دین

دین انسان کی سب سے بڑی متاع ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا ہے۔ چنانچہ اسلام انسانوں کی سب سے بڑی دولت ہے۔ انسانوں کے لیے دین کی اہمیت یہ ہے کہ دین کے مطابق بسر ہونے والا وقت ہی ’’زندگی‘‘ کہلانے کا مستحق ہے۔ دین کے بغیر جو وقت بسر ہوتا ہے وہ صرف ’’عمر‘‘ ہے۔ وقت کا بے معنی بہائو ہے۔ دین وقت کے ہر لمحے کو بامعنی، حسین اور ابدی بنا دیتا ہے۔ صرف دین کے اندر یہ قوت ہے کہ وہ فانی دنیا کے فکروعمل کو لافانی بنا دیتا ہے۔ دین زندگی کے ازل کو ابد سے ملا دیتا ہے۔

دین کی بنیاد ایمان پر ہے۔ صرف ایمان نہیں ایمان باالغیب پر۔ غور کیا جائے تو دین کی پوری عمارت ایمان باالغیب پر کھڑی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا وجود غیب ہے۔ جنت اور دوزخ غیب ہے۔ دین کہتا ہے کہ ان تمام حقائق کو اس طرح مانو گویا کہ تم نے انہیں دیکھ لیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایمان باالغیب انسان کا سب بڑا امتحان ہے۔ اس کے لیے ذہانت، علم اور سب سے بڑھ کر صفائے قلب کی ضرورت ہوتی ہے۔ انبیاء ومرسلین کی تاریخ شاید ہے کہ نبیوں اور رسولوں پر سب سے پہلے معاشرے کے بہترین لوگ ایمان لائے اور ان بہترین لوگوں کی اکثریت غریبوں کے طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ بلاشبہ غربت کے اپنے عیوب اور اس کی اپنی خرابیاں ہیں لیکن امارت انسان کے قلب کو جس طرح آلودہ کرتی ہے۔ غربت اس طرح قلب کو پراگندہ نہیں کرتی۔ غربت انسان کی سماجیات اور معاشیات کو زیادہ متاثر کرتی ہے اور امارت انسان کی نفسیات کو زیادہ خراب کرتی ہے ۔ امارت کا سب سے ہولناک اثر تکبّر کی صورت میں سامنے آتا ہے تکبّر انسان کے علم، ذہانت، تدبیر، تفکر روح، قلب اور نفسیات سب پر منفی اثر ڈالتا ہے اور ان کی حق کو پہچاننے کی استعداد کو کھا جاتا ہے۔ حضرت بلالؓ غلام تھے اور غلام اس وقت کی دنیا کا پست ترین طبقہ تھے۔ ان کی سماجیات اور معاشیات نہ ہونے کے برابر تھی۔ مگر انہوں نے ایسے ایمان باالغیب کا مظاہرہ کیا کہ وہ تپتی ہوئی ریت پر گھنٹوں لیٹ کر بھی احد احد ہی کہتے رہتے تھے۔ ان کے ایمان کی سطح یہ تھی کہ وہ موزن رسولؐ تھے حضرت عمرؓ جیسی ہستی انہیں بلال کہہ کر نہیں پکارتی تھی بلکہ وہ ہمیشہ انہیں سیدنا بلالؓ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ یہ ایمان ہی تھا جس نے ابوبکرؓ کو ’’صدیق اکبر‘‘ بنایا۔ یہ ایمان ہی تھا جس نے عمرؓ کو ’’فاروقِ اعظم‘‘ کا لقب عطا کیا۔ یہ ایمان ہی تھا جس نے عثمان ؓ کو ’’غنی‘‘ کا مرتبہ عطا کیا۔ یہ ایمان ہی تھا جس نے علیؓ کو ’’مرتضیٰ‘‘ کے مقام پر فائز کیا۔ صحابہ کرام کے ایمان کا سب سے بڑا امتحان ’’غزوۂ بدر‘‘ تھا اس لیے ’’بدری صحابہ‘‘ کو باقی تمام صحابہ پر فوقیت اور فضیلت حاصل ہے۔

نبی کی موجودگی ایمان باالغیب کو آسان کردیتی تھی۔ اس لیے کہ نبی اپنے معاشرے کے بہترین انسان ہوتے تھے۔ رسول اکرمؐ پر ابتدائی مرحلے میں ایمان لانے والے آپؐ کے ’’صدق‘‘ اور آپؐ کی ’’امانت داری‘‘ کی وجہ سے ایمان لائے، پھر اللہ تعالیٰ نے انبیاء ومرسلین کو معجزات عطا کیے۔ معزہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اظہار ہے اور اسے ہمیشہ ان لوگوں کے لیے ضروری سمجھا گیا جن کی حق کو پہنچاننے کی استعداد کم تھی اور جو معجزہ دیکھے بغیر ایمان لاہی نہیں سکتے تھے۔ معجزے کا حاصل ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ ایک لمحے میں ’’غیب‘‘ کو ’’حضور‘‘ بنا دیتا ہے۔

