دنیا کے سارے بڑے لوگ ایک طرح سوچتے ہیں۔ مثلاً علامہ اقبال نے فرمایا ہے:
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
مغربی دنیا کے ممتاز مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی نے کلچر کی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ غلامی کلچر پر اثرانداز ہونے والا بہت بڑا عامل ہے۔ اس سے معاشرہ تین طبقات میں منقسم ہوجاتا ہے: حکمران طبقہ‘ عوام اور وہ طبقہ جو حکمران مقامی لوگوں میں سے اپنی ضرورت کے مطابق پیدا کرتے ہیں۔ ٹوائن بی نے لکھا ہے کہ ان تینوں طبقات کا کلچر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ تین طبقات دراصل کلچر کی تین سطحوں کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ تیسرا گروہ حکمرانوں کے کلچر کو اختیار کرلیتا ہے لیکن غالب قوم اس کے باوجود اسے حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اس طبقے کے لوگ غلامانہ طرزحیات کو عوام کے ایک طبقے میں پھیلا دیتے ہیں۔ ٹوائن بی کے نزدیک یہ ذلیل ترین گروہ ہوتا ہے جس کا کلچر غیر فطری ہوتا ہے اور خود فروشی کے زیراثر پیدا ہوتا ہے۔ یہ گروہ عزت ِنفس سے محروم ہوتا ہے۔ اس گروہ کے لوگ خود کو عوام سے بلند تر سمجھتے ہیں۔
اس بات کو وضاحت سے سمجھنا ہو تو خود اسلامی تاریخ سے دو مثالوںکے حوالے سے اسے سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ امام غزالیؒ نے یونانی فکر کا رد لکھ کر عظیم کارنامہ انجام دیا اور انہوں نے اسلامی فکر میں فلسفے کی بنیاد پر گمراہی کا راستہ بند کردیا‘ لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ ابنِ رشد ہوں یا بوعلی سینا‘ یونانی فکر سے ان کا تعلق آزاد انسان کا تعلق تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ ایک زندہ اور تخلیقی تعلق تھا۔ چنانچہ ان حضرات نے یونانی فکر کو سمجھا اور اس کے تراجم ہی نہیں کیے بلکہ اس میں قابل قدر اضافے بھی کیے۔ ایسے اضافے جن سے ان لوگوں کو ارسطو ثانی کہا گیا اور مغرب صدیوں تک ان کا مرہونِ احسان رہا۔ لیکن یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں کے غلبے کے بعد مسلمانوں میں جو مغربی فکر آئی وہ کسی بھی مسلم معاشرے میں کوئی تخلیقی لہر پیدا کرنے میں ناکام رہی۔ اس لیے کہ اب مسئلہ سیاسی غلامی کا ہوگیا تھا اور سیاسی غلامی نے نفسیاتی غلامی کا روپ دھار لیا تھا۔ چنانچہ اس تجربے نے کہیں نام نہاد English Speaking community پیدا کی‘ کہیں French Speaking Community‘ لیکن کہیں نہ انگریزی میں کوئی بڑا تخلیقی کام ہوا نہ فرانسیسی میں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یونانی فکر کا نقطہ عروج ’’ابنِ رشد‘‘ تھا اور یورپی نوآبادیات کے تجربے کا نقطہ عروج (سلمان) ’’رشدی‘‘۔ رشد اور رشدی کا فرق کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔ لیکن یہ فرق اپنی نہاد میں آزادی اور غلامی اور ان کے تعلق کا فرق ہے۔ اس فرق سے ہر چیز بدل کر رہ جاتی ہے۔ آزاد انسان کسی سے کچھ لیتا بھی ہے تو اس پر اپنی مہر لگاتا ہے۔ غلام لی گئی چیز ہی کو مہر بنادیتا ہے۔
آزادی اور غلامی کی اصطلاحیں سیاست سے کہیں زیادہ بلند سطحوں پر بھی استعمال ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر میر کا شعر ہے:
دُور بیٹھا غُبارِ میرؔ اُس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
