امت مسلمہ میں صدیوں سے مسلمانوں کے زوال کا شور برپا ہے۔ یہ شور کہیں تحریر بن جاتا ہے کہیں تقریر میں ڈھل جاتا ہے۔ کہیں اس سے مایوسی کی اتھاہ گہرائی نمایاں ہوتی ہے۔ کہیں اس سے کوئی تحریک برپا ہوتی نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کے زوال کے قصے نے مسلمانوں میں ’’ماتمی کیفیات‘‘ بھی پیدا کی ہیں۔ اس قصے نے برصغیر میں مولانا حالی سے مسدس حالی لکھوائی۔ اس نظم میںایسا اخلاص، ایسا غم اور ایسی شدت ہے کہ اچھے خاصے بے حس لوگ بھی اس نظم کو پڑھ کر رو دیتے ہیں مسلمانوں کے زوال کے معاملے نے اقبال سے ’’شکوہ‘‘ لکھوائی۔ یہ نظم اپنی تاثیر کی وجہ سے آج بھی قاری کے پورے وجود پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس نظم کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کے زوال کے احساس کی شدت اتنی بڑھی کہ شاعر کسی اور سے کیا اللہ سے بھی شکوہ کرنے پر مجبور ہو گیا، یہ شدت ایسی ہے کہ اقبال کے خاکم بدھن کہنے کے بعد بھی کم نہیں ہوتی۔
مسلمانوں کے زوال کے قصے کی اس شدت کا اہم ترین پہلو یہ ہے کے مسلمانوں کی ساری قوت زوال کے احساس اور اس کے بیان پر صرف ہو گئی اور سوال پر کم ہی غور کیا گیا کہ مسلمانوں کے زوال کا مفہوم کیا ہے اور زوال کا یہ بیان جنم کہاں سے لیتا ہے؟
امام غزالیؒ کی خودنوشت المنقذ من الضلال پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یونان کے فلسفے اور اسماعلیت کے زیراثر مسلمانوں میں فکر و عمل کی بہت سی خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں، یہاں تک کہ مسلمانوں کے بنیادی عقاید بھی ان خرابیوں سے متاثر ہونے لگے تھے۔ غزالی نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں دین کی جتنی تعبیرات تھیں ان کے حوالے سے میرا دل مطمئن نہ تھا لیکن مسلمانوں کے اس ’’زوال‘‘ کا شعور غزالی کے سوا کسی کو بھی نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو یہ شعور اور اس کے اظہار کی سطح پر موجود نہیں تھا اور اس سلسلے میں اصلاح احوال کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی تھی۔ لیکن تاتاریوں نے جیسے ہی بغداد پر قبضہ کیا ہر طرف مسلمانوںکے زوال کا شور برپا ہو گیا۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے سے پہلے مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں تھی۔ علم کے بہتے دریا میں ایک ٹھیرائو کی کیفیت تھی۔ مسلمانوں میں عیش پرستی کے مظاہر عام تھے۔ مسلمان نسلی امتیازات پر اصرار کرتے نظر آتے تھے لیکن اس زوال کا ذکر کہیں موجود نہیں تھا۔ لیکن جیسے ہی سلطنت عثمانیہ ختم ہوئی مسلمانوں کے زوال کا شور ہر طرف برپا ہو گیا۔
برصغیر کے دائرے میں بھی یہی ہوا۔ مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ لیکن بہادر شاہ ظفر تک آتے آتے مسلمانوں میں کئی خرابیاں پیدا ہو چکی تھیں۔ ان کی اخلاقیات میں کجی پیدا ہو گئی تھی۔ ان کی قوت فکر و عمل میں ایک طرح کا اضمحلال آگیا تھا۔ مسلمان عیش پرست ہو گئے تھے۔ وہ کھیل تماشوں میں پڑ گئے تھے۔ لیکن اس صورت حال کو مسلمانوں کے زوال سے تعبیر کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ لیکن جیسے ہی مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہوا مسلمانوں کے زوال کا ماتم ہر طرف شروع ہو گیا۔ اس صورت حال کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کے زوال کا مفہوم بے شمار لوگوں کے نزدیک مسلمانوں کا سیاسی زوال ہے۔ یعنی مسلمانوں کے زوال کے قصے کا مسلمانوںکے سیاسی اختیار و اقتدار یعنی Political Authority کے زوال سے گہرا تعلق ہے۔ بلکہ بہت سے لوگ ان دونوں چیزوں کو ہم معنی سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ سیاسی اقتدار اعلیٰ کا زوال بہت اہم چیز ہے لیکن سیاسی زوال مطلق یا Absolute زوال نہیں ہے۔ بلکہ یہ جزوی یا اضافی یا Reletive زوال ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں میں زوال کے حوالے سے جو بیانیہ یا Narrative ایجاد ہوا ہے اس میں جزوی اور کلی زوال کا فرق موجود نہیں اور مسلمانوںکے جزوی زوال کو کلی زوال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ صرف امت مسلمہ کے مجددّین ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے زمانے میں بھی مسلمانوں کی اخلاقی کمزوریوںکی نشاندہی کی۔ ان کی اصلاح کی اور مسلمانوں کو احساس دلایا کے مسلمانوں کی اصل کمزوری اخلاقی اور علمی کمزوری ہے۔ امام غزالیؒ نے بھی تجزیے کا کام انہی دو دائروں میں کیا۔ مجدد الف ثانیؒ نے جہانگیر کے زمانے میں جو تجدیدی کارنامہ انجام دیا اس کا تعلق بھی الہٰیات، اخلاقیات اور علمیات سے تھا۔ شاہ ولی اللہ نے بھی انہی امور کو پیش نظر رکھا۔ انہوں نے مسلمانوں کی اخلاقی اصلاح کی اور قرآن و حدیث کے علم کو برصغیر میں پھر سے زندہ کیا۔ مولانا مودودیؒ کے حوالے سے یہ خیال عام ہے کہ مولانا کے یہاں سیاست کو غلبہ حاصل ہو گیا ہے لیکن یہ ایک سطحی خیال ہے۔ اس کی سطحیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ مولانا کی سیاست اسلام کی الہٰیات ہی سے برآمد ہوتی ہے۔ اس خیال کی سطحیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مولانا کے تجدیدی کام میں سیاست مولانا کی فکر کا محض ایک پہلو ہے اور مولانا کے یہاں دین کے غلبے کا تصور ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے۔ چنانچہ دینی اور عصری تقاضوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو مولانا کا تجدیدی نمونہ دوسرے مجددین کے مقابلے میں زیادہ کامل ہے۔
غور کیا جائے تو مسلمانوں کے زوال کا سب سے زیادہ شور برصغیر میں مچا۔ اس شور کی کمزوری کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جس دور کو مسلمانوں کا عہد زوال کہا گیا اس دور میں مسلمانوں نے دنیا کی تیسری بڑی زبان اردو تخلیق کی۔ اس زبان میں غالب، اکبر الہٰ آبادی اور اقبال جیسے شاعر پیدا ہوئے۔ اس زبان میں عربی اور فارسی کے بعد مذہبی ادب کے سب سے بڑی روایت تخلیق ہوئی۔ اس روایات میں مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا مودودیؒ جیسے عالم پیدا ہوے۔ برصغیر کی ملت اسلامیہ کے اجتماعی شعور کی قوت نے عہد ِ زوال میں پاکستان کے نام سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت تخلیق کی۔ کیا کوئی ملت اتنے بڑے تخلیقی کارنامے کو مکمل زوال کی حالت میں انجام دے سکتی ہے؟ یہاں سوال ہے کہ مسلمانوں کے زوال کا حقیقی تناظر اور حقیقی مفہوم کیا ہے؟