دین کے دو پہلو ہیں۔ حکم اور اطاعت دین اپنی اصل میں اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم ہے۔ بلاشبہ حکم میں حکمتیں اور بے شمار فوائد بھی ہوتے ہیں مگر حکم کی اطاعت صرف اس لیے کی جانی چاہیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہدایت ہے۔ مثال کے طور پر وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور عام حالات میں وضو صرف پانی سے ہوتا ہے اس لیے کہ صرف پانی میں ’’پاک‘‘ کرنے کی صلاحیت ہے۔ لیکن اگر اہل ایمان ایسی جگہ ہوں جہاں پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کے ذریعہ بھی وضو ہو سکتا ہے حالانکہ دھول اور مٹی بظاہر پاک کرنے والی نہیں ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو پانی اور دھول اور مٹی میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر ہمارے دین میں پانی کے ذریعے وضو بھی اللہ ہی کا حکم ہے اور تیمم بھی اللہ ہی کی طرف سے عطا کی گئی سہولت اور حکم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل چیز نہ پانی ہے نہ مٹی ہے اصل چیز اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر کہے کہ پھونک مارنے سے بھی وضو اور غسل ہوسکتا ہے تو آج ہی سے انسان کی پھونک بھی پاک کرنے والی شے بن جائے گی۔ رسول اکرمؐ کے زمانہ مبارک میں تفسیر کا علم اور باتوں کے علاوہ اس لیے بھی پیدا نہیں ہوا کے اس زمانے میں حکم کامل اطاعت کا جذبۂ ذوق اور شوق بن گیا تھا۔ صحابہ کرام دین کے بارے میں کیوں کا سوال کبھی نہیں اٹھاتے تھے۔ ان کے تمام سوالات کیا اور کیسے سے متعلق ہوتے تھے لیکن اطاعت کا جذبہ کمزور پڑا تو علم کلام نمودار ہوا اور دین کی وضاحت کے لیے منطق تک کا سہارا لیا گیا۔ اطاعت کا جذبہ نہ ہوتا تو صحابہ کرام میدان بدر میں کئی گنا زیادہ طاقت ور دشمن کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔ اطاعت کا جذبہ نہ ہوتا تو صحابہ کرام صلح حدیبیہ کو قبول نہیں کرسکتے تھے۔ بعض لوگ اطاعت کو ’’اندھی تقلید‘‘ سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہوتا ہے کہ اطاعت دراصل قلت علم اور کمزور شخصیت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ لیکن کامل اطاعت کامل ایمان کا حاصل ہوتی ہے اور کامل اطاعت کرنے والا اپنے ناقص علم اور فہم پر انحصار ترک کرکے اللہ اور اس کے رسول کے علم وفہم پر انحصار کرنے لگتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اطاعت برتر تصور، برتر علم اور برتر فہم کا مظہر ہے کامل اطاعت انسان کو بہت جلد کوئلے سے ہیرا بنا دیتی ہے۔ ہمارے عہد کا المیہ یہ ہے کہ اس میں اطاعت کا جذبہ کمزور پڑگیا ہے لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کے سامنے اپنے علم اور فہم کے پرچم لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

دین اور محبت دونوں کا بنیادی تقاضا خود سپردگی ہے اور خود سپردگی قربانی کی اعلیٰ ترین صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو انسان کی کسی چیز کی حاجت نہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ دین کے لیے قربانی طلب کرکے انسان کو کامل بناتا ہے۔ انسان اپنے تن، من اور دھن کو اللہ کے لیے جتنا صرف کرتا ہے اتنا ہی وہ حقیقی اور قیمتی بن جاتا ہے۔ قربانی انسان میں شعور بندگی کی گہرائی اور گیرائی بن جاتی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کو آتش نمرود میں ڈالا گیا۔ یہ حضرت ابراہیمؑ کی جانب سے اپنی جان کی قربانی کا مرحلہ تھا اور ابراہیمؑ کی قربانی کا جذبہ اتنا شدید اور گہرا تھا کہ انہوں نے اس سلسلے میں حضرت جبرائیل کی مدد بھی قبول نہ کی۔ حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالا جارہا تھا تو حضرت جبرائیل نے حضرت ابراہیمؑ سے کہا کہ آپ کہیں تو میں آپ کی مدد کروں۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا میرے لیے جو کچھ کیا جانا چاہیے اس کے بارے میں میرا رب بہتر جانتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے یہ بات اس کے باوجود کہی کہ حضرت جبرائیل اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے۔ حضرت اسمعیلؑ کی قربانی کا مرحلہ ذاتی قربانی کے مرحلے سے زیادہ بڑا تھا اس لیے کہ حضرت ابراہیمؑ کو حضرت اسمعیلؑ اپنی ذات سے زیادہ عزیز تھے لیکن یہاں بھی وہ قربانی سے ذرا نہ ہچکچائے۔ حضرت ابراہیمؑ کی قربانیوں کی عظیم الشان روایت نے انہیں خلیل اللہ بنا دیا۔ رسول اکرمؐ کو کسی بھی نبی سے زیادہ آزمایا گیا چنانچہ آپؐ کی قربانیاں کسی بھی رسول کی قربانیوں سے بڑھ گئیں۔ آپؐ کی قربانیوں کو شاعر نے مصروں میں بڑے کمال کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ شاعر نے کہا ہے کہ

