پاک فوج کے سربراہ جنرل سید حافظ عاصم منیر نے کہا ہے کہ دشمن عوام اور افواج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ ہمیں ظاہری اور چھپے دشمن کو پہچاننا ہے اور حقیقت اور ابہام میں واضح فرق رکھنا ہو گا۔ انہوں نے پھر کہا کہ ریاست کا محور عوام ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہریوں کے تحفظ اور سلامتی سے بڑھ کر کوئی چیز مقدس نہیں۔ ہمیں عوام اور فوج کے باہمی رشتے کو قائم رکھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دشمن ریاستی اور سماجی ہم آہنگی کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 30 اپریل 2023)
جنرل عاصم منیر کا یہ بیان کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ پاک فوج ملک کا اہم ترین ادارہ ہے چنانچہ اس کے اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کا عمل ملک و قوم کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ لیکن بدقسمتی سے جنرل عاصم منیر نے اپنے بیان میں دشمن کا لفظ تو استعمال کیا مگر دشمن کی نشاندہی نہیں کی۔ بری فوج کا سربراہ ملک کا طاقت ور ترین فرد ہے۔ اس کے سامنے صدر، وزیراعظم، وفاقی کابینہ، چیف جسٹس کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ چنانچہ جنرل عاصم منیر کو چاہیے تھا کہ وہ کھلے دشمن کا بھی نام لیتے اور پوشیدہ دشمن کی بھی کھل کر نشاندہی کرتے۔ ایسا ہوتا تو قوم کو معلوم ہو جاتا کہ کون سا دشمن فوج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کی سازش کر رہا ہے۔ جہاں تک قوم کا تعلق ہے تو اس کی نظر میں پاکستان کے دو بڑے دشمن ہیں۔ ایک بھارت اور دوسرا امریکا۔ اگر جنرل عاصم منیر کا اشارہ انہی دو دشمنوں کی طرف ہے تو کھل کر بھارت اور امریکا کا نام لیں۔ امریکا اور بھارت کی روایت یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کے کھل کر اپنے دشمنوں کا نام لیتے ہیں بلکہ عملاً بھی اپنے دشمنوں کا جینا حرام کیے رکھتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا امریکا کا سب سے بڑا دشمن سوویت یونین تھا چنانچہ امریکا نے سوویت یونین اور اس کے نظریے کمیونزم کے خلاف پوری دنیا میں سرد جنگ چھیڑی ہوئی تھی۔ پھر نائن الیون کے بعد امریکا نے اسلام اور مسلمانوں کو اپنا دشمن قرار دے دیا چنانچہ امریکا نے اسلام پر حملے کیے۔ افغانستان اور عراق میں مداخلت کی۔ اب ایک وقت یہ ہے کہ امریکا نے چین کو دشمن نمبر ایک قرار دیا ہوا ہے۔ چنانچہ امریکا چین کے خلاف ایک سیاسی، سفارتی، عسکری اور معاشی مہم شروع کیے ہوئے ہے۔ بھارت پاکستان کو دشمن نمبر ایک قرار دیتا ہے چنانچہ اس نے قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کا تعاقب نہیں چھوڑا۔ جنرل عاصم منیر پاکستان کے طاقت ور ترین فرد ہیں چنانچہ وہ کھل کر بھارت اور امریکا کا نام لیں۔ امریکا اور بھارت کے سوا پاکستان کا اگر کوئی اور دشمن ہے تو جنرل کا فرض ہے کہ وہ ڈرے بغیر اس کی بھی نشاندہی کریں۔ لیکن ہم حیران ہیں کہ جنرل صاحب نے اب تک کسی دشمن کا نام نہیں لیا۔ اس سے یہ خطرہ پیدا ہوا ہے کہ دشمن ڈرے بغیر عوام اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کا ناپاک کام جاری رکھے گا۔
پاکستان کی پوری تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بدقسمتی سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہمارے جرنیلوں نے عوام اور فوج کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ روایت ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد قائداعظم کو ایک فوجی مرکز میں عشائیے پر مدعو کیا گیا، قائداعظم عشائیے کے لیے پہنچے تو ایک پاکستانی جنرل نے قائداعظم سے شکایت کہ انہوں نے ایک انگریز جنرل گریسی کو پاک فوج کا سربراہ مقرر کر دیا ہے حالانکہ مقامی افسروں میں سے بھی کسی کو جنرل بنایا جا سکتا تھا۔ جنرل نے قائداعظم سے کہا کہ اگر آپ اس سلسلے میں ہم سے مشورہ کر لیتے تو اچھا ہوتا۔ روایت کے مطابق قائداعظم نے یہ سنا تو سخت ناراض ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قوم کی تقدیر کے اہم فیصلے سیاسی قیادت کرے گی جرنیل نہیں۔ قائداعظم نے یہ کہا اور ڈنر کیے بغیر گھر واپس چلے گئے۔ قائداعظم پوری قوم کے باپ اور ترجمان تھے چنانچہ جب جنرل نے قائداعظم کو جرنیلوں سے مشاورت کی تجویز دی تو اس نے فوج اور قوم کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو قائداعظم کا موقف سو فی صد درست تھا۔ پاکستان عوامی جدوجہد کا حاصل تھا اور اس کے قیام کے سلسلے میں کسی فوج یا جرنیلوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔ چنانچہ پاکستان میں تمام سیاسی فیصلے سول قیادت کو کرنے تھے۔ افسوس کہ پاکستان میں ایسا نہ ہو سکا۔
جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر امریکا کی چند سال پہلے سامنے آنے والے خفیہ دستاویزات کے مطابق جنرل ایوب 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ کانا پھوسی کر رہے تھے۔ وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاسی رہنما نااہل ہیں۔ اور وہ ملک کو تباہ کر دیں گے مگر فوج انہیں ایسا نہیںکرنے دے گی۔ پاکستان میں عوام کے ترجمان سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں تھیں چنانچہ جنرل ایوب ان کے خلاف امریکیوں کے کان بھر کر فوج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈال رہے تھے۔ 1958ء میں جنرل ایوب نے ملک پر مارشل لا مسلط کر دیا اور انہوں نے ایک غیر سیاسی فوج کو ’’سیاسی‘‘ بنا کر کھڑا کر دیا۔ یہ بھی عوام اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی ایک کوشش تھی اس لیے کہ عوام کی عظیم اکثریت فوج کو صرف دفاع کی ضامن سمجھتی تھی۔ مگر جنرل ایوب نے فوج کو اقتدار کا ذائقہ چکھا دیا۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ محترمہ فاطمہ جناح بانی پاکستان کی بہن تھیں اور قوم انہیں مادرِملت کہہ کر پکارتی تھی۔ قوم کے دل میں اس حوالے سے فاطمہ جناح کا بڑا احترام تھا مگر جنرل ایوب نے جب دیکھا کہ فاطمہ جناح ان کی سیاسی حریف بن کر ابھر رہی ہیں تو انہوں نے ملک کے بڑے بڑے اخبارات میں نصف صفحے کے ایسے اشتہارات شائع کرائے جن میں فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ فاطمہ جناح عوام کی ترجمان تھیں اور جنرل ایوب فوج کے نمائندے تھے چنانچہ مذکورہ بالا اشتہارات کے ذریعے جنرل ایوب نے عوام اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کی۔ جنرل ایوب گیارہ سال ملک کے سربراہ رہے اور اس دوران انہوں نے بہت کم بنگالیوں کو فوج میں داخل ہونے دیا۔ حالانکہ بنگالی قوم آبادی کا 56 فی صد تھے۔ جنرل ایوب کا یہ عمل بھی قوم اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے والا تھا۔ جنرل ایوب کے دور میں بنگالیوں کی اکثریت کو صفر بنانے کے لیے ملک میں ون یونٹ کا تجربہ کیا گیا۔ یہ بات بھی عوام اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے والی تھی۔
1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ اکثریتی پارٹی بن کر ابھری چنانچہ اقتدار فوری طور پر شیخ مجیب کے حوالے کر دیا جانا چاہیے تھا مگر ایسا کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ نے شیخ مجیب اور عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس سے قوم اور فوج کے درمیان ایک دراڑ پڑ گئی۔ جنرل یحییٰ نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کیا تو پورے مشرقی پاکستان میں آگ لگ گئی اور فوجی آپریشن سے فوج اور عوام کے درمیان بہت بڑی دراڑ پڑ گئی۔ مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے تو جنرل نیازی نے فرمایا کہ ہم بنگالی عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی ایسا بیان تو بھارت جیسے دشمن کے خلاف بھی نہیں دیا جا سکتا۔ بنگالی تو ہمارے بھائی تھے۔ مسلم لیگ بنانے والے، تحریک پاکستان چلانے والے اور پاکستان قائم کرنے والے تھے چنانچہ جنرل نیازی کے بیان سے فوج اور عوام میں دراڑ پڑ گئی۔ بدقسمتی سے جنرل یحییٰ کے دور میں سقوط ڈھاکہ ہو گیا اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس صورت حال سے عوام اور فوج کے رشتے پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور قوم آج تک سقوط ڈھاکہ کو بھول نہیں سکی ہے۔
1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے ملک کے سیاسی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا اور قوم کو یہ پیغام دیا کہ قوم کی تقدیر سیاست دانوں کے ہاتھ میںنہیں ہے جرنیلوں کے ہاتھ میں ہے۔ بدقسمتی سے جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو صرف اقتدار سے محروم نہیں کیا انہوں نے ان کی زندگی کا چراغ ہی گل کر دیا اور وہ بھی ایک ایسے مقدمے میں جسے لوگ آج بھی ’’عدالتی قتل‘‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ اس عمل سے عوام اور فوج میں دراڑ پڑ کر رہی۔ بے نظیر بھٹو نے قتل سے پہلے اپنی ایک ای میل میں صاف کہا کہ مجھے قتل کیا گیا تو اس کے ذمے دار جنرل پرویز مشرف ہوں گے چنانچہ بے نظیر کے قتل سے ایک بار پھر فوج اور عوام میں دراڑ پڑی۔ نائن الیون کے فوراً بعد جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکا کے حوالے کر دیا۔ چنانچہ ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو گئی اور نوبت یہ آئی کہ فوجیوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ وردی پہن کر عام آبادیوں میں نہ جائیں۔ ی
ہ منظرنامہ اس امر کی علامت تھا کہ جنرل پرویز کی امریکا پرستی نے فوج اور عوام کے درمیان دراڑ کیا خلیج پیدا کر دی ہے۔ ہمیں عمران خان کی سیاست سے درجنوں اختلافات ہیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ عوام میں مقبول ہیں اور اگر انتخابات ہو جائیں تو وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو قتل کرنے کی کوشش ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ شہباز شریف اور مریم نواز کے بڑے بڑے مقدمات ختم ہو گئے ہیں۔ معاشرے میں آئین کی کوئی تکریم باقی نہیں رہ گئی۔ بدقسمتی سے ان حالات سے بھی عوام اور فوج کے درمیان دراڑ پڑ رہی ہے۔