صحافت کا لفظ صحیفہ سے نکلا ہے اور صحیفے کا تعلق زمین سے زیادہ’’ آسمان‘‘ کے ساتھ ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری تہذیب میں صحافت کا تعلق’’ الہام‘‘ کی روایت سے ہے ۔ اس روایت میں’’ خبر‘‘ کا مقام اتنا بلند ہے کہ اس کی اعلیٰ ترین سطح کے حوالے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخبرصادق کہا گیا ہے ۔ قرآن مجید مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ لگی لپٹی بات نہ کہو اور سچائی سے دامن نہ بچائو ، اس لیے کہ تم جو کچھ کہتے ہو اور جو کچھ تمہارے دلوںمیں ہے اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم معاشرے میں صحافت ایک دینی اور اخلاقی جدو جہد ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں صداقت اور اس کا ابلاغ کوئی سیاسی تصور نہیں ، بلکہ اسلامی معاشرے میں صداقت زندگی کے ہم معنی ہے اور صداقت کا ابلاغ زندگی کا ابلاغ ہے ، صداقت کا تحفظ زندگی کا تحفظ ہے ۔ ایسے معاشرے میں صداقت مسخ ہوتی ہے تو زندگی مسخ ہو جاتی ہے ، صداقت حسن سے محروم ہوتی ہے تو زندگی جمال سے عاری ہو جاتی ہے اور انسان کا اپنے خالق و مالک سے تعلق بری طرح مجروح ہو جاتا ہے ۔
دنیا کی غیر مسلم اقوام صحافت کا یہ تصور پیش کرنے سے قاصر ہیں تاہم ان کے یہاں صحافت کی ضرورت اور اہمیت کا گہرا شعور پایا جاتا ہے ۔ ممتاز مؤرخ ایچ جی ویلز نے ایک جگہ لکھا ہے کہ سلطنت روما اس لیے زوال پذیر ہوئی کہ اس زمانے میں صحافت کا ادارہ موجود نہیں تھا ، چنانچہ حکمرانوں کی جانب سے جو احکامات جاری ہوتے تھے انہیں سلطنت کے دور دراز علاقوں تک پہنچنے میں کئی کئی سال لگ جاتے تھے۔ اس صورت حال کی وجہ سے سلطنت کے بڑے حصے میں بد نظمی عام ہوتی چلی گئی اور بالآخر سلطنت کا شیرازہ بکھرکر رہ گیا ۔
پاکستان کی قومی تاریخ کو دیکھا جائے تو بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے صحافت کے حوالے سے کئی اہم باتیں کہی ہیں ۔ مثلاً انہوں نے ایک بات یہ کہی ہے کہ صحافت اور قوم کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ 13 مارچ 1947ء کو ممبئی میں مسلم صحافیوں کے ایک نمائندہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا:
’’آپ کے پاس بڑی طاقت ہے۔ آپ لوگوں کو راہ دکھا سکتے ہیں یا انہیں گمراہ کرسکتے ہیں۔ آپ کسی بڑی سے بڑی شخصیت کو بنا سکتے یا تباہ کرسکتے ہیں۔ صحافت کی طاقت واقعی بہت بڑی ہے لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ طاقت ایک امانت ہے۔ آپ اس طاقت کو ایک امانت ہی سمجھیے، اور یاد رکھیے آپ ترقی و بہبود کے راستے پر اپنی قوم کی رہنمائی کررہے ہیں۔ اسکے ساتھ میں آپ سے مکمل بے باکی کی توقع رکھتا ہوں۔ خواہ کسی موقع پر میں خود غلطی پر ہوں یا لیگ اپنی پالیسی یا پروگرام کی سمت کے معاملے میں غلطی کرے میں چاہوں گا کہ آپ ایک دوست کی سی دیانتداری کے ساتھ اس پر تنقید کریں۔ ایک ایسے دوست کی طرح جس کا دل مسلمان قوم کے ساتھ دھڑک رہا ہو‘‘۔
جس وقت پاکستان وجود میں آیا اس خطے میں چند اخبارات اور رسائل و جرائد موجود تھے۔ تاہم 1947ء سے 1965ء تک صحافت نے بڑی ’’ترقی‘‘ کی۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ 1965ء میںپاکستان میں شائع ہونے والے روزناموں، ہفت روزوں، ماہناموں اور دیگر رسالوں کی تعداد 1597 تھی لیکن قائد اعظم کے خیال کے برعکس صحافت کا ’’عروج‘‘ قوم کا زوال بن کر سامنے آیا۔ 1965ء کے اس زمانے پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافت کے ممتاز مورخ ضمیر نیازی نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف Press In Chain ( کے ترجمے ’’صحافت پابند سلاسل‘‘) میں لکھا:
’’یہ وہ دن تھے جب الطاف گوہر مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے 1597 روزناموں، ہفت روزوںماہناموں اور دیگر رسالوں کے عملاً ’’ایڈیٹر انچیف‘‘ سمجھے جاتے تھے۔ یہ بات یہی لوگ طے کرتے تھے کہ کس خبر کو پوری کوریج ملے گی۔ کسے اہمیت کم کرکے شائع کیا جائے گا اور کس خبر کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا جائے گا‘‘۔
یہ جنرل ایوب کا زمانہ تھا اور اس حوالے سے جنرل ایوب کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، لیکن پاکستانی صحافت نے ایک لشکر کے طور پر جس طرح با جماعت ہتھیار ڈالے وہ بھی کم افسوس ناک نہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب ہم انگریزوں کے غلام تھے تو ہمارے اکا دکا صحافی انگریزوں کی مزاحمت کررہے تھے۔ لیکن جب ہم آزاد ہوگئے اور ہماری صحافت ایک باقاعدہ فوج بن گئی تو اس نے ’’مقامی‘‘ حکمرانوں کے سامنے لڑے بغیر ہتھیار ڈالنے کا عمل شروع کردیا۔ بلاشبہ جنرل ایوب کے زمانے میں کئی صحافیوں نے جیل کاٹی، لیکن ایک تو ایسے صحافیوں کی تعداد کو ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے، دوسرے یہ کہ جیل جانے والے اