محبت زندگی اور کائنات کی سب سے بڑی قوت اور اس کا سب سے بڑا جمال ہے۔ محبت کی قوت اور جمال کو ظاہر کرنے کے لیے میر تقی میر نے کہا ہے۔
محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میر تقی میر کی شاعری اقبال کی شاعری کی طرح مذہبی نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک سرسری اور غلط خیال ہے۔ میر کی شاعری مذہبی تہذیب ہی کی پیدا کردہ شاعری ہے اور میر کی شاعری کی روح اور مواد اقبال کی شاعری سے زیادہ مذہبی نہیں تو اس سے کم مذہبی بھی نہیں۔ اس کی ایک اچھی اور بڑی مثال مذکورہ بالا شعر ہے۔ غور کیا جائے تو اس شعر کی پشت پر وہ حدیث قدسی کھڑی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جائوں۔ چناں چہ میں نے کائنات کو خلق کیا۔ اس حدیث قدسی میں خدا کا ’’چاہنا‘‘ مخلوق کی محبت کے تقاضے سے ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میر کے شعر کا مطلب یہ ہے کہ یہ محبت ہے جس نے اس کائنات اور اس میں موجود مخلوقات کو وجود بخشا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ محبت عدم کے اندھیرے کو وجود کی روشنی سے منور کرنے والی قوت ہے۔ وہ اندھیرے سے روشنی کشید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ ناممکن کو ممکن بنانے والی حقیقت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو محبت کائنات کے ظہور کا باعث بھی ہے اور کائنات گیر قوت بھی۔ لیکن محبت کی قدرت اور اس کا جمال صرف خدا کی کائناتی محبت یا Cosmic Love کے حوالے ہی سے ظاہر نہیں بلکہ انسانی سطح پر بھی اس کی قوت اور اس کا جمال پوری آب و تاب کے ساتھ ظاہر ہے۔ میر کا ایک شعر ہے۔
کوہکن کیا پہاڑ کاٹے گا
پردے میں جرأت آزما ہے عشق
ہماری تہذیب میں عشق محبت کی انتہا ہے۔ انسانی وجود کی کلیت یا اس کی Wholness کی علامت ہے۔ میر کے اس شعر میں عشق اپنی صفات کے مظہر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ شعر میں اس تاریخی واقعے کی طرف اشارہ ہے جس میں فرہاد سے کہا گیا تھا کہ تجھے شیریں درکار ہے تو پہاڑ سے دودھ کی نہر نکال کر دکھا۔ فرہاد نے اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے میر صاحب فرما رہے ہیں کہ اس واقعے میں دیکھنے کی چیز فرہاد نہیں اس کا عشق ہے۔ فرہاد کو عشق کی قوت فراہم نہ ہوتی تو وہ تن تنہا پہاڑ کاٹنے اور اس سے دودھ کی نہر نکالنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس لیے کہ انسان ممکن اور ناممکن کے تناظر میں سوچتا ہے۔ وہ خواب اور حقیقت میں فرق کرتا ہے۔ لیکن محبت کی انتہا اور عشق کی کائنات میں ناممکن کا وجود نہیں۔ اس دنیا اور اس کائنات میں ہر طرف ممکن کی حکومت ہے، عشق کی قوت اور اس کا حسن خواب کو حقیقت سے اس طرح آمیز کرتا ہے کہ خواب حقیقت بن جاتا ہے۔ فرہاد نے عشق کی قوت سے یہی کیا۔ اس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اس نے خواب کو حقیقت بنادیا۔ فرہاد عشق سے محروم انسان ہوتا تو پہاڑ کاٹنے کی بات سنتے ہی اسے ناممکن قرار دے دیتا۔ لیکن محبت معجزوں پر کامل یقین رکھتی ہے۔ اس کی دنیا میں معجزے کا ہونا ممکن اور نہ ہونا ممکن ہے۔ نام نہاد حقیقت پسندی کا تجربہ ٹھیک اس کے برعکس ہے۔ وہ معجزے کو ناممکن سمجھتی ہے۔ اس کے یہاں صرف ’’معمول‘‘ ممکن ہے۔ لیکن محبت ناممکن کو ممکن کیسے بناتی ہے؟ عشق معجزے کو حقیقت میں کیسے ڈھالتا ہے؟
