پاکستان میں سیاست قوم کی تقدیر لکھنے کے بجائے اس تقدیر کو مسخ کرنے کا عمل بن گئی ہے
جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ 20 ویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ ٹامس مان کی یہ بات سو فیصد درست ثابت ہوئی۔ بیسویں صدی سیاسی انقلابات کی صدی تھی۔ اس صدی میں روس اور چین میں سوشلسٹ انقلابات برپا ہوئے۔ 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب آیا۔ 20 ویں صدی میں دو عالمی جنگیں ہوئی جن کے محرکات بیشتر سیاسی تھے۔ دو عالمی جنگوں کی وجہ سے مغرب کی استعماری طاقتیں اپنے مقبوضات پر قبضے جاری رکھنے کے قابل نہ رہیں، چنانچہ مسلم دنیا میںآزادی کی تحریکات چلیں اور کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا، الجزائر کو آزادی نصیب ہوئی، مصر، انڈونیشیا اور ملائشیا آزاد مملکتوں کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ لیکن یہ صرف 20 ویں صدی کا معاملہ نہیں، سیاست ہر عہد میں قوموں کی تقدیر لکھتی رہی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست قوم کی تقدیر لکھنے کے بجائے اس تقدیر کو مسخ کرنے کا عمل بن گئی ہے۔ قائداعظم نے سیاست کو عبادت بنادیا تھا مگر پاکستان کے جرنیلوں، نواز شریفوں، زرداریوں، عمران خانوں اور فضل الرحمانوں نے سیاست کو گالی بنادیا ہے۔ غالب نے کہا تھا:
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
مگر پاکستان کی سیاست کا نعرہ یہ ہے
مری تعمیر میں مضمر ہے ہر صورت خرابی کی
لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست کی تباہی کے اسباب کیا ہیں؟
عالمی سیاست کی تاریخ کا ایک سرسری جائزہ بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ جہاں جہاں سیاست میں نظریہ کار فرما رہا ہے وہاں وہاں سیاست ایک بہت بڑی تعمیری قوت بن کر ابھری ہے۔ روس کے عظیم ناول نگار دوستو وسکی کے ناول پڑھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ روس میں عیسائیت بھی مررہی ہے اور زار کی سلطنت بھی تحلیل ہورہی ہے۔ لیکن اس عمل کے ساتھ ساتھ معاشرے میں سوشلزم ایک نظریے کے طور پر ابھر رہا ہے۔ یہ نظریہ نہ ہوتا تو لینن روس میں انقلاب برپا نہیں کرسکتا تھا۔ سوشلزم نے بلاشبہ روس میں عیسائیت کا جنازہ نکال دیا لیکن سوشلزم نے سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں روس کو ایک ایسی نئی زندگی بھی دی جس نے روس کو سوویت یونین میں ڈھال دیا اور سوویت یونین کو وقت کی دوسری پاور میں سے ایک سپر پاور بناکر کھڑا کردیا۔ اسی سپر پاور نے دیکھتے ہی دیکھتے معاشرے کو سو فیصد خواندہ بنادیا اور معاشرے میں مطالعے کی ایسی پیاس پیدا کی کہ ہر روسی شہری کم از کم دو اخبارات پڑھتا تھا اور ہر گھر میں ایک چھوٹا سا کتب خانہ ضرور ہوتا تھا۔ سوویت یونین میں اخبارات اور کتابیں انتہائی سستی تھیں۔ سوویت یونین میں کوئی شخص بے روزگار اور بے گھر نہیں تھا، ہر شخص کو ہر طرح کا علاج مفت فراہم کیا جاتا تھا۔ سوشلسٹ انقلاب کی ان خوبیوں کی وجہ سے سوویت یونین کا انقلاب صرف سوویت یونین تک محدو دنہ رہا بلکہ وہ برآمد ہوا اور آدھی سے زیادہ دنیا سوشلسٹ ہوگئی۔
