انسانوں میں بدترین لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی زندگی ’’طاقت مرکز‘‘ یا ’’دولت مرکز‘‘ ہوتی ہے۔ انسانوں میں بہترین لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی زندگی ’’خدا مرکز‘‘ یا ’’محبت مرکز‘‘ ہوتی ہے۔ اقبال انسانی تاریخ کے شناوروں میں سے ایک ہیں۔ اس لیے انہوں نے قوت یا طاقت کی تباہ کاریوں اور محدودات پر دو شاندار نظمیں لکھی ہیں۔ پہلی نظم کا عنوان قوت اور دین ہے۔ اس نظم میں اقبال نے فرمایا ہے۔
اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قبا چاک
تاریخ اُمم کا یہ پیامِ ازلی ہے
صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک
اس سیلِ سبک سیر و زمیں گیر کے آگے
عقل و نظر و علم و ہنر ہیں خس و خاشاک
لادیں ہو تو ہے زہرِ ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک
اقبال کہہ رہے ہیں کہ قوت انسانی تاریخ کو تاراج کرنے والی چیز ہے۔ یہ اگر دین سے محروم ہو تو زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر ہلاکت آفریں ہے۔ البتہ اگر یہ دین کی حفاظت کے لیے بروئے کار آنے والی ہو تو یہ ہر مشکل کا حل ہے۔ اقبال کی ایک اور نظم ہے۔ ’’ہندی اسلام‘‘ اس نظم میں اقبال نے کہا ہے۔
ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوتِ بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خدا داد
اے مردِ خدا! تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد
مسکینی و محکومی و نومیدیِ جاوید
جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!
اقبال کہہ رہے ہیں کہ طاقت کے بغیر ملت کی وحدت کو برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان کے مسلمان طاقت سے محروم ہوگئے ہیں۔ چناں چہ ہندوستان کے ملّا کو یہ خوش فہمی یا غلط فہمی لاحق ہوگئی ہے کہ وہ ہندوستان میں نماز پڑھ سکتا ہے تو اس کا دین آزاد ہے۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ طاقت یا قوت دین کی بقا و سلامتی کے لیے بہت کم بروئے کار آئی ہے۔ بیش تر صورتوں میں حکمرانوں، بادشاہوں، آمروں اور جرنیلوں نے اسے انسانوں اور معاشروں کو غلام بنانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ چنگیز خان انسانی تاریخ کے بڑے فاتحین میں سے ایک ہے۔ چنگیز خان کی قوت کا یہ عالم تھا کہ اس کی فوجیں ٹڈی دل کی طرح یلغار کرتی تھیں۔ چنگیز خان شہروں کو تباہ کردیتا تھا۔ بستیوں کو تاراج کردیتا تھا۔ وہ شہروں کو فتح کرنے سے پہلے اس کے سرکردہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتا تھا اور شہر فتح کرنے کے بعد سب سے پہلے سرکردہ لوگوں کو یہ کہہ کر ہلاک کرتا تھا کہ جو لوگ اپنی قوم کے نہ ہوئے وہ میرے کیوں کر ہوں گے۔ وہ دہشت پھیلانے کے لیے بستیوں اور شہروں میں کھوپڑیوں کے مینار بناتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کی سیاسی اور علمی قوت کے مرکز بغداد کو فتح کرنے کے بعد اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ چنگیز خان کی یہ فتوحات دیکھ کر خیال آتا تھا کہ چنگیز کی نسلیں ہزاروں سال تک مفتوحہ علاقوں پر راج کریں گی لیکن بغداد میں چنگیز خان کی دوسری نسل اسلام کی روحانی طاقت سے مسحور ہو کر اسلام لے آئی اور اقبال نے ایک سرشاری کے ساتھ مسلمانوں کی اس روحانی فتح کا جشن مناتے ہوئے کہا۔
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
