ترقی پسندوں اور نیم ترقی پسندوں کو انسانی تاریخ پر ایک اعتراض یہ رہا ہے کہ تاریخ بادشاہوں یا چند شخصیات کی فکر اور کردار و عمل کا نام بن کر رہ گئی ہے، اور اس تاریخ میں عوام کی زندگی اور ان کی جدوجہد کی کوئی جھلک نہیں ملتی۔ چنانچہ دنیا میں تاریخ لکھنے کا ایک اسلوب یہ مرتب ہوا ہے کہ تاریخ کو عام لوگوں کے تناظر میں دیکھا اور بیان کیا جائے۔ تاریخ کے بارے میں یہ زاویۂ نظر درست نہیں، اور یہ رویہ تاریخ کے ایک مخصوص تصور کی پیداوار ہے۔ تاریخ کے اس تصور میں انسانی تاریخ دراصل طبقۂ امراء یا بورژوا کلاس اور محنت کشوں یا پرولتاریوں کی کشمکش کی حامل ہے۔ اس تصور کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ امیر لوگ اوّل و آخر شر ہیں، اور محنت کش اوّل و آخر خیر ہیں۔ اس تصور پہ دو بڑے اعتراضات ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ خیر و شر طبقاتی حقیقت نہیں ہیں، چنانچہ تاریخ میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک امیر آدمی غریبوں پر پچاس لاکھ روپے صرف کرکے بھی محسوس کرتا ہے کہ اس نے پانچ روپے صرف کیے ہیں، اور ایک غریب آدمی پچاس روپے کے لیے کسی کی جان لے لیتا ہے۔ اس تصور پر دوسرا بڑا اعتراض یہ کیا جاسکتا ہے کہ امارت امیروں کا ’’تجربہ‘‘ ہے اور غریبوں کا ’’خواب‘‘ ہے، اس اعتبار سے دونوں طبقوں میں کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ انسانیت کا اصل مسئلہ سرمایہ نہیں، سرمائے کے ساتھ انسان کے تعلق کی نوعیت ہے۔ یہ تعلق جہاں مثبت ہوگا خیر وہیں ہوگا، اورجہاں یہ تعلق منفی ہوگا وہیں سے شر برآمد ہوگا۔ تاریخ کو بادشاہوں یا شخصیات کی تاریخ کہنے والوں نے تاریخ لکھنے کا جو اسلوب پیدا کیا اس میں انہوں نے شعر و ادب اور فوک روایت کی بنیاد پر تاریخ مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ایسا کرنے والے یہ بھول گئے کہ شعر و ادب بلاشبہ عوام کی زندگی اور ان کی تمنائوں کے ترجمان ضرور ہوتے ہیں، لیکن ان کی پشت پر خود شخصیات ہی موجود ہوتی ہیں۔ بلاشبہ میر، غالب اور اقبال ’’بادشاہ‘‘ نہیں، مگر وہ ’’عام لوگ‘‘ بھی نہیں ہیں۔ مطلب یہ کہ تاریخ کو خواہ کسی بھی حوالے سے دیکھا اور مرتب کیا جائے، بادشاہوں یا خواص عرف ’’شخصیات‘‘ سے نجات ممکن نہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ تاریخ میں شخصیات کی موجودگی اور عدم موجودگی سے کیا فرق پیدا ہوتا ہے؟
انبیاء و مرسلین کے لیے شخصیت کا لفظ استعمال کرنا مناسب نہیں، اس لیے کہ شخصیت ایک اوڑھی ہوئی شے یا مصنوعی چہرے کو کہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر انبیاء و مرسلین ہی کا ہے، اور ان کی موجودگی اور عدم موجودگی میں زمین آسمان سے زیادہ کا فرق ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انبیاء و مرسلین کا تعلق وحی یا ماورائے تاریخ عنصر یعنی Meta Historical Element سے ہے، اس عنصر یا Element سے جس سے خود تاریخ جنم لیتی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے ظہور سے پہلے کی تاریخ نمرود کی تاریخ تھی۔ کفر و الحاد اور جبر و استبداد کی تاریخ تھی۔ اس تاریخ کے سر پر بادشاہت کا تاج تھا، بے پناہ مالی اور انسانی وسائل کی فراوانی تھی، اور یہ بادشاہت اپنی تمام تر گمراہیوں کے ساتھ ’’سکہ رائج الوقت‘‘ تھی، اور صورت حال میں تبدیلی کا امکان دور دور تک موجود نہیں تھا۔ لیکن حضرت ابراہیمؑ کے ظہور اور موجودگی نے گمراہی کی ہر صورت کو نہ صرف یہ کہ چیلنج کیا بلکہ اسے شکست سے دوچار کیا، یہاں تک کہ خدائی کا دعویدار نمرود ایک مچھر سے شکست کھا گیا۔ حضرت نوحؑ نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی، اور ایک روایت کے مطابق صرف چالیس اور دوسری روایت کے مطابق 70 کے لگ بھگ لوگ مسلمان ہوسکے۔ بعض لوگ اسے ’’حق‘‘ کی ناکامی سمجھتے ہیں، مگر یہ حق کی نہیں حق کو قبول نہ کرنے والوں کی ناکامی تھی، اور حضرت نوحؑ کو ساڑھے نو سو سال کا طویل عرصہ دے کر قوم نوحؑ کی تباہی کے لیے حجت تمام کی گئی۔ اور اگرچہ حضرت نوحؑ کے ساتھ صرف 40 یا 70 مسلمان تھے مگر اس کے باوجود حضرت نوحؑ آدم ثانی کہلائے اور حق کا سلسلہ آپ ہی کی نسل میں جاری رہا۔ حضرت موسیٰؑ نے ایک جانب فرعون کی فرعونیت کو شکست دی اور دوسری جانب بنی اسرائیل کو آزادی دلاکر بنی اسرائیل کی تاریخ کو ایک نئی معنویت عطا کی۔ حضرت عیسیٰؑ کا عہدِ مبارک طویل نہیں۔ آپ کو جلد ہی آسمان پر اٹھا لیا گیا اور آپ کے حواریوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا، یہاں تک کہ وہ منتشر ہوگئے، لیکن اس کے باوجود حق کی قوت سے عیسائیت پھیل کر رہی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں، اس لیے قرآن مجید اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ِطیبہ رہتی دنیا تک زندگی کی معنویت متعین کرتے رہیں گے۔ حق کیا ہے؟ باطل کیا ہے؟ حُسن کسے کہتے ہیں؟ قبح کس چیز کا نام ہے؟ کامیابی کسے کہتے ہیں؟ ناکامی کس بلا کا نام ہے؟ ان تمام باتوں کا فیصلہ اب قیامت تک قرآن اور سنت ہی کی بنیاد پر ہوگا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو تاریخ میں شخصیات کے معجزاتی کردار کا مفہوم عقیدے اور سیرت یا نظریے اور شخصیت کی یکجائی ہے۔ یعنی تاریخ میں تاریخ ساز واقعات اور انقلابات کا ظہور نہ صرف نظریے اور شخصیت کا نتیجہ رہا ہے بلکہ یہ چیزیں عقیدے اور سیرت یا نظریے اور شخصیت کی یکجائی کا حاصل رہی ہیں۔
افلاطون انسانی تاریخ کی عظیم ترین شخصیتوں میں سے ایک ہے۔ اس نے اپنی معرکہ آراء تصنیف جمہوریہ میں ’’مثالی ریاست‘‘ کا خاکہ پیش کیا ہے، لیکن افلاطون کی فکر یا نظریے کو کبھی عملی جامہ پہنانے والی کوئی شخصیت فراہم نہ ہوسکی، چنانچہ افلاطون کی مثالی ریاست ’’خیالی ریاست‘‘ بن کر رہ گئی۔ اس کے برعکس کارل مارکس کی شخصیت افلاطون کی شخصیت کا دس فیصد بھی نہیں، لیکن مارکس کے نظریات کو لینن کی شخصیت فراہم ہوگئی، چنانچہ باطل نظریہ ہونے کے باوجود سوشلزم نے روس میں انقلاب برپا کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس انقلاب نے آدھی سے زیادہ دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ کارل مارکس کے نظریات کو لینن کی شخصیت فراہم نہ ہوتی تو مارکس کے نظریات بھی ’’خیالی پلائو‘‘ بن کر رہ جاتے۔ چین میں مائوژے تنگ کی شخصیت میں نظریہ اور شخصیت دونوں جمع ہوگئے، چنانچہ ایک افیون زدہ قوم نے صدیوں کے تاریخی جبر کو زیرو زبر کردیا اور غلط یا صحیح، ایک نئے چین کی بنیاد رکھی۔
برصغیر میں برپا ہونے والی 1857ء کی جنگِ آزادی علاقے کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ ہے، لیکن یہ جنگ کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کی وجہ درکار شخصیت کی عدم موجودگی تھی۔ جنرل بخت خان جدوجہد آزادی کا مرکزی کردار تھا اور اس کا اخلاص شک و شبہ سے بالاتر تھا، لیکن بخت خان صرف ایک فوجی کمانڈر تھا، اس کی شخصیت یک رخی تھی۔ جنرل بخت خان نے بہادر شاہ ظفر کو بہت سمجھایا کہ وہ قلعے سے باہر نکلیں، پورا ہندوستان ان کی قیادت کو تسلیم کرے گا۔ بہادر شاہ ظفر نے جنرل بخت سے وعدہ کیا مگر ان کے آس پاس انگریزوں کے زرخرید لوگ موجود تھے، انہوں نے بہادر شاہ ظفر کو ڈرایا کہ خوامخواہ انگریزوں کو ناراض کرنے کی ضرورت نہیں۔ تاریخ کے اس اہم مرحلے پر بہادر شاہ ظفر اور جنرل بخت خان کی یکجائی وہ ’’شخصیت‘‘ فراہم کرسکتی تھی جس کی جدوجہد آزادی کی کامیابی کے لیے ضرورت تھی۔ بہادر شاہ ظفر اور جنرل بخت خان اپنی اپنی جگہ ادھورے اور ناکافی تھے، چونکہ ان کی یکجائی ممکن نہ ہوسکی اس لیے بے مثال جدوجہد ناکام ہوگئی۔ تاریخ کے اس منظرنامے میں بہادر شاہ ظفر نظریے کی علامت تھے اور جنرل بخت خان کی شخصیت تحرک کی علامت۔
