دنیا میں کراچی سے زیادہ مظلوم شہر کوئی نہیں ہے، جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمٰن اس مظلوم شہری کی آواز بن کر ابھرے ہیں
کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی غیر معمولی کامیابی اور امیر جماعت اسلامی کراچی کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت نے پیپلزپارٹی کے رہنمائوں اور متاثرین کے اوسان خطا کردیے ہیں اور پیپلزپارٹی کے رہنما جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمٰن کے خلاف ’’لسانی کارڈ‘‘ کھیلنے لگے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت وزیر بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ کا بیان ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں فرمایا ہے کہ حافظ نعیم الرحمٰن کے بیانات ان کی سندھیوں سے نفرت کا مظہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حافظ نعیم کے بیانات کا وہ سندھی بھائی ضرور جائزہ لیں جو جماعت اسلامی سے منسلک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو حافظ نعیم الرحمٰن جیسا تنگ نظر اور نفرت کی آگ میں جلنے والا میئر نہیں چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عوام ووٹ اُسے دیتے ہیں جو زبان، فرقہ پرستی اور مذہبی تعصب سے پاک ہوکر عوام کی خدمت کرے۔ ناصر حسین شاہ نے دعویٰ کیا کہ پیپلزپارٹی نے کراچی کی خدمت کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک عوامی جماعت ہے۔ انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ صرف پیپلزپارٹی نے مردم شماری پر فیصلہ کن جدوجہد کی ہے (روزنامہ جنگ کراچی، یکم مئی 2023ء)۔ اس سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر اور صوبائی وزیر سعید غنی خاصخیلی نے بھی زبان دراز کی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ حافظ نعیم الرحمٰن کراچی کا نیا الطاف حسین بننے کی کوشش کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم سندھ میں مردم شماری پر اس طرح اعتراض کررہے ہیں جیسے مردم شماری صرف سندھ میں ہی ہورہی ہو۔ (روزنامہ 92 نیوز، کراچی۔ 4 مئی 2023ء)
پاکستان میں ’’دو چہروں والی‘‘ جماعتوں کی کمی نہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کی بات کرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک ’’مہاجر پارٹی‘‘ ہے۔ میاں نوازشریف جب اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست کررہے تھے تب بھی وہ ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔ بدقسمتی سے شریف بدمعاشوں کا پاکستان پنجاب میں شروع ہوتا ہے، پنجاب میں آگے بڑھتا ہے اور پنجاب میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے بھی دو چہرے ہیں۔ وہ خود کو ’’وفاقی جماعت‘‘ کہتی ہے مگر پیپلزپارٹی اب صرف ایک سندھی جماعت ہے۔ اس کی سیاست سندھ میں شروع ہوتی ہے، سندھ میں آگے بڑھتی ہے اور سندھ میں ختم ہوجاتی ہے۔ پیپلزپارٹی کو اگر سندھ کی ’’پاپولر جیے سندھ‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ بدقسمتی سے پیپلزپارٹی آج سے ایسی نہیں ہے، وہ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے ایک سندھی پارٹی ہے۔ یہ پیپلزپارٹی کے ممتاز بھٹو تھے جنہوں نے 1972ء میں صوبے کے اندر لسانی بل متعارف کراکے تعصبات کی سیاست کا آغاز کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے لسانی بل نے کراچی کے دانش ور اور عوامی حلقوں میں غیر معمولی ردعمل پیدا کیا تھا۔ اس ردعمل کی ایک جھلک رئیس امروہوی کی اس نظم میں موجود ہے جو تاریخ میں ’’اردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے‘‘ کے عنوان سے یاد آجاتی ہے۔ یہ نظم رئیس امروہوی کی تخلیق ضرور ہے مگر پیپلز پارٹی کی لسانی نفرت میں ڈوبی ہوئی سیاست کی عطا ہے۔ آیئے نظم پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
