مسلمانوں کی تاریخ حقیقی معنوں میں عجیب و غریب ہے۔ مسلمانوں نے اسپین کو فتح کیا اور مسلمانوں کے اسپین میں یہودیوں اور عیسائیوں کے مزے تھے۔ ان میں شاعر تھے، ادیب تھے، فلسفی تھے، مفکرین تھے، تاجر تھے، سیاسی رسوخ رکھنے والے لوگ تھے۔ مسلمانوں نے اسپین کے ایک بڑے حصے پر 800 سال حکومت کی لیکن اتنی طویل مدت میں انہوں نے کبھی یہودیوں اور عیسائیوں کا قتل عام نہیں کیا، کبھی ان کا سماجی یا معاشی مقاطعہ یا بائیکاٹ نہیں کیا۔ لیکن اسپین میں مسلمانوں کا اقتدار جیسے ہی ختم ہوا عیسائی حکمرانوں نے مسلمانوں کے سامنے تین امکانات رکھ دیے: عیسائی ہو جائو،
ملک چھوڑ کر بھاگ جائو، یا قتل ہوجائو۔ بدقسمتی سے اسپین میں یہ تینوں کام ہوئے۔ عیسائیوں نے مسلمانوں کو جبراً عیسائی بھی بنایا، لاکھوں مسلمانوں نے اسپین سے ہجرت بھی کی اور لاکھوں مسلمان قتل بھی ہوئے۔
بھارت پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی، لیکن ایک ہزار برسوں میں انہوں نے کبھی ہندوئوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ انہیں کبھی جبراً ہندو نہیں بنایا۔ ان کی معاشی اور سماجی زندگی کو کبھی سبوتاژ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ بعض نچلی ذات کے ہندو دانش وروں نے شکایت کی ہے کہ مسلمان اور کچھ نہیں تو ہندوئوں کے ذات پات کے نظام ہی کو ختم کردیتے، اس سے نچلی ذات کے کروڑوں ہندوئوں کی زندگی جہنم بننے سے بچ جاتی لیکن ہندوئوں نے گزشتہ 66 برسوں میں ساڑھے چار ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات کرا ڈالے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی مجموعی آبادی کا بیس سے پچیس فیصد ہے مگر ملازمتوں کے دائرے میں وہ کہیں دو فیصد پر کھڑے ہیں، کہیں ایک فیصد پر، کہیں ایک فیصد پر بھی نہیں۔لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف دو چار ہزار یا دو چار لاکھ لوگوں کو دیوار سے لگایا جا سکتا ہے مگر بھارت 20 سے 25 کروڑ مسلمانوں کو دیوار سے لگائے کھڑا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے بھارت کے مسلمانوں کو بھارت کے نئے شودر قرار دیا جانے لگا ہے اور مسلمانوں کی حالتِ زار پر وہ لوگ بھی کلام کرنے لگے ہیں جن کا مسلمانوں کی مذہبی فکر سے کوئی تعلق نہیں۔
بھارت کے معروف صحافی جاوید نقوی ’’روشن خیال‘‘ ہیں، لیکن انہوں نے حال ہی میں “Love and Riots” کے عنوان سے شائع ہونے والے اپنے کالم میں بھارت کے مسلمانوں کی مجموعی صورت حال کے حوالے سے دو دلچسپ مگر اہم واقعات کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک دلت عورت نے اپنی پوتی نیما کو ان کے خاندان کے حوالے کیا اور درخواست کی کہ وہ اس کی پرورش کریں۔ نیما 20 سال کی ہوئی تو اس نے اپنی ذات کے ایک لڑکے سے شادی کرلی، مگر اس کی شادی چل نہ سکی۔ اس کا شوہر آوارہ اور شرابی تھا اور اس نے نیما کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ نیما پھر جاوید نقوی کے خاندان میں واپس آگئی۔ اب اس کی عمر 30 سال ہے اور اسے ایک ’’نئے مسئلے‘‘ کا سامنا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسے ایک مسلمان لڑکے سے محبت ہوگئی ہے، وہ لڑکے سے ہر روز فون پر بات کرتی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کا دلت خاندان اسے مسلمان لڑکے سے شادی کی اجازت نہیں دے گا… اور اگر وہ اپنی مرضی سے شادی کرے گی تو اسے اس کی برادری والے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کردیں گے۔ اس واقعہ سے جاوید نقوی نے دو نتائج نکالے ہیں۔ ایک یہ کہ بھارت کے مسلمان بھارت کے ’’نئے اچھوت‘‘ بن کر سامنے آچکے ہیں، یہاں تک کہ وہ ہندوئوں کی کم ترین ذات یعنی دلتوں سے بھی گئے گزرے ہوگئے ہیں۔ نیما کی کہانی سے جاوید نقوی نے دوسرا نتیجہ یہ نکالا ہے کہ بھارت کے دلت جو اپنے رہنما ڈاکٹر امبیڈکر کی قیادت میں خود کو ہندوئوں سے الگ ثابت کیا کرتے تھے انہیں ایک بار پھر ہندوئوں میں جذب کیا جارہا ہے۔
جاوید نقوی نے دوسرا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انتہا پسند جماعت وشو ہندو پریشد کے رہنما چندرموہن شرما نے بھارت کے معروف اخبار “The Hindu”کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں نے اپنی آبادی بڑھانے کے لیے ایک نیا طریقہ ایجاد کرلیا ہے۔ ان کے بقول یہ طریقہ Love-Jihad ہے۔ چندرموہن شرما نے الزام لگایا کہ Love-Jihad ایک مشکل آرٹ ہے۔ اس جہاد کے تحت خوش شکل نوجوانوں کو مدارس میں خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔ ان کے ایسے نام رکھے جاتے ہیں جن سے ان کا مسلم تشخص واضح نہ ہو، مثلاً انہیں سونُو یا راجو کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ تربیت کے بعد ان نوجوانوں کو جینز اور ٹی شرٹس پہناکر انہیں موبائل فونز اور موٹر سائیکلیں دے دی جاتی ہیں۔ یہ نوجوان ان تمام چیزوں سے ’’مسلح‘‘ ہوکر اسکولوں اور کالجوں کے باہر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہندو لڑکیوں کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں۔ ابتدا میں ہندو لڑکیاں ان کی جانب متوجہ نہیں ہوتیں لیکن وہ بالآخر ان کے ’’دامِ محبت‘‘ میں پھنس جاتی ہیں۔ چندر موہن شرما کے بقول یہ ’’جہاد‘‘ پیار سے ’’پھنسانے‘‘کا کھیل ہے۔ اس سلسلے میں چندر موہن شرما نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے گھروں سے بھاگ کر شادی کرنے والی 100 ہندو لڑکیوں میں سے 95 مسلمان لڑکوں کے ساتھ بھاگتی ہیں اور انہی سے شادی کرتی ہیں۔ چندر موہن شرما کے بقول یہ مسلمانوں کی جانب سے اپنی آبادی میں اضافے کے لیے بروئے کار لائی جانے والی نئی سازش ہے۔ چندر موہن شرما کے بیان سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ جس بڑے اخبار میں ان کے خیالات شائع ہوئے ہیں اس نے اپنے قارئین سے کہا ہے کہ وہ چندر موہن شرما کے تجزیے کو مذاق میں نہ اڑائیں۔
