سیاست دان جرنیلوں کی مزاحمت کیوں نہیں کر پاتے؟
اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ باطل اور طاقت کی مزاحمت کی تاریخ ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے پاس نہ کوئی ریاست تھی، نہ فوج تھی، سرمایہ تھا نہ کوئی جماعت تھی، مگر اس کے باوجود انہیں نمرود کی مزاحمت کا حکم دیا گیا، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مزاحمت کے دائرے میں حجت تمام کرکے دکھا دی۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے پاس بھی نہ حکومت تھی، نہ ریاست تھی، نہ فوج تھی، نہ کوئی جماعت تھی، مگر انہیں بھی فرعون کی مزاحمت کا حکم دیا گیا اور دونوں برگزیدہ پیغمبروں نے فرعون کی مزاحمت کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی مکہ میں کوئی ریاست اور کوئی فوج نہ تھی، 13 سال تک تبلیغ کے باوجود آپؐ کے پاس صحابہؓ کی بڑی جماعت بھی نہ تھی، اس کے باوجود آپؐ نے کفار اور مشرکین کو چیلنج کیا۔ کفار اور مشرکین نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مفاہمت کی کوشش بھی کی، انہوں کہا آپؐ کو سرداری چاہیے تو ہم آپؐ کو اپنا سردار بنا لیتے ہیں، عورت درکار ہے تو ہم مکہ کی سب سے خوب صورت عورت سے آپؐ کی شادی کرا دیتے ہیں، مال درکار ہے تو مال حاضر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج رکھ دو تب بھی میں اپنا کام جاری رکھوں گا۔
پیغمبروں کی اس بے مثال روایت کا اثر ہماری تاریخ پر بھی پڑا۔ چنانچہ امام حسین ؓ نے یزید کی طاقت کو چیلنج کیا۔ امام حسینؓ کو معلوم تھا کہ وہ فتح یاب نہیں ہوں گے، مگر انہوں نے اصول سے محروم طاقت کے آگے سر جھکانے سے انکار کردیا اور ہمیشہ کے لیے بہیمانہ طاقت کی مزاحمت کا استعارہ بن گئے۔ برصغیر میں مجدد الف ثانیؒ نے ایک صوفی ہونے کے باوجود جہانگیر کی اسلام مخالف پالیسیوں کی مزاحمت کا حق ادا کردیا۔ شاہ ولی اللہؒ کے پاس طاقت نہ تھی، چنانچہ انہوں نے مرہٹوں کی مزاحمت کے لیے احمد شاہ ابدالی کو طلب کیا اور اس کی مدد سے مرہٹوں کی طاقت کا زور توڑ دیا۔ ٹیپو سلطانؒ صرف میسور کا حکمران تھا مگر اس نے پورے ہندوستان کا فرضِ کفایہ ادا کیا۔ 1857ء میں دِلّی اور یوپی کے مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف جنگِ آزادی برپا کرکے رکھ دی۔ اکبرؒ الٰہ آبادی اور اقبالؒ صرف شاعر تھے مگر انہوں نے شاعری کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور مغربی تہذیب پر شدید حملے کیے۔
مولانا مودودیؒ نے ایک طرف اپنی تحریروں سے مغرب کی مزاحمت کی اور دوسری جانب انہوں نے پاکستان کے غاصب حکمرانوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرکے دکھایا۔ قادیانی مسئلے پر مولانا کے مزاحمتی کردار سے ایسی صورتِ حال پیدا ہوئی کہ مولانا کو سزائے موت سنا دی گئی۔ مولانا سے کہا گیا کہ آپ معذرت کرلیں تو آپ کو رہائی مل سکتی ہے۔ مگر مولانا نے کہا کہ جب میں نے کوئی غلطی ہی نہیں کی تو معذرت کا کیا سوال؟ غور کیا جائے تو مسلمانوں کا پہلا کلمہ یعنی کلمۂ طیبہ باطل کی مزاحمت کا سب سے بڑا اعلان ہے۔ یہ کلمہ تمام جھوٹے خدائوں کے انکار سے اپنا آغاز کرتا ہے۔ اس لیے کہ جب تک مسلمان دنیا کے تمام جھوٹے خدائوں کا انکار نہ کرے وہ الا اللہ کہنے کا حق ادا ہی نہیں کرسکتا۔ مسلمانوں کی تاریخ سے ثابت ہے کہ مزاحمت کے لیے مسلمان کا طاقت ور یا صاحبِ ثروت اور مسلح ہونا ضروری نہیں ہے۔ اقبال نے صاف کہا ہے:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
دیکھا جائے تو مسلمان کا مطلب ہی دراصل ’’آزاد آدمی‘‘ ہے۔ اقبال نے بالکل ٹھیک کہا ہے:
غلامی کیا ہے ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا
