امام بخاریؒ کا مشہور واقعہ ہے۔ آپ کو معلوم ہوا ایک شخص کے پاس حدیث ہے۔ امام بخاریؒ اس سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ معلوم ہوا وہ جنگل میں ہے۔ امام بخاریؒ وہاں پہنچے۔ دیکھا وہ شخص اپنے گھوڑے کو گھاس کا لالچ دے کر پاس بلا رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں گھاس نہیں تھی ’’گھاس کا دھوکا‘‘ تھا۔ امام بخاریؒ نے فرمایا جو شخص گھوڑے سے جھوٹ بول رہاہے اس سے روایت نقل نہیں کی جاسکتی‘ یہ کہا اور اس شخص سے ملے بغیر واپس لوٹ گئے۔ خیر یہ تو حدیث شریف کا معاملہ ہے ہماری تہذیب نے ’’حدیث دل‘‘ کو بھی اسی درجے کی صحت کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔
سینٹ تھامس کا واقعہ ہے جو زیادہ مشہور نہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ دوستوں کو مذاق سوجھا انھوں نے کہا دیکھو دیکھو گلی میں پروں والا گھوڑا۔ سینٹ تھامس یہ سن کر جھروکے کی طرف لپکا اور دیکھا گلی میں کچھ بھی نہیں تھا۔ دوست ہنسنے لگے۔ کہنے لگے بھلا پروں والا گھوڑا بھی کہیں ہوتا ہے۔ آخر تم نے ہماری بات کا اعتبار ہی کیسے کیا؟ سینٹ تھامس نے کہا پروں والے گھوڑے کی موجودگی پر یقین زیادہ آسان ہے بہ نسبت دوستوں کی بات پر اعتبار نہ کرنے کے۔ ارے یہ تو تہذیبوں کے درمیان معانقہ ہوگیا؟ چشم بددور! آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں۔ لیکن معاف کیجیے گا آج ہمارا موضوع کچھ اور ہے۔
صداقت زندگی کی بنیاد ہے۔ اس کے بغیر رمحبت کیا ڈھنگ کی نفرت بھی نہیں ہوسکتی۔ یقین کے بغیر تخلیق اور علم کے سوتے خشک ہوجاتے ہیں اور زندگی کا سارا حسن اور جمال غارت ہوجاتا ہے۔ امام بخاریؒ کے کاندھوں پر ازلی و ابدی صداقت کو کامل صحت کے ساتھ ریکارڈ کرنے کی ذمہ داری تھی چنانچہ انہیں گھوڑے کے ساتھ کی جانے والی غلط بیانی بھی ہولناک محسوس ہوئی۔ لیکن اب ہم گھوڑوں سے کیا ’’طے کرکے‘‘ انسانوں سے جھوٹ بولتے ہیں اور اس کے باوجود ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں مستند سمجھا جائے۔ سینٹ تھامس کا مذہبی شعور ایسا تھا کہ اس میں عجیب الخلقت مخلوقات کے لیے گنجائش تھی مگر اس بات کے لیے گنجائش نہیں تھی کہ اس کے دوست بھی جھوٹ بول سکتے ہیں۔ مگر اب اس ’’محاذ‘‘پر جو صورت حال ہے وہ راز نہیں۔
جھوٹ ہمارے دور کی ایجاد ہیں لیکن جھوٹ کی نظام سازی یا Systamization بلاشبہ ہمارے دور ہی کا کارنامہ ہے لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟
ہٹلر کا وزیر گوئبلز بے چارہ آج تک بدنام ہے کیوں کہ وہ کہتا تھا کہ جھوٹ کو اتنا دہرائو کہ وہ سچ نظر آنے لگے۔ یہ گویا پروپیگنڈے کے تصور کا بنیادی پہلو تھا۔ لیکن آج ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں اسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ گوئبلز تو نرا دیہاتی تھا اور اس کی تخلیق ایک طرح کی ’’پینڈو پروڈکشن‘‘ تھی اس لیے کہ اس کا فلسفہ خیال کی تکرار سے عبارت تھا۔ ایک رائے کو دہراتے رہو یہاں تک کہ لوگوں کو محسوس ہونے لگے کہ دوسری کوئی رائے ہی نہیں ہے اور جو رائے موجود ہے وہی سچ ہے۔ بلاشبہ یہ فلسفہ اس وقت بھی موجود ہے اور ساری دنیا میں کام کر رہا ہے۔
البتہ گوئبلز جس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا وہ یہ ہے کہ مخصوص حالات و واقعات پیدا کرکے حقیقت تخلیق بھی کی جاسکتی ہے۔ گوئبلز کا فلسفہ حقیقت کی تعبیر بدل دینے پر یقین رکھتا تھا مگر اب تو حقیقتیں تخلیق کی جارہی ہیں اور کچھ لوگ اعلان کے ساتھ اور کچھ لوگ اعلان کے بغیر نعوذ باللہ خدا بننے کے لیے کوشاں ہیں۔ مغرب میں خدا اور مذہب کے انکار کے بعد خدا بننے کی طلب کتنی شدید ہے‘ اس کے اندازے کے لیے پڑھیے ایرک فرام کی تصنیف Man ShaLL be as godلیکن یاد رہے یہ کتاب بچوں کے لیے نہیں ہے اور اس میں ایک عدد ببلو گرافی بھی پائی جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقت تخلیق کرنے سے کیا مراد ہے؟
