۔1857ء کی جنگِ آزادی برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اس جنگِ آزادی میں انگریزوں نے ستّر لاکھ سے زیادہ انسانوں کو قتل کیا۔ اس جنگ میں دہلی کی کوئی گلی ایسی نہ تھی جہاںکسی نہ کسی مسلمان کو قتل نہ کیا گیا ہو۔
میلان کنڈیرا نے کہا ہے کہ جبر کے خلاف جدوجہد دراصل بھول کے خلاف یاد کی جدوجہد ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسانی تاریخ جبرو تشدد کے غلبے اور اس کے خلاف جدوجہد سے بھری ہوئی ہے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ تاریخ کے ہر صفحے پر طاقت اور تشدد کی مہر لگی ہوئی ہے۔ یہ بات اس تناظر میں حیران کن ہے کہ روئے زمین پر انسان کی تاریخ کا آغاز مذہب سے ہوا، اور مذہب انسان کو تشدد کرنا نہیں سکھاتا۔ تاریخ کے طویل سفر میں انسان نے درجنوں علوم و فنون پیدا کیے ہیں۔ سب سے بڑا آرٹ یعنی شاعری تخلیق کی ہے، اور شاعری انسان کو انسان سے محبت کرنا سکھاتی ہے، اس کے بہیمانہ جذبات کی تہذیب کرتی ہے۔ مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان پر نہ مذہب کا اثر ہے، نہ محبت اور شاعری کا۔ سوال یہ ہے کہ انسان کی تاریخ میں اتنا تشدد کیوں ہے؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اس تشدد کے اسباب کیا ہیں؟
انسان کے بہیمیت اور تشدد پر مائل ہونے کی سب سے بڑی وجہ انسان کی خدائی ہے۔ انسان طاقت اور دولت حاصل کرلیتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ بدل کر کچھ اور ہوگیا ہے۔ بعض لوگ طاقت اور دولت کی وجہ سے خود کو ’’سپرمین‘‘ سمجھنے لگتے ہیں، اور بعض لوگوں کی خودپسندی انہیں اس سے بھی آگے لے جاتی ہے اور وہ خود کو خدا کی خدائی میں شریک سمجھنے لگتے ہیں، بلکہ خدائی کا دعویٰ کردیتے ہیں۔ سیدنا ابراہیمؑ نے جب نمرود سے کہا کہ میرا خدا وہ ہے جس کے پاس زندگی اور موت کا اختیار ہے، تو نمرود کو محسوس ہوا کہ یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ چنانچہ اُس نے موت کے حق دار مجرموں کی سزائے موت منسوخ کردی، اور جن لوگوں نے کچھ نہیں کیا تھا انہیں موت کی سزا سنادی۔ ہمارے دور میں امریکا اور سوویت یونین دو بڑی طاقتیں تھیں۔ اگرچہ انہوں نے اس بات کا اعلان نہیں کیا کہ وہ زمین کے خدا ہیں، مگر ان کا طرزِفکر اور طرزِعمل ایسا ہی تھا کہ جیسے روئے زمین کے تمام انسان اُن کے آگے سجدہ ریز ہونے کے پابند ہیں۔ امریکا ویت نام میں داخل ہوا تھا تو اُس کے ہاتھ میں اپنی بے پناہ عظمت کا پرچم تھا۔ سوویت یونین افغانستان میں آیا تھا تو بائیں بازو کے لوگ کہا کرتے تھے کہ اب افغانستان میں وہی کچھ ہوگا جو سوویت یونین چاہے گا۔ یہ خیال سوویت یونین کو خدا کے منصب پر فائز کرنے ہی کا نتیجہ تھا۔ سوویت یونین ختم ہوا تو امریکا دنیا کی واحد سپرپاور بن گیا اور اُس کے تکبر میں مزید اضافہ ہوگیا، اس کے نتیجے میں امریکا کا تشدد بھی بڑھ گیا۔
تاریخ میں بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ انسان اپنے آبا و اجداد کے طریقوں سے چمٹ کر رہ گیا اور اس نے ان طریقوں کو بچانے اور انہیں برحق ثابت کرنے کے لیے طاقت کا سہارا لیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار اور مشرکین کے سامنے جو دعوت پیش کی اُس پر اُن لوگوں بالخصوص مشرکین کو ایک بڑا اعتراض یہی تھا کہ یہ دعوت ان کے آباو اجداد کے دین کے خلاف ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعوت کی وجہ سے اپنے آباو اجداد کے طریقوں کو ہرگز نہ چھوڑیں گے۔ انسان کی فطرت ایسی ہے کہ وہ ہر پرانی چیز کو اچھا سمجھنے لگتا ہے اور اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، خواہ پرانی چیز تعصب ہی کیوں نہ ہو۔ ہماری دنیا جدید دنیا کہلاتی ہے، اس کی ہر چیز نئی ہے، مگر اس دنیا میں بھی سیکڑوں سال پرانے تعصبات موجود ہیں۔ کوئی نسل کے تعصب میں مبتلا ہے، کوئی رنگ کے تعصب کا پرچم لیے کھڑا ہے۔ لیکن مسئلہ صرف تعصب میں مبتلا ہونے کا نہیں ہے۔ تعصب انسان کو انسان سے دور کرتا ہے اور انسانوں کو انسانوں پر تشدد پر اکساتا ہے۔ اسی تعصب نے بھارت کیا یورپ میں بھی کروڑوں مسلمانوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔
دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مذہب کو تشدد کا باعث قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اسلام اور اس کا تصورِ جہاد اس وقت پوری دنیا میں زیربحث ہے۔ بلاشبہ اسلام مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیتا ہے اور جہاد میں قتال بھی شامل ہے۔ لیکن اسلام میں جہاد وقتال کی ایک منطق ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کا خالق ومالک ہے، اس روئے زمین پر صرف اللہ کا حکم چلنا چاہیے، اور جہاد وقتال اللہ کا حکم ہے۔ مولانا رومؒ نے جہاد کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دوست کے آئینے پر دوست کا پتھر مار، یعنی انسان کو صرف اللہ کے حکم سے قتل کر۔ لیکن جہاد کی شرائط ہیں اور ان شرائط پر سختی سے عمل ضروری ہے۔ اسلام کے نزدیک انسان کی جان سے زیادہ قیمتی کچھ بھی نہیں۔ چنانچہ اسلام کہتا ہے کہ جنگ میں عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کو کچھ نہ کہو۔ کھڑی فصلوں کو آگ نہ لگائو۔ ٹھیرے ہوئے پانی میں زہر نہ ملائو۔ جو سپاہی میدانِ جنگ سے بھاگ کھڑا ہو اُس سے تعارض نہ کرو۔ عبادت گاہوں اور ان میں موجود لوگوں کو کچھ نہ کہو۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام جنگ کی شخصی بنیاد کو منہدم کرتا اور جہاد کو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے منسلک کردیتا ہے۔
تاریخ میں اپنی تہذیب کی برتری کا احساس بھی تشدد کا سبب بنا ہے۔ بالخصوص یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں کا تو بنیادی مسئلہ ہی یہ تھا۔ نوآبادیاتی طاقتیں دنیا کے ایک بڑے حصے پر قابض ہوئیں تو انہوں نے White Man’s Burden یا سفید فام انسان کے بوجھ کا ذکر شروع کیا۔ اس بات کا مطلب یہ تھا کہ تاریخ کے سفر میں سفید فام حقیقی معنوں میں مہذب ہوگئے ہیں اور انہوں نے ایک برتر تہذیب پیدا کرکے دکھا دی ہے، چنانچہ اب ان کا فرض ہے کہ وہ دنیا کی غیر مہذب اقوام کو مہذب بنائیں۔ لیکن یورپ کے مہذب لوگوں نے غیر مہذب اقوام کو مہذب بنانے کے بجائے اپنا غلام بنا لیا۔ تو کیا غلامی بھی تہذیب کا کوئی عکس تھی؟ لیکن یورپی باشندوں نے غیر سفید فام اقوام کو صرف اپنا غلام ہی نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے غیر یورپی اقوام پر ظلم وتشدد کی انتہا کردی۔ سفید فام امریکا گئے تو انہوں نے امریکا پر قبضے کے لیے دو کروڑ سے زیادہ ریڈانڈینز کو مار ڈالا۔ یورپی باشندے براعظم آسٹریلیا پر قابض ہوئے تو انہوں نے مقامی قبائل کے لاکھوں افراد کو تہہ تیغ کردیا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اس جنگِ آزادی میں انگریزوں نے ستّر لاکھ سے زیادہ انسانوں کو قتل کیا۔ اس جنگ میں دہلی کی کوئی گلی ایسی نہ تھی جہاںکسی نہ کسی مسلمان کو قتل نہ کیا گیا ہو۔
تاریخ کے طویل سفر میں تشدد کا ایک سبب قوموں کے مفادات کا ٹکرائو بھی ہے۔ یورپی طاقتوں کی تہذیب ایک تھی، تاریخ ایک تھی، مذہب ایک تھا، جغرافیہ ایک تھا… مگر ان کا مفاد ایک نہیں تھا۔ چنانچہ ان کے درمیان پہلی جنگِ عظیم برپا ہوئی۔ جنگِ عظیم اول تباہ کن تھی مگر یورپی طاقتوں کے مفادات ایسے تھے کہ اِس جنگ کے کچھ ہی عرصے بعد دوسری جنگِ عظیم برپا ہوگئی۔ ایک اندازے کے مطابق دو عالمی جنگوں میں سات سے دس کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ اس سے دوگنا زخمی ہوئے۔ امریکا اور سوویت یونین 20 ویں صدی کی دو بڑی اور متحارب قوتیں تھیں۔ ان کے درمیان مفادات کا زبردست تصادم موجود تھا۔ اگرچہ ان دونوں نے براہِ راست جنگ تو نہیں لڑی مگر اپنے آلۂ کاروں اور مددگاروں کے ذریعے بالواسطہ طور پر کئی جنگیں لڑیں۔