اقبال کہہ رہے ہیں کہ جو غلام ہے وہ عقل کا اندھا ہے چنانچہ اس کی بصیرت پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔ صرف آزاد آدمی آنکھ رکھتا ہے، صرف وہی صاحبِ بصیرت ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو خود پاکستان کا وجود وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ اور ہندو اکثریت کی مزاحمت کا حاصل ہے، لیکن اس بے مثال تاریخ کے باوجود مسلم دنیا بالخصوص پاکستان کے سیاست دانوں نے طاقتور جرنیلوں کی مزاحمت کی کوئی روایت پیدا کرکے نہیں دکھائی۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے اہم ترین سیاست دانوں میں سے ایک تھے۔ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی تھے، انہوں نے ملک کو 1973ء کا متفقہ اسلامی آئین دیا تھا۔ انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ انہوں نے لاہور میں مسلم دنیا کے رہنمائوں کی کانفرنس منعقد کی تھی۔ انہوں نے بھارت سے پاکستان کے 90 ہزار فوجی چھڑائے تھے۔ وہ عوام میں مقبول تھے۔ لاکھوں لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ چنانچہ جنرل ضیا الحق نے بھٹو کا تختہ الٹا اور انہیں پھانسی گھاٹ تک پہنچانے کا کام کیا تو بھٹو نے کہا تھا ’’مجھے پھانسی دی گئی تو ہمالیہ روئے گا اور سندھ میں خون کی ندیاں بہہ جائیںگی‘‘۔ لیکن جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو کچھ بھی نہیں ہوا، نہ ہمالیہ کو روتے دیکھا گیا اور نہ سندھ میں خون کی ندیاں بہیں۔ سندھ میں دوچار لوگوں نے خود سوزی ضرور کی، کچھ مظاہرے بھی ہوئے، لیکن اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھنے لگا۔ بے نظیر بھٹو نے 1980ء کی دہائی میں ایم آر ڈی کی تحریک برپا کرائی اور انہوں نے اس کے پلیٹ فارم سے جنرل ضیا الحق کو چیلنج کیا۔ مگر ایم آر ڈی کی تحریک کی ناکامی یہ تھی کہ وہ ایک دن کے لیے بھی ملک گیر تحریک بن کر نہ ابھر سکی، اس کا اثر دیہی سندھ تک محدود رہ گیا، چنانچہ جنرل ضیا الحق نے طاقت کے بہیمانہ استعمال کے ذریعے دیہی سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک کو کچل دیا۔ رہی سہی کسر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے اس بیان نے پوری کردی جس میں انہوں نے کہا تھا ’’جنرل ضیا الحق سندھ کے عوام پر ظلم کررہے ہیں‘‘۔ اس بیان سے جنرل ضیا الحق کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ایم آر ڈی کی تحریک کی پشت پر بھارت ہے۔
بے نظیر بھٹو 1988ء میں ملک کی وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئیں، مگر ان کی یہ کامیابی جرنیلوں کی ’’مزاحمت‘‘ کا نہیں بلکہ ’’مفاہمت‘‘ کا نتیجہ تھی۔ انہیں اقتدار دینے سے پہلے ان کے سامنے شرط رکھی گئی کہ وہ ایٹمی پروگرام اور خارجہ پالیسی سے دور رہیں گی، وہ جنرل ضیا الحق کے خاندان اور ان کی ذریات سے انتقام نہیں لیں گی، اور اپنی کابینہ میں جنرل ضیا کے تین وزرا کو شامل کریں گی۔ بے نظیر نے یہ تمام شرائط تسلیم کیں۔
جنرل پرویز نے میاں نوازشریف کو برطرف کیا تو میاں نوازشریف کے پاس دو تہائی اکثریت تھی، وہ پورے ملک بالخصوص پنجاب میں بے انتہا مقبول تھے، فوج میں بھی میاں صاحب کی جڑیں گہری تھیں۔ مگر میاں نوازشریف اپنی برطرفی کے بعد کہیں اور کیا لاہور تک میں پچاس ہزار لوگوںکا مظاہرہ نہ کرا سکے۔ ان کی برطرفی کے پندرہ دن بعد مشاہد اللہ نے کراچی کے ریگل چوک پر دو درجن لوگوں کا ایک مظاہرہ کیا جو دو منٹ جاری رہ سکا، اس لیے کہ موقع پر موجود پولیس نے دو منٹ میں دو درجن مظاہرین کو پکڑ کر گاڑیوں میں ڈال لیا۔
