اسلام کہتا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ لیکن دنیا میں کروڑوں انسانوں کو حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ عیسائیت کہتی ہے: اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم دوسرا گال بھی تھپڑ کے لیے پیش کردو۔ لیکن دنیا میں ہو یہ رہا ہے کہ کروڑوں انسان دوسرے انسانوں کے ایک گال پر تھپڑ مارتے ہیں اور حسرت کرتے ہیں کہ انہیں دوسرے گال پر تھپڑ مارنے کا موقع کیوں فراہم نہ ہوا۔ ہندوازم شرک کی حد تک انسان کی تکریم میں غلو کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ انسانوں کے آگے سر جھکانے کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن دنیا میں کروڑوں انسان دوسروں کے سروں کو اپنے آگے جھکانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ دنیا کے منظرنامے کو دیکھا جائے تو دنیا میں عسکری جنگیں برپا ہیں، معاشی جنگوں نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، ابلاغی جنگوں نے دنیا کا حشرنشر کردیا ہے۔
دنیا میں قومی تعصبات کے معرکے جاری ہیں۔ گھروں میں ساسیں اور بہوئیں ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ جگہ جگہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے مقابل آگئے ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ سب تشدد ہی کی مختلف صورتیں ہیں، فرق یہ ہے کہ کہیں جسمانی تشدد کی حکمرانی ہے اور کہیں نفسیاتی‘ جذباتی‘ ذہنی اور لسانی تشدد کا غلبہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کے اسباب کیا ہیں؟ تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کو صرف ایک چیز انسان بنا سکتی ہے اور وہ ہے اسلام۔ دنیا میں تشدد کی پہلی بدترین واردات قابیل کے ہاتھوں اپنے بھائی ہابیل کا قتل تھا۔ دیکھا جائے تو ان دونوں بھائیوںکے درمیان بنیادی فرق یہ تھا کہ ہابیل خدا کے قریب تھا اور قابیل خدا سے دور تھا۔ ہابیل خدا کے قریب تھا اور اس نے صرف اس چیز کی خواہش کی جس کی اجازت خدا نے دی تھی۔ قابیل خدا سے دور تھا اس لیے اس نے خدا کے حکم پر اپنی خواہش کو ترجیح دی۔ ہابیل کو خدا سے محبت تھی اس لیے اس نے خدا کے حضور قربانی کے لیے بہترین چیز پیش کی۔ قابیل کو خدا سے محبت نہیں تھی اس لیے اس نے قربانی کے لیے کمتر شے کا انتخاب کیا۔ ہابیل خدا کا فرماں بردار تھا اس لیے اس نے موقع اور استعداد ہونے کے باوجود قابیل پر ہاتھ اٹھانے سے انکار کردیا۔ قابیل خدا کا نافرمان تھا چنانچہ اس نے موقع ملتے ہی اپنے بھائی کو قتل کردیا۔ تجزیہ کیا جائے تو پوری انسانی تاریخ کی تعبیر کے لیے یہ ایک واقعہ کافی ہے۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ انسان کو جو کچھ بننا ہوتا ہے‘ دس سال کی عمر تک بن جاتا ہے، اس کے بعد اس کے وجود کی تفصیل سامنے آتی ہے۔ اور یہ بات غلط نہیں ہے۔ انسان پانچ سے دس برسوں کے درمیان جو کچھ بنتا ہے ساری زندگی اس کی اسیر ہوجاتی ہے۔ لیکن اللہ کے دین میں یہ طاقت ہے کہ وہ بیس‘ تیس‘ چالیس‘ پچاس اور ساٹھ سال کے وحشیوںِ کو بھی انسان بناسکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عربوں کا حال ابتر تھا۔ ان میں ذرا ذرا سی بات پر جنگیں شروع ہوجاتیں اور کئی کئی نسلوں تک جاری رہتیں۔ وہ رزق کی قلت اور شرمندگی دونوں وجوہ سے لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ عورتیں ان کے لیے پائوں کی جوتی سے بھی کم تر تھیں۔ کفر‘ شرک‘ شراب اور قمار بازی نے انہیں جکڑا ہوا تھا۔ لیکن اسلام نے صرف دو دہائیوں میں ان کی قلب ِ ماہیت کردی۔ وہ دنیا کے مہذب ترین لوگ بن گئے۔ ان کے علم کے آگے ساری دنیا کا علم حقیر ٹھیرا۔ وہ اتنے نرم خو بن گئے کہ چیونٹی کو بھی ناحق مارنے سے خوف کھاتے۔ ان کی جیسی گرم جوشی نایاب تھی۔ ان کی خدمت گزاری کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر تھی۔ اس کی صرف ایک وجہ تھی، ان کا جینا اور مرنا صرف اللہ کے لیے تھا۔ عصرِ حاضر کا المیہ یہ ہے کہ اس میں انسانوں نے اپنے اور دوسرے انسانوں کے درمیان تعلق سے خدا کو بے دخل کردیا ہے۔ انسانوں کے تعلق میں خدا کی موجودگی انسانوں کے تعلق کی ہر منفیت کو ختم کرکے اس منفیت کی توانائی کو بھی تعلق کے مثبت یا اثباتی پہلو کے حوالے کردیتی ہے۔ یہ صورتِ حال دشمنوں کو بھی دوست بنادیتی ہے۔ لیکن خدا انسانوں کے باہمی تعلق سے نکل جائے تو دوست بھی دشمن بن جاتے ہیں۔ اس لیے کہ خدا کے درمیان سے نکلتے ہی انسانی تعلق مقابلے‘ مسابقے‘ محاذ آرائی اور فتح کی نفسیات کا تعلق بن جاتا ہے۔ پھر لوگ ایک دوسرے کو جاننے کی نہیں ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ ان سے محبت نہیں کرتے بلکہ ان پر حکم چلاتے ہیں، اور انسان کی فطرت خدا کے سوا کسی کے حکم کو تسلیم نہیں کرتی، اس لیے کہ صرف خدا کے تصور میں خوف اور امید بیک وقت موجود ہوتے ہیں۔ خوف اور امید کے درمیان ایمان ہے، اور خوف اور امید سے کامل اطاعت جنم لیتی ہے۔ لیکن عصرِ حاضر میں اکثر انسانوں نے خدا کو باہمی تعلق سے خارج کردیا ہے، اور جہاں خدا موجود بھی ہے وہاں اس کی نوعیت ’’تصور‘‘ سے زیادہ نہیں۔ مذہب بالخصوص اسلام کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ انسان کو تصور کی سطح پر ایک بلند مقام عطا کرتا ہے۔ چونکہ اسلام کا انسان خدا کا عارف اور اس کا مطیع ہے اس لیے اسلام انسان کو اشرف المخلوقات کہتا ہے۔ اسے فرشتوں سے بھی افضل گردانتا ہے۔ اسلام کی روحانی اور علمی روایت انسان کو ’’کائناتِ اصغر‘‘ کہتی ہے۔ ہماری روایت میں انسان کعبے سے زیادہ محترم ہے۔
ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے، اور ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ انسان کا یہ بلند تصور جب معاشرے میں راسخ ہوجاتا ہے تو بڑے بڑے گناہوں سے ہی نہیں چھوٹے چھوٹے گناہوں، یہاں تک کہ معمولی لغزشوں سے بھی حقیقی معنوں میں شرم محسوس ہونے لگتی ہے۔ لیکن ہمارے دور میں ایک ایسا تصورِ انسان رائج اور انسانوں کے ذہنوں میں راسخ ہوگیا ہے جس میں انسان حیوان کی سطح سے بلند نہیں ہوپاتا۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے‘ کسی کا خیال یہ ہے کہ انسان ایک معاشی حیوان کے سوا کچھ نہیں۔ جدید علمِ سیاسیات میں انسان کو سیاسی حیوان بھی کہا جاتا ہے۔ جدید حیاتیات کہتی ہے کہ انسان صرف حیاتیاتی یا Biological وجود ہے۔ جدید نفسیات کہتی ہے کہ انسانی حقیقت کے تعین میں جبلتوں کا کردار مرکزی ہے اور حیاتیات اور جبلتوں کی سطح پر انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس تصورِ انسان میں انسان کی حقیقی عزت اور اس سے حقیقی محبت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ چنانچہ انسانی تعلقات میں ہر سطح پر جبر و تشدد کا درآنا یقینی ہے۔ عہدِ حاضر کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ انسان کے سامنے انسانِ کامل کا کوئی نمونہ ہی نہیں ہے۔ اس عہد کے نمونے یا Icons اداکار ہیں۔ مگر اداکاری محض ایک فن ہے اور اداکار پوری زندگی بسر کرنے کے لیے ہرگز نمونہ نہیں ہیں۔ ہمارے دور کا ایک نمونہ کھلاڑی ہیں، مگر کھیل ایک ہنر ہے اور یہ ہنر زندگی کا ایک معمولی سا حصہ ہے، چنانچہ کھلاڑی بھی انسانیت کے لیے نمونے کا کردار ادا نہیں کرسکتے۔ ہمارے زمانے کے نمونوں میں گلوکار اور سیاست دان بھی شامل ہیں۔ بہت سے لوگ شاعروں‘ ادیبوں کو بھی نمونہ سمجھتے ہیں، مگر یہ تمام لوگ بھی زندگی کی کلّیت یا Wholeness کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ یہ کام صرف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہی انجام دے سکتی ہے، اور انسانوں کی اکثریت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے آگاہ ہی نہیں ہے۔ انسانوں کے تعلق کے مابین خدا کی موجودگی میں انسانوں کے تعلقات محبت سے اپنی تعریف متعین کرتے ہیں۔ محبت ایک ہمہ گیر‘ ہمہ جہت اور انسان کے پورے وجود کا احاطہ کرنے والی حقیقت ہے۔ لیکن جب خدا انسانوں کے تعلق کے درمیان سے نکل جاتا ہے تو محبت کی جگہ طاقت لے لیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت محبت کی طرح جامع حقیقت تو نہیں ہے مگر وہ محبت کی طرح جامع ہونے کا ’’ڈراما‘‘ کرسکتی ہے۔ معاصر دنیا میں اس وقت یہی ہورہا ہے۔ طاقت انفرادی زندگی سے اجتماعی زندگی تک اور اجتماعی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک ہر دائرے میں مرکزیت کی حامل ہوگئی ہے۔ چنانچہ ہمارے تعلقات طاقت کے تعلقات ہیں۔ ہمارے دلائل طاقت کے دلائل ہیں۔ ہمارا نظام طاقت کا نظام ہے۔ اس صورت حال میں تشدد نہیں بڑھے گا تو اور کیا ہوگا! اصول ہے کہ جیسا عمل ہوتا ہے ویسا ہی ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔ چنانچہ طاقت کے جواب میں بھی ہمیشہ طاقت ہی سامنے آسکتی ہے۔
زندگی کا مذہب کے تابع نہ ہونا ایک المیہ ہے، لیکن اگر زندگی مذہب کے بعد دلیل کے بھی تابع نہ رہے تو یہ المیہ اور گہرا ہوجاتا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین ساٹھ سال سے دنیا کے نقشے پر موجود ہیں اور کروڑوں لوگوں کے نفسیاتی و ذہنی توازن کو عدم توازن میں بدل رہے ہیں، لیکن بالادست طاقتیں نہ مذہبی اخلاق کو خاطر میں لارہی ہیں، نہ وہ اس سلسلے میں ’’دلیل‘‘ کو مؤثر ہونے دے رہی ہیں۔ چنانچہ یہ تنازعات غصے اور نفرت کا پھیلائو بن گئے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے نائن الیون کے بعد امریکہ کی ’’وار آن ٹیرر‘‘ میں امریکہ کی حمایت کا فیصلہ کیا، مگر اس فیصلے کی پشت پر نہ اخلاقی قوت تھی نہ دلیل کی طاقت۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دس سال میں پانچ ہزار فوجیوں اور بیس ہزار سے زائد عام افراد سے محروم ہوگئے۔ 65 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان اس کے سوا ہے۔ طاقت کا عمل دخل ہماری زندگی میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ تشدد ہمارے دور میں ایک ’’طرزِ اظہار‘‘ بن کر سامنے آیا ہے۔ کروڑوں لوگ ہیں جو تشدد کے ذریعے اپنے وجود کو ’’محسوس‘‘ کرتے ہیں‘ کروڑوں لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اگر وہ تشدد کی زبان نہیں بولیں گے تو ان کو گونگا سمجھا جائے گا۔ کروڑوں لوگ ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ اگر انھوں نے تشدد کی زبان میں بات نہ کی تو کوئی ان کی بات نہیں سنے گا۔ کروڑوں لوگ ہیں جو تشدد کی زبان بول کر سمجھتے ہیں کہ یہ ’’مکالمے‘‘ کی زبان ہے۔ اس طرح تشدد انسان کے اظہار کے پورے منظر نامے پر چھا گیا ہے۔ ہمارے دور کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ایک زبان نہیں بلکہ بحیثیت ِمجموعی زبان سکڑ رہی ہے اور اس کی گہرائی اور گیرائی میں نمایاں کمی واقع ہورہی ہے۔ زبان اظہار کا سانچہ اور مذہب کے بعد انسان کے خیالات و جذبات کی تہذیب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ انسان کے خیالات و جذبات زبان کے ذریعے اظہار میں آتے ہیں تو ان کی شدت بھی کم ہوجاتی ہے اور ان کی لسانی حد بندی بھی ہوجاتی ہے۔ یعنی زبان کے سانچے میں آکر خیالات و جذبات کاتند رو دریا ایک حد میں بہنے لگتا ہے۔ لیکن ہمارے دور میں کروڑوں لوگوں کو مناسب لسانی سانچہ فراہم نہیں۔ چنانچہ بہت سے خیالات و جذبات کی شدت جسمانی قوت کے ذریعے اپنا اظہار کررہی ہے۔ لیکن تشدد زبان کا معقول سانچہ رکھنے والوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے یہاں زبان اخلاقی حس یا اخلاقی تصورات سے یکسر یا بڑی حد تک بیگانہ ہوجاتی ہے، اور ان لوگوں کے لیے زبان محض زبان یا صرف ایک تکنیکی حقیقت بن کر رہ جاتی ہے۔