انسانی تاریخ میں علم اور سیاست کا تعلق اتنا گہرا ہے کہ علم کے بغیر سیاست کا تصورہی نہیں کیا جا سکتا۔ مذاہب عالم کی تاریخ میں اللہ تعالیٰ نے یا تو نبوت اور حکمرانی کو یکجا کیا ہے جیسے حضرت دائودؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت یوسفؑ، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں یا پھر اللہ تعالیٰ نے سیاست کو تقویٰ اور علم کی فضیلتوں کے تابع کیا ہے جیسا کہ خلفائے راشدین کی مثالوں سے ظاہر اور ثابت ہے۔ یہ صرف اسلام کا معاملہ نہیں دیگر مذاہب میں بھی یہ روایت موجود رہی ہے۔
اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری دین اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سردار الانبیاء ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایمان کے بعد سب سے زیادہ زور علم پر دیا گیا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں 800 سے زائد مقامات پر علم یا اس کے متعلقات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تہذیبی اور معاشرتی حوالے سے دیکھا جائے تو اسلام صرف دو فضیلتوں پر اصرار کرتا ہے۔ تقویٰ کی فضیلت پر اور علم کی فضیلت پر۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو تقویٰ اور علم کا تعلق یہ ہے کہ علم تقویٰ کی گویائی ہے اور تقویٰ علم کی خاموشی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوںکی اصل ایک ہے۔ یعنی وحی اور وحی کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی یکتائی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کا معاملہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان، تقویٰ اور علم کی کامل ترین صورت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی کمالات کی اصل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ علم عطا کیا گیا جو کسی اور کو نہیں دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کمالات کے ساتھ اہل ایمان کی قیادت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ریاست کی بنیاد رکھی اور علم وحی کی روشنی میں مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی نگرانی کی اور ان کی خدمت اور خیر خواہی کے اسالیب مرتب فرمائے۔ اسلام میں ریاست کی غایت اور سیاست کا مقصد یہی ہے کہ اللہ کے کلمے کو غالب کیا جائے اور مسلمانوں کے اجتماعی امور کی دیکھ بھال کی جائے اور ان کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مسلمانوں کے درمیان رہے وہ علم وحی کی بنیاد پر امتِ مسلمہ کی قیادت فرماتے رہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معاملات خلفائے راشدین کے ہاتھ میں آگئے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے زمانے تک آتے آتے خلفائے راشدین کا تصور یہ ہو گیا ہے کہ جیسے وہ صرف تقویٰ اور پرہیز گاری کا کامل نمونہ تھے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تقویٰ اور علم کی یکجائی کی اعلیٰ ترین مثال تھے۔ مثال کے طور پر ہم چاروں خلفاء کے ساتھ ’’راشد‘‘ کی صفت وابستہ کرتے ہیں۔ لیکن اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ’’راشد‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟ ’’راشد‘‘ ہدایت یافتہ یا The Guided One کو کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت وحی متلُو اور وحی غیر متلُو کی صورت میں تھی اور خلفائے راشدین کے لیے ہدایت الہام کی اعلیٰ ترین صورت میں رہی ہو گی۔ اس کے بغیر ہماری تہذیب اور تاریخ انہیں ’’خلفائے راشدین‘‘ کہہ کر پکار ہی نہیں سکتی تھی۔ اس سلسلے میں ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث مبارکہ بھی یاد رکھنی چاہیے جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں شہر علم ہوں۔ ابو بکرؓ اس کی چھت ہیں۔ عمرؓ اور عثمانؓ اس کی دیواریں ہیں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ خلفائے راشدین کے بعد خلافت، ملوکیت میں تبدیل ہو گئی تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ کے بعد جو لوگ مسلمانوں کے حاکم بنے وہ خلفائے راشدین کی طرح ’’ہدایت یافتہ‘‘ نہیں تھے بلکہ انہوں نے ’’اپنی عقل‘‘ ہی کو اپنا رہنما بنا لیا تھا۔ ہماری تاریخ عمر بن عبدالعزیز کو پانچواں خلیفہ کہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمر بن عبدالعزیز بھی ’’ہدایت یافتہ‘‘ تھے۔ اور ظاہر ہے کہ ہدایت علم ہی کی ایک صورت ہے۔ بدقسمتی سے ہم صحابۂ کرام بالخصوص خلفائے راشدین کی جامعیت اور کلیت کے شعور سے عاری ہو گئے ہیں۔ مثلاً حضرت عمر فاروقؓ کو زیر بحث لاتے ہوئے کتنے لوگ اس بات پر غور کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ سے جو بعض خرقِ عادات واقعات منسوب ہیں ان کی معنویت کیا ہے؟ مثلاً حضرت عمرؓ کے زمانے میں دریائے نیل خشک ہو گیا اور اس زمانے میں عہد جاہلیت کی یہ رسم موجود تھی کہ خشک دریا کو اگر کسی جوان لڑکی کی قربانی دی جائے تو دریا پھر سے رواں ہو جاتا ہے۔ مگر زمانہ حضرت عمرؓ کا تھا چنانچہ لوگ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور دریائے نیل کے خشک ہونے کی شکایت کی۔ حضرت عمرؓ نے دریائے نیل کے نام ایک خط تحریر فرمایا جس میں آپ نے لکھا کہ اے نیل اگر تو خود رواں ہوتا ہے تو بے شک خشک پڑا رہ لیکن اگر تو اللہ کے حکم سے جاری ہوتا ہے تو پھر سے جاری ہو جا۔ لوگوں نے حضرت عمرؓ کا یہ خط دریائے نیل میں جا کر ڈال دیا اور چند گھنٹوں بعد دریائے نیل جاری ہو گیا۔ حضرت عمرؓ کی زندگی کا یہ واقع بھی مشہور ہے کہ وہ مسجد نبوی میں جمع کا خطبہ دے رہے تھے اور اسلامی لشکر وہاں سے تین سو کلومیٹر دور میدانِ جنگ میں داد شجاعت دے رہا تھا کہ اچانک دشمن مسلمانوںکے لشکر کے عقب سے نمودار ہو نے والا تھا۔ حضرت عمرؓ خطبہ دیتے دیتے ٹھہر گئے اور انہوں نے اسلامی لشکر کے سپہ سالار کا نام لے کر کہا کہ تم اپنے لشکر کے عقبی حصے کی فکر کرو۔ روایات میں آیا ہے کہ اسلامی لشکر کے سربراہ نے حضرت عمرؓ کی یہ آواز سنی اور انہوں نے لشکر کے عقبی حصے پر توجہ دے کر دشمن کے حملے کو ناکام بنا دیا۔ یہ خرقِ عادات واقعات یہ کرامتیں تقویٰ کی گویائی اور علم کی خاموشی کی مظہر نہیں تو اور کیا ہیں؟
ہندوئوں کی تاریخ میںہندوئوں کی ذاتوں برہمن اور اکشتریہ کی یکجائی دراصل علم اور سیاست کی یکجائی ہے۔ ہندوازم کی اصل تعلیمات کی رو سے برہمن کسی نسل یا ذات کا نام نہیں بلکہ وہ ایک روحانی اور علمی اہلیت کا نام ہے۔ اس لیے کہ برہمن تقویٰ اور علم کی یکجائی کی علامت ہے اور اس لیے وہ اپنی آسمانی کتب اور مذہبی تعلیمات کا ’’مفسّر‘‘ اور ’’عقیدے کا محافظ‘‘ ہے۔ اکشتریہ اس کے مقابلے پر جسمانی قوت کی علامت ہے اور اس لیے وہ ’’ریاست کا محافظ‘‘ ہے لیکن ریاست کی حفاظت کے لیے اسے ہر لمحہ برہمن کی رہنمائی درکار ہے۔ کیونکہ تقویٰ اور علم کی فضیلت جیسی برہمن کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں۔ ہندو ازم میں اس تعلق کی کلاسیکل مثال کرشن اور ارجُن کا تعلق ہے۔
ہندوئوں کی تاریخ میں کرشن اوتار یا پیغمبر کا درجہ رکھتے ہیں اور ہندو ازم کی تاریخ میں مہا بھارت کو وہی مقام حاصل ہے جو مسلمانوں کی تاریخ میں غزوۂ بدر کو حاصل ہے ۔ یعنی مہا بھارت ہندو ازم کی تاریخ میں حق و باطل کا معرکہ ہے۔ یہ معرکہ ایک ہی باپ مگر مختلف مائوں کی ایک سو پانچ اولادوں کے درمیان برپا ہوا۔ ایک طرف ایک ہی ماں سے جنم لینے والے پانچ بھائی تھے جو پانڈو کہلاتے تھے اور دوسری جانب دوسری مائوں سے پیداہونے والے (100) سو بھائی تھے جو کورو کہلاتے تھے۔ پانڈو حق کی علامت تھے اور کورو باطل کی علامت۔ کرشن کی مشکل یہ تھی کہ ان کا تعلق پانڈو سے بھی تھا اور کورو سے بھی۔ مہا بھارت کا معرکہ برپا ہونے والا تھا کہ کورو کرشن کے پاس آئے اور کہا کہ اس معرکے میں آپ ہماری مدد کریں۔ کرشن نے کہا کہ میں نے اس جنگ میں ہتھیار نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے البتہ میری فوج موجود ہے۔ اب تم چاہو تو مجھے لے لو اور چاہو تو میری فوج لے جائو۔ کورو باطل پر تھے انہوں نے سوچا جب کرشن ہتھیار ہی نہیں اٹھائیں گے تو وہ جنگ میں ہمارے کیا کام آئیں گے۔ چنانچہ وہ کرشن کی فوج لے گئے۔ کورو کے بعد پانڈو کا سپہ سالار ارجن کرشن کے پاس آیا اور کرشن سے مدد کی درخواست کی۔ کرشن نے کہا کہ کورو میری فوج لے گئے ہیں اور میں جنگ میں ہتھیار نہیں اٹھائوں گا۔ ارجن نے کہا مجھے آپ کی فوج کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے لیے تو کرشن ہی کافی ہیں خواہ وہ ہتھیار اٹھائیں یا نہ اٹھائیں۔ چنانچہ ہوا کہ کرشن جنگ میں ارجن کا رتھ چلائیں گے یعنی گھوڑوں سے چلنے والی اس بڑی سی تانگے نما گاڑی کے گھوڑوں کو ہانکیں گے جس پر سوار ہو کر ارجن جنگ لڑے گا۔ مہا بھارت کا معرکہ برپا ہونے والا تھا اور دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں کہ ارجن نے دونوں طرف کی اگلی صفوں کا معائنہ فرمایا۔ اس نے دیکھا کہ اگلی صفوں میں ایک ہی خاندان کے مختلف لوگ کھڑے ہیں۔ مثلاً ایک طرف باپ ہے تو دوسری طرف بیٹا ہے۔ ایک طرف چاچا ہے دوسری طرف بھتیجا ہے۔ ایک طرف بڑا بھائی ہے دوسری طرف چھوٹا بھائی ہے۔ ایک طرف استاد ہے اور دوسری طرف شاگرد اس کے خلاف ہتھیار اٹھائے کھڑا ہے۔ ارجن نے یہ دیکھا تو اس کا حوصلہ پست ہو گیا۔ اس نے سوچا کیا ہم اقتدار کے لیے اپنے ہی پیاروں کا خون بہائیں گے۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ مجھے ایسا اقتدار نہیں چاہیے۔ مجھے ایسی جنگ نہیں لڑنی۔ یہ صورت حال پر ایک اکشتریہ کا ردعمل تھا۔ جسمانی طاقت کی سب سے بڑی علامت کا ردِ عمل تھا۔ کرشن کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے ارجن کو سامنے بٹھا کر ایک زبردست تقریر کی۔ یہ تقریر ہندوئوں کی تاریخ میں گیتا کہلاتی ہے جو ویدوں کے بعد ہندوازم کی مقدس ترین کتاب ہے۔ اس تقریر میں کرشن نے ارجن کو بتایا کے مذہب کیا چیز ہے؟ روح کسے کہتے ہیں اور جسم کیا ہے؟ کرشن نے بتایا کہ مذہب حق پرستی اور اس کے دفاع کا نام ہے اور یہ جنگ حق و باطل کی جنگ ہے چنانچہ اس میں انسانی رشتوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ کرشن نے بتایا کے روح لافانی ہے اور جسم فانی ہے۔ چنانچہ اصل چیز روح ہے جسم نہیں۔ انھوں نے ارجن پر آشکار کیا کہ تم چہروں یعنی جسم کی محبت میں مبتلا ہو گئے ہو جو شرم کی بات ہے۔ تمہارا مقام اس سے بلند تر ہے۔ تم عقیدے اور ریاست کے محافظ ہو۔ تمہیں بزدلی زیب نہیں دیتی۔ کرشن کے اس خطاب نے تھوڑی ہی دیر میں ارجن کی قلبِ ماہیت کر دی اور ارجن جنگ لڑنے پر آمادہ ہو گیا۔ اس نے جنگ لڑی اور فتح حاصل کی۔ لیکن پانڈووں کی یہ فتح علم و عمل کی یکجائی سے برآمد ہوئی۔ اس مرحلے پر کرشن آسمانی علم کی علامت بن کر سامنے آئے اور ارجن عمل کا استعارہ بن کر ظاہر ہوا۔ لیکن ارجن کا صحیح عمل کرشن کے صحیح علم کا محتاج تھا۔ اس کے بغیر اس کا تصور بھی محال تھا اس لیے کہ ارجن جذباتی ہو کر جنگ لڑنے سے انکار کر چکا تھا۔ کرشن نہ ہوتے تو مہا بھارت ہی نہ ہوتی اور مہا بھارت نہ ہوتی تو باطل پر حق کو بالادستی بھی حاصل نہ ہوتی۔ افسوس ہندوئوں نے اپنی اس مذہبی روایت اور تاریخ کو فراموش کر دیا۔
