’’برین ڈرین‘‘ کا سلسلہ ہولناک حد تک بڑھ گیا ہے اور گزشتہ ایک سال میں 8 لاکھ سے زیادہ پاکستانی بیرونِ ملک گئے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی، اخلاقی، معاشی اور سماجی نظام کو دیکھا جائے تو وہ ایک کھنڈر کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے۔ اصول ہے کہ جب ایک حکومت ناکام ہوتی ہے تو صرف حکومت ناکام ہوتی ہے، جب تواتر کے ساتھ دو، تین حکومتیں ناکام ہوجائیں تو سیاسی جماعتوں کی ناکامی کا تاثر ابھرتا ہے، مگر جب ملک میں ہر حکومت ناکام ہوجائے تو پھر ریاست کی ناکامی کا تصور ابھرنے لگتا ہے۔ بدقسمتی سے 1958ء سے اب تک پاکستان کی ہر حکومت ناکام ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان تباہی کی داستان بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تباہی کا ذمے دار کون ہے؟
اصول ہے کہ معاشرے اور ریاست میں جو فرد یا ادارہ سب سے طاقت ور اور سب سے زیادہ بااختیار ہوتا ہے وہی معاشرے اور ریاست کی ہر کامیابی اور ناکامی کا ذمے دار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سب سے طاقت ور جرنیل ہیں۔ جرنیلوں کی طاقت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہی پاکستان کا آئین ہیں، وہی پاکستان کا قانون ہیں، وہی پاکستان کی داخلہ پالیسی ہیں، وہی پاکستان کی خارجہ پالیسی ہیں، وہی ملک کا نظریہ ہیں، وہی ملک کا دفاع ہیں، وہی ملک کی سیاست ہیں اور وہی خود ریاست ہیں۔ بلاشبہ پاکستان کے سیاست دان بھی حصہ بقدرِ جثہ پاکستان کی تباہی کے ذمے دار ہیں۔ پاکستان کی عدلیہ نے بھی تاریخ کے طویل سفر میں اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کیں۔ پاکستان کی بیوروکریسی بھی ملک کو برباد کرنے والی ہے۔ علما اور دانش وروں نے بھی معاشرے کی تعمیر کے سلسلے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ مگر بلاشبہ پاکستان کی تباہی کے سب سے زیادہ ذمے دار پاکستان کے جرنیل ہیں۔
پاکستانی جرنیلوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے ملک کے نظریے کے ساتھ وفا نہ کی۔ انسانی تاریخ میں نظریے کا کردار معجزاتی رہا ہے۔ امام غزالیؒ کے زمانے میں یونانی فلسفے نے اسلام کے لیے ایک بہت ہی بڑے خطرے کی صورت اختیار کرلی تھی۔ مسلمان فلسفیوں میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے تھے جو اِس عالم کو خدا کی طرح قدیم ماننے لگے تھے۔ یہ کھلا کفر تھا، اس لیے کہ یہ صرف خدا ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ مسلمان فلسفیوں میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے تھے جو عقل پر وحی کی بالادستی کے قائل نہیں رہ گئے تھے۔ مسلمان فلسفیوں میں مذہب سے اور کئی انحرافات پیدا ہوگئے تھے۔ بدقسمتی سے اُس عہد کے علماء میں سے کوئی نہیں تھا جو یونان کے فلسفے کو سیکھنے اور اس کے چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے تیار ہو۔ ایسے میں غزالیؒ اٹھے، انہوں نے یونان کے فلسفے کو گھول کر پی لیا اور اس کا ایسا رد لکھا کہ مسلم دنیا میں فلسفے کا بیچ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مارا گیا۔ غزالی کا یہ کارنامہ ان کے نظریاتی شعور کا حاصل تھا۔ غزالی نظریاتی کشمکش کے عہد میں کشمکش سے لاتعلق نہیں رہے۔ انہوں نے کشمکش کو سمجھا اور اپنے عہد کے اہم ترین سوالات کا مذہبی جواب فراہم کیا۔ غزالیؒ نہ ہوتے تو یونان کا فلسفہ اسلام کا بھی وہی حشر کردیتا جو اس نے یورپ میں عیسائیت کا کیا تھا۔