میرؔ کے مصرعۂ اولیٰ میں ’’غبارِ میرؔ‘‘ میر کی تنک مزاجی بھی ہے‘ غصہ بھی‘ اکھڑ پن بھی‘ انانیت بھی‘ خودپسندی و خودپرستی بھی‘ ان کی سماجیات بھی‘ ان کی معاشیات بھی۔ میر صاحب فرما رہے ہیں کہ میں محبوب سے تعلق میں اپنی شخصیت کے منفی پہلوئوں کو بروئے کار نہیں آنے دیتا۔ لیکن یہ میرا نہیں عشق کا کمال ہے۔ اس نے مجھے یہ ادب سکھایا ہے۔ میر کے مقابلے پر غالب کا مصرعہ ہے:
کہتے ہی جس کو عشق خلل ہے دماغ کا تصور و تجربہ ایک ہی ہے لیکن میر کے یہاں جو چیز ادب سکھانے والی قوت تھی وہ غالب کے یہاں دماغ کا خلل بن گئی ہے۔ اور ذرا اقبال کی آواز سنیے‘ فرماتے ہیں:
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
یہاں شاعر زمان و مکان کی طنابیں کھینچے کھڑا ہے اور بتا رہا ہے کہ آپ وقت کو بڑی طاقت سمجھتے ہیں‘ لیکن عشق کے آگے اس کی کوئی بساط ہی نہیں۔ اس لیے کہ عشق ایسی قوت ہے کہ اس کے دامن میں ’’عصر‘‘ کے سوا بھی زمانے ہیں۔ ایسے زمانے جن کو ابھی تک نام بھی نہیں دیا جاسکا۔
اقبال کے بعد فیض کا ایک شعر ملاحظہ کرلینا بھی ’’سودمند‘‘ ہے‘ لکھتے ہیں:
اپنی تکمیل کررہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
فیض کے یہاں عشق کا تصور تقریباً فلمی سطح پر آگیا ہے اور محبت کا تجربہ دوسرے کے ’’نفسیاتی و جذباتی استحصال‘‘ کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اور یہ عبیداللہ علیم کا شعر ہے:
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو دم نکل جائے
اس شعر کو پڑھ کر خیال آتا ہے کہ محبت نعمت ہے یا پھانسی کا پھندا؟ افسوس اس محبت میں موجود نفرت بھی کھری نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان شعروں کا فرق کیا ہے؟ یہ آزادی اور غلامی ہی کا فرق ہے۔ یہ صحت اور بیماری کا فرق ہے۔ اس فرق سے لفظ اور اس کے معنی ہی نہیں ادب اور کلچر بھی بدلتا چلا جاتا ہے۔
مولانا مودودیؒ نے قیامِ پاکستان کے وقت مسلم لیگ کی قیادت کی اہلیت کا سوال اٹھایا تھا۔ لوگ اسے اعتراض اور تنقید سمجھتے ہیں۔ یہ ہرگز بھی اعتراض اور تنقید نہیں ہے۔ یہ آزاد انسان کا استفسار تھا۔ آزاد آدمی کے لیے آزادی ایک ’’ذمے داری‘‘ ہوتی ہے اور ذمے داری کے تقاضے ہوتے ہیں۔ مولانا پوچھ رہے تھے کہ کیا ہم یہ تقاضے پورے کرسکیں گے؟ اس کے برعکس ایک طبقہ ایسا تھا جو آزادی کو ذمے داریوں کے بجائے اختیارات سمیٹنے اور لوٹ مار کے موقع کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ چیز ایک تھی اور اس سے تعلق کی صورتیں مختلف تھیں۔ فرض کیجئے پاکستان میں غلبہ آزادی کو ذمے داری سمجھنے والوں کا ہوجاتا تو آج ہماری تاریخ اور کلچر ہی کچھ اور ہوتا۔ لیکن غلاموں نے آزادی کو بھی قید خانہ بنالیا۔ لیجئے ناگہاں اکبر الٰہ آبادی یاد آگئے‘ فرماتے ہیں:
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اِس زمانے میں
اکبر کی شان میں گستاخی نہ سمجھی جائے تو آپ ’’رقیبوں‘‘ کی جگہ ’’غلاموں‘‘ پڑھ لیجئے۔ آپ اچانک اصل بات کے قریب آجائیں گے‘ اس لیے کہ غلامی ویسے بھی ایک کیفیت کا نام ہے۔ غلامی مغرب کی ہو یا خواہشات کی‘ اس سے فرق نہیں پڑتا۔
یہ ہماری ذہنی غلامی ہی تو ہے جس کی وجہ سے ہم کلچر کے معنی تک سے نابلد ہوگئے ہیں۔ یہاں تک کہ کلچر کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو ہمارے ذہن میں رقص و موسیقی کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔ کلچر کی محدود ترین تعریف متعین کی جائے تو بھی ان چیزوں کا شمار فہرست کے آخر میں ہوتا ہے اور ہمارے یہاں تو مولانا روم فرما گئے ہیں:
’’احترامِ آدمیت اصل تہذیب ہے‘‘۔