بیسوی صدی انقلاب کی صدی کیوں ہے؟

یورپی طاقتیں ایک طوفان کی طرح اٹھی تھیں مگر ان کا غلبہ جھاگ کی طرح بیٹھتا چلا گیا اور صرف ڈیڑھ سو دو سال میں ان کا تسلط ظلم اور جبر کی علامت بن گیا۔

جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ 20 ویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ ٹامس مان کی یہ بات نہ صرف یہ کہ سو فیصد درست ثابت ہوئی بلکہ 20 ویں صدی میں سیاسی اصطلاحیں اتنی بلند آہنگ‘ اتنی گہری اور اتنی ہمہ گیر ہوئیں کہ 20 ویں صدی انقلابات کی صدی بن کر رہ گئی۔ اس صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئیں، یورپی طاقتوں کا غلبہ ختم ہوا، دنیا میں درجنوں آزاد ریاستوں کا ظہور ہوا، مسلم دنیا کی سب سے بڑی ریاست پاکستان کے نام سے قائم ہوئی، روس اور چین میں کمیونسٹ انقلابات رونما ہوئے، ایران انقلاب کے تجربے سے گزرا، سوشلزم ایک نظریے کے طور پر فنا ہوگیا اور اس کا سب سے بڑا مرکز روس ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ 20 ویں صدی انقلابات کی صدی کیوں تھی؟

قرآن مجید فرقانِ حمید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اقتدار اور غلبے و تسلط کو مختلف قوموں کے درمیان گردش دیتے رہے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ زمین پر اگر کسی ایک قوم کو دائمی غلبہ حاصل ہوجاتا تو زمین فساد سے بھر جاتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو غلبہ عطا فرماتے ہیں تو وہ یہ بھی دیکھتے ہیںکہ اس قوم نے خود کو غلبے کے لائق ثابت کیا یا نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اصل چیز غلبہ نہیں، غلبے کا استحکام ہے، اور غلبے کا استحکام دو اصولوں کی پیروی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ایک یہ کہ غالب قوم انسانی مشترکات کی بنیاد پر مغلوب قوم کے ساتھ اشتراک کی راہ نکالے، اور دوسرا یہ کہ وہ معاشرے میں انصاف کی بالادستی کو یقینی بنائے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت خود مسلمانوں کے غلبے کی تاریخ ہے۔

مسلمانوں نے آدھی سے زیادہ دنیا فتح کی اور وہ جہاں گئے انہوں نے اسلام اور مقامیت کے امتزاج سے ایک نیا تہذیبی تجربہ خلق کیا۔ وہ اسپین گئے تو انہوں نے قرطبہ اور غرناطہ کا تہذیبی تجربہ خلق کیا اور اسپین کے بڑے حصے پر سو دو سو سال نہیں بلکہ چھ سو سال حکومت کی۔ مسلمانوں نے ہندوستان کو فتح کیا تو یہاں ہند اسلامی تہذیب کا تجربہ پیدا کیا، اور ہندوستان پر کم و بیش ہزار سال تک حکومت کی۔ مسلمان افریقہ میں گئے تو وہاں اسلام اور افریقہ کی مقامیت کا تجربہ نمودار ہوا۔ مسلمانوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ان کی تاریخ مجموعی طور پر انصاف کی تاریخ ہے، اور انہوں نے کہیں بھی جبر اور ظلم کو اصول نہیں بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے غلبے کو طویل عمر حاصل ہوئی۔ لیکن یورپی طاقتوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یورپی طاقتیں ایک طوفان کی طرح اٹھی تھیں مگر ان کا غلبہ جھاگ کی طرح بیٹھتا چلا گیا اور صرف ڈیڑھ سو دو سال میں ان کا تسلط ظلم اور جبر کی علامت بن گیا۔

