انتخابات کا موسم تمام سیاسی جماعتوں کو ’’ایک جیسا‘‘ کردیتا ہے۔ تمام جماعتیں اچانک ’’دستوری‘‘ اور ’’منشوری‘‘ نظر آنے لگتی ہیں۔ تمام جماعتوں کے ہاتھ میں قوم کی خدمت کا پرچم آجاتا ہے۔ تمام جماعتیں اصولوں اور ضابطوں کی باتیں کرنے لگتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی انتخابات کا مرحلہ ختم ہوتا ہے ہر جماعت اپنے اصل رنگ کی جانب لوٹ جاتی ہے۔ اس وقت ملک میں انتخابات کا موسم ہے اور اس موسم میں کسی جماعت کے انفرادی تشخص کا تعین آسان نہیں، لیکن انتخابی موسم کے باوجود جماعت اسلامی کے تشخص کا تعین چنداں دشوار نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جماعت اسلامی اپنی تاریخ کے طویل سفر میں کبھی ’’سیاسی گرگٹ‘‘ نہیں رہی۔ اس کے لیے انتخابات اور اس سے پہلے اور بعد کے موسم میں کوئی فرق نہیں۔ جماعت اسلامی کے لیے ہر موسم بہار کا موسم ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی ہے کیا؟
جماعت اسلامی کے بارے میں ایک بنیادی اور آسان ترین بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ یہ پاکستان کی واحد ’’نظریاتی جماعت‘‘ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس بات کا مفہوم کیا ہے؟ ایک سطح پر اس کا مفہوم یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی ساری جدوجہد اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ بات تو پاکستان کی کئی مذہبی نظر آنے والی جماعتیں بھی کہتی ہیں، لیکن ان جماعتوں کی تاریخ شاہد ہے کہ ان کے لیے سیاست کا مطلب اقتدار کا حصول ہے اور وہ اپنے اقتدار میں آجانے ہی کو دین کی خدمت سمجھتی ہیں۔ لیکن جماعت اسلامی جب یہ کہتی ہے کہ وہ غلبۂ دین کی جدوجہد کررہی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس کے لیے سیاست اور اقتدار پیمانے ہیں، خود مقصد نہیں ہیں بلکہ وہ ایک بڑے مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ جماعت اسلامی کے نظریاتی ہونے کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جماعت اسلامی دین کی جامعیت کا ایک ایسا تصور رکھتی ہے جو کسی اور جماعت کے پاس نہیں ہے۔
دوسری مذہبی جماعتیں اسلامی نظام کو قانونی اور فقہی تناظر میں دیکھتی ہیں، اور سمجھتی ہیں کہ اگر معاشرے میں اسلامی قوانین نافذ کردیے جائیں تو دین غالب بھی آجائے گا اور معاشرہ اسلام کے سانچے میں بھی ڈھل جائے گا۔ لیکن جماعت اسلامی پوری زندگی کی ’’اسلام کاری‘‘ پر یقین رکھتی ہے اور اس کا زاویۂ نگاہ قانونی نہیں اخلاقی اور تخلیقی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے صاف لکھا ہے کہ جب تک ہم تمام علوم و فنون کو اسلامی بنیادوں پر مرتب نہیں کریں گے اُس وقت تک غلبۂ دین کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام صرف اسلامی قوانین کو نافذ کردینے سے نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں کام کرنے والی کئی جماعتیں خود کو اسلامی کہتی ہیں، مگر اصل میں ان کا مسئلہ اسلام نہیں بلکہ اپنا فرقہ، مسلک یا مکتبۂ فکر ہے۔ ان دائروں کے باہر جو لوگ ہیں وہ ان جماعتوں کے نزدیک یا تو گمراہ ہیں یا ان کے جیسے ’’معیاری مسلمان‘‘ نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی کے نظریاتی ہونے کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ فرقے، مسلک اور مکتبۂ فکر کی نفسیات سے بلند ہے۔ بلاشبہ اس کا اپنا ایک نقطۂ نظر ہے، اور وہ اس نقطۂ نظر پر اصرار بھی کرتی ہے۔ مگر وہ اپنے نقطۂ نظر کو اپنا قید خانہ نہیں بناتی۔ وہ اسلام کے سلسلے میں کسی بھی مسلک، مکتبۂ فکر اور کسی بھی عالم دین سے سیکھنے پر تیار رہتی ہے اور اپنے متاثرین کو ہرگز یہ نہیں کہتی کہ تمہیں فلاں جماعت یا عالم دین کا لٹریچر نہیں پڑھنا چاہیے۔
