سلیم احمد نے کہا ہے کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہماری تہذیب ایک وحدت تھی، ایک اکائی تھی، مگر انگریزوں کی آمد کے بعد ہماری تہذیب دونیم ہوگئی۔ یعنی ہمارا شعور دو حصوں میں بٹ گیا۔ ہم صدیوں سے ہند اسلامی تہذیب کا حصہ تھے اور اسی سے وابستہ رہنا چاہتے تھے، مگر انگریزوں کی لائی ہوئی تہذیب کی کشش ہمیں متاثر کررہی تھی اور ہم اس کے ساتھ بھی ایک گہرا رشتہ استوار کرنا چاہتے تھے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے انفرادی اور اجتماعی شعور میں ایک کشمکش برپا ہوگئی۔ اس کشمکش کا پہلا اظہار سرسید کے یہاں نہیں غالب کے یہاں ہوا تھا جس نے کہا ہے:۔
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
کعبے اور کلیسا کی یہ کشمکش اپنی اصل میں دین اور دنیا کی کشمکش ہے۔ یہ کشمکش غالب کے زمانے میں شروع ہوئی اور پھر بڑھتی ہی چلی گئی، یہاں تک کہ سرسید کے یہاں جدید فکر ایک باضابطہ نظام بن گئی۔ لیکن اس کشمکش کی وجوہ کیا تھیں؟
اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہماری روایتی تہذیب میں دین اور دنیا ایک اکائی تھے، یعنی ان میں تفریق نہیں تھی۔ ایک سطح پر دنیا دین کے تابع تھی اور دوسری سطح پر دنیا بھی دین ہی تھی۔ کیونکہ مومن کی ہر چیز نیکی ہے، یہاں تک کہ مومن کا سونا بھی عبادت ہے۔ لیکن مغربی تہذیب کی آمد نے دنیا کو دین سے الگ کرکے نہ صرف یہ کہ دنیا کو زندگی کا ایک قطب یا ایک Pole بنادیا بلکہ یہ قطب تقریباً دین کا حریف بن گیا۔ اس صورت حال نے برصغیر کی ملّت ِاسلامیہ کو قدیم و جدید کی تقسیم میں مبتلا کرکے دو متحارب گروہوں میں ڈھال دیا۔
جدید و قدیم کی کشمکش برپا ہونے کی دوسری وجہ ہمارا ہولناک احساسِ غلامی ہے۔ اور احساسِ غلامی کے بارے میں اقبال نے ایک بنیادی بات کہہ رکھی ہے۔ انہوں نے کہا ہے ؎۔
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اقبال کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ غلامی کو صرف سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں، مگر غلامی صرف سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ یہ اتنا ہولناک تجربہ ہے کہ اس سے فرد کیا قوموں کا ضمیر بھی بدل کر رہ جاتا ہے، یہاں تک کہ انہیں اپنی تہذیب کا ہنر عیب نظر آنے لگتا ہے اور غالب تہذیب کے عیوب میں بھی انہیں ہنر کی صورتیں نظر آنے لگتی ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ سو ڈیڑھ سو سال سے ہمارے معاشرے کے بالائی طبقات یہ ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں کہ اردو ایک پسماندہ زبان ہے اور انگریزی انتہائی ترقی یافتہ زبان ہے، چنانچہ ہمیں اردو کے بجائے انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنانا چاہیے۔ اردو اور انگریزی کی بحث کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس بحث میں زبان کی نوعیت کا سوال کبھی اٹھایا ہی نہیں جاتا۔ زبان کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ زبان محض ’’لسانی حقیقت‘‘ نہیں ہوتی، بلکہ وہ ایک ’’تہذیبی حقیقت‘‘ ہوتی ہے۔ یعنی ہر زبان کسی نہ کسی تہذیب کی علامت، اس کا مظہر، اس کی علم بردار یا اس کی Container ہوتی ہے۔ اردو کی اہمیت یہ ہے کہ اردو برصغیر کی ملّت ِ اسلامیہ کی تہذیب کی سب سے بڑی اور سب سے جامع علامت ہے۔ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کی تہذیب کی علامت پنجابی، سندھی، پشتو اور دوسری زبانیں بھی ہیں، مگر ان زبانوں کا مزاج کلاسیکی ہے۔ اردو کی اہمیت یہ ہے کہ وہ کلاسیکل اور جدیدیت کا حسین امتزاج ہے۔ یعنی اردو عربی، فارسی اور ہندی کی کلاسیکی روایت کو بھی جذب کیے ہوئے ہے اور جدید زندگی اور اس کی علمیت کے اظہار کی بھی اس میں غیر معمولی استعداد ہے۔ انگریزی دنیا کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے اور ہمیں جتنی اچھی انگریزی بولنی اور لکھنی آجائے کم ہے۔ مگر انگریزی ہماری ’’تہذیبی زبان‘‘ نہیں ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ ضرورت کے تحت جب ہم انگریزی سیکھیں گے تو ہمیں انگریزی کے ساتھ بیک وقت دوستی اور مزاحمت کا تعلق پیدا کرنا پڑے گا۔ دوستی کا تعلق اس لیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اچھی انگریزی سیکھ سکیں، اور مزاحمت کا تعلق اس لیے کہ ہم انگریزی کی اس تہذیبی فضا سے خود کو بچاسکیں جو ہماری تہذیبی فضا سے ہم آہنگ نہیں یا اس کی ضد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انگریزی نہ ہماری ’’مذہبی زبان‘‘ ہے، نہ ہماری ’’تہذیبی زبان‘‘ ہے، نہ اس میں ہمارا تاریخی تجربہ موجود ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انگریزی ہمارے لیے یا توصرف بول چال کی زبان ہے، یا سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ انگریزی کو ہمارے لیے ’’ذریعہ تعلیم‘‘ نہیں ہونا چاہیے، البتہ ہمیں اسے ایک ’’مضمون‘‘ کے طور پر ضرور سیکھنا چاہیے اور اس میں زیادہ سے زیادہ مہارت اور اہلیت پیدا کرکے دکھانی چاہیے۔ انسان کی زندگی میں زبان کا کردار مزید تین حوالوں سے اہم ہے:
(1) زبان کی ایک اہمیت یہ ہے کہ زبان ’’ابلاغ‘‘ کا ذریعہ ہے۔ لیکن ابلاغ کے لیے ’’بلاغت‘‘ ناگزیر ہے اور کسی ایسی زبان میں بلاغت پیدا ہو ہی نہیں سکتی جو ہماری تہذیبی زبان نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زبان اپنے امکانات پوری تہذیب میں ظاہر کرتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انگریزی ہمارے لیے ہرگز ذریعہ تعلیم نہیں ہوسکتی کیونکہ تعلیم کے لیے ابلاغ کی اہلیت ناگزیر ہے۔
(2) زبان کی اہمیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ زبان ’’تفہیم‘‘ کا ذریعہ ہے، اور تفہیم کے بارے میں ساری دنیا کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ تفہیم مادری زبان میں جتنی اچھی ہوتی ہے کسی اور زبان میں ویسی تفہیم کا تصور بھی محال ہے۔ انگریزی کی مشکل یہ ہے کہ وہ دو سو سال سے ہمارے درمیان موجود ہے مگر آج بھی ہمارے لیے ایک اجنبی زبان ہے اور ہم اسے ترجمے کی مدد ہی سے سمجھ سکتے ہیں، اور ترجمے کا مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم ترجمے کے ذریعے کسی زبان کو سمجھتے ہیں تو ہماری تفہیم کی آدھی صلاحیت ترجمے میں صرف ہوجاتی ہے۔ پھر زبان کا ترجمہ بہرحال ترجمہ ہوتا ہے اور اصل زبان ترجمے کی زبان سے مختلف ہوتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انگریزی ہمارے لوگوں کی اکثریت کے لیے ہمیشہ ترجمے کی زبان بنی رہے گی اور اس کے دائرے میں ہماری تفہیم کبھی بھی مکمل اور گہری نہیں ہوسکے گی۔ بلاشبہ اردو برصغیر کے مسلمانوں کی بڑی تعداد کی ’’مادری زبان‘‘ نہیں ہے، لیکن اردو کی تہذیبی فضا ایسی ہے کہ وہ پنجابی، سندھی، پشتو اور دیگر زبانیں بولنے والوں کے لیے دوسری ’’مادری زبان‘‘ بن گئی ہے۔
(3) زبان صرف ابلاغ اور تفہیم ہی کا ذریعہ نہیں۔ زبان کے ذریعے ہی نئے علم کا ظہور یا علم کا فروغ ممکن ہوتا ہے، اور علم کا فروغ اسی زبان میں ممکن ہے جو ہماری تہذیبی زبان ہو، جس میں ابلاغ کی زیادہ سے زیادہ اہلیت ہو، جس میں زیادہ سے زیادہ بہتر تفہیم ممکن ہو، اور جو ہمارے پورے وجود سے متعلق ہو۔ ہمارے اکثر لوگوں کے لیے انگریزی ان میں سے کسی اہلیت کی بھی حامل نہیں، چنانچہ سوال یہ ہے کہ انگریزی میں ہم تخلیق کی بنیادیں کس طرح پیدا اور استوار کرسکتے ہیں؟
ہمارے یہاں یہ بات نہ جانے کہاں سے آئی اور کیوں کر مشہور ہوئی کہ زبان آنے کا مطلب ہے اس زبان میں پڑھنے لکھنے کی معمولی استعداد پیدا کرلینا، مثلاً اخبار پڑھ لینا یا انگریزی اخبار کے ایڈیٹر کے نام ہلکا خط لکھ لینا۔ لیکن عصر حاضر میں تہذیبوں اور زبانوں کے بہت بڑے ماہر آنند کمارا سوامی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کسی زبان کے آنے کا اصل مفہوم اس زبان کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کی اہلیت پیدا کرنا ہے۔ اردو کا کمال یہ ہے کہ میر، غالب اور اقبال کو ہمارے اوسط درجے کے طالب علم بھی کچھ نہ کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن انگریزی میں ملٹن، جان کیٹس اور ٹی ایس ایلیٹ کو اوسط درجے کے طالب علم کیا، انگریزی ادب کے استاد بھی پوری طرح نہیں سمجھ پاتے۔ انگریزی شاعری کا ذوق پیدا کرنا تو اور بھی بڑی بات ہے۔ ہماری انگریزی دانی کا یہ حال ہے کہ ہم ملٹن اور جان کیٹس کی نظموں سے کیا Humpty Dumpty Set on a wall اور Twinkle Twinkle Little Star سے بھی پوری طرح ’’لطف اندوز‘‘ ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