اس کی کلاسیکل مثال برصغیر ہے۔ انگریز برصغیر میں فاتح کے طور پر نہیں آئے تھے۔ وہ تاجروں کے طور پر برصغیر میں وارد ہوئے تھے، مگر سازشوں کے ذریعے برصغیر پر قابض ہوگئے۔ اگرچہ ان کے ہاتھ میں عیسائیت کا پرچم تھا مگر ان کا اصولِ حیات یہ تھا کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ وہ کچھ اور کیا عیسائیت کے بھی دل سے قائل نہ تھے۔ عیسائیت کا اصول یہ تھا کہ ’اپنے پڑوسی سے محبت کرو،… مگر انگریزوں نے اپنے پڑوسیوں یعنی ہندوئوں بالخصوص مسلمانوں سے نفرت کو اداراتی شکل دے دی، یعنی اسے Institutionalize کردیا۔ عیسائیت کہتی تھی کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم دوسرا گال بھی تھپڑ کے لیے پیش کردو، مگر انگریزوں نے برصغیر میں خون کی ندیاں بہادیں۔ 1857ء میں انگریزوں کے خلاف جنگِ آزادی برپا ہوئی تو انگریزوں نے اس جنگ میں تقریباً ایک کروڑ افراد مار ڈالے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان ایک کروڑ افراد میں 95 فیصد سے زیادہ عام افراد تھے۔ ایک اندازے کے مطابق انگریزوں نے اس جنگ میں پچاس ہزار سے زیادہ علماء کو قتل کیا۔

اس جنگ کے نتیجے میں ہزاروں شریف زادیاں کوٹھوں پر جابیٹھیں۔ انگریزوں نے مزاحمت کرنے والوں بالخصوص مسلمانوں کی سماجیات اور معاشیات کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ مزاحمت اور طاقت میں اگر ایک اور دس کی نسبت تھی تو انگریزوں نے اس نسبت کو ایک اور ایک ہزار کی نسبت میں بدل دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انگریزوں کے پاس نہ ’’حق‘‘ تھا، نہ محکوموں کے ساتھ ’’اشتراک‘‘ کا جذبہ تھا، نہ ان کے پاس انصاف کا حقیقی تصور تھا۔ ان کی نہ کوئی حقیقی اخلاقیات تھی اور نہ انہیں حقیقی تہذیب چھوکر گزری تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ انگریزوں نے برصغیر کو ’’جدید‘‘ بنایا۔ اور یہ بات درست ہے۔ مگر انگریزوں نے برصغیر کو اس لیے جدید نہیں بنایا کہ وہ مقامی آبادی کو جدیدیت کی ’’نعمت‘‘ سے مستفید کرنا چاہتے تھے، بلکہ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ جدیدیت کی مختلف صورتوں کے ذریعے وہ اپنے غلبے اور استحصال کو مستحکم کرنا چاہتے تھے۔

مثلاً انہوں نے سڑکیں بنائیں‘ بندرگاہیں تعمیر کیں، اور ریل کا نظام متعارف کرایا۔ کیونکہ وہ ہندوستان کے خام مال کو زیادہ تیزی اور سہولت کے ساتھ لوٹ کر برطانیہ لے جانا چاہتے تھے اور اپنی مصنوعات کو ہندوستان کے عوام پر مسلط کرکے مقامی مصنوعات کا بیج مارنا چاہتے تھے۔ ان کی پولیس‘ فوج‘ ڈاک تار کا محکمہ غرضیکہ جو کچھ بھی جدید تھا اصولی اعتبار سے ان کی حکمرانی کے فروغ کے لیے تھا۔

انگریزمقامی افراد میں کیسی ذہنیت پیدا کرنا چاہتے تھے‘ اس کا بہترین نمونہ سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء تھے۔ سرسید مغربی فکر کے زیراثر آئے، انہوں نے مسلمانوں کے مسلم عقائد کا انکار کردیا۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج جسمانی معراج نہیں تھی، یہ معراج انہیں خواب میں ہوئی۔

سرسید نے اعلان کیا کہ جنت اور دوزخ کا کوئی خارجی وجود نہیں، بلکہ یہ انسان کی کیفیات کا نام ہیں۔ سرسید نے فرمایا کہ جنّات کا کوئی وجود نہیں بلکہ یہ انسان کی باطنی قوت ہیں۔ سرسید ایسے ’’عقلِ کل‘‘ بنے کہ انہوں نے علم حدیث کا انکار کردیا، تفسیر کی تیرہ سو سالہ روایت کو یکسر مسترد کردیا اور قرآن مجید کی ایسی تفسیر لکھی جو کسی اور کے لیے کیا اُن کے ’’متاثرین‘‘ کے لیے بھی قابلِ قبول نہ تھی۔ سرسید کے زیراثر مولانا حالی نے پورے اردو ادب بالخصوص شاعری کی گردن مار دی اور کہا کہ ادب تو صرف وہ ہے جو مغربی تنقید کے اصولوں کے مطابق تخلیق کیا جائے۔ یہ صرف برصغیر کا معاملہ نہیں تھا۔ یورپی طاقتیں جہاں جہاں گئیں انہوں نے ایسے ہی تجربات کو جنم دیا، اور ان تجربات نے ڈیڑھ دو صدیوں ہی میں ثابت کردیا کہ یورپی اقوام غلبے اور تسلط کے قابل نہیں۔ چنانچہ حکمتِ الٰہیہ کے تحت ایک نئے عالمگیر بندوبست کا ظہور ناگزیر تھا۔

