ارتقا زندگی کی بنیادی حقیقت ہے۔ ارتقا زندگی کا حسن ہے۔ جمال ہے۔ جلال ہے۔ ارتقا کافروں اور مشرکوں کو صاحب ِ ایمان بناتا ہے۔ ارتقا کلی کو پھول میں ڈھالتا ہے۔ ارتقا شیر خوار کو جوان رعنا بناتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جو افراد اور طبقات قوموں کے ارتقا کو ناممکن بنادیتے ہیں وہ قوم کے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں۔ خواہ ان کی شہرت قوم کے دوستوں ہی کی کیوں نہ ہو۔
ارتقا کے سلسلے میں نظریے کی اہمیت بنیادی اور اساسی ہے۔ یہ نظریہ ہے جو قوموں کے روحانی، تہذیبی، ذہنی، نفسیاتی، جذباتی، سماجی اور تاریخی ارتقا کو ممکن بناتا ہے۔ اسلام اور رسول اکرمؐ نے عالم عرب میں جو انقلاب برپا کیا اس سے ساری دنیا واقف ہے۔ مگر بہت کم لوگ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے برپا کیے ہوئے انقلاب سے قبل عالم عرب کا کیا حال تھا۔ ان کی روحانی زندگی کیسی تھی۔ ان کی نفسیات کا کیا حال تھا۔ ان کی سماجیات کیسی تھی۔ ان کے باہمی تعلق کی نوعیت کیا تھی۔ مولانا حالی نے اپنی معرکہ آرا نظم مسدس حالی میں رسول اکرمؐ کے برپا کیے ہوئے انقلاب سے پہلے کے عالم عرب کا نقشہ کھینچا ہے۔ مولانا حالی فرماتے ہیں۔
عرب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اِک جزیرہ نما تھا
زمانے سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشور ستاں تھا، نہ کشور کشا تھا
تمدّن کا اُس پر پڑا تھا نہ سایا
ترقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا
نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میّسر
کنول جس سے کھل جائیں دل کے سراسر
نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی
زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لوئوں کی لپٹ، بادِ صرصر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغیلاں
نہ کھیتوں میں غلّہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی
نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبعِ بشر تھی
خدا کی زمیں بن جُتی سر بسر تھی
چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اِک لُوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ
وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے
نہ ٹلتے تھے ہرگز جو اَڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صدہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے
بلند ایک ہوتا تھا گرواں شرارا
تو اس سے بھڑک اُٹھتا تھا ملک سارا
نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ
کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
اس منظرنامے میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے انقلاب ایسا روحانی، تہذیبی، ذہنی، علمی، نفسیاتی، جذباتی، سماجی، سیاسی اور معاشی ارتقا پیدا کیا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ وہ جو کافر اور مشرک تھے۔ وہ دنیا کے سب سے بڑے ’’خدا پرست‘‘ بن کر سامنے آئے۔ جن کی زندگی ’’بت مرکز‘‘ تھی ان کی زندگی ’’پیغمبر مرکز‘‘ بن گئی۔ جس معاشرے میں قتل و غارت گری عام تھی وہاں محبت کا دریا بہنے لگا۔ جس معاشرے کو علم نے چھوا تک نہ تھا وہ پوری دنیا کو علم بانٹنے والا بن گیا۔ جن لوگوں کا تہذیب سے کوئی واسطہ نہ تھا وہ پوری دنیا میں تہذیب کے سب سے بڑے علمبردار بن کر اُبھرے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے انقلاب نے جو ارتقا تخلیق کیا اس نے ابوبکر کو تاریخ میں صدیق اکبرؓ بنا کر کھڑا کردیا۔ اس ارتقا نے عمرؓ کو فاروق اعظم میں ڈھال دیا۔ عثمانؓ، عثمان غنی بن کر سامنے آئے۔ علیؓ ارتقا کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے علی مرتضیٰ کہلائے۔