چینی قوم افیون کے نشے میں ڈوبی ہوئی قوم تھی اور اس کا کوئی مستقبل نہ تھا، مگر مائو کی قیادت میں آنے والے سوشلسٹ انقلاب نے نشے کی عادی قوم کو انقلابی قوم میں ڈھال دیا اور چین دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں ایک طاقت بن کر ابھرا۔ چین کے انقلاب نے معاشرے کے سماجی اور معاشی ڈھانچے کو یکسر بدل ڈالا۔ چینی رہنما ڈینگ ژیائو پنگ نے مائو کے انقلاب کو نئی جہتوں سے ہمکنار کیا اور ڈینگ ژیائوپنگ جدید چین کے بانی بن کر ابھرے۔ آج چین دنیا کی دو بڑی اقتصادی قوتوں میں سے ایک اقتصادی قوت ہے۔ اس کے پاس چار ہزار ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ چین کے معاشی انقلاب نے 40 سال میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے اور چین کی اقتصادی ترقی نے امریکہ کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔
خود پاکستان ایک نظریے کا حامل ہے۔ اس نظریے کی طاقت کا یہ عالم تھا کہ اس نے محمد علی جناح کو قائداعظم بناکر کھڑا کردیا۔ برصغیر میں مسلمانوں کی بھیڑ کو ایک قوم میں ڈھال دیا۔ پاکستان کو تاریخ کے عدم سے وجود میں لاکر دکھادیا۔ نظریے کی طاقت نے قائداعظم کو وقت کی واحد سپر طاقت برطانیہ سے پنجہ آزمائی کے قابل بنایا۔ نظریے کی قوت نے قائداعظم کو ہندو اکثریت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کے قابل بنایا۔ نظریے کی طاقت نے قائداعظم کو ایک رکنی فوج یا One man Army کا روپ دے دیا۔ جب تک بھٹو صاحب زندہ تھے ملک میں کچھ نہ کچھ نظریاتی کشمکش برپا تھی۔ ایک طرف بھٹو تھے جو اسلامی سوشلزم کے دعویدار تھے، دوسری طرف جماعت اسلامی تھی جو نظریاتی اسلام کی سب سے توانا علامت تھی۔ لیکن بھٹو کے منظر سے ہٹتے ہی صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی اور اب پاکستانی سیاست کا کوئی نظریہ نہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی کوئی نظریاتی جہتیں نہیں۔ اس خاندان کا خدا بھی دولت ہے، رسول بھی دولت ہے اور قرآن بھی دولت ہے… ناجائز دولت۔ شریف خاندان کی لادینی کا ایک ہولناک واقعہ چودھری شجاعت نے اپنی خودنوشت میں تحریر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جب شریفوں کے ساتھ ان کا معاہدہ ہوا تو شہبازشریف گھر کے اندر سے قرآن اٹھا لائے اور کہاکہ چودھری صاحب یہ قرآن اس بات کا ضامن ہے کہ ہم آپ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی ایک ایک شق پر عمل کریں گے۔ اور چودھری شجاعت کے بقول بعدازاں شریف خاندان نے معاہدے کی کسی شق پر بھی عمل نہ کیا۔ اس طرح شریف خاندان نے قرآن کو ضامن بناکر قرآن پر جھوٹ بولا۔ جو خاندان یہ کرسکتا ہے اس سے کچھ بھی بعید نہیں۔ بے نظیر بھٹو کے مذہبی شعور کا یہ عالم تھاکہ وہ ایک جلسے سے خطاب کررہی تھیں کہ پاس کی مسجد سے اذان ہونے لگی، جسے سن کر بے نظیر بھٹو نے جلسے کے حاضرین سے کہا ’’خاموش ہو جایئے،اذان بج رہا ہے‘‘۔ عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں مگر اگلی ہی سانس میں وہ چین اور اسکینڈے نیویا کے ممالک کے ماڈل کے بات کرنے لگتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ انہیں ریاست مدینہ کی الف، ب بھی معلوم نہیں۔ مولانا فضل الرحمن ایک گز لمبی داڑھی لیے پھرتے ہیں مگر وہ پاکستان میں مذہبی سیکولر ازم کی سب سے بڑی علامت ہیں، اس لیے کہ وہ سیاست سے صرف دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک میں دین کا غلبہ ان کا مسئلہ ہی نہیں۔ اس صورتِ حال نے پاکستان کی سیاست کو نظریے سے یکسر بے نیاز کیا ہوا ہے۔ چنانچہ پاکستانی سیاست میں نہ کوئی معنی ہیں، نہ کوئی جمال ہے، نہ کوئی جلال ہے، نہ کوئی کمال ہے۔ اصول ہے کہ نظریہ بونوں کو دیو قامت بنا دیتا ہے، لیکن نظریے سے عاری ہوکر دیو قامت لوگ بھی بونے بلکہ بالشتیے بن جاتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مگر بدقسمتی سے ہمارے حکمران طبقے کے پاس تو چنگیزی بھی نہیں ہے۔ ہوتی تو ہم کشمیر آزاد کراچکے ہوتے، خالصتان آج ایک حقیقت ہوتا، ہم نے بھارت کا ناک میں دم کر رکھا ہوتا۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں بالخصوص فوجی حکمرانوں کا عالم یہ ہے کہ وہ امریکہ اور بھارت کے آگے ہتھیار ڈالتے ہیں اور اپنی قوم پر ہتھیار تانتے ہیں۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کو مارا، انہوں نے بلوچوں کے خلاف پانچ فوجی آپریشن کیے، انہوں نے ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران دیہی سندھ میں طاقت استعمال کی، انہوں نے کراچی میں مہاجروں اور کے پی کے میں پشتونوں پر ہتھیار اٹھائے۔ دیو قامت حکمران دشمنوں کو فتح کرتے ہیں اور بالشتیے حکمران اپنی قوم کو فتح کرکے خوش ہوتے ہیں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ کمیونسٹ ممالک میں صرف ایک پارٹی تھی، کمیونسٹ پارٹی۔ امریکہ کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی کہتے ہیں کہ امریکہ کا حال بھی مختلف نہیں۔ بظاہر امریکہ میں دو پارٹیاں ہیں لیکن یہ دونوں پارٹیاں دراصل ایک ہی پارٹی ہیں، ’’بزنس پارٹی‘‘۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان میں ایک درجن سے زیادہ اہم پارٹیاں ہیں، مگر دیکھا جائے تو اصل پارٹی صرف ایک ہے، ’’اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی‘‘۔ بھٹو صاحب بڑے سیاست دان تھے مگر وہ فوج کی نرسری میں کاشت ہوئے تھے۔ میاں نوازشریف جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی کے بغیر ایک بڑا سا صفر تھے۔ الطاف حسین کو اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم بنایا۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے بغیر نہ ’’سیاسی عمران خان‘‘ بن سکتے تھے، نہ دھرنا دے سکتے تھے، نہ اقتدار میں آسکتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سازباز کرکے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کو ’’خلائی مخلوق‘‘ کہا کرتے تھے مگر اب اسی خلائی مخلوق کی وجہ سے شہبازشریف ملک کے وزیراعظم ہیں۔ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بہت مؤثر مہم چلائی ہے مگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ بے تاب کیا، اسٹیبلشمنٹ کا ایک مؤثر دھڑا اِس وقت بھی اُن کے ساتھ ہے۔ یہ دھڑا انہیں قبل ازوقت بتادیتا ہے کہ کب ان پر قاتلانہ حملہ ہونا ہے اور کب زمان پارک کو نشانہ بنایا جانا ہے۔ اس صورتِ حال نے ہماری پوری سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو بے وقعت کردیا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد قائداعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان بن گیا ہے اور انسانی روح اپنا تخلیقی جوہر دکھانے اور آزمانے کے لیے آزاد ہوگئی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے قائداعظم کے بعد جو قیادت پاکستان کو میسر آئی اس نے آزادی کی قدر نہ کی، خاص طور پر ہمارے جرنیلوں نے۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ روابط استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ خفیہ مراسلوں کے ذریعے امریکیوں کو بتارہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ پاکستان کو تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب امریکہ کو آگاہ کررہے تھے کہ فوج پاکستانی سیاست دانوں کو پاکستان تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس طرح جنرل ایوب نے پاکستان میں امریکہ پرستی کا آغاز کیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، ہماری سیاست ’’امریکہ مرکز‘‘ بنی ہوئی ہے۔ جرنیل آتے ہیں تو امریکہ کی مرضی سے۔ جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امریکی اشارے پر، جنرل پرویزمشرف اور بے نظیر کے درمیان این آر او ہوتا ہے تو امریکی آشیرباد کے ساتھ۔ میاں نوازشریف جنرل پرویزمشرف سے خفیہ سمجھوتہ کرکے سعودی عرب فرار ہوئے تھے تو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے کہا تھا کہ امریکہ اپنے آدمی کو پاکستان سے نکال کر لے گیا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت امریکی اشارے پر برطرف ہوئی اور ان کی پھانسی کی پشت پر بھی امریکی دبائو موجود تھا، اس لیے کہ امریکہ بھٹو کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی سزا دینا چاہتا تھا، مگر جب بے نظیر بھٹو امریکہ سے پاکستان پہنچیں اور لاہور میں ان کا تاریخی استقبال ہوا تو پی پی پی کے جیالوں نے امریکہ کے خلاف نعرے لگانے شروع کردیئے، اہم بات یہ ہوئی کہ بے نظیر نے ٹرک پر سے جیالوں کو امریکہ مخالف نعرے لگانے سے روکا۔ حالانکہ بے نظیر کا نعرہ تھا ’’کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے‘‘۔ پاکستان کی سیاست میں امریکی مداخلت کا اندازہ ان خفیہ امریکی دستاویزات سے بھی ہوتا ہے جن میں مولانا فضل الرحمن امریکی سفیر سے ملاقات میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ امریکہ انہیں بھی ایک بار اقتدار میں آنے کاموقع فراہم کرے۔
پاکستان کے جس سیاسی رہنما اور جس سیاسی جماعت کو دیکھو، جمہوریت کی علَم بردار بنی گھومتی ہے، مگر بدقسمتی سے جماعت اسلامی کے سوا ساری جماعتیں شخصی، خاندانی اور غیر جمہوری ہیں۔ پیپلزپارٹی خود کو جمہوری کہتی ہے مگر وہ بھٹو خاندان کا جوتا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں پیپلزپارٹی کے سربراہ بھٹو صاحب تھے، وہ نہ رہے تو بے نظیر نے اُن کی جگہ لے لی، بے نظیر قتل ہوگئیں تو پیپلزپارٹی آصف علی زرداری کے سایۂ عاطفت میں آگئی، اب بلاول کسی بھی وقت آصف علی زرداری کی جگہ لے لیں گے۔ وہ نہ رہیں گے تو آصفہ اُن کی جگہ لے لیں گی۔ نواز لیگ شریف خاندان کی رکھیل ہے۔ اب مریم نواز اپنے والد کی خالی جگہ کو پُر کررہی ہیں۔ وہ نہیں ہوں گی تو شہبازشریف اور حمزہ شہباز نواز لیگ کی قیادت کریں گے۔ اے این پی کے سربراہ کبھی ولی خان تھے، وہ نہ رہے تو بیگم نسیم ولی نے اُن کی جگہ لے لی، وہ نہ رہیں تو ولی خان کے فرزند اے این پی کی کشتی کے ناخدا بن گئے۔ اب اسفندریار ولی پس منظر میں جارہے ہیں تو ان کے بیٹے ایمل ولی ان کی جگہ لے رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام بھی ایک خاندانی پارٹی ہے۔ کبھی اس پارٹی کے سربراہ مفتی محمود تھے، اب مولانا فضل الرحمن ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نہیں ہوں گے تو ان کے فرزند پارٹی کے سربراہ بن جائیں گے۔ اس صورتِ حال نے پاکستان کی سیاست کی سطح کو پست بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بدقسمتی سے کسی سیاسی جماعت میں داخلی انتخابات کا عمل موجود نہیں۔ عمران خان نے تحریک انصاف میں انتخابات کرائے تھے مگر ان میں اتنی دھاندلی ہوئی کہ جسٹس(ر) وجیہ الدین نے ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا اور پارٹی میں دوبارہ انتخابات کرانے کی سفارش کی، مگر عمران خان نے دوبارہ انتخابات کرانے کے بجائے جسٹس(ر) وجیہ کو فارغ کردیا۔ یہ صرف جماعت اسلامی ہے جس میں مقررہ وقت پر تواتر سے انتخابات ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میاں نوازشریف، مریم نواز، شہبازشریف، بلاول بھٹو زرداری، آصف زرداری اور عمران خان جمہوریت کا نام لیتے ہوئے بھی برے لگتے ہیں۔