قوموں کو سمجھنے کے سلسلے میں ان کے مذہب، تہذیب اور تاریخ کا حوالہ مرکزی ہوتا ہے، اور مسلمانوں کے مذہب میں ہندو یا غیر مسلم لڑکیوں کو ’’پھنسانے‘‘ کی کوئی تعلیم موجود نہیں۔ مسلمانوں کے طویل اور متنوع تہذیبی تجربے میں بھی ایسی کوئی چیز موجود نہیں۔اس سلسلے میں مسلمانوں کی طویل تاریخ کا دامن بھی پاک ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمان ہندو لڑکیوں کو پھنسانے کی سازش کرتے تو اس کا بہترین وقت وہ تھا جب وہ ایک ہزار سال تک بھارت کے حکمران تھے۔ اُس زمانے میں ان کے پاس طاقت بھی تھی، دولت بھی تھی… لیکن مسلمانوں نے جو کام ہزار سال کی حکمرانی کے دور میں نہیں کیا وہ کام وہ اس دور میں کیسے کریں گے جسے بلاخوفِ تردید ان کا ’’عہدِ غلامی‘‘ کہا جاسکتا ہے؟ مگر ہندو انتہا پسندوں کی قیادت مسلمانوں کی نفرت میں اتنی اندھی ہو گئی ہے کہ وہ ان نکات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔چندرموہن شرما نے ہندو لڑکیوں کو ’’پھنسانے‘‘ والے مسلم نوجوانوں کا جو خاکہ مرتب کیا ہے وہ کئی اعتبار سے دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم نوجوانوں میں خوش شکلی عام ہے۔مگر یہ کوئی ساز ش نہیں۔ چندرموہن شرما کی اطلاع کے لیے عرض یہ ہے کہ اس کا سبب جینیاتی یا Genetic ہے۔مسلمانوں میں بھی اگرچہ ہندوئوں کے اثر سے کچھ ذات پات در آئی ہے، مگر مسلمانوں میں ہندوئوں کے مقابلے پر ہزار گنا زیادہ ایسی شادیاں ہوتی ہیں جن میں ذات کی نفی کی گئی ہوتی ہے۔ اس عمل سے مسلمانوں میں زیادہ Genetic تنوع پایا جاتا ہے۔ چندرموہن شرما نے ہندو لڑکیوں کو مبینہ طور پر پھنسانے والے مسلم نوجوانوں کی ’’تربیت‘‘ کا بھی خاص طور پر ذکر کیا ہے اور اسے مدارس سے منسوب کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بدترین معاشی اور سماجی حالات کے باوجود بھارت کے مسلم نوجوانوں میں ہندو نوجوانوں سے کہیں زیادہ تہذیب اور کلچر پایا جاتا ہے اور یہ ایک حیرت انگیز بات ہے۔ چندر موہن شرما نے مسلم نوجوانوں کے اچھے لباس، موبائل فون اور موٹرسائیکلوں پر بھی توجہ مرکوز کی ہے، حالانکہ یہ تمام چیزیں نہ مسلم نوجوانوں کے پاس ہوتی ہیں اور نہ ہی ہندو لڑکیاں ان چیزوں سے متاثر ہوکر مذہب اور گھر چھوڑنے جیسا بڑا فیصلہ کرسکتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ان ہندو لڑکیوں کے گھروں میں مسلم نوجوانوں سے ہزار گنا زیادہ خوش حالی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ وہ مسلم نوجوانوں کی معاشیات سے رتی برابر بھی متاثر نہیں ہوسکتیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر ہندو لڑکیاں مسلم نوجوانوں سے شادیاں کررہی ہیں تو اس کی وجہ مذہبی، تہذیبی، سماجی، نفسیاتی اور جذباتی ہوگی، مگر ہندو انتہا پسند اس نکتے پر غور کے لیے آمادہ نہیں۔ ہندو انتہا پسندوں کے لیے شاید اس بات کے بھی کوئی معنی نہیں ہوں گے کہ مسلم معاشرے میں عورت کا مقام ہندو معاشرے سے کہیں زیادہ بلند ہے اور مسلمان اپنی عورتوں کی زیادہ عزت کرتے ہیں، ان سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور ان کا زیادہ خیال کرتے ہیں۔ لیکن ہندو انتہا پسند، مسلمانوں کی اس برتری کو تسلیم کرلیں گے تو پھر ان کی بے پناہ نفرت اور ان کے اندر موجود بے پناہ تشدد کی قوت کہاں صرف ہوگی؟ اوروہ کس پر سازش کا الزام لگائیں گے؟