اقبال کو اس حقیقت کا جس طرح ادراک تھا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اقبال کے ادراک کا یہ عالم تھا کہ وہ مستقبل کو نہ صرف یہ کہ بے نقاب دیکھ رہے تھے بلکہ اسے آرٹ بناکر پیش کررہے تھے۔ اقبال 1907ء میں کہہ رہے تھے کہ مغربی تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرنے والی ہے، اس لیے کہ یہ شاخِ نازک پر بنا ہوا ’’آشیانہ‘‘ ہے، اور یہ ناپائیدار نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ لیکن اقبال صرف یہی نہیں دیکھ رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے:

کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

اقبال کے یہاں مشرق کا حوالہ مجرد یا Abstract نہیں تھا، انہوں نے 1907ء ہی میں صاف کہہ دیا تھا:

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

اس تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال کی پوری شاعری 20 ویں صدی میں رونما ہونے والے انقلاب کا اشارہ ہی نہیں اشاریہ بھی تھی۔

یورپی اقوام کا ایک ہولناک تضاد یہ تھا کہ وہ خودکو عیسائی تہذیب کا علَم بردار کہتی تھیں اور اپنی تہذیب اور تاریخ کے مشترکات پر ناز کرتی تھیں، مگر ان میں قوم پرستی اور مفاد پرستی وبا کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ اس قوم پرستی اور مفاد پرستی نے یورپ میں چالیس سال میں دو عالمگیر جنگیں تخلیق کیں، اور یہ جنگیں سات سے دس کروڑ انسانوں کو نگل گئیں۔ ان جنگوں میں پندرہ سے بیس کروڑ افراد زخمی ہوئے اور مادی نقصان کا اندازہ بھی دشوار ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان جنگوں نے یورپی طاقتوں کو اپنے مقبوضات پر قبضہ برقرار رکھنے کے قابل نہ چھوڑا اور یہ جنگیں کئی درجن اقوام کی آزادی کا سبب بن گئیں۔

سوویت یونین میں 1917ء میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس لامذہب انقلاب کی جڑیں عیسائیت میں پیوست تھیں۔ کارل مارکس خدا کے وجود کا قائل نہیں تھا، مگر نٹشے کارل مارکس سے بہت پہلے معاذ اللہ خدا کے مرنے کی اطلاع دے چکا تھا۔ بعض لوگ نٹشے کے اس بیان کو صرف لغوی مفہوم میں لیتے ہیں، حالانکہ اس کی ایک علامتی اہمیت لغوی مفہوم سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے کہ نٹشے نے جب یہ کہا کہ خدا مرگیا ہے تو اس کا مطلب یہ تھا کہ عیسائی دنیا میں خدا محض ایک تصور بن کر رہ گیا ہے اور عیسائیوں کی زندگی سے اس بات کی شہادت فراہم نہیں ہوتی کہ وہ ایک قادرِ مطلق خدا اور اس کی نازل کی گئی انجیل کے قائل ہیں۔

چنانچہ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اپنے ابتدائی زمانے میں کمیونسٹ انقلابات صرف عیسائی دنیا میں برپا ہوئے، اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ عیسائیت کی بے اثری نے عیسائی دنیا میں معنویت کا اتنا بڑا سوال پیدا کردیا تھا جو صرف انقلاب کے ذریعے ہی پُر ہوسکتا تھا۔ کیونکہ صرف انقلاب ہی پوری زندگی کی تعبیرنو کرسکتا ہے۔ بلاشبہ کمیونسٹ انقلاب چین میں بھی رونما ہوا، لیکن چین کا معاملہ بھی عیسائی دنیا ہی کی طرح تھا۔ فرق یہ تھا کہ عیسائی دنیا میں عیسائیت غیر مؤثر ہوگئی تھی اور چین میں تائوازم اور کنفیوشس ازم کی روحانیت اور اخلاقیات بے معنی ہوگئی تھیں۔ مادی اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم دنیا کا حال عیسائی دنیا سے زیادہ ابتر تھا اور مارکس کے نظریات کو مسلم دنیا میں مقبول ہونا چاہیے تھا، مگر مسلم دنیا میں کہیں کمیونسٹ انقلاب برپا نہ ہوسکا۔ مسلم دنیا میں جہاں کمیونزم آیا، ’’برآمد‘‘ ہوکر اور ’’سازش‘‘ کے تحت آیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام ایک زندہ مذہب تھا اور بھوکے، ننگے اور ظلم کی چکی میں پسنے والے مسلمان بھی روٹی‘ کپڑے اور مکان کے لیے اپنے ایمان اور روحانیت کا سودا کرنے پر تیار نہ تھے۔