کیوں جانِ حزیں خطرۂ موہوم سے نکلے
کیوں نالۂ حسرت دلِ مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدۂ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لبِ مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کا غمِ مرگ سبک بھی ہے گراں بھی
ہے شامل اربابِ عزا شاہ جہاں بھی
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی
یہ میتِ غم دہلیِ مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اے تاج محل نقش بہ دیوار ہو غم سے
اے قلعۂ شاہی! یہ الم پوچھ نہ ہم سے
اے خاکِ اودھ! فائدہ کیا شرحِ ستم سے
تحریک یہ مصر و عرب و روم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
سایہ سا ہو جب اردو کے جنازے پہ ولیؔ کا
ہوں میر تقیؔ ساتھ تو ہمراہ ہوں سوداؔ
دفنائیں اسے مصحفیؔ و ناسخؔ و انشاؔ
یہ فال ہر اک دفترِ منظوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
بد ذوقیِ احباب سے گو ذوقؔ ہیں رنجور
اردوئے معلی کے نہ ماتم سے رہیں دور
تلقین سرِ قبر پڑھیں مومنِ مغفور
فریاد دلِ غالبِؔ مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ہیں مرثیہ خواں قوم میں اردو کے بہت کم
کہہ دو کہ انیسؔ اس کا لکھیں مرثیۂ غم
جنت سے دبیرؔ آ کے پڑھیں نوحۂ ماتم
یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے
پہلے کوئی سرسیدِؔ اعظم کو خبر دے
وہ مردِ خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے
وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کے جنازے کی یہ سچ دھج ہو نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی
آزادؔ و نذیرؔ، شرؔر و شبلیؔ و حالیؔ
فریاد یہ سب کے دلِ مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
پیپلزپارٹی ’’لسانی بل‘‘ کے ذریعے صرف اردو کا جنازہ ہی نکال کر نہیں رہ گئی بلکہ اُس نے سندھ میں شہری اور دیہی سندھ کی تفریق کو آسمان پر پہنچانے کے لیے صوبے میں ’’کوٹا سسٹم‘‘ بھی نافذ کردیا۔ کوٹا سسٹم ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں نہ آج تک سندھیوں نے سچ بولا، نہ مہاجروں نے سچ بولا۔ کوٹا سسٹم کا سچ یہ ہے کہ مہاجر نوجوان اعلیٰ تعلیم میں سندھی نوجوانوں سے بہت آگے تھے اور سندھی نوجوان ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے، چنانچہ کوٹا سسٹم ایک مخصوص عرصے کے لیے سندھ کی ضرورت تھا اور اس پر مہاجروں کو ابتدا ہی میں بہت واویلا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ قومیں ایثار و قربانی سے قومیں بنتی ہیں۔ اس سلسلے میں مدینے کے انصار کا ایثار اور قربانی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ مگر کوٹا سسٹم کے بارے میں دوسرا سچ یہ ہے کہ اسے ’’دائمی‘‘ بنا دینا مہاجر نوجوانوں کے ساتھ ظلم ہے۔ اس ظلم پر سندھی دان شوروں کو آواز اٹھانی چاہیے تھی اور پیپلزپارٹی کو یہ کوٹا سسٹم بیس پچیس سال کے بعد ختم کردینا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا اور پیپلزپارٹی سندھ میں آج بھی کوٹا سسٹم کی سب سے بڑی محافظ بنی ہوئی ہے۔
