئوں نے فن تعمیر میں کون سی عالمگیر شہرت کی حامل عمارت تعمیر کی؟ بھارت کو اپنی فلمی صنعت پر بڑا ناز ہے مگر یہ فلمی صنعت بھی مسلمانوں کی عظمت کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہندوستان کا سب سے بڑا اداکار دلیپ کمار یعنی یوسف خان ہے۔ بھارت نے سو سال میں تین بڑی اداکارائیں پیدا کیں۔ تینوں مسلمان ہیں۔ یعنی مینا کماری، وحیدہ رحمن اور مدھوبالا۔ بھارت کی سب سے بڑی فلم مغل اعظم ہے اور مغل اعظم کے آصف کی تخلیق ہے۔ بھارت کی دوسری بڑی فلم شعلے ہے اور شعلے کے مکالمے سلیم جاوید نے لکھے ہیں اور گبر سنگھ کا لازوال کردار امجد خان نے ادا کیا ہے۔ کیا یہ باتیں بھی مسلمانوں کا تشکیل دیا ہوا جھوٹ ہیں؟۔