اقبال نے مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا تھا۔
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
لیکن پاکستان کے فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے اقبال کے اس شعر کو اُلٹ دیا ہے اور یہ شعر اُلٹ کر کچھ اس طرح ہو گیا ہے۔
ہو حلقۂ یاراں تو وہ لوہے کی طرح سخت
رزمِ حق و باطل ہو تو بس موم ہے مومن
اس سے پہلے کہ اصل گفتگو شروع ہو منہ کا ذائقہ کڑوا کرنے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کا ایک حالیہ بیان ملاحظہ فرمالیجیے۔
شہباز شریف نے سوئٹزر لینڈ کے وزیر خارجہ کے دورے کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم جنگیں لڑنے میں اپنے وسائل ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان خطے میں تنائو نہیں چاہتا بلکہ وہ دنیا میں امن اور خوشحالی چاہتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہم خطے میں کشیدگی اور جنگوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے وسائل کو ترقی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فریق ثانی کو بھی یہی سوچ اپنانی چاہیے۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو حق و انصاف کا پرچم لے کر کھڑا ہوتا ہے دنیا اس کی دشمن ہو جاتی ہے اور اس پر ظلم، جبر اور جنگ کی ہر صورت مسلط کردیتی ہے۔ سیدنا ابراہیم ؑ نے ایک خدا کی کبریائی کا اعلان کیا تھا کہ بادشاہِ وقت نمرود سیدنا ابراہیم ؑ کے خون کا پیاسا ہوگیا۔ اس نے سیدنا ابراہیم ؑ کو آگ میں زندہ جلادینے کی سازش کی۔ اگر اللہ تعالیٰ ایک معجزے کے ذریعے آگ کو گلزار نہ بناتے تو نمرود نے سیدنا ابراہیم ؑ کو زندہ جلادینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ سیدنا موسیٰؑ اور سیدنا ہارونؑ نے بھی صرف سچے خدا کی خدائی کا اعلان کیا تھا کہ بادشاہ وقت فرعون ان کا اور ان کی قوم کا دشمن ہوگیا اور اگر اللہ رب العالمین سیدنا موسیٰؑ اور ان کی قوم کو ایک معجزے کے ذریعے نہ بچاتا تو نمرود نے سیدنا موسیٰؑ اور ان کی قوم کو زیر و زبر کردینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ رسول اکرمؐ سے زیادہ نرم خو انسان دنیا نے نہیں دیکھا مگر جب آپؐ نے لا الہ الااللہ محمدالرسول اللہ کا کلمہ بلند کیا تو تمام کفار اور مشرکین آپؐ کے دشمن ہوگئے اور بالآخر وہ وقت آیا جب آپؐ پر کفار نے بدر کے میدان میں آپؐ پر اور آپؐ کے صحابہ پر جنگ مسلط کردی۔ انبیا و مرسلین کی اس روایت کو ہمارے مجددین تک نے نبھایا ہے۔ مجدد الف ثانیؒ نے تن تنہا بادشاہِ وقت جہانگیر کو چیلنج کیا اور اس سے خلاف اسلام رجحانات کی بیخ کنی کراکے چھوڑی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کو نہ خوامخواہ جنگ کی خواہش کرنی چاہیے اور نہ جنگ ناگزیر ہوجائے تو اس سے بھاگنا چاہیے۔ میاں شہباز شریف کے بیان کو دیکھا جائے تو وہ بھارت کے ساتھ جنگ کے خیال سے لرزاں و ترساں ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت کشمیر اور خود بھارت کے مسلمانوں پر کتنے ہی ظلم کیوں نہ کرلے وہ پاکستان کے خلاف کتنی ہی سازشیں کیوں نہ ایجاد کرلے ہم بھارت سے جنگ لڑنے والے نہیں۔ ہم تو امن پسند ہیں ہم تو صلح جو ہیں ہم تو اپنے وسائل ترقی و خوشحالی پر صرف کریں گے۔ ہم میاں شہباز شریف کو یاد دلاتے ہیں کہ ہم نے بھارت کے خلاف آخری جنگ 1971ء میں لڑی تھی۔ اس جنگ کو اب 52 سال ہوگئے ہیں۔ اس عرصے میں ہمارے حکمرانوں کو امن ہی امن میسر آیا ہے۔ چناں چہ وہ قوم کو بتائیں کہ انہوں نے ملک کے وسائل ترقی و خوشحالی پر خرچ کرکے ملک و قوم کو کتنی ترقی دی ہے۔ اس وقت ہماری صورت حال یہ ہے کہ ہماری آبادی 23 کروڑ ہے اور 23 کروڑ میں سے 10 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے کھڑے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی یومیہ آمدنی ایک اور دو ڈالر یعنی 300 اور 600 روپے کے درمیان ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو زندہ درگور ہیں۔ جن سے زندگی کا بوجھ اٹھائے نہیں اُٹھ رہا۔ مزید پانچ کروڑ لوگ وہ ہیں جن کی یومیہ آمدنی ایک ہزار روپے سے بارہ سو روپے کے درمیان ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جی رہے ہیں مگر گھسٹ گھسٹ کر جی رہے ہیں۔ شہباز شریف کی حکومت نے قوم پر وہ مہنگائی مسلط کی ہے جن لوگوں کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے ان کا بھی بہت مشکل سے گزارہ ہورہا ہے۔ ہم جس فلیٹ میں رہتے ہیں وہ صرف تین کمروں پر مشتمل ہے۔ اس کا کرایہ بیس سے پچیس ہزار روپے ہے۔ اس فلیٹ میں ماہانہ بل 18 سے 20 ہزار آرہا ہے۔ اس طرح اگر کسی شخص کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ ہے تو 45 ہزار روپے تو صرف فلیٹ کے کرائے اور بجلی کے بل میں چلے جاتے ہیں۔ گیس، پانی اور مینٹی ننس کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک پانچ چھے افراد پر مشتمل گھرانہ باقی ماندہ پچاس ہزار روپے میں کیا کھائے، کیا بچوں کی تعلیم پر صرف کرے اور کیا بچوں کی شادی بیاہ کے بارے میں سوچے۔ جیسا کہ ظاہر ہے ہماری یہ صورت حال اس کے باوجود ہے کہ ہم نے گزشتہ 52 سال سے بھارت کے ساتھ ایک بھی جنگ نہیں لڑی۔
تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے ہمیشہ دشمنوں کی غلامی کی ہے اور قوم کے ساتھ ہولناک درجے کی دشمنی کرکے دکھائی ہے۔ مغرب ایک ہزار سال سے اسلام دشمن طاقت ہے اور امریکا 20 ویں صدی کے آغاز سے اب تک مغرب کا رہنما ہے۔ امریکا کی خوں آشامی کا عالم یہ ہے کہ اس میں آباد سفید فام باشندوں نے امریکا پر قبضہ کرنے کے لیے 8 سے 10 کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کردیا۔ امریکا نے ویت نام پر جنگ مسلط کی اور 10 لاکھ سے زیادہ ویت نامیوں کو مار ڈالا۔ امریکا نے کوریا کی جنگ میں 30 لاکھ انسانوں کو تہہ تیغ کیا۔ امریکا نے دوسری عالمی جنگ میں کسی جواز کے بغیر جاپان کے 2 شہروں پر ایٹم بم گراکر ڈیڑھ دو لاکھ لوگوں کو ہلاک اور اس سے زیادہ کو معذور کردیا۔ ہمارے جرنیلوں نے پہلے دن سے اس امریکا کی غلامی کی۔ اس غلامی کا آغاز جنرل ایوب سے ہوا۔ انہوں نے امریکا کی آشرباد سے ملک و قوم پر مارشل لا مسلط کیا۔ انہوں نے پاکستان کے دفاع کو امریکا مرکز بنایا۔ انہوں نے ملک کو غیر ملکی قرضوں کے نشے کا عادی بنایا۔ انہوں نے امریکا کے معاہدوں سیٹو اور سینٹو پر دستخط کرکے امریکی غلامی کا طوق پاکستان کے گلے میں ڈالا۔ جنرل ایوب امریکا کی غلامی میں اتنے آگے بڑھے کہ خود انہیں احساس ہونے لگا کہ ہم امریکا کے غلام ہیں۔ چناں چہ انہوں نے الطاف گوہر سے ایک خودنوشت لکھوائی۔ اس خود نوشت میں انہوں نے تاثر دیا کہ ہم امریکا کے دوست ہیں اس کے غلام نہیں۔ لیکن ظفر اقبال نے کہا ہے۔