اس شرم ناک لسانی سیاست کے پس منظر کے باوجود پیپلزپارٹی کے سیاسی شیاطین جماعت اسلامی کے سیاسی فرشتوں پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ زیر بحث موضوع کے تناظر میں جماعت اسلامی کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا چہرہ حسین و جمیل ہو یا نہ ہو مگر جماعت اسلامی کا ایک ہی چہرہ ہے، ایک ہی تشخص ہے، ایک ہی پہچان ہے، ایک ہی تعارف ہے اور وہ یہ کہ جماعت اسلامی غلبۂ اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعت ہے۔ اس کا نہ کوئی ’’لسانی تشخص‘‘ ہے، نہ اس کا کوئی ’’فرقہ‘‘ ہے نہ کوئی ’’مسلک‘‘ ہے۔ اس کا نہ کوئی صوبہ ہے، نہ اس کا کوئی مخصوص گروہ ہے۔ جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے سو سے زیادہ کتب تحریر کیں۔ ان سو کتب میں سے کوئی شخص ایک فقرہ ایسا نکال کر دکھائے جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ جماعت اسلامی کسی لسانی گروہ کی علامت ہے، کسی خاص فرقے یا مسلک کی پرچارک ہے۔ اس کے برعکس مولانا مودودیؒ کا تشخص یہ ہے کہ وہ صرف پاکستانیوں کے رہنما نہیں، وہ بیسویں صدی میں پوری امت کے امام تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کی کتابیں 90 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوکر پورے عالمِ اسلام میں پھیل گئیں۔ آپ سعودی عرب چلے جائیں، وہاں آپ کو ایسے لوگ مل جائیں گے جو مولانا کو اپنا رہنما قرار دیتے ہوں گے۔ آپ مصر چلے جائیں، مصر میں لاکھوں لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے مولانا کو پڑھ کر اسلام کا شعور حاصل کیا ہوگا۔ آپ بھارت اور بنگلہ دیش چلے جائیں، وہاں لاکھوں لوگ مولانا کی فکر کے پرستار ہوں گے۔ جماعت اسلامی ہو یا حافظ نعیم الرحمٰن، سب مولانا کے اسی تشخص کا حاصل اور اس کا تسلسل ہیں۔ چنانچہ ان پر لسانیت کی مہر لگانے والے یقیناً سیاسی شیاطین ہیں۔ ایسے سیاسی شیاطین جن کا کوئی دین و ایمان نہیں، جن کے لیے ان کے لسانی تعصبات ہی سب کچھ ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ جیسے ہم ہیں باقی لوگ بھی ویسے ہی ہوں گے۔
جماعتوں کے دساتیر اور منشور ان کے تشخص کے ترجمان ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی کا دستور اور منشور پوری دنیا کے سامنے ہے، یہ دستور اور یہ منشور صرف اسلام کے غلبے کی بات کرتا ہے، یہ دستور اور منشور پوری قوم، پوری ملّت اور پوری امت کا ترجمان ہے۔ کیا حافظ نعیم الرحمٰن اس دستور اور منشور کو پھلانگ کر سیاست کررہے ہیں یا کرسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب سو فیصد نفی میں ہے۔
جماعت اسلامی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ جماعت اسلامی کے بانی اور پہلے امیر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اصطلاح میں ’’مہاجر‘‘ تھے۔ جماعت اسلامی کے دوسرے امیر میاں طفیل محمدؒ اصطلاح میں ’’پنجابی‘‘ تھے۔ جماعت اسلامی کے تیسرے امیر قاضی حسین احمدؒ اصطلاح میں ’’پشتون‘‘ تھے۔ جماعت اسلامی کے چوتھے امیر سید منور حسنؒ اصطلاح میں ’’مہاجر‘‘ تھے۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق اصطلاح میں ’’پشتون‘‘ ہیں۔
جماعت اسلامی کی یہ تاریخ بتا رہی ہے کہ جماعت اسلامی کا امیر کوئی سندھی بھی ہوسکتا ہے، کوئی بلوچی بھی ہوسکتا ہے، کوئی سرائیکی بھی ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی جماعت کا کوئی رہنما لسانیت کرسکتا ہے؟ اس سلسلے میں پیپلزپارٹی ذرا اپنے تاریخی تجربے پر نظر ڈالے۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو سندھی تھے، ان کی جانشین بے نظیر بھٹو سندھی تھیں، ان کی خالی جگہ کو پُر کرنے والے آصف علی زرداری سندھی ہیں، کل بلاول بھٹو آصف علی زرداری کی جگہ لیں گے وہ بھی سندھی ہوں گے۔ آخر کب کوئی پنجابی، مہاجر اور پشتون پیپلزپارٹی کا سربراہ بنے گا؟ اس سوال کا جواب ہے ’’کبھی بھی نہیں‘‘۔ ایسی جماعت جو سندھیت اوڑھتی ہے، سندھیت کھاتی ہے، سندھیت پیتی ہے وہ جماعت اسلامی کے ایک رہنما پر سندھیوں سے نفرت کا جھوٹا اور بھونڈا الزام لگا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ جماعت اسلامی لسانی سیاست کررہی ہے۔