کہنے کو پاکستان میں اکثر سیاسی جماعتیں ’’قومی جماعتیں‘‘ ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی پارٹی کے سربراہ کی واحد سیاسی اہلیت اس کا پنجابی ہونا ہے۔ کسی پارٹی کے رہنما کی واحد سیاسی صلاحیت اس کا سندھی ہونا ہے۔ کسی پارٹی کی قیادت کا واحد ’’میرٹ‘‘ اس کا مہاجر، پشتون یا بلوچ ہونا ہے۔ اس صورتِ حال نے پاکستان کے سیاسی کلچر کو صوبائیت اور لسانیت زدہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے نظریاتی ہونے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ وہ جس طرح فرقے، مسلک اور مکتبۂ فکر کی نفسیات سے بلند ہے اسی طرح نسل، زبان اور جغرافیے کے تعصب سے بھی پاک ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جماعت اسلامی حقیقی معنوں میں ملک کی واحد ’’قومی جماعت‘‘ ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ قومی رنگ جماعت میں ہر سطح پر موجود ہے، یہاں تک کہ قیادت کی سطح پر بھی اس رنگ کو پوری طرح بروئے کار دیکھا جاسکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے بانی اور اس کے پہلے امیر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اصطلاح کے اعتبار سے مہاجر تھے۔ جماعت اسلامی کے دوسرے امیر میاں طفیل محمد اصطلاح کے اعتبار سے پنجابی تھے۔ جماعت اسلامی کے تیسرے امیر قاضی حسین احمد اصطلاح کے اعتبار سے پشتون تھے۔ جماعت اسلامی کے چوتھے امیر سید منور حسن اصطلاح کے اعتبار سے مہاجر تھے۔ جماعت اسلامی کے پانچویں امیر سراج الحق اصطلاح میں پشتون ہیں۔ کیا ملک کی کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت قیادت کی سطح پر ایسے نسلی اور لسانی تنوع کی مثال پیش کرسکتی ہے!
جماعت اسلامی کے نظریاتی تشخص کا ایک زاویہ یہ ہے کہ وہ پہلے دن سے آج تک ’’موروثی‘‘ نہیں ہے۔ حالانکہ پاکستان میں کتنی ہی جماعتیں ہیں جو خود کو مذہبی کہتی ہیں مگر ان کی مذہبیت اس امر سے ظاہر ہے کہ باپ کے بعد بیٹا پارٹی کا سربراہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں کتنی ہی سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو خود کو سیاسی کہتی ہیں مگر ان پر خاندانوں کا قبضہ ہے، اور اس قبضے کی بنیاد میں کہیں تقویٰ، اہلیت، صلاحیت، خدمت کا عنصر موجود نہیں۔ جماعت اسلامی پر مولانا مودودیؒ سے زیادہ احسان کسی کا بھی نہیں ہے۔ جماعت ہے تو ان کی وجہ سے ہے۔ جماعت کا لٹریچر ہے تو مولانا کا فراہم کردہ ہے۔ جماعت کی اخلاقی اور علمی ساکھ میں مولانا کے حصے کا کوئی ثانی نہیں۔ اس اعتبار سے مولانا اگر خود ساری زندگی جماعت کے امیر رہتے تو اس کا عقلی، علمی، اخلاقی اور سیاسی جواز موجود تھا۔ مگر مولانا نے شعوری طور پر خود کو امارت سے الگ کرلیا۔ ان کے بعد ان کے کسی بیٹے کو امیر بنانا تو دور کی بات ہے اس سلسلے میںکہیں کوئی گفتگو بھی موجود نہ تھی۔ اس کے برعکس پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتوں میں باپ کی جگہ بیٹا، بھائی کی جگہ بھائی، یہاں تک کہ بیوی کے بعد شوہر کا منظر موجود ہے۔ پاکستان کی سیاست میں سیاسی جماعتیں جمہوریت کا ذکر اس طرح کرتی ہیں جیسے انہیں جمہوریت سے زیادہ کچھ بھی عزیز نہ ہو۔ حالانکہ ان کی جمہوریت سے محبت کا یہ عالم ہے کہ پیپلزپارٹی کو قائم ہوئے 56 سال ہوگئے مگر آج تک اس میں داخلی انتخاب کی راہ ہموار نہیں ہوسکی ہے، حالانکہ اگر پیپلزپارٹی میں انتخابات ہوتے تو بھٹو کے دور میں بھٹو، بے نظیر کے دور میں بے نظیر، آصف علی زرداری کے دور میں زرداری ہی منتخب ہوتے۔ اسی طرح میاں نوازشریف کو نون لیگ کی سیاست کرتے ہوئے 35 برس سے زیادہ ہوگئے مگر نون لیگ میںکبھی اندرونی انتخاب کا مرحلہ نہ آسکا۔ حالانکہ نون لیگ میں انتخابات ہوتے تو نوازشریف کے سوا شاید ہی کوئی دوسرا پارٹی کا سربراہ بن سکتا۔ کچھ سال پہلے نواز لیگ میں انتخابات کا عمل ہوا، مگر یہ عمل عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ایم کیو ایم خود کو سیاسی، لبرل اور جمہوری پارٹی کہتی ہے، مگر اس میں کوئی شخص پارٹی انتخابات کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا، حالانکہ اگر ایم کیو ایم میں انتخابات ہوتے تو الطاف حسین کے سوا شاید ہی کوئی شخص پارٹی کا سربراہ بن سکتا۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی 82 سال سے مسلسل داخلی انتخابات کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی میں داخلی انتخابات کا معیار صرف تقویٰ، تعلیم، تجربہ اور خدمت ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کی ساکھ کا یہ عالم ہے کہ جو شخص ذرا سا بھی ایماندار ہے وہ جماعت اسلامی سے اختلاف رکھنے کے باوجود خود کو یہ کہنے پر مجبور پاتا ہے کہ جماعت اسلامی ملک کی واحد جمہوری پارٹی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اطلاعات و نشریات کے سابق وزیر جاوید جبار نے جامعہ کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جماعت اسلامی ملک کی واحد جمہوری جماعت ہے اور اس میں داخلی انتخاب کا معاملہ یہ ہے کہ کسی امیدوار کے حق میں مہم چلانے کی اجازت نہیں ہوتی، اور یہ جمہوریت کی اعلیٰ ترین قسم ہے کہ آپ اپنے ضمیر کی کامل آزادی کے ساتھ رہنما کا انتخاب کریں۔
جماعت اسلامی کا کمال یہ ہے کہ وہ بیک وقت قوم، ملّت اور امت کی ترجمان ہے۔ وہ پاکستان کے دائرے میں ایک ’’قومی جماعت‘‘ ہے۔ علاقے کے دائرے میں ایک ’’ملّی تنظیم‘‘ ہے۔ اور عالمگیر دائرے میں وہ پوری ’’امت کی پارٹی‘‘ ہے۔ ملک کے دائرے میں بحران مشرقی پاکستان میں ہو یا بلوچستان میں، کراچی میں ہو یا مالاکنڈ میں… جماعت اسلامی قوم کی آواز بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں پر ظلم کشمیر میں ہو یا بھارت میں، میانمر میں ہو یا بنگلہ دیش میں… جماعت اسلامی اس کا درد اپنے دل میں محسوس کرتی ہے، اور صرف احتجاج ہی نہیں کرتی بلکہ اس ظلم کے خلاف پوری امت کو متحرک کرنے کی بھی کوشش کرتی ہے۔ امت کے دائرے میں جماعت اسلامی فلسطین سے چیچنیا اور چیچنیا سے بوسنیا ہرزیگووینا تک مار کرتی ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیثِ پاک کا مصداق بن جاتی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’امت ایک جسدِ واحد ہے، اس جسم کے کسی بھی حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس سے متاثر ہو تا ہے۔‘‘ جماعت اسلامی کے برعکس پاکستان کی دوسری جماعتوں کا حال یہ ہے کہ ان کی اکثریت نسل، زبان اور صوبے سے بلند نہیں، اور اگر ہیں بھی تو ان کی سطح صرف قومی ہے۔ ان کے پاس نہ ملّی تناظر ہے اور نہ امت کا تصور۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جماعت اسلامی روحانی، فکری، ذہنی اور جذباتی اعتبار سے ملک کی امیر ترین سیاسی جماعت ہے۔