تحریک ِپاکستان میں دو قومی نظریے اور قائداعظم کی یکجائی نے صرف سات سال میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تخلیق کرڈالی۔ حالانکہ عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو حالات قیام پاکستان کے لیے ہرگز سازگار نہ تھے۔ مسلمان منتشر تھے، منقسم تھے، مایوس تھے، انہیں انگریزوں کی صورت میں وقت کی واحد سپر پاور سے مقابلہ درپیش تھا۔ ہندو اکثریت میں تھے، مسلمانوں سے زیادہ متحد تھے، منظم تھے، متحرک تھے، لیکن مسلمانوں کے پاس تاریخ کو تخلیق کرنے والا نظریہ تھا، اور ایک ایسی شخصیت تھی جس کی بصیرت، امانت اور صداقت پر آنکھ بند کرکے اعتبار کیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ جو کام مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت کو بھی ناممکن لگتا تھا وہ ممکن ہوگیا۔
ہندوئوں کے پاس دو رہنما تھے: گاندھی اور سبھاش چندر بوس۔ سبھاش چندر بوس بہت انقلابی یا آج کل کی اصطلاح میں بہت Radical تھے۔ وہ انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے حق میں تھے، لیکن ان کا ذہن ’’فوجی‘‘ تھا، ان کی شخصیت اکہری، اور نظریاتی زاویے سے محروم تھی۔ ان کے مقابلے پر گاندھی پُرامن سیاسی جدوجہد کے قائل تھے۔ لیکن ان کا ایک ’’فلسفۂ حیات‘‘ تھا اور انہوں نے پُرامن جدوجہد کو بھی ایک ’’ہتھیار‘‘ بنادیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سبھاش چندربوس تاریخ کے حاشیے کی نذر ہوگئے اور گاندھی نے ہندوئوں کی تاریخ کی مرکزی شاہراہ پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔
افغانستان کی گزشتہ پچیس سال کی تاریخ میں نظریے اور شخصیت کے یکجا نہ ہونے اور یکجا ہونے کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد کی کامیابی ایک تاریخ ساز واقعہ تھی اور اسلام ایک کامل فلسفۂ حیات کے طور پر افغانستان کے جغرافیے میں موجود تھا۔ لیکن قیادت کی سطح پر افغانستان مرکزی شخصیت سے محروم تھا اور وہاں ایک کے بجائے تین شخصیات موجود تھیں، یعنی گلبدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی۔ چنانچہ کامیاب جہاد دیکھتے ہی دیکھتے خانہ جنگی میں ڈھل گیا۔ اسی خانہ جنگی سے ملاعمر کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ نظریے اور شخصیت کی یکجائی نے نہ صرف یہ کہ کامیاب حکومت کی بنیاد رکھی بلکہ افغانستان کو متحد بھی کردیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تاریخ میں شخصیت کی اہمیت کیوں ہے؟
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عام لوگ ’’شخصیت‘‘ کے حوالے سے متشخصّ یا Identify کرتے ہیں۔ رہنما کسی گروہ یا قوم کا نقطۂ کمال ہوتا ہے اور عام لوگ شعوری یا لاشعوری طور پر اس کی بات سمجھ جاتے ہیں اور وہ شخصیت کو اپنی ذات کی توسیع باور کرتے ہوئے اس سے اثر قبول کرتے ہیں۔ جب شخصیت منظر پر موجود نہیں ہوتی تو نظریات لوگوں کو مجرد یا Abstract اور غیرحقیقی محسوس ہوتے ہیں، لیکن شخصیت کے منظر پر طلوع ہوتے ہی مجرد نظریات ٹھوس دکھائی دینے لگتے ہیں، یعنی خواب میں حقیقت کا رنگ بھر جاتا ہے۔
شخصیت کا ایک کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں میں ’’خوف‘‘ کے عنصر کو کم سے کم کردیتی ہے اور امید کے عنصر کو بہت بڑھا دیتی ہے۔ اس سے لوگوں کا تحرک بڑھ جاتا ہے اور خوف پر صرف ہونے والی توانائی کا بڑا حصہ امید کے کام آنے لگتا ہے۔
شخصیت لوگوں کے بے نام خیالات اور گونگے جذبوں کو زبان عطا کردیتی ہے۔ چنانچہ عام لوگ بھی اپنے ’’ہونے‘‘ کو محسوس کرنے لگتے ہیں۔ انقلابات کی تاریخ میں لوگوں نے جو قربانیاں دی ہیں وہ خود کو محسوس کیے بغیر نہیں دی جاسکتی تھیں۔