جماعت اسلامی کی یہ تاریخ بھی پوری قوم کے سامنے ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارت ظلم کرتا ہے تو جماعت اسلامی پاکستان احتجاج کرتی ہے، مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل ظلم کرتا ہے تو جماعت اسلامی پاکستان کا دل دکھتا ہے اور وہ غزہ مارچ کر ڈالتی ہے، روہنگیا مسلمانوں کی نسل کُشی ہوتی ہے تو جماعت اسلامی اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔ کیا ایسی جماعت میں وہ ذہنی سانچہ موجود ہوسکتا ہے جو کسی لسانی اکائی سے نفرت کرے اور کسی دوسری لسانی اکائی کے نام پر سیاست کرے؟ اس سلسلے میں پیپلزپارٹی ذرا اپنی فردِ عمل پیش کرے اور بتائے کہ اس نے کب کشمیر، فلسطین اور روہنگیا مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائی ہے؟
بلاشبہ جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمٰن مظلوم کراچی کی آواز بن کر ابھرے ہیں، اس لیے کہ دنیا میں کراچی سے زیادہ مظلوم شہر کوئی نہیں۔ یہ شہر ملک کو اس کی آمدنی کا 70 فیصد اور سندھ کو اس کی آمدنی کا 95 فیصد کما کر دیتا ہے۔ مگر نہ وفاق کراچی کو کچھ دیتا ہے، نہ پیپلزپارٹی کے زیر قبضہ سندھ حکومت کراچی کو کچھ دیتی ہے۔ کراچی پورے پاکستان کو پالتا ہے مگر کراچی میں پینے کے پانی کی شدید قلّت ہے، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ کراچی کی ضرورت یومیہ 1,200 ملین گیلن پانی ہے، مگر کراچی کو صرف 650 ملین گیلن پانی فراہم ہورہا ہے۔ کراچی کی بیشتر سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں، کراچی میں نکاسیِ آب کا نظام 60 سال پرانا ہے، اور کراچی میں جگہ جگہ گٹر اُبل رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کا کچرا تک ٹھکانے لگانے کا نظام موجود نہیں، چنانچہ پورا کراچی کچرا کنڈی بنا ہوا ہے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بدقسمتی سے اس سلسلے میں نہ نوازشریف نے کچھ کیا، نہ بے نظیر، آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے کچھ کیا، نہ عمران خان نے پونے چار سال میں کچھ کیا۔ اس منظرنامے میں جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمٰن کراچی کے ساڑھے تین کروڑ مظلوم عوام کی آواز بن کر ابھرے ہیں تو پیپلزپارٹی کے سیاسی شیاطین کہہ رہے ہیں کہ وہ سندھیوں سے نفرت کرتے ہیں اور وہ کراچی کا نیا الطاف حسین بن کر ابھر رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی کی 70 فیصد آبادی مہاجروں پر مشتمل تھی، مگر اب کراچی کو کثیرالقومی شہر بنے مدتیں ہوگئی ہیں۔ کراچی میں اس وقت 42 فیصد آبادی مہاجروں پر مشتمل ہے۔ کراچی کی 15 فیصد آبادی پشتون ہے، 10 فیصد آبادی پنجابیوں اور 10 فیصد سندھیوں پر مشتمل ہے۔ جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمٰن ان تمام لوگوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ کراچی اتنا مظلوم ہے کہ اس کے سلسلے میں آرمی چیف تک تعصب کے ساتھ سوچتا ہے۔ جنرل باجوہ آرمی چیف کی حیثیت سے کراچی کے دورے پر آئے تو کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں نے ان سے ملاقات کی اور بتایا کہ کراچی کے صنعتی علاقوں میں لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، فراہمی و نکاسیِ آب کی صورتِ حال ابتر ہے۔ آپ ان مسائل کے حل کے لیے کچھ کریں۔ جنرل باجوہ نے فرمایا ’’آپ پنجاب میں انڈسٹری لگائیں، آپ کو ساری سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔‘‘