محویت عشق کی بڑی قوت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان عشق میں اس طرح محو یا جذب ہوجاتا ہے کہ اس کے لیے محبوب کے سوا کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ رئیس فروغ کا بے مثال شعر ہے۔
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
اس کے معنی یہ ہیں کہ عشق کی محویت پوری زندگی کو ایک لمحہ بنادیتی ہے اور ایک لمحہ پوری زندگی پر محیط ہوجاتا ہے۔ ہماری تہذیب میں مجنوں محویت کی ایک بڑی مثال ہے۔ مجنوں کی محویت کا ایک واقعہ ’’مزیدار‘‘ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مجنوں لیلیٰ کے خیال میں ڈوبا صحرا سے گزر رہا تھا۔ وہاں ایک صاحب نماز پڑھ رہے تھے۔ مجنوں نے اپنی محویت میں نماز پڑھنے والے کو دیکھا ہی نہیں اور اس کے سامنے سے گزر گیا۔ نمازی کو اس بات پر سخت غصہ آیا، اس نے سلام پھیرا اور مجنوں کا گریبان پکڑ لیا اور کہا کیا تم اندھے ہو، تمہیں نظر نہیں آرہا تھا کہ کوئی نماز پڑھ رہا ہے۔ مجنوں نے معذرت چاہی اور کہا کہ لیلیٰ کے خیال نے مجھے نمازی کو دیکھنے ہی نہیں دیا۔ مجنوں نے کہا کہ لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ لیلیٰ کے عشق نے مجھے نمازی کو دیکھنے نہ دیا لیکن لیلیٰ کو بنانے والے کے عشق میں آپ کو یہ خیال کیسے رہا کہ کوئی سامنے سے گزر رہا ہے؟ بلاشبہ عشق کی یہ محویت معجزاتی ہے۔ انسان عشق کی محویت میں ساری زندگی مشقت کرتا ہے اور عشق کی محویت مشقت کو محبت کی مشقت یا Labour of Love بنادیتی ہے۔ اس محویت میں انسان ساری دنیا گھوم کر بھی محسوس کرتا ہے کہ ابھی تو سفر ٹھیک طرح سے شروع بھی نہیں ہوا۔ عشق کی محویت نہ ہو تو انسان چار قدم چل کر تھک جاتا ہے۔ معمولی سی تکلیف اسے زیر کرلیتی ہے۔ مایوسی کے چند لمحے اس کی پوری زندگی پر حاوی ہوجاتے ہیں۔
عشق تجربے اور اظہار کی سطح پر کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ فراق گورکھ پوری نے کہا ہے۔
تُو ایک تھا مرے اشعار میں ہزار ہوا
اس اک چراغ سے کتنے چراغ جل اُٹھّے
عشق کا تجربہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ ایک کو ایک ہزار کیا، ایک لاکھ بلکہ ایک کروڑ میں تبدیل کردیتا ہے۔ عشق کے تجربے میں ہر لمحہ خاص، جاودانی اور یادگار ہے۔ اس طرح عشق زندگی کو یادگاروں کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ بنادیتا ہے۔ عشق کے امکانات کے کبھی نہ ختم ہونے کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ہزاروں سال سے کروڑوں شاعر محبت کے گیت اور عشق کے ترانے گا رہے ہیں اور ان کے ’’بیانات‘‘ کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ابھی تو محبت کی کتاب کا ابتدائیہ بھی نہیں لکھا گیا۔ ابھی تو عشق کی ’’ع‘‘ بھی اظہار میں نہیں آئی۔ بلاشبہ محبت اور عشق کا ایک فلسفہ بھی ہے۔ مگر عشق فلسفے سے نہیں ’’تجربے‘‘ سے سمجھ میں آتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ محبت کی تشریح و تعبیر محبت کے معنی اور اس کے حسن و جمال کو زائل کردیتی ہے۔ جگر مراد آبادی نے اسی لیے کہا ہے۔
زمانہ جس قدر شرحِ محبت کرتا جاتا ہے
محبت اور مبہم اور مبہم ہوتی جاتی ہے