کہنے والوں نے تو خیر یہ تک کہا ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں دراصل یہودیوں کی ایجاد تھیں لیکن اس فلسفے میں شہادتوں کی بہرحال قلت رہی ہے تاہم جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اس امر پر اتفاق رائے ہوتا چلا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں پرل ہاربر کا واقعہ خود امریکا کی تخلیق تھا اور اس لیے ہواتھا کہ امریکا جاپان کے خلاف ایٹم بم کے استعمال کا جواز پیدا کرسکے۔ امریکا اور یورپ میں ایسی کتب کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جو 11ستمبر کے واقعے پر بنیادی سوالات اٹھا رہی ہیں۔ امت مسلمہ کی شکل اس حوالے سے دوہری ہے۔ ایک طرف اسے مغرب کے تخلیق کاروں کا سامنا ہے اور دوسری جانب اپنے اندر موجود مغرب کے بندروں کا۔
چینیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے دو ہزار سال پہلے کاغذ ایجاد کرلیا تھا لیکن وہ معلومات کے دھماکے کے مضمرات سے آگاہ تھے۔ البتہ بندر کے ہاتھ لگ جائے تو وہ خود کو ہی نہیں دوسروں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لیکن بہرحال کاغذ کیا بالآخر چھاپہ خانہ بھی ایجاد ہوا اور اب بات اخبارات سے ہوتی ہوئی ٹیلی ویژن تک آپہنچی ہے۔ مثل مشہور ہے Seeing is believing آدمی آنکھوں دیکھے پر یقین نہ کرے تو کس پر یقین کرے؟ لیکن اس آلے کی ماہیت یہ ہے کہ اس کی اسکرین پر حقیقت بھی ہوسکتی ہے اور صرف Virtual Reality بھی۔ ٹیلی ڈرامے کی طرح صرف ٹیلی حقیقت۔ یہی وجہ ہے کہ اب امریکا اور یورپ کی عدالتوں میں سمعی و بصری مواد یا Audio visual content کو حتمی شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔ لیکن عدالتوں کی دنیا الگ ہے اور انسانوں کی دنیا الگ۔ چنانچہ مغرب میں مصنوعی حقیقت اصل حقیقت کے طور پر قبول کرلی جاتی ہے اور اگر مغرب کے عوام کا یہ حال ہے تو تیسری دنیا کے لوگوں کا کیا حال ہوگا جوابھی اس میڈیم کے عشق میں مبتلا ہونا شروع ہوئے ہیں اور جو سر ہلا ہلا کر کہتے ہیں کہ صاحب ہم نے فلاں چیز ٹی وی پر دیکھ لی ہے اور یہ کہتے ہوئے ان کی کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے خود انہیں کشف ہوا ہو یا الہام نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔ یہ بنیادی طور پر ٹی وی کا نہیں اس آلے کے امکانات کا مسئلہ ہے اور بدقسمتی سے یہ آلہ بھی بیشتر صورتوں میں ان لوگوں کے ہاتھ میں چلا گیا ہے جو جھوٹ کے کلچر کی تخلیق میں معاون کا کردار دا کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔
ٹیکنالوجی کی ’’ترقی‘‘ نے اس دائرے میں انسانی شعور کو کس طرح متاثر کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ لاکھوں زندہ انسانوں کی بستیاں بھی کچھ دوسرے انسانوں کو صرف Visual Reality نظر آتی ہیں۔ نکولس مرزوف نے Visual Culture Reader کے ابتدایئے میں لکھا ہے:
Virtual reality has long been favoured by the military as a training arena, Put in to practice in the gulf war at great cost of human life, This is Visual Culture. It is not just a Part of your every day life, It is your every day life. (Page-3).
جھوٹ کا یہ کلچر انسانوں اور معاشروں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہے۔ انہیں اپنی مرضی اور مفاد کے مطابق ڈھالنے کے لیے ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے انسانوں کی نگرانی اور ان سے متعلق اطلاعات کے حصول کو اس سطح پر پہنچا دیا ہے کہ انسان علیم و خبیر ہونے کا دعویٰ کرتا دکھائی دیتا ہے اور اس سلسلے کی بعض صورتیں بلاشبہ کفر اور شرک کے ذیل میں آتی ہیں۔ انسانوں پر گرفت کی یہ خواہش ابلیسیت سے بھی نیچے کی چیز ہے اس لیے کہ ابلیس تو خدا کی دی ہوئی مہلتِ عمل اور اختیار کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو جھوٹ کے کلچر کا فروغ اسلام‘ اسلامی تہذیب‘ اسلامی اخلاق‘ کردار‘ اقدار‘ غرضیکہ ہر چیز کے خلاف ایک گہری سازش ہے۔ یہ سازش قول و عمل کی ہر بنیاد کو ڈھا رہی ہے اور انسانوں کی بڑی تعداد تیزی کے ساتھ غیر انسان میں تبدیل ہو رہی ہے۔