تاریخ کا ایک مخصوص تصور ہی تشدد کی وجہ رہا ہے۔ ہیگل نے انسانی ذہن کو تصورات کی رزم گاہ قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ تعارض یا تصادم انسان کی فطرت میں ہے۔ اس نے کہا تھا کہ ایک خیال پیدا ہوتا ہے اور کچھ عرصے کے لیے دنیا پر چھا جاتا ہے، مگر پھر اس خیال سے اس کی ضد پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اصل خیال اور اس کی ضد کے درمیان تصادم ہوتا ہے، اس تصادم سے ایک نیا، بہتر اور صالح خیال برآمد ہوتا ہے، اور پھر کچھ عرصے بعد اس نئے خیال کی بھی ایک ضد پیدا ہوجاتی ہے۔ ہیگل کے مطابق تاریخ کا سفر ایسے ہی جاری رہتا ہے۔ کارل مارکس نے ہیگل کے اس تصور کو بدل دیا۔ اس نے کہا کہ تصادم موجود تو ہے مگر خیالات یا Ideas میں نہیں بلکہ یہ تصادم طبقات میں موجود ہے۔ اس نے کہا کہ ایک طبقہ مال دار ہے اور ایک طبقہ وسائل سے محروم محنت کشوں کا طبقہ ہے۔ مارکس نے کہا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ ہمیشہ مزدوروں کا استیصال کرتا ہے، چنانچہ محنت کشوں کو چاہیے کہ وہ متحد ہوکر مال دار طبقے سے وسائل چھین لیں۔ اس تجزیے کی بنیاد پر مارکس نے کہا کہ ہیگل سر کے بل کھڑا ہوا تھا میں نے اسے سیدھا کردیا۔ کارل مارکس کے اس خیال کی اہمیت یہ ہے کہ اس کی بنیاد پر روس اور چین میں کمیونسٹ انقلابات برپا ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق روس میں ایک کروڑ اور چین میں چار کروڑ افراد قتل ہوئے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کمیونزم جب تک زندہ رہا طبقاتی کشمکش اور طبقاتی تشدد کو ہوا دیتا رہا۔
جدید دنیا کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس پر ایک ایسے طبقے کی حکمرانی ہے جس کے لیے مال ودولت ہی سب کچھ ہے۔ چنانچہ اس طبقے نے وہ صنعت پیدا کی ہے جسے عرفِ عام میں دفاعی صنعت کہا جاتا ہے، مگر درحقیقت یہ جنگی صنعت کے سوا کچھ نہیں۔ اس جنگی صنعت نے دنیا کے کئی علاقوں میں محض اس لیے جنگیںکرائیں کہ اس صنعت کا تیار کردہ اسلحہ یا جنگی سامان فروخت ہوسکے۔ یہ ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور ایران کا خوف پیدا کرکے عرب ملکوں کو کئی سو ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔
تناظر کا اختلاف اور امتیاز بھی قوموں اور گروہوں کو تصادم کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ طالبان پاکستان کے جرنیلوں کی تخلیق تھے، مگر نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف ایک ٹیلی فون کال پر امریکا کی گود میں جا بیٹھے اور انہوں نے طالبان سے بھی ایسا ہی کرنے کا مطالبہ کیا۔ مگر طالبان نے اپنا تناظر، ایقان یا Conviction بدلنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور طالبان کے درمیان تصادم شروع ہوگیا۔ یہ تصادم پچیس ہزار سے زیادہ عام افراد اور پانچ ہزار سے زیادہ فوجیوں کو نگل گیا۔ مکالمہ تصادم سے بچنے کی ایک صورت ہے مگر اخلاقی اعتبار سے کمزور انسان مکالمے کو پسند نہیں کرتے۔ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ وہ مکالمہ کریں گے تو پہچان لیے جائیں گے۔ مکالمے سے انسان کا یہ گریز بھی اسے تشدد کی طرف مائل کرتا ہے۔ انسان کی زندگی میں مکالمہ موجود ہوتا تو اس کی انفرادی، اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کافی پُرامن ہوتی۔