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ عشق کا انسان کی تہذیب سے کیا تعلق ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ محبت انسان کو انسان بنانے والی سب سے بڑی قوت ہے۔ انسان کو مہذب بنانے والا سب سے اہم آلہ ہے۔ محبت ایک ایسی زبان ہے جو انسانوں پر کیا حیوانوں، نباتات بلکہ جمادات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ محبت کی تہذیبی صلاحیت کے بارے میں میر نے ایک کمال کی بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔
دور بیٹھا غبارِ میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
یعنی میر کا غبار محبوب سے دور بیٹھا ہے۔ یہ محبوب کا وہ ’’ادب‘‘ ہے جو عشق کے بغیر آ ہی نہیں سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس شعر میں غبار میر کا مطلب کیا ہے؟
ایک سطح پر ’’غبارِ میر‘‘ میر کی انا ہے۔ انا انسان کو خود پسند بناتی ہے۔ عشق خود پسندی کو فنا کردیتا ہے۔ عشق سکھاتا ہے کہ اہم تو نہیں تیرا محبوب ہے۔ اس طرح عشق انا کی انسانیت کو کھا جاتا ہے۔ دوسری سطح پر ’’غبار، میر‘‘ کی ’’نفسیات‘‘ ہے۔ ہر انسان کا نفسیاتی سانچہ دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔ اور انسان چاہتا ہے کہ دوسرا انسان میرے نفسیاتی سانچے کے دائرے میں آجائے۔ لیکن عشق کی تعلیم یہ ہے کہ خود کو محبوب کے سانچے میں ڈھالو۔ خود کو محبوب کی ذات اور صفات سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کرو۔ تیسری سطح پر ’’غبارِ میر‘‘ میر کی ’’سماجیات‘‘ ہے۔ انسان اپنی سماجیات کا اسیر ہوتا ہے۔ وہ ہر تعلق میں اس کی فوقیت کے لیے کوشاں رہتا ہے لیکن عشق کا تجربہ انسان کو بتاتا ہے کہ سماجیات ایک اتفاقی چیز ہے اور محبوب کے مقابلے پر اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ چوتھی سطح پر ’’غبارِ میر‘‘ میر کی معاشیات ہے۔ انسان ہمیشہ سے معاشیات کے نرغے میں ہے۔ دولت کہتی ہے اصل چیز میں ہوں۔ زندگی میں مرکزیت کی حق دار صرف میں ہوں۔ چناں چہ زندگی کے تمام معاملات میں تم مجھے ہی پیمانہ بنائو۔ لیکن عشق معاشیات کے پرخچے اڑا دیتا ہے۔ عشق اعلان کرتا ہے کہ ساری دنیا کی دولت بھی محبوب کے سامنے ہیچ ہے۔ پانچویں سطح پر غبار میر میر کی عمر ہے۔ انسانوں کے درمیان عمر کا فرق ملک کے زمین و آسمان بدل دیتا ہے لیکن عشق عمر کے فرق کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میر کے شعر کا مفہوم یہ ہے کہ صرف عشق کی قوت ہی وہ چیز ہے جو انسانوں کو جھوٹے معیارات اور پیمانوں کی غلامی سے نجات دلا کر اسے آزاد کرتی ہے۔ شرف انسانیت سے ہمکنار کرتی ہے اور اسے حقیقی معنوں میں مہذب بناتی ہے۔ عشق نہ ہو تو انسان کا غبار انسان پر غالب آجاتا ہے اور اسے پوری زندگی حیوانی سطح سے بلند نہیں ہونے دیتا۔ عصر حاضر کی دنیا کے دو بڑے المیے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ خدا اور مذہب سے بیگانہ ہوگئی ہے اور دوسرا یہ کہ اس کی زندگی سے حقیقی محبت اور حقیقی عشق کا تجربہ رخصت ہوگیا ہے۔ چناں چہ کہیں انسانوں کی اکثریت انا کے بت کے آگے سجدہ ریز ہے، کہیں انسان اپنی نفسیات کو پوج رہا ہے۔ کہیں وہ اپنی سماجیات کو خدا بنائے ہوئے ہے اور کہیں وہ معاشیات کے کعبے کا طواف کررہا ہے۔ اس زندگی میں نہ کہیں حسن ہے نہ جمال ہے۔ اس میں نہ کہیں ادب ہے نہ مذہب۔ اس میں نہ کہیں شعور ہے نہ معنویت۔ اس زندگی میں ہر طرف ایک ہی چیز نظر آتی ہے۔ غبار۔