20 ویں صدی کا ایک بڑا انقلاب امتِ مسلمہ کی بیداری اور پاکستان کے نام سے اسلامی دنیا کی سب سے بڑی ریاست کا قیام تھا۔ امتِ مسلمہ کو مغرب کی عسکری اور سیاسی غلامی سے بہت سے نقصانات ہوئے مگر بہت بڑے بڑے فائدے بھی ہوئے۔ مغرب کی غلامی سے قبل مسلمان خوابِ غفلت میں مبتلا تھے اور وہ اپنے وجود کی پوری قوت سے کام لینا بھول چکے تھے۔ مغرب کی غلامی نے ان کو وجود کی پوری قوت بروئے کار لانے پر مائل نہیں ’’مجبور‘‘ کیا۔ مسلمانوں کو کئی صدیوں کے بعد باطل کی قوت کا اندازہ ہوا اور انہوں نے جانا کہ وہ مذہب کے ساتھ اپنی تہذیب اور تاریخ کو کیسے اپنی طاقت بناسکتے ہیں۔

اقبال کی شاعری اور مولانا مودودیؒ کا علم کلام 20 ویں صدی کے دو بڑے تخلیقی واقعات ہیں۔ ان واقعات نے مسلمانوں کو بتایا کہ وہ نہ صرف یہ کہ مغرب کو پھلانگ کر، یا Out Grow کرکے کھڑے ہوگئے ہیں بلکہ وہ اسلام کی عالمگیر بالادستی اور امتِ مسلمہ کی عالمگیر شوکت کے سفر پر روانہ ہوچکے ہیں۔ اقبال اور مولانا کی فکر کی قوت نے مغرب کو مسلمانوں کے حال سے ان کا ماضی بنادیا، اور انہوں نے اسلام کو مسلمانوں کے ماضی کے بجائے ان کے حال میں تبدیل کردیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جب پاکستان کے قیام کا مطالبہ کیا تو ساری دنیا میں قوم پرستی اور سوشلزم کا غلبہ تھا اور دنیا کی تمام اقوام انہی دو فکری سلسلوں کے حوالے سے اپنی شناخت متعین کررہی تھیں۔

خود عالم عرب قوم پرستی کی لعنت میں مبتلا تھا، مگر برصغیر کی ملتِ اسلامیہ نے اس حال میں نہ قوم پرستی کی طرف دیکھا، نہ وہ سوشلزم کے رومانس میں مبتلا ہوئی‘ اس نے کہا تو یہ کہا کہ میرا تشخص لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ تاریخ کے بہائو کی مخالف سمت میں تیرنا آسان نہیں ہوتا، مگر برصغیر کے مسلمانوں نے نہ صرف یہ کہ تاریخ کے بہائو کی مخالف سمت میں تیر کر دکھادیا بلکہ انہوں نے اپنی نیّا بھی پار لگاکر دکھادی۔ برصغیر کے مسلمانوں کو یہ قوت اسلام سے فراہم ہوئی، اور برصغیر کے مسلمانوں نے ایک بار پھر ظاہر کیا کہ اسلام کی قوت کے ذریعے مسلمان خود کو تاریخ کے سفر میں دائمی طور پر ’’نیا‘‘ بناسکتے ہیں یا خود کو Re-Invent کرسکتے ہیں۔ یہ بجائے خود اتنی بڑی انقلابی بات ہے کہ اس کے آگے بڑے بڑے انقلابات بچوں کا کھیل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے خود کو ازسرنو دریافت یا Re-Invent کرنے کا کام بھی 20 ویں صدی میں انجام دیا۔ اس عمل نے ایک جانب جہاں افغانستان میں وقت کی دوسپرپاورز کو شکست سے دوچار کیا ہے وہیں اس نے مسلم دنیا میں ایسے تحرک کو جنم دیا ہے کہ 21 ویں صدی بھی اسلام اور مسلمانوں کے لیے امکانات کی صدی بن گئی ہے۔

 

Leave a Reply