رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان اگر برائی کو دیکھے تو اسے طاقت سے روک دے۔ اس کے لیے یہ ممکن نہ ہو تو برائی کو زبان سے برا کہے۔ مسلمان اس قابل بھی نہ ہو تو اسے چاہیے کہ برائی کو دل میں برا سمجھے، لیکن یہ ایمان کا سب سے کمتر درجہ ہے۔ اس حدیث شریف سے تین بنیادی حقیقتیں نمایاں ہوکر سامنے آتی ہیں:
(1) ایسے مسلمان کا تصور نہیں کیا جاسکتا جو برائی کے سلسلے میں ’’غیر جانب دار‘‘ ہو۔ اہلِ ایمان بھلائی اور برائی کے معرکے میں ہمیشہ ’’جانب دار‘‘ ہوں گے۔ وہ بھلائی کا ساتھ دیں گے اور برائی کی مزاحمت کریں گے۔ اس نکتے کی ’’عصری اہمیت‘‘ یہ ہے کہ ایمان کی کمزوری اور بین الاقوامی ماحول کا جبر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو برائی کے سلسلے میں غیر جانب دار بنا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برائی کے حوالے سے غیر جانب داری میں دنیوی فائدے بہت ہیں اور نقصان کوئی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے خلاف جب سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اصطلاحیں استعمال ہونا شروع ہوئی ہیں، مسلمانوں میں نام نہاد غیر جانب داری کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ جو لوگ حق و باطل کے معرکے میں غیر جانب دار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں وہ ایک جانب خود کو ’’محفوظ‘‘ سمجھتے ہیں اور دوسری جانب اپنے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں کہ ہم بہت ’’پُرامن‘‘ اور مہذب لوگ ہیں۔
(2) اس حدیثِ مبارکہ سے دوسری اہم حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ مسلمان نہ صرف یہ کہ برائی کے سلسلے میں غیر جانب دار نہیں بلکہ اس کے ایمان کے درجے کا تعلق برائی کی مزاحمت کی سطح سے ہے۔ جیسی جس کی مزاحمت کی سطح ہے ویسا اس کا ایمان ہے۔ جو شخص برائی کو طاقت سے مٹارہا ہے اس کا ایمان اعلیٰ ترین درجے کا ہے، اور جو برائی کو صرف دل میں برا سمجھ رہا ہے وہ ایمان کے کمترین درجے پر فائز ہے۔
(3) اس حدیثِ پاک کا تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ برائی کی عدم موجودگی خود سب سے بڑی بھلائی ہے۔ لیکن اس بات کا مفہوم کیا ہے؟ ہماری مذہبی، روحانی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کا بہت بڑا نقص یہ ہے کہ ہم بھلائی کے فروغ پر جتنی توجہ دیتے ہیں برائی کے خاتمے پر اتنی توجہ نہیں دیتے، حالانکہ برائی کا خاتمہ بھلائی کے فروغ سے زیادہ اہم ہے۔ مثلاً ایک مسلمان عبادت تو کم کرتا ہے مگر برائی اس میں کوئی نہیں ہے۔ اس کے برعکس ایک مسلمان ایسا ہے جو عبادت تو بہت کرتا ہے مگر اس میں دو تین برائیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان میں کون سا شخص بہتر ہے؟
ہمارے ماحول میں ’’ظاہرداری‘‘ کا عنصر بڑھا ہوا ہے، اس لیے عام طور پر دوسرے شخص کو زیادہ بہتر خیال کریں گے، حالانکہ زیادہ بہتر مسلمان پہلا شخص ہے۔ اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ برائی کے ساتھ مسلمان کے تعلق کی نوعیت ہی اس کی تعریف متعین کرتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ برائی کی مزاحمت کے حوالے سے ایمان کے درجوں کا کیا مفہوم ہے؟
برائی کو طاقت سے ختم کرنے والے شخص کا ایمان اس لیے اعلیٰ ترین ہے کہ وہ شخص طاقت کے مفہوم سے آگاہ ہے۔ اسے معلوم ہے کہ انسان کو طاقت کی ہر صورت جس میں علم اور دلیل کی طاقت بھی شامل ہے، صرف اس لیے دی گئی ہے کہ وہ اس سے بھلائی کو فروغ دے اور برائی کی بیخ کنی کرے۔
برائی کو طاقت سے ختم کرنے کی دوسری فضیلت یہ ہے کہ طاقت استعمال کرنے والا برائی کو جزوی طور پر نہیں کلی طور پر ختم کرنے کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ بھلائی اور برائی کی کشمکش دائمی ہے۔ چنانچہ برائی ختم ہوکر بھی ختم نہیں ہوتی، وہ صورت بدل کر پھر سامنے آجاتی ہے۔ لیکن جب برائی کو جڑ سے اکھاڑ دیا جاتا ہے تو اس کی ’’واپسی‘‘ آسان نہیں رہتی۔ اس صورت میں برائی کو دوبارہ نمودار ہونے میں دیر لگتی ہے اور انسانوں کو کافی عرصے کے لیے برائی سے نجات حاصل ہوجاتی ہے۔