سوشلزم ایک انسانی ساختہ نظریہ تھا، مگر اس نظریے نے روس اور چین میں انقلابات برپا کردیے۔ روسی اور چینی معاشرے فنا ہوتے معاشرے تھے، مگر سوشلزم نے انہیں زندہ اور متحرک معاشروں میں ڈھال دیا۔ چنانچہ روس دنیا کی دو سپر پاورز میں سے ایک سپر پاور بن کر ابھرا۔ چینی قوم افیون کھانے والی قوم تھی۔ چین کے انقلاب نے اسے دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں سے ایک بنادیا۔ یہ چین کی نظریاتی قوت ہے جس نے چین کو اِس وقت دنیا کی دو سپر پاورز میں سے ایک بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ چین کے انقلاب نے 40 برسوں میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے، چار ہزار ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر خلق کیے ہیں، چین کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنایا ہے۔
خود پاکستان نظریے کا ایک معجزہ تھا۔ یہ پاکستان کا نظریہ تھا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی بھیڑ کو ایک قوم میں ڈھالا، جس نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنایا، جس نے افراد کے ایک وکیل کو ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بنایا۔ پاکستان ’’عدم کی تاریکی‘‘ میں ڈوبا ہوا تھا، پاکستان کے نظریے نے اسے ’’وجود کی روشنی‘‘ عطا کی۔ چنانچہ پاکستان کے حکمران بالخصوص پاکستان کے جرنیل اگر پاکستان کے نظریے کی قوت کو استعمال کرتے تو آج پاکستان دنیا کی دس بڑی قوتوں میں سے ایک قوت ہوتا۔ پاکستان پوری مسلم دنیا کے لیے ایک نمونۂ عمل ہوتا۔ بھارت پاکستان کی طرف رشک سے دیکھتا اور ہماری اجتماعی دانش اور اجتماعی قوت کشمیر کو کب کا پاکستان میں شامل کر چکی ہوتی۔ مگر افسوس پاکستان کے جرنیلوں کو ملک کے نظریے سے کوئی محبت ہی نہ تھی۔ اس کے برعکس جرنیلوں نے ملک کی نظریاتی بنیادیں کھودنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ جنرل ایوب سیکولر تھے، انہوں نے ملک پر سیکولرازم تھوپا، انہوں نے سود کو ’’حلال‘‘ قرار دلوایا، انہوںنے اسلام سے متصادم عائلی قوانین قوم پر مسلط کیے۔ جنرل پرویز مشرف لبرل تھے، انہوں نے ملک کو لبرل بنانے کی سازش کی۔ جرنیل اسلام کے وفادار ہوتے تو ذوالفقار علی بھٹو کو ’اسلامی سوشلزم‘ ایجاد کرنے کی جرأت نہ ہوئی ہوتی۔ جنرل ضیا الحق کو لوگ ’’اسلامسٹ‘‘ سمجھتے ہیں، مگر انہوں نے اسلام کو صرف اپنے اقتدار کے دوام کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے ایسی غیر سودی بینکاری متعارف کرائی جو سر سے پائوں تک سودی تھی۔ انہوں نے اسلام کے نظام صلوٰۃ کو مذاق بنا کر رکھ دیا۔ اسلام نے برصغیر کے مسلمانوں کی بھیڑ کو ایک قوم بنا دیا تھا مگر پاکستان کمے حکمرانوں بالخصوص جرنیلوں نے ملک میں صوبائی اور لسانی عصبیت کو عام کیا۔ جنرل ایوب کے ون یونٹ نے مشرقی پاکستان میں بنگالی عصبیت کو ہوا دی، مارشل ریس کے خودساختہ تصور کے تحت بنگالیوں کو فوج میں شامل نہیں کیا گیا۔ چنانچہ 1947ء سے 1960ء تک فوج میں ایک بھی بنگالی نہیں تھا حالانکہ بنگالی آبادی کا 56 فیصد تھے۔ 1970ء کے بحران میں بنگالی فوج کا 8 سے 10 فیصدتھے حالانکہ ان کی آبادی قوم کی مجموعی آبادی کا 56 فیصد تھی۔ جنرل ضیا الحق نے سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجر عصبیت کو فروغ دیا۔ انہوں نے الطاف حسین کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم بنایا۔ جنرل ضیا الحق نے کوٹہ سسٹم کی مدت بڑھا کر سندھ میں لسانی سیاست کو قبول کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے کھل کر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سرپرستی کی۔ الطاف حسین نے بھارت میں کھڑے ہو کر کہا کہ اگر میں 1947ء میں ہوتا تو کبھی پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتا، اس کے باوجود جنرل پرویزمشرف نے بھارت میں پاکستانی سفارت خانے سے کہا کہ وہ الطاف حسین کو رات کے کھانے پر مدعو کرے۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم کی اکثریت پہلے مسلم اور پاکستانی نہیں بلکہ وہ پہلے پنجابی، سندھی، مہاجر، بلوچی، پشتون اور فوجی ہے۔ یہ ہمارے جرنیلوں کی کوتاہ اندیشی ہے کہ انہوں نے فوج کو ایک ادارے کے بجائے ایک ’’فرقہ‘‘ بنادیا ہے۔
قائداعظم کا مرتبہ یہ تھا کہ انہوں نے وقت کی سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت سے لڑ کر آزادی حاصل کی تھی، مگر ہمارے جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی پاکستان کو امریکہ کی کالونی بنادیا۔ جنرل ایوب نے سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں پر دستخط کرکے ملک کی آزادی پر سودے بازی کی۔ انہوں نے ملک کے دفاع کو سو فیصد امریکہ مرکز یا America Centric بنادیا۔ انہوں نے بڈھ بیر میں امریکہ کو ایک ہوائی اڈہ فراہم کردیا جہاں سے امریکہ سوویت یونین کی جاسوسی کرتا تھا۔ جنرل ایوب نے پاکستان کی معیشت کو قرضوں کی معیشت بنانے کے ناپاک کام کا آغاز کیا۔ انہوں نے ملک کو عالمی بینک کے آگے جھکا دیا۔ بعد میں آنے والے حکمرانوں نے معیشت کے اسی ماڈل کو اختیار کیا اور ہم رفتہ رفتہ عالمی بینک کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کے بھی غلام بن گئے۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویزمشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکہ کے حوالے کردیا۔ ہماری آزادی اور خودمختاری ایک مذاق بن گئی۔ جنرل پرویز کی اس پالیسی کی وجہ سے ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور ہم 75 ہزار افراد سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس جنگ میں ہمیں 120 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔جنرل پرویز کی امریکہ پرستی سے ملک میں فوج کے خلاف اتنی نفرت پیدا ہوئی کہ فوج نے اپنے فوجیوں کو ہدایت کی کہ وہ وردی پہن کر سول علاقوں میں نہ جائیں۔ اس طرح فوج اپنے ہی ملک میں اجنبی بن گئی۔
پاکستان عوامی جدوجہد کا حاصل تھا۔ قائداعظم نے خالصتاً عوامی قوت سے پاکستان حاصل کیا تھا۔ تحریکِ پاکستان کے وقت نہ فوج تھی، نہ جرنیل تھے، چنانچہ قیامِ پاکستان میں جرنیلوں اور فوج کا کوئی کردار ہی نہیں تھا۔ لیکن بدقسمتی سے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد جرنیل پاکستان کے مالک بن کر بیٹھ گئے۔ جنرل ایوب نے مارشل لا 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکہ کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو بتارہے تھے کہ پاکستانی سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کردیں گے۔ پاکستان کے سیاست دانوںکی نااہلی راز نہیں، مگر بدقسمتی سے پاکستانی جرنیل سیاست دانوں سے بھی زیادہ نااہل ثابت ہوئے۔ وہ اہل ہوتے تو جنرل ایوب کے مارشل لا کی ناکامیوں سے سیکھتے اور اسی مارشل لا پر بس کردیتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ جنرل ایوب کی جگہ جنرل یحییٰ نے لے لی اور ان سے تو ملک ہی نہیں سنبھالا گیا، چنانچہ 1971ء میں قائداعظم کا پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے نہایت شرم ناک طریقے سے ہتھیار ڈالے۔ حمود الرحمٰن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ سمیت کئی جرنیلوں کو سقوطِ ڈھاکہ کا ذمے دار قرار دیا اور ان کے کورٹ مارشل کی سفارش کی، مگر جنرل یحییٰ شان کے ساتھ جیے اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفنائے گئے۔ جنرل یحییٰ کے زمانے میں ملک ٹوٹا چنانچہ پھر کسی جرنیل کو اقتدار پر قبضے کی جرأت نہیں کرنی چاہیے تھی، مگر جنرل ضیا الحق نے 1977ء میں حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک پر مارشل لا مسلط کردیا۔ جنرل پرویز نے 1999ء میں اقتدار میں قبضہ کرلیا۔ جرنیل اقتدار میں نہیں بھی ہوتے تب بھی وہی پردے کے پیچھے سے کٹھ پتلیوں کو نچاتے رہتے ہیں۔
جرنیلوں کا ایک تماشا یہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں مگر دوسری طرف ضرورت پڑتی ہے تو وہ خود سیاسی جماعتیں تخلیق کر ڈالتے ہیں۔ جنرل ایوب نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا مگر ضرورت پڑی تو کنونشن لیگ ایجاد کرلی۔ جنرل ضیا الحق کو سیاسی جماعتوں سے نفرت تھی، مگر انہیں جب حاجت ہوئی تو جونیجو لیگ کھڑی کرلی۔ جنرل پرویزمشرف نے ق لیگ کو وجود بخشا۔ جرنیل مصنوعی سیاسی جماعتیں ہی تخلیق نہیں کرتے، وہ سیاسی رہنما بھی ایجاد کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب جنرل ایوب کی کابینہ کا حصہ تھے اور انہیں ’’ڈیڈی‘‘ کہتے تھے، محمد خان جونیجو جنرل ضیا الحق کی پیدا کی ہوئی مخلوق تھے، میاں نوازشریف کو جنرل جیلانی نے میاں نوازشریف بنایا، الطاف حسین جنرل ضیا الحق کی سربراہی کے بغیر ایک بڑا سا صفر تھے، عمران خان بھی جرنیلوں کا پروجیکٹ تھے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے جرنیل بدترین سیاسی جماعتیں اور تیسرے درجے کے سیاست دان پیدا کرنے کے کے بھی مجرم ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں جمہوری اور منظم نہیں ہیں تو یہ بھٹوئوں، شریفوں اور عمران خانوں کا بھی قصور ہے، لیکن اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ جمہوری اور منظم جماعتیں خود جرنیلوں کو بھی ’’سوٹ‘‘ نہیں کرتیں۔ جماعتیں جمہوری اور منظم ہوں گی تو انہیں جرنیلوں کے اشاروں پر نچانا اور وقت آنے پر توڑ دینا مشکل ہوگا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جرنیل ہمارے بدترین سیاسی کلچر کے بھی ذمے دار ہیں۔ اس مجموعی صورتِ حال نے پاکستان کے ناکام ریاست ہونے کے تاثر کو ابھارنا شروع کردیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق ملک سے ’’برین ڈرین‘‘ کا سلسلہ ہولناک حد تک بڑھ گیا ہے اور گزشتہ ایک سال میں 8 لاکھ سے زیادہ پاکستانی بیرونِ ملک گئے ہیں۔ امریکہ اور یورپ پاکستانیوں کے لیے دروازے کھول دیں تو پورا پاکستان خالی ہوجائے گا اور یہاں صرف جرنیل باقی رہ جائیں گے۔