انسانی تہذیب کی تشکیل اور فروغ میں تین چیزوں کا کردار بنیادی اور مرکزی تھا ۔یعنی مذہب ، سیاسی اقتدار اور ادب بالخصوص شاعری ۔ ایک زمانے میں رسالت کا ادارہ’’ ابلاغ عامہ‘‘ کا مرکزی ادارہ تھا ۔ سیاسی اقتدار یا تو مذہب کے تابع تھا یا رسالت اور سیاسی اقتدار یکجائی کی حالت میں موجود ہوتے تھے ۔ مثلاً حضرت دائود ؑ نبی تھے اور سیاسی اقتدار بھی ان کے ہاتھ میں تھا ۔ حضرت سلیمان ؑ بیک وقت رسالت اور اقتدار کے مالک تھے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خاتم الانبیا تھے اس لیے آپ ؐ کی ذات گرامی میں رسالت اور تہذیب کے تمام دیگر مظاہر کی کاملیت جلوہ گر تھی ۔ حضور اکرم ؐ کا زمانہ عربی کے عروج کا زمانہ تھا ، اور عربی تہذیب کے دو بڑے مظاہر تھے : شاعری اور خطابت ۔ حضوراکرم ؐ نے عہدِ جاہلیت کی شاعری کو مسترد نہیں کیا، البتہ اخلاقی اصول بیان کر کے شاعری کی درجہ بندی کر دی ۔ فن خطابت کو بھی آپ ؐ نے جوں کا توں قبول کیا البتہ اسے صداقت کے اظہار کے تابع کر دیا ۔ اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ میں مذہب ، سیاسی اقتدار اور شاعری کی یہ مرکزیت ہمیشہ باقی رہی ۔ مسلمانوں نے بڑے فلسفی پیدا کیے ، بڑے سائنس دانوں کو جنم دیا ، لیکن اسلامی تہذیب میں تین چیزیں زیادہ بڑی رہیں:مسلمانوں نے بڑی مذہبی شخصیتیں پیدا کیں ، بڑے فاتحین دنیا کو دیے اور دنیا کی سب سے بڑی شاعری خلق کی ۔ اہم بات یہ ہے کہ مذہب اور سیاسی اقتدار یا توباہم یکجا رہے ہیں یا پھر سیاسی اقتدار مذہب کے زیر اثر رہا ہے ۔ مسلمانوں نے شاعری کی بڑی روایت فارسی میں تخلیق کی ۔ اس شاعری کے موضوعات مذہب سے آئے ہیں ، اس شاعری کی لغت مذہب سے برآمد ہوئی ہے ، اس شاعری کی فضا مذہب سے تخلیق ہوئی ہے ۔ مسلمانوں نے شاعری کی دوسری بڑی روایت اُردو میں پیدا کی ہے ۔ اُردو شاعری کا معاملہ بھی یہی ہے کہ اس کے موضوعات ، اس کی زبان اور اس کی آب و ہوا سب کچھ مذہب سے آیا ہے ۔
قدیم یونانی تہذیب کے تین مظاہر ہیں: فلسفہ، ارسطو یعنیMythalogy اور یونانی ڈرامہ ۔ یونان میں فلسفے کی روایت سقراط اور افلا طون کے حوالے سے مذہب ہی کی روایت ہے ۔ یونان میں ہرکیولیس کاکردار ایک اسطوری کردار ہے۔ لیکن ہر کیو لیس کا پورا کردار باطنی سفر کی داستان بیان کرتا ہے گو ظاہر پرست ہرکیولیس کو ایک پہلوان قسم کی چیز سمجھتے ہیں ۔
ہندو تہذیب بھی مذہب ، اقتدار اور شعر و ادب کے تین ستونوں پر کھڑی ہے ۔ ایک جانب وید ہیں جو ہندوئوں کی مقدس کتابیں ہیں۔ دوسری جانب مہا بھارت ہے جو مذہب اور اقتدار کے امتزاج کو سامنے لاتی ہے ۔ اور تیسری جانب والمکی ، کالی داس اور سور داس کی شاعری اور شکنتلا جیسا ڈرامہ ہے ۔ یہاںبھی ’’ ابلاغ عامہ ‘‘ کی تین ہی بنیادیں ہیں ۔