20 ویں صدی کے برصغیر نے بھی نظریے کی بنیاد پر ایک بڑے ارتقا کا مشاہدہ کیا۔ دو قومی نظریے نے جو اسلام کے سوا کچھ نہیں تھا محمد علی جناح کو قائداعظم بنا کر کھڑا کردیا۔ قائداعظم اس سے پہلے ’’افراد‘‘ کے وکیل تھے۔ دو قومی نظریے نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریک اور ایک قوم کا وکیل بنا کر کھڑا کردیا۔دو قومی نظریے کے ظہور سے پہلے برصغیر کے مسلمان ایک بھیڑ تھے، دو قومی نظریے نے اس بھیڑ کو ایک قوم میں ڈھال دیا۔ پاکستان 1947ء سے پہلے ’’عدم‘‘ میں تھا۔ نظریے نے اسے عدم کے اندھیروں سے نکال کر وجود کی روشنی میں لاکھڑا کیا۔ اقبال داغ کے شاگرد تھے اور اگر انہیں نظریے کی بنیاد پر ارتقا میسر نہ آتا تو وہ داغ کی طرح کے شاعر ہوتے۔ ان کی شاعری رعایت لفظی کی شاعری ہوتی۔ اس زمانے میں اقبال ایک قوم پرست شاعر تھے۔ وہ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
کا راگ الاپ رہے تھے۔ مگر نظریے نے ان کی شاعری کا مزاج، جہت اور لہجہ بدل کر رکھ دیا۔ چناں چہ ارتقا کے بعد اقبال یہ کہتے نظر آئے۔
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
قوم پرستی کے زمانے میں اقبال تقریباً ایک ہندو کی طرح سوچتے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے۔
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
ارتقا کے بعد اقبال یہ کہتے نظر آئے۔
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
بدقسمتی سے قائداعظم اور لیاقت علی خان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد پاکستان کو جو جرنیل اور جو سیاست دان فراہم ہوئے وہ قوم کے ارتقا کو آگے برھانے والے نہیں تھے بلکہ اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے والے تھے۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں قوم پر مارشل لا مسلط کردیا۔ جنرل ایوب ’’اسلام پسند‘‘ ہونے کے بجائے سیکولرازم کے علمبردار تھے۔ چناں چہ انہوں نے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان پر سیکولرازم مسلط کرنے کی سازش کی۔ انہوں نے فضل الرحمن جیسے سیکولر دانش وروں کے ذریعے سود کو عین اسلام قرار دلایا اور قوم پر ایسے عائلی قوانین مسلط کیے جو اسلام کی ضد تھے۔ جنرل یحییٰ ایک عورت باز اور شرابی انسان تھے ان سے ملک ہی نہ سنبھل سکا اور 16 دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکا ہوگیا۔ ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے نہایت شرمناک حالات میں بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ قائداعظم نے پاکستان ’’توسیع‘‘ یا ارتقا کے لیے بنایا تھا جنرل یحییٰ نے پاکستان توڑ کر پاکستان کو آدھا کردیا۔ جنرل پرویز مشرف ’’لبرل‘‘ تھے اور انہوں نے ملک کو سیکولر اور لبرل بنانے کی سازش کی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے ایک زندہ انسان کو زہر کا پیالہ پلایا جائے اور یہ توقع رکھی جائے کہ اس سے اس آدمی کی صحت بہتر ہوجائے گی۔ جنرل ضیا الحق بلاشبہ اسلام پسند تھے مگر انہوں نے اسلام کو صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ چناں چہ جنرل ضیا کے اسلام سے پہلے بھی قوم کا روحانی، ذہنی اور تہذیبی ارتقا ممکن نہ ہوسکا۔ قائداعظم نے پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ وہ دنیا میں آزادی کی سب سے بڑی علامت ہو مگر ہمارے جرنیلوں نے پاکستان کو امریکا کی غلامی کی سب سے بڑی علامت بنادیا۔ جنرل ایوب نے پاکستان کے دفاع اور معیشت کو ’’امریکا مرکز‘‘ بنادیا۔ یہ پاکستان کے سیاسی ارتقا کے خلفا ایک بھیانک سازش تھی۔ بدقسمتی سے جنرل ایوب کے بعد آنے والے جرنیلوں نے بھی پاکستان کو زیادہ سے زیادہ امریکا کا غلام بنایا۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو بڑے سیاست دان تھے مگر انہوں نے اسلامی سوشلزم ایجاد کرکے پاکستان کے روحانی اور نظریاتی ارتقا پر کلہاڑی چلادی۔ اس لیے کہ اسلام اور سوشلزم میں کوئی قدر مشترک نہیں تھی۔ اسلام حق تھا اور سوشلزم باطل اور حق و باطل کا ملاپ ممکن ہی نہیں۔ یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ پاکستان کے جرنیلوں نے بار بار مارشل لا لگا کر پاکستان کی سیاست کو کولہو کا بیل بنادیا۔ کولہو کا بیل ساری زندگی چلتا ہے اور کہیں نہیں پہنچ پاتا۔ اس لیے کہ وہ ایک ہی دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے۔ ہمارے جرنیلوں نے جی ایچ کیو کو سیاست دان پیدا کرنے والی فیکٹری بنا کر بھی پاکستان کے سیاسی ارتقا کے خلاف سازش کی۔ بھٹو صاحب جرنیلوں کی فیکٹری کا حاصل تھے۔ میاں نواز شریف کو جنرل جیلانی اور جنرل ضیا الحق نے نواز شریف بنایا۔ الطاف حسین جنرل ضیا الحق کے بغیر الطاف حسین اور ایم کیو ایم جنرل ضیا کے بغیر ایم کیو ایم نہیں ہوسکتی تھی۔ عمران خان بھی جرنیلوں کے بغیر اقتدار میں نہیں آسکتے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ جرنیلوں کے پیدا کردہ تمام سیاست دانوں نے بالآخر جرنیلوں کے خلاف بغاوت کی۔ یہ بغاوت بجائے خود ماضی کی ’’تکرار‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ اور تکرار کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس میں کوئی ارتقا نہیں ہوتا۔
بدقسمتی سے پاکستان کے سیاست دان بھی قوم کے سیاسی ارتقا کے بڑے دشمن ہیں۔ پیپلز پارٹی 50 سال سے بھٹو خاندان کے ہاتھ کا میل ہے۔ نواز لیگ 35 سال سے شریف خاندان کی رکھیل ہے۔ تحریک انصاف عمران خان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ عمران خان نہیں تو تحریک انصاف بھی نہیں۔ جمعیت علمائے اسلام پر پہلے مفتی محمود کا قبضہ تھا۔ اب مفتی محمود کے فرزند مولانا فضل الرحمن کا قبضہ ہے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے کا قبضہ ہوگا۔ ملک میں صرف جماعت اسلامی ایسی جماعت ہے جو اپنے سیاسی اور جمہوری ارتقا کو ممکن بنائے ہوئے ہے۔ پاکستان کے سیاسی ارتقا کی عدم موجودگی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے ہر قومی انتخاب پر جرنیلوں کی مہر لگی ہوئی ہوتی ہے۔ کراچی تک میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ نے پورا کراچی پیپلز پارٹی کے حوالے کردیا ہے حالاں کہ پیپلز پارٹی 1970ء کی دہائی سے کراچی دشمن جماعت ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں نے بھی ملک کے سیاسی ارتقا کے خلاف سازش کی ہے۔ ایسا ہوتا تو ملک کی اعلیٰ عدالتیں جنرل ایوب، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے فوجی اقتدار کو ’’حلال‘‘ قرار نہ دیتیں۔
دنیا کی ہر قوم کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ اس کی نئی نسلیں علم اور سیاسی شعور سے آراستہ ہو کر سامنے آئیں مگر پاکستان کے فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے ملک کے نوجوانوں کو بونے، بالشتیے اور شاہ دولہ کے چوہے بنانے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ ساری دنیا میں طلبہ یونین نوجوانوں کو باشعور بناتی ہے مگر جنرل ضیا الحق نے 1984ء میں طلبہ یونین پر پابندی لگادی۔ عام خیال یہ تھا کہ یہ پابندی صرف جنرل ضیا الحق کے دور تک ہے۔ جنرل ضیا نہیں ہوں گے تو یہ پابندی بھی نہیں ہوگی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ اس پابندی کے پیچھے فوجی اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہے۔ پیپلز پارٹی کی کئی حکومتوں نے اعلان کیا کہ وہ طلبہ یونین بحال کریں گی مگر انہیں اس کی جرأت نہ ہوسکی۔ اس طرح پاکستان کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ نے ملک کی نئی نسل کا سیاسی ارتقا ناممکن بنایا ہوا ہے۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ بھی قوم کے ارتقا کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ملک ریاض پر 460 ارب کا جرمانہ کیا تو اس کی خبر صرف جسارت اور ڈان میں شائع ہوئی۔ جنگ، دنیا، دی نیوز اور 92 نیوز اور ایکسپریس میں یہ خبر شائع ہی نہیں ہوئی۔ اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے اخبار کا یہ حال ہے کہ وہ پہلے شریف خاندان کا ترجمان بنا، پھر اس کا پمفلٹ بنا اور آج کل وہ شریف خاندان کا ٹوائلٹ پیپر بنا ہوا ہے۔ ہمارے ٹی وی چینلوں کے بیش تر ٹاک شوز مرغوں کی لڑائی کا منظر پیش کرتے ہیں۔ کیا ایسے مواد سے قوم کا ارتقا ہوسکتا ہے؟