بلاشبہ تاتاری ایک بڑی عسکری قوت تھے لیکن ان کے پاس کوئی الہامی مذہب نہیں تھا۔ وہ خدا کا ایک دھندلا سا تصور رکھتے تھے۔ چناں چہ بغداد فتح کرنے کے بعد جب انہوں نے اسلام کی الہیات دیکھی، اس کی تفسیری روایت دیکھی، اس کی تہذیبی قوت دیکھی تو وہ اس قوت کے آگے سرنگوں ہوگئے۔ اس طرح بقول اقبال امت کے جسد میں نئے اور تازہ خون کا اضافہ ہوگیا۔
20ویں صدی میں امریکا وقت کی دو سپر پاور میں سے ایک تھا۔ صاحب نظراں نشہ ٔ قوت ہے خطرناک کے مصداق امریکا ویت نام پر چڑھ دوڑا۔ امریکا کے پاس بڑی فوج تھی، بڑی معیشت تھی، بڑی سیاسی قوت تھی، بڑی سفارتی طاقت تھی، بڑی ابلاغی قوت تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ چند ماہ میں ویت نام کا بھرکس نکال کر اسے فتح کرلے گا۔ لیکن ویت نام کے جاں بازوں نے امریکا کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ امریکا چند ماہ میں ویت نام کو فتح کرنے والا تھا مگر وہ دس سال میں بھی ویت نام کو فتح نہ کرسکا۔ اس کے 52 ہزار فوجی مارے گئے، امریکا نے ویت نام کے چپے چپے پر بمباری کی۔ اس کے کھیت اور کھلیاں جلا ڈالے مگر ویت نامی مزاحمت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ امریکا میں جنگ کے خلاف تحریک شروع ہوگئی۔ یہ تحریک اتنی قوی ہوئی کہ امریکا کو ویت نام سے واپس آنا پڑا۔ امریکا اور ویت نام کا مقابلہ ہاتھی اور چیونٹی کا مقابلہ تھا۔ مگر چیونٹی نے ہاتھی کو مار گرایا۔ البتہ اتنی بات ضرور تھی کہ پوری کمیونسٹ دنیا جنگ میں ویت نام کی مدد کررہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ آخر امریکا کی شکست کا سبب کیا تھا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امریکا صرف عسکری اور معاشی طاقت تھا اس کے پاس کوئی روحانی، اخلاقی اور تہذیبی طاقت نہیں تھی۔
1979ء میں سوویت یونین ایک لاکھ فوج کے ساتھ افغانستان میں در آیا۔ سوویت یونین وقت کی دو سپر پاورز میں سے ایک تھا۔ اس کی عسکری طاقت بے پناہ تھی۔ اس کی معاشی طاقت بھی کم نہیں تھی مگر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہادی صف آرا ہوگئے۔ جہاد کے ادارے کے بارے میں عام خیال تھا کہ جہاد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موقوف ہوچکا مگر افغان جہاد نے جہاد کے ادارے کو اس طرح زندہ کیا جیسے جہاد کہیں گیا ہی نہیں تھا۔ اہم بات یہ ہوئی کہ افغان جہاد نے جہاد کے ادارے کو عالم گیر یا امت گیر بنادیا۔ جہاد نے برگ و بارلانا شروع کیے تو امریکا اور یورپ بھی جہاد کے حامی بن کر کھڑے ہوگئے۔ قصہ کوتاہ اسلام کی روحانی طاقت اور جزبہ جہاد اور شوق شہادت نے سوویت یونین کو دس سال میں اس طرح ہرایا کہ سوویت یونین کا صدر افغانستان کو سوویت یونین کا رستا ہوا ناسور قرار دینے اور اپنی فوجیں واپس بلانے پر مجبور ہوگیا۔
نائن الیون کے بعد امریکا اور اس کے 48 اتحادی افغانستان میں آئے تو ساری دنیا نے کہا کہ اب افغانستان میں وہی کچھ ہوگا جو امریکا چاہے گا مگر ہم نے اپنے کالم میں عرض کیا کہ اگر افغانستان کی پانچ فی صد آبادی بھی امریکا کی مزاحمت پر آمادہ ہوگئی تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شکست ہوجائے گی۔ امریکا اور طالبان کی قوت کا کوئی موازنہ ہی نہ تھا۔ امریکا کی اور طالبان کی سیاسی طاقت میں ایک اور ایک لاکھ کی نسبت تھی۔ ان کی معاشی طاقت میں ایک اور ایک کروڑ کی نسبت تھی۔ ان کی عسکری طاقت میں ایک اور ایک ارب کی نسبت تھی مگر طالبان حق پر تھے۔ امریکا باطل پر کھڑا تھا۔ طالبان حق کے لیے قربانیاں دے رہے تھے۔ ان قربانیوں پر صبر کررہے تھے۔ یہ طالبان کی روحانی، اخلاقی اور تہذیبی قوت کا اظہار تھا۔ چناں چہ 19 سالہ جنگ کے باوجود امریکا اور اس کے 48 اتحادی ناکام رہے اور طالبان کامیاب رہے۔ وہ امریکا جو طالبان کو وحشی اور درندے کہتا تھا ان کے ساتھ مذاکرات کرتا اور معاہدے پر دستخط کرتا نظر آیا۔