جدید مغربی تہذیب کی تشکیل اور اظہار کی بھی تین ہی بنیادیں ہیں ۔ یعنی فلسفہ، سائنس اور ادب ۔ مغرب کے دو بڑے سیاسی انقلابات فلسفیوں اور ادیبوں کی فکر کی بنیاد پر برپا ہوئے ۔ فرانس کا انقلاب مغرب کا سب سے بڑا انقلاب ہے اور اس انقلاب کا تصورروسو اور والٹیئر کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ۔
روس کا انقلاب کارل مارکس کی فکر کی بنیاد پر برپا ہوا۔ مغرب میں ادب بالخصوص شاعری کی اہمیت یہ ہے کہ میتھو آرنلڈ نے لکھا ہے کہ مغرب میں مذہب ختم ہو رہا ہے اور اب شاعری مذہب کے خلا کو پُر کرے گی ۔ مغرب میں فلسفیوں کے اثر کا ایک ثبوت فرانس کا ژاں پال سارتر ہے جس نے تن تنہا الجزائر سے فرانس کی واپسی کی مہم چلائی ، جس کی بنیاد پر اسے غدار کہا گیا اور جنرل ڈیگال سے مطالبہ کیا گیا کہ سارتر کو قید میں ڈال دو ۔ لیکن ڈیگال نے کہا کہ سارتر روح فرانس ہے اسے کس طرح قید کیا جا سکتا ہے! مغرب میں سائنس دانوں کا اثر یہ ہے کہ انہیں پیغبروں سے زیادہ اہم سمجھا گیا ہے۔
چند سال پیشتر برطانیہ میں ایک ہزار سال کی اہم ترین شخصیت کے حوالے سے سروے ہوا تو اس سروے میں نیوٹن پہلے ، حضرت عیسیٰ ؑ دوسرے اور شیکسپیئر تیسرے نمبر تھا ۔
اس تہذیبی فضاکا اثر اظہار کے جدید ذرائع مثلاً اخبارات اور فلم تک پر پڑا۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ بیسویں صدی کے ابتدائی پچاس برسوں کے دوران برصغیر میں صحافت’’ مشن‘‘ تھی کاروبارنہیں تھی ۔ اس کے پیش نظر ہندو یا مسلم قوم کی ’’ اصلاح‘‘ تھی ۔ راجہ رام موہن رائے ہندوئوں کے سر سید تھے اور ان کی تحریریں اصلاحی نوعیت کی حامل تھیں ۔ سر سید کی صحافت مصلحانہ تھی ۔ابو الکلام آزاد مصلح تھے ۔ مولانا محمد علی جوہر کی صحافت ایک مشن تھی ۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی صحافت انقلاب برپا کرنے کے لیے تھی ۔ مولانا حالی نے شاعری کی تو قوم کی اصلاح کے لیے ۔ اقبال نے شاعری اختیار کی تو قوم کو بیدارکرنے کے لیے ۔
ہالی ووڈ کہنے کو فلمی دنیا تھی ، لیکن اس ہالی ووڈ میں چارلی چپلن موجود تھا جس نے اپنی فلم’’ ماڈرن ٹائمز‘‘ میں صنعتی نظام کی ایسی تنقید پیش کی کہ اس کے آگے درجنوں کتابیں ہیچ ہیں۔ اس نےThe great Dictator میں ہٹلر کی شخصیت اور سیاست پر بے مثال طنز پیش کیا اس نے اپنی فلمGold Rush میں انسان کی حرص اور لالچ کو اعلیٰ ترین فنی سطح پر پیش کیا ۔ ہالی ووڈ کے ابتدائی پچاس برسوںمیں اکثر فلمیں ناولوں اور افسانوں کی بنیاد پر تخلیق ہو گئیں ۔ بھارت کی فلم انڈسٹری بھی بیسیویں صدی کی ابتدائی پانچ دہائیوں میں سماجی ذمہ داری اور تفریح کے امتزاج کے تصور پر فلمیں بناتی رہی ۔ ان فلموں میں مشرق و مغرب کی آویزشن تھی ، شہری اور دیہی زندگی کا تصادم تھا ، صنعتی اور زرعی معاشرت کا ٹکرائو تھا ۔ ان فلموں میں مذہبی موضوعات تھے، تاریخی موضوعات تھے ، سماجی اور معاشی موضوعات تھے ۔ آپ فلم کے ذریعے کو یکسر مسترد کر سکتے ہیں لیکن یہاں اس کے تذکرے سے یہ بتانامقصود ہے کہ ایک بڑے تہذیبی پس منظر کا اثر ابلاغ کے تمام ذرائع پر مرتب ہوا ، اور یہ کم و بیش ایک عالمگیر صورتِ حال تھی ۔ لیکن21 ویں صدی تک آتے آتے یہ صورتِ حال ہو گئی ہے کہ ابلاغ کے کم و بیش تمام ذرائع بالخصوص جدید ذرائع اور ان میں بھی بالخصوص ٹیلی وژن انسانی تہذیب کے زوال میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اس کی ایک اہم مثال بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جج اور پریس کونسل آف انڈیا کے موودہ چیئر مین جسٹس مرکنڈے کا ٹجوکا دی نیوزکراچی کی3جنوری2012ء کی اشاعت میں شائع ہونے والا مضمون ہے ۔ اس مضمون میں جسٹس مرکنڈے نے لکھا ہے کہ بھارت میں80 کروڑ60 لاکھ لوگوں کی یومیہ آمدنی25 روپے ہے ۔ بھارت کے47 فیصد بچے غذائی قلت کا شکارہیں ۔ یہ صورتِ حال ایتھوپیا اور صومالیہ سے بھی بد تر ہے۔ ملک میں بے روز گاری عام ہے ۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں کا برا حال ہے ۔ زراعت کے شعبے کی خرابی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں بھارت کے ڈھائی لاکھ چھوٹے کاشت کاروں نے قرضوں کے بوجھ سے تنگ آ کرخود کشی کرلی ہے ۔لیکن اس کے باوجود بھارتی ذرائع ابلاغ بالخصوص بھارت کے ٹی وی چینلز کی90فیصدکوریج فلم اسٹارز،فیشن شوز ، پوپ موسیقی ، ڈسکو ڈانسنگ،Reality Shows ، ستارہ شناسی اور کھیل کے لیے وقف ہے ۔ جسٹس مرکنڈے نے لکھا ہے کہ حال ہی میں بھارت کی ایک ممتاز اداکارہ کے یہاں بیٹی کی پیدائش کی خبر بھارت کے اخبارات میں صفحہ اول پر رپورٹ ہونے والی تھی ، لیکن میں( جسٹس مرکنڈے) نے پریس کونسل آف انڈیا کے چیئر مین کی حیثیت سے شور مچایا تو یہ خبر اندر کے صفحات میں رپورٹ ہوئی ۔ جسٹس مرکنڈے نے لکھا ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ کا معاملہ ملکہ میری کی طرح ہے اس کو جب بتایا گیا کہ لوگوں کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے تو اس نے کہا کہ اگر ان کے پاس روٹی نہیں ہے تو وہ کیک کھائیں ۔ جسٹس مرکنڈے نے لکھا ہے کہ مجھے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ ذرائع ابلاغ لوگوں کو وہی کچھ دیتے ہیں جو لوگ چاہتے ہیں ۔ ان کے بقول ذرائع ابلاغ کا کاروبار عام کاروبارنہیں ہے ، ذرائع ابلاغ’’ چیزیں‘‘ فروخت نہیںکرتے ۔ ان کا تعلق خیالات سے ہے ۔ چنانچہ ذرائع ابلاغ کو بھارت کے عوام کی اکثریت کے پست ذوق کی تسکین کے بجائے ان کے ذہن اور ذوق کی سطح کو بلند کرنا چاہیے۔