انگریزی کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے اور بالکل درست کہی جاتی ہے کہ انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے، ریاضی اور طبیعات کی زبان ہے۔ لیکن ریاضی اور اس کے فارمولوں کی زبان اور طبیعات اور اس کی پیچیدہ اصطلاحوں کا تعلق بھی تصورات یا “Concepts” سے ہے۔ اور Concepts کا تعلق زبان سے ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس شخص کو زبان نہیں آتی یا جو زبان میں مہارت نہیں رکھتا وہ اچھا ریاضی داں اور اچھا ماہر طبیعات بھی نہیں بن سکتا۔ اور زبان میں مہارت زبان کی تہذیب سیکھے بغیر نہیں آسکتی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر پاکستان کو ریاضی اور طبیعات میں کارنامے انجام دینے ہیں اور ٹیکنالوجی کے میدان میں معرکے سر کرنے ہیں تو اس کا امکان انگریزی کی نسبت اردو میں کہیں زیادہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں جن اقوام نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بڑے ذہن پیدا کیے ہیں انہوں نے اپنی مادری یا تہذیبی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا ہے۔ مثلاً روس، جاپان، جرمنی، فرانس، چین اور کوریا وغیرہ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اردو سے رشتہ توڑنے کا نقصان کیا ہے؟
اردو نے گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں مذہبی ادب کی اتنی بڑی روایت پیدا کی ہے کہ اس کی مثال عربی اور فارسی میں بھی موجود نہیں۔ برصغیر کی ملت اسلامیہ نے اس عرصے میں پانچ چھ بڑی تفاسیر پیدا کی ہیں، سیرت النبیؐ پر عالمی سطح کی کتب تصنیف کی ہیں۔ اس عرصے میں اردو میں مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا علم کلام پیدا ہوا ہے۔ اردو سے کٹ جانے کا مطلب اس پورے مذہبی ادب سے کٹ جانا ہے۔
اردو نے گزشتہ ڈھائی سو سال کی تاریخ میں شاعری کی بے مثال روایت پیدا کی ہے۔ اس روایت میں میر، غالب، اکبر الہٰ آبادی اور اقبال جیسے شاعر ہیں۔ چنانچہ اردو سے دور ہونے کا مطلب اردو کی عظیم ادبی روایت سے محرومی ہے۔
اردو کی تاریخ میں اگرچہ دلّی اور یوپی کو مرکزیت حاصل رہی ہے، لیکن گزشہ ڈیڑھ سو سال میں اردو نے پورے برصغیر میں پنجاب اور بہار سمیت کئی بڑے مراکز پیدا کیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اردو نے کم و بیش برصغیر کی پوری ملت اسلامیہ کے ثقافتی مزاج کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔ چنانچہ جو شخص اردو سے دور ہوگا وہ برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کی مشترکہ ثقافی میراث کی سب سے بڑی لسانی علامت سے دور ہوگا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا مفہوم پنجاب کی آئندہ نسلوں کو تہذیبی جنت سے بے دخل کرکے انہیں مکمل تہذیبی خلا سے دوچار کرنا ہے، جس کا نہ کوئی مذہبی جواز ہے، نہ تہذیبی… یہاں تک کہ اس کا علمی اور عقلی جواز بھی موجود نہیں۔
مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ کبھی کسی زبان کی نفرت میں مبتلا نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ تمام زبانیں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ اس اعتبار سے مسلمان انگریزی کے بھی خلاف نہیں ہوسکتے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اردو ہمارے مذہب، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور ہماری اجتماعی ذہانت کی علامت ہے، اور انگریزی کے پاس ان میں سے کوئی اہلیت نہیں ہے۔ لیکن انگریزی دنیا کی ایک بڑی زبان ہے۔ اس کا علمی اور ادبی سرمایہ بے مثال ہے۔ اس سرمائے سے استفادے کے لیے ہمیں پاکستان میں ہی نہیں بلکہ مسلم دنیا کے ہر ملک میں انگریزی کی تعلیم کا ایسا بندوبست کرنا چاہیے کہ ہمارے یہاں ایسے لوگ پیدا ہوں جو بالآخر انگریزی کو بھی ہماری مذہبی، تہذیبی اور تاریخی زبان بنادیں۔ لیکن اس وقت انگریزی کو ہمارے یہاں محض مضمون اور محض ایک زبان کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ ہمارا ذریعہ تعلیم صرف وہی زبان ہوسکتی ہے جو ہماری مادری یا تہذیبی زبان ہو۔ اسی میں ہماری ’’فلاح‘‘ ہے اور اسی میں ہماری ’’ترقی‘‘ ہے۔