عیسائیت کی تاریخ میں چرچ اور بادشاہت کا ’’اتحاد‘‘ اصولی اعتبار سے علم اور سیاست کا اتحاد تھا اور اس اتحاد کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی تھی کہ عیسائیت کی تاریخ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی مثال موجود نہ تھی۔ اگر حضرت عیسٰیؑ نے حکومت کی ہوتی تو عیسائیت کی تاریخ میں بھی علم اور سیاست کی یکجائی موجود ہوتی۔ عیسائیت کی تاریخ میں چونکہ خلافت راشدہ کا تجربہ بھی موجود نہ تھا اس لیے بھی عیسائیت کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ روحانی اور سیاسی اتھارٹی کو یکجا کر کے ایک ’’اکائی‘‘ تخلیق کرے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عیسائیت کی تاریخ میں چرچ اور بادشاہت کے اتحاد میں کوئی برائی نہیں تھی۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ چرچ خود کو مذہب کی سطح پر لے جانے کے بجائے مذہب کو اپنی سطح پر لے آیا وہ ’’حق‘‘ کی بجائے اپنے ’’مفادات‘‘ کا تحفظ کرنے لگا۔ چنانچہ یورپ میں چرچ کی وجہ سے مذہب کے خلاف جذبات پیدا ہونے شروع ہوئے جو مذہب کے خلاف مکمل بغاوت پر منتج ہوئے اور مغرب میں ریاست و سیاست اور اجتماعی زندگی کے تمام معاملات سیکولر طرز فکر کی نذر ہو گئے۔ یہاں تک کہ اس طرز فکر نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا اور خود مسلمان بھی اس طرزِ فکر سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
اگر چہ مغرب علم کی مذہبی روایت سے کنارہ کش ہو گیا لیکن وہاں علم اور سیاست کی یکجائی کا تصور کسی نہ کسی صورت میں بہرحال باقی رہا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ روسو اور والٹیئر کی فکر نے فرانس میں، مارکس کی فکر نے روس میں اور مائو کی فکر نے چین میں انقلاب برپا کیا۔ فرانس میں 20 ء ویں صدی کے وسط میں ژاں پال سارتر نے جو فلسفی اور ادیب تھا فرانس کی تاریخ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس نے الجزائر پر فرانس کے قبضے کی مخالفت کی اور ایک زبردست عوامی تحریک برپا کی جو فرانس کی جامعات کے طلبہ و طالبات میں بے حد مقبول ہوئی اور اس کی وجہ سے بالآخر فرانس کو الجزائز سے واپس لوٹنا پڑا۔
۔20 ویں صدی میں برصغیر کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ابتدائی پچاس برسوں میں علم و دانش، سیاست کی قیادت اور اس کی نگہبانی کرتے نظر آتے ہیں۔ مسلمانوں میں سرسید، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی، اقبال، مولانا ابوالکلام آزاد، محمد علی جناح اور مولانا مودودیؒ ہماری علمی اور تخلیقی زندگی کی بڑی علامت تھے۔ ہندوئوں میں گاندھی اور نہرو محض سیاست دان نہ تھے ان کا ایک بڑا روحانی اور علمی حوالہ بھی موجود تھا۔ تجزیہ کیا جائے تو انسانی تاریخ میں علم اور سیاست کی یکجائی کا مفہوم یہ ہے کہ سیاست اگر علم کی بالادستی کو تسلیم کر لے اور اس کی نگرانی میں اپنے فرائض انجام دے تو وہ ایک مثبت قوت ہے لیکن علم کی روشنی سے محروم ہوتے ہی وہ ایک منفی قوت میں تبدیل ہو جاتی ہے لیکن سیاست کی اصل ضرورت ’’یقینی علم‘‘ ہے اور یقینی علم وحی کے سوا کہیں سے آ ہی نہیں سکتا۔ وحی کی روشنی کا انکار کر کے انسانی عقل جو علم تخلیق کرتی ہے وہ اندازے اور اٹکل کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اور اندازے کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کبھی صحیح ہوتا ہے اور کبھی صحیح نہیں ہوتا۔ بلکہ اندازے پر جیسے جیسے مفادات کا غلبہ ہوتا جاتا ہے اندازہ اتنا ہی غلط ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 20 ویں صدی میں وحی کی روشنی سے محروم انسانی عقل نے علم کے دریا بہا دیے لیکن 20 ویں صدی میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور خونریز عالمی جنگ برپا ہوئیں اور درجنوں دیگر چھوٹی بڑی جنگوں نے اربوں انسانوں کی زندگی پر ہولناک منفی اثرات مرتب کیے۔ 20 ویں صدی میں جنگ کی نفسیات اتنی اہم ہوئی کہ اس صدی میں کئی جنگیں ’’ایجاد‘‘ کی گئی ہیں۔ یعنی وہ فطری طور پر برپا نہیں ہوئیں بلکہ انہیں مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے برپا کیا گیا۔ یہ صورت حال حقیقی علم اور سیاست کی جدائی اور انسان کی عقل کی نارسائی کا سب سے بڑا اشتہار ہے۔