رسول اکرمؐ کی ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا پر رسول اکرمؐ کا زمانہ مبارک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کا دور آئے گا اور یہ دور رہے گا جب تک اللہ کو منظور ہو گا۔ خلافت کے بعد ملوکیت کا عہد آئے گا اور جب تک اللہ کی مرضی ہو گی یہ عہد رہے گا۔ ملوکیت کے بعد بادشاہت کا زمانہ آئے گا اور یہ زمانے رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ پسند فرمائیں گے۔ بادشاہت کے بعد بدترین جبر کی حکومت کا دور ہو گا۔ اس عہد کے اختتام پر دنیا ایک بار پھر خلافت علی منہاج نبوہ کے تجربے کی طرف لوٹے گی۔
اس حدیث شریف میں ہر زمانہ رسول اکرمؐ کے زمانے سے مفہوم اخذ کر رہا ہے۔ رسول اکرمؐ کا زمانہ وحی کا زمانہ ہے۔ رسول اکرمؐ کی موجودگی کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں زمین وحی کے وسیلے سے آسمان کے ساتھ منسلک تھی۔ چنانچہ رسول اکرمؐ کے وصال پر سب سے بڑا تبصرہ یہ کیا گیا اب وحی کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گیا۔
خلافت راشدہ کا زمانہ عظیم الشان زمانہ ہے۔ لیکن یہ زمانہ رسول اکرمؐ کے زمانے سے کمتر زمانہ ہے اور اس میں نبی اکرمؐ کے زمانہ مبارک کے حوالے سے ایک طرح کے زوال کی کیفیت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خود اس زمانے کی عظمت کیا ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی روحانی اور علمی محرومی یہ ہے کہ وہ لفظ ’’راشد‘‘ کے معنی بھول گئے ہیں۔ ’’راشد‘‘ کے معنی ہیں ہدایت یافتہ یا The Guided one یعنی وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی میسر ہے۔ چنانچہ ’’خلفائے راشدین‘‘ سے مراد وہ مقدس ہستیاں ہیں جو ہدایت یافتہ تھیں لیکن سیدنا علیؓ کے بعد خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو گئی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ملوکیت مسلمانوں کا کامل زوال ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ملوکیت مسلمانوں کا جزوی زوال ہے۔ اس زوال کی اصل حقیقت یہ ہے کہ اب حاکم ’’ہدایت یافتہ‘‘ نہیں ہے۔ بلکہ وہ حکمرانی کے لیے اپنی ’’اخلاقی اہلیت‘‘ پر انحصار کر رہا ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ ملوک کی اخلاقی اہلیت ایسی اہلیت ہے جو ماورا سے کٹ نہیں گئی ہے تو اس سے بہت دور ضرور ہو گئی ہے۔ بادشاہت ملوکیت سے نچلا درجہ ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اب حکمرانوں کی اخلاقی اہلیت کمزور ہو گئی ہے اور ان کا انحصار عقل اور ظاہری علم پر ہو گیا ہے۔ اس دائرے کی آخری منزل جبر کی حکومت ہے اور جبر کے ساتھ حکومت کرنے والے لوگ وہ ہیں جو عقل اور علم کی اہلیت سے بھی محروم ہیں۔ وہ صرف طاقت کے زور پر حکومت کر رہے ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں یہ مسلمانوں کے زوال کی انتہا ہے مگر اس مرحلے پر بھی مسلمانوں کا زوال مطلق یا کلی نہیں جزوی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کے عقاید محفوظ ہیں۔ ان کی عبادات کا نظام زندہ ہے۔ ان کی اخلاقیات کمزور پڑی ہیں مگر فنا نہیں ہو گئی ہیں۔ مسلمانوںکا زوال اس لیے بھی ہمیشہ جزوی رہے گا کہ اسلام کوئی زمانی یا مکانی حقیقت نہیں ہے وہ قیامت تک کے لیے آیا ہے۔ اور جو دین قیامت تک کے لیے آیا ہو وہ کبھی مطلق زوال کی زد میں نہیںآسکتا۔ اسلام کی اسی نوعیت کی وجہ سے امت مسلمہ میں تجدید کا دروازہ ایک مستقل ادارے کی حیثیت رکھتا ہے اور جس امت میں تجدید کے ادارے کا وجود ہو وہ کبھی مطلق زوال کا شکار نہیں ہو سکتی کیونکہ تجدید کا تصور مطلق زوال کی ضد ہے۔