اس تنقید کے تین پہلو اہم ہیں:
1۔ اس تنقید میں کوئی مذہبی تناظر موجود نہیں ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مذہبی تناظر سے قطع نظر بھی ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹیلی وژن کا کردار افسوس ناک ہے ۔
2۔ اس تنقید میں کوئی اخلاقی زاویہ بھی موجود نہیں ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اخلاقیات کے بغیر محض تہذیبی یا سماجی اعتبار سے ذرائع ابلاغ کے کردار کو گہری نظر سے دیکھے گا تووہ اپنا عدم اطمینان ظاہر کیے بغیر نہیں رہ سکے گا ۔
3۔ اس تنقیدکا تیسرا اہم گوشہ یہ ہے کہ اگرچہ اس تنقیدکا تعلق صرف بھارت سے ہے، لیکن تنقید کم و بیش پوری دنیاکے ذرائع ابلاغ کے لیے کفایت کرتی ہے ، اس لیے کہ اس تنقید میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں وہ تھوڑے بہت سماجی فرق کے ساتھ ہر ملک میںموجود ہیں۔لیکن مسئلہ صرف اتنا نہیں ہے جتنا کہ مرکنڈے صاحب نے بیان کیا ہے ۔
ایک جانب ٹیلی وژن تفریح کی چند مخصوص صورتوں کے لیے مخصوص ہو گیا ہے اور دوسری جانب خبروںسے متعلق ہزاروں چینلز کا یہ حال ہے کہ ان کے وقت کا80 سے90 فیصد صرف سیاست کے لیے وقف ہو گیا ہے ۔ سیاست زندگی کا ایک بڑا موضوع ہے لیکن دنیا کے اکثر معاشروں میں سیاست اپنے نظری ،علمی اور تاریخی پہلو سے محروم ہو کر روز مرہ کے ایسے واقعات تک محدود ہو گئی ہے جس میںبے پناہ تکرار یاRepetition موجود ہے ۔ اس صورت حال سے سیاست کی رپورٹنگ اور اس پر گفتگو کی سطح بہت گر گئی ہے ۔ اس کے نتیجے میں کروڑوں انسانوں کا ذہنی سانچہ بھی سکڑ رہا ہے اور ان کا لسانی سانچہ بھی محدود ہوتا جا رہا ہے ۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ٹیلی وژن کے میڈیم سے نہ زندگی کی گہرائی پیش ہو رہی ہے ۔ نہ اس کا تنوع بیان ہو رہا ہے اور نہ زندگی کا وہ توازن معرض اظہار میں آرہا ہے جس کے بغیر زندگی ، زندگی نہیںTele – Life اور انسانی تہذیب انسانی تہذیب نہیںCivilization۔Tele بن کر رہ جاتی ہے ۔لیکن یہ مسئلہ صرف ٹیلی وژن کے میڈم کا نہیں ہے ۔ زیادہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسانی تہذیب کے منظر نامے سے مذہب یا تو غائب ہو گیا ہے یا پھر وہ اپنی تہذیبی اور ثقافتی قوت کے ساتھ موجود نہیں ۔ چنانچہ مسئلہ یہ ہے کہ جب زندگی میں گہرائی اور تنوع موجود نہیں تو وہ ٹیلی وژن پر کہاں سے نظرآئے ؟ ٹیلی وژن کا میڈیم گہرائی اور تنوع کو محدود کر سکتا ہے ، اسے غائب نہیں کر سکتا۔
فرائیڈے اسپیشل:13جنوری2012ء)