دیانت اور خدمت کے دائروں میں جماعت اسلامی کا ریکارڈ بے مثال ہے۔ جماعت اسلامی کے لوگ وفاق اور صوبے کی سطح پر وزارتوں میں شریک رہے ہیں اور ان کا دامن پاک رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے لوگ سینیٹر رہے ہیں اور ان کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں دیکھا گیا۔ جماعت اسلامی کے لوگ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین رہے ہیں اور ان کی دیانت پر کبھی کسی کو انگلی اٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ جماعت اسلامی کے لوگ تین بار ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے نگران رہے ہیں اور انہوں نے کبھی ایک پیسے کی خوردبرد نہیں کی۔ جماعت اسلامی کے ہزاروں لوگ ملک کے طول و عرض میں کونسلر منتخب ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں کبھی نہیں سنا گیا کہ انہوں نے بے ایمانی کی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جماعت اسلامی نے اقتدار کی ہر سطح پر دیانت کی مثال قائم کی ہے، اور یہ جماعت اسلامی کا کمال نہیں۔ یہ ’’کارنامہ‘‘ اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اسلامی تناظر میں سیاست انسانوں کی خدمت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ عوام کی خدمت کو اقتدار سے مشروط سمجھتی ہیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے بار بار اقتدار میں آنے کے باوجود بھی عوام کی خدمت نہیں کی۔ اس منظرنامے میں جماعت اسلامی کا اعزاز یہ ہے کہ اس نے اقتدار میں آئے بغیر عوام کی خدمت کی تاریخ رقم کی ہے، اور وہ بھی سیاسی مفاد سے بالاتر ہوکر۔ پاکستان میں زلزلہ آیا تو جماعت اسلامی ایک چھوٹی سی ریاست بن کر متحرک ہوگئی اور اس نے اُن علاقوں میں متاثرین کی خدمت کی جو روایتی معنوں میں جماعت اسلامی کے ’’ووٹرز کے علاقے‘‘ نہیں تھے۔ سندھ میں دو سال تواتر کے ساتھ سیلاب آیا اور دیہی سندھ نے جماعت اسلامی کو کبھی منتخب ایوانوں میں نہیں بھیجا مگر جماعت اسلامی نے جگہ جگہ متاثرین کو کھانا دیا، لباس مہیا کیا، عارضی پناہ گاہیں فراہم کیں، یہاں تک کہ ایک کمرے کے سیکڑوں مکانات بنا کر دیے۔ جماعت اسلامی نے تھرپارکر سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں کئی سو کنویں کھدوائے ہیں حالانکہ ان علاقوں میں جماعت اسلامی کا ووٹ بینک موجود نہیں تھا۔ جماعت اسلامی کے تحت ملک میں پانچ سے چھے ہزار کے درمیان تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں سیکڑوں ایسے ہیں جہاں بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے، سیکڑوں ایسے ہیں جہاں تعلیم کے بلند معیار کے باوجود دوسرے اسکول سسٹمز کے مقابلے پر سستی تعلیم مہیا کی جاتی ہے۔ الخدمت کے تحت ہر سال آٹھ سے دس لاکھ افراد کو صحت کی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ ناداروں میں راشن تقسیم کیا جاتا ہے۔ 30 لاکھ یتیموں کی کفالت کی جاتی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو ایک پارٹی ہونے کے باوجود جماعت اسلامی ریاست کی طرح سوچ رہی اور عمل کررہی ہے۔ بلاشبہ عوام کی خدمت کا دائرہ بہت وسیع ہے مگر جماعت اسلامی کے وسائل محدود ہیں۔ آج قوم جماعت کو 100روپے دے رہی ہے تو جماعت 100 روپے کے ساتھ قوم کی خدمت کررہی ہے۔ کل قوم جماعت کو ایک کروڑ روپے فراہم کرے گی تو جماعت ایک کروڑ روپے کے ساتھ قوم کی خدمت کرے گی۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں جماعت اسلامی سے زیادہ قیادت اور ووٹ کا حق دار کون ہے؟