میرے کملی والے کی بات ہی نرالی ہے
دو جہاں کا مالک ہے دونوں ہاتھ خالی ہیں

اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اکرمؐ کے اس تعلق نے آپؐ کو ’’محبوب خدا‘‘ بنا دیا۔ اس تناظر دیکھا جائے تو قربانی وجود کی بقا اور نمو کا ایک اصول ہے اور اس اصول کا اطلاق انسان کیا نباتات تک پہ ہوتا ہے جیسے جب تک بیج خود کو مٹی میں نہیں ملا دیتا اس وقت تک اس سے پودا برآمد نہیں ہوتا۔ انسان کے روحانی ’’ارتقا‘‘ کا طریقہ بھی یہی ہے۔ انسان اپنے خالق مالک اور رازق کے لیے خود کو جتنا ’’مٹاتا‘‘ ہے اتنا ہی وہ دینا اور آخرت میں ’’عیاں‘‘ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے۔

’’مرجا، ہوجا‘‘
جو خدا کے لیے مرنا پسند نہیں کرتا اس کی ’’زندگی‘‘ صرف ’’عمر‘‘ بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی عمر جو برف کی طرح ہر لمحے پگھلتی رہتی ہے اور بالآخر ختم ہوجاتی ہے۔ زندگی بھی برف کی طرح پگھلتی ہے مگر دنیا میں اس کا اثر پھیلتا چلا جاتا ہے اور آخرت میں وہ زندگی، زندگی کا کمال اور جمال بن کر ظاہر ہوگی۔

دین کی بنیاد نیت پر ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دین کا اصل نیت ہے۔ نیت اچھی ہوتی ہے تو عمل اچھا ہوجاتا ہے۔ نیت خراب ہوتی ہے تو بہتر ین نظر آنے والا عمل بھی خراب ہوجاتا ہے۔ نیت میں ابہام ہوتا ہے تو عمل میں بھی ابہام دار آتا ہے۔ نیت کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے سلسلے میں عام اور خاص آدمی کی کوئی تخصیص نہیں۔ اس کے حوالے سے امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں۔ جس کے پاس اچھی نیت ہے وہی امیر ہے۔ جس کی نیت خراب ہے وہی غریب ہے، جس کی نیت اچھی ہے وہی صاحب علم وعمل ہے۔ جس کی نیت خراب ہے وہ صاحب علم ہوکر بھی جاہل ہے۔ وہ صاحب عمل ہوکر بھی بے عمل ہے۔ مگر انسانوں کی اکثریت نیت کی اس اہمیت سے آگاہ نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس لوگوں کی بڑی تعداد بری نیت کے ساتھ اچھے کام کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے چنانچہ ان کی ظاہری دین داری ان کے کسی کام نہیں آتی۔ اس لیے کہ دین تمام تر اخلاص کا نام ہے۔ اخلاص ہو تو رائی پہاڑ بن جاتی ہے اور اخلاص نہ ہو تو پہاڑ رائی سے بھی کم ہوجاتا ہے۔ دین اپنی نہاد میں ایک باطنی حقیقت ہے اور دنیا اپنی اصل میں ایک ظاہری چیز ہے لیکن انسان دین کو ظاہر میں ڈھال لیتا ہے اور دنیا کو اپنا باطن بنا لیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال مغرب ہے جس نے دنیا کو اتنا Internalize کیا کہ دنیا مغرب کا دین بن گئی اور اس نے دین کو اتنا خارجی حقیقت بنایا کہ وہ زندگی ہی سے خارج ہوگیا۔

Leave a Reply