میاں صاحب لندن سے پاکستان پہنچے تو اُن کا خیال تھا کہ لاہور میں لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود ہوں گے، مگر کوئی اور کیا اُن کے چھوٹے بھائی میاں شہبازشریف تک نے ہوائی اڈے پر ان کا استقبال نہ کیا۔ میاں شہبازشریف ہوائی اڈے جانے کے لیے گھر سے نکلے ضرور تھے مگر وہ لاہور کی سڑکوں پر ہی گھومتے رہے اور انہوں نے ہوائی اڈے کا رخ نہیں کیا۔ نواز لیگ کے دوسرے رہنما مثلاً خواجہ آصف اور احسن اقبال وغیرہ بھی اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں تھے اور انہیں بھی ہدایت تھی کہ وہ بھی ہوائی اڈے نہ پہنچیں۔ صرف مشاہد اللہ ہوائی اڈے پہنچے، اور اس سے ثابت ہوگیا کہ نواز لیگ کے دوسرے رہنما چاہتے تو وہ بھی ہوائی اڈے پہنچ سکتے تھے۔
الطاف حسین کراچی اور حیدرآباد میں پوجے جاتے تھے، ان کا مرتبہ سیاسی رہنما سے بلند تھا، انہیں ’’پیر صاحب‘‘ کہا جاتا تھا، ان کی ’’روحانیت‘‘ کا یہ عالم تھا کہ ان کی تصاویر کروٹین کے پتّوں پر ظاہر ہونے لگی تھیں۔ چنانچہ ایم کیو ایم کے خلاف پہلا فوجی آپریشن شروع ہوا تو الطاف حسین ہر پانچ منٹ کے بعد لندن سے فون کرکے پوچھ رہے تھے کہ کراچی میں کیا ہورہا ہے؟ ان کا خیال تھا کہ لاکھوں لوگ سڑکوں اور گلیوں میں نکل کر فوج کی مزاحمت کررہے ہوں گے۔ مگر ان کو ہر بار بتایا جاتا تھا کہ کراچی میں کچھ بھی نہیں ہورہا۔ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو میں دو، ڈھائی ہزار لوگ موجود تھے مگر جیسے ہی فوج نائن زیرو آئی یہ سب لوگ بھی اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ چنانچہ شہر میں ایم کیو ایم حقیقی کے کارکنوں نے جگہ جگہ الطاف حسین کی تصاویر کو جوتوں کے ہار پہنائے۔ ان تصاویر پر پان کی پیک سے ’’گُل کاری‘‘ کی۔
عمران خان کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ عمران خان کو اقتدار سے نکالا گیا تو وہ مزاحمت کا کوئی تجربہ خلق نہ کرسکے۔ عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو بھی کوئی عوامی ردعمل سامنے نہ آیا۔ اب ان کی گرفتاری پر 9 مئی کا تجربہ ہمارے سامنے آیا ہے، مگر اس تجربے کو خود عمران خان ایجنسیوں کی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے سیاست دان جرنیلوں کی مزاحمت کیوں نہیں کرپاتے؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنمائوں کی اخلاقی ساکھ توانا نہیں ہے۔ لوگ انہیں نوٹ دے سکتے ہیں، ان کے نعرے لگا سکتے ہیں مگر ان کے لیے گولیاں نہیں کھا سکتے، جان نہیں دے سکتے۔
’’اخلاقی ساکھ‘‘ کا ایک معجزہ مولانا مودودیؒ کی سزائے موت کا خاتمہ تھا۔ دوسرا معجزہ ترکیہ میں رجب طیب اردوان کے حوالے سے سامنے آیا۔ چند سال پہلے ترکیہ کی فوج نے اردوان کے خلاف بغاوت کی تو وہ ترکیہ میں نہیں تھے، انہوں نے ٹیلی فون پر ایک پیغام کے ذریعے ترکیہ کے لوگوں کو فوج کی مزاحمت کے لیے کہا اور دیکھتے ہی دیکھتے صرف ایک پیغام سے ترکیہ کے بڑے شہروں میں آگ لگی، لوگوں کی ایک بڑی تعداد گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آگئی، لوگ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، انہوں نے فضا سے گن شپ ہیلی کاپٹرز کی فائرنگ تک کا خیال نہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے فوجی بغاوت ناکام ہوگئی۔
مصر میں اخو ان اور الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے جرنیلوں کی جو مزاحمت کی وہ اگرچہ کامیاب نہیں ہوئی، مگر انہوں نے حجت تمام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ایک مسلمان کے لیے کامیاب ہونا ضروری بھی نہیں۔ امام حسینؓ یزید کے مقابلے پر کامیاب نہیں ہوسکے مگر انہوں نے مسلمانوں کی تاریخ میں مزاحمت کے ایک استعارے کی حیثیت ضرور اختیار کرلی۔ مسلم دنیا بالخصوص پاکستان میں سیاست دان اس لیے بھی جرنیلوں کی مزاحمت نہیں کر پاتے کہ جرنیلوں کو ہمیشہ ایک سیاسی پارٹی کے خلاف دوسری سیاسی جماعت کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ جنرل ضیا کو بھٹو کے خلاف پی این اے کی حمایت حاصل تھی، جرنیلوں کو نوازشریف کے خلاف عمران خان دستیاب تھے۔ آج عمران خان کے خلاف جرنیلوں کو نواز شریف، آصف علی زرداری اور فضل الرحمٰن میسر ہیں۔