1970ء کی دہائی میں اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم تھیں۔ وہ نہرو کی بیٹی اور نئے بھارت کی معمار سمجھی جاتی تھیں۔ ان کی سیاسی شکست کو ناممکن کا درجہ حاصل تھا۔ لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں نے جنتا پارٹی کے نام سے سیاسی اتحاد بنا کر اندرا گاندھی کو چیلنج کرنا شروع کیا۔
ایک وقت آیا کہ اندرا گاندھی کا صبر جواب دے گیا اور انہوں نے ملک میں ایمرجنسی لگادی۔ اس صورت حال نے بھارت کو سیاسی آتش فشاں بنادیا۔ انتخابات ہوئے تو جنتا پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے اندرا گاندھی کو اقتدار سے باہر کردیا۔ ایمرجنسی کی طاقت اندرا گاندھی کے ذرا بھی کام نہ آسکی۔
پاکستان میں فوجی آمروں کی تاریخ طاقت کی ناکامیوں کی تاریخ ہے۔ 1970ء میں انتخابات ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کرلی۔ جمہوریت کا اصول اکثریت ہے۔ چناں چہ جنرل یحییٰ کو اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردینا چاہیے تھا۔ لیکن انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت کو مشرقی پاکستان میں مداخلت کا موقع مل گیا۔ بھارت کی مداخلت سے سقوط ڈھاکا کی راہ ہموار ہوئی۔ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے نہایت شرمناک طریقے سے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ جنرل یحییٰ کی عسکری طاقت پاکستان کے کچھ کام نہ آسکی۔ جنرل ضیا الحق نے 1977ء میں اقتدار پر قبضہ کیا۔ انہوں نے بھٹو کو پھانسی پر چڑھادیا مگر تاریخ میں بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ جنرل ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ کچھ وقت کے لیے ایسا لگا کہ پیپلز پارٹی ختم ہوگئی ہے مگر جیسے ہی سازگار حالات پیدا ہوئے بے نظیر بھٹو کا لاہور میں تاریخی استقبال ہوا اور بے نظیر بھٹو 1988ء میں ملک کی وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئیں۔ جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف اور نواز لیگ کو فنا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے دس سال کے لیے نواز شریف کو ملک سے باہر بھیج دیا لیکن پنجاب کی حد تک سہی میاں نواز شریف بھی اپنی جگہ موجود ہیں اور ان کی جماعت بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ جب سے میاں شہباز شریف ملک کے وزیراعظم بنے ہیں اور پی ڈی ایم کی حکومت آئی ہے جرنیل عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو ختم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ عمران خان پر ایک قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے۔ 9 مئی کے واقعات بعد عمران خان اور ان کی جماعت کے خلاف تواتر سے اقدامات ہورہے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کو توڑا جارہا ہے، عمران خان کا گھیرائو کیا جارہا ہے، اسٹیبلشمنٹ عمران خان اور ان کی جماعت کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اس کا فطری طریقہ یہ ہے کہ وہ ملک میں انتخابات کرائے اور عمران خان اور ان کی جماعت کو ووٹ کی طاقت سے ختم کردے۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے طاقت کا کھیل کھیلا جارہا ہے لیکن ننگی طاقت تاریخ میں بہت کم کامیاب ہوئی ہے اور اگر وہ کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو اس کی کامیابی قلیل مدت کے لیے ہوتی ہے۔