طاقت سے برائی کو مٹانے والے کا ایمان اس لیے بھی افضل ہے کہ طاقت استعمال کرنے والا طاقت استعمال کرکے ہر طرح کا خطرہ مول لیتا ہے۔ اس معرکہ آرائی میں اس کی جان بھی جاسکتی ہے اور اس کی توانائی اور مال بھی زیادہ صرف ہوتا ہے۔
برائی کو زبان سے چیلنج کرنے والا برائی کو خیال اور تصور کی سطح پر للکارتا ہے اور فکر اور دلیل کی سطح پر برائی کی بیخ کنی کرتا ہے۔ یہ بھی کھلی معرکہ آرائی ہے اور اس میں بھی سنگین خطرات موجود ہیں، لیکن یہ خطرات اپنی وسعت اور شدت میں طاقت سے برائی کو چیلنج کرنے کے خطرات کے مقابلے میں کم ہیں، اسی لیے اس دائرے میں معرکہ آرائی کرنے والوں کا ایمان دوسرے درجے کا ایمان ہے۔
جو شخص برائی کو دل میں برا سمجھتا ہے وہ دراصل یہ اعلان کرتا ہے کہ خارج میں موجود برائی سے اس کا تعلق نہیں، البتہ وہ برائی کو اپنے وجود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس طرزعمل کا حامل شخص زندگی اور دنیا کی محبت میں مبتلا شخص ہے، اور وہ محفوظ اور مامون زندگی بسر کرنے کو سب سے اہم خیال کرتا ہے۔ ایسا شخص ایمان سے محروم نہیں لیکن اس کا ایمان کمزور ہے اور برائی کے حوالے سے اس کی قوت ِمدافعت کمزور ہے۔ ایسا شخص خطرات میں گھرا ہوا انسان ہے۔ وہ شیطان اور نفس کی ترغیبات کے لیے تر نوالہ ثابت ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ایسے شخص کو اپنے درجۂ ایمان میں اضافے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اسلام دوسروں کی خطائوں کی ٹوہ میں رہنے اور ان کی تشہیر سے منع کرتا ہے تو اس صورت میں ایک مسلمان کا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام شخصی گمراہی یا ضلالت کو نظرانداز نہیں کرتا لیکن وہ اس سے تعرض بھی نہیں کرتا۔ تاہم باطل اگر اجتماعی قوت حاصل کرلے اور ایک مقامی یا بین الاقوامی نظام بن جائے تو اسلام اسے ایک لمحے کے لیے بھی نظرانداز نہیں کرتا اور اسے ہر سطح پر چیلنج کرتا ہے۔ اس کی دو وجود ہیں۔
انفرادی حیثیت میں برائی خدا اور بندے کا معاملہ ہے اور اس سے معاشرے کی روحانی یا اخلاقی صحت متاثر نہیں ہوتی، لیکن برائی اجتماعی رنگ اختیار کرتی ہے تو وہ پورے معاشرے، یہاں تک کہ پوری بین الاقوامی زندگی کی صحت پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب وہ نظام بن جائے۔ برائی کی نظام بندی یا Systemization کی دوسری ہولناکی یہ ہے کہ اس کے بعد باطل حق کا قائم مقام بن کر بجائے خود حق بن جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ حق کو باطل باور کرانے لگتا ہے۔ عصری تاریخ میں اس کی دو بڑی مثالیں موجود ہیں۔ کمیونزم جب تک دنیا کا بڑا نظام رہا وہ اسلام کو باطل باور کراتا رہا۔ یہی کام اب سرمایہ دارانہ نظام یا سیکولرازم کررہا ہے۔
اس حدیث شریف پر کلام کا ایک زاویہ یہ ہے کہ کمترین درجے کا ایمان وہ ہے جو صرف دل میں برائی کو برا خیال کرے۔ تاہم ہمارے زمانے تک آتے آتے صورت حال اتنی ہولناک ہوگئی ہے کہ کسی زمانے میں اس کا تصور بھی محال تھا۔ اہلِ ایمان کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب بہت سے مسلمان برائی کو برائی ہی نہیں سمجھیں گے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر برائی کے لیے جواز جوئی کریں گے، یعنی اسے Justify کریں گے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو لاکھوں مسلمان ایمان کے آخری درجے سے بھی دو درجے نیچے کھڑے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ ہولناک بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنی اس حالت پر مطمئن ہیں بلکہ انہیں اپنے سیکولر اور لبرل خیالات پر فخر ہے۔