کہیں چھپائے سے چھپتی ہے بے حسی دل کی
ہزار کہتا پھرے مست ہے قلندر ہے
جنرل ایوب نے امریکا کی جو غلامی ایجاد کی تھی وہ صرف انہی تک محدود نہ رہی۔ جنرل ایوب کے بعد جنرل یحییٰ بھی امریکا کے غلام بن کر اُبھرے۔ جنرل ضیا الحق بھی طویل عرصے تک امریکا کی گود میں بیٹھے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کو امریکی صدر جارج بش کی محبت میں اتنا آگے بڑھے کہ مغربی ذرائع ابلاغ انہیں صدر بش کے نام کی رعایت سے ’’بشرف‘‘ لکھنے اور پکارنے لگے۔ میاں نواز شریف سول حکمران تھے مگر ان کی امریکا پرستی کا یہ عالم تھا کہ جنرل پرویز نے میاں نواز شریف کو قید سے رہا کرکے سعودی عرب روانہ کیا تو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا اپنے آدمی کو نکال کر لے گیا۔ امریکا ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے اور انہیں پھانسی گھاٹ تک لے جانے کا ذمے دار تھا مگر بے نظیر بھٹو نے اسی امریکا کی گود میں بیٹھ کر جنرل پرویز کے ساتھ این آر او پر دستخط کیے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے امریکا کیا بھارت کی بھی غلامی کی ہے۔ قائداعظم نے ایک بار کہا تھا کہ اگر بھارت نے اپنی مسلمان اقلیت کے ساتھ ظلم کیا تو پاکستان بھارت میں فوجی مداخلت کرے گا لیکن بھارت نے 25 کروڑ بھارتی مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے اور پاکستان کے حکمران طبقے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جنرل ضیا الحق نے کشمیریوں سے کہا تھا کہ اگر وہ اپنی جدوجہد کو مسلح اور مقبول بنالیں تو پاکستان کشمیر میں فوجی مداخلت کرے گا مگر جب یہ ہوگیا اور کشمیریوں نے کہا اب آپ ہماری مدد کریں تو پاکستان کے حکمرانوں نے کہا کہ ہم کشمیر کے لیے پاکستان کو دائو پر نہیں لگا سکتے۔ 1990ء کی دہائی میں بھارتی پنجاب میں خالصتان کی تحریک عروج پر تھی مگر پاکستان کے حکمرانوں نے خالصتان کی تحریک چلانے والے سکھوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کردیں۔ مودی اقتدار میں آئے تو میاں نواز شریف ایک درباری کی طرح ان کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے 75 سال میں پاکستان کے عوام کو نہ خدا مرکز زندگی دی، نہ قومی زندگی میں اسلام کو بالا دست بنایا۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے قوم کو آزاد تک نہیں ہونے دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ قوم جرنیلوں کی غلام ہے، شریفوں اور بھٹوئوں کی غلام ہے، ہمیں آزاد ہوئے 75 سال ہوگئے مگر ملک میں خواندگی کی شرح 56 فی صد ہے۔ ملک کی عظیم آبادی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ لوگوں کی اکثریت بیمار پڑتی ہے تو اس کے پاس علاج کی سہولت نہیں ہوتی، اس کے باوجود شہباز شریف جنگ کی اس طرح مذمت کررہے ہیں جیسے ہم نے 75 سال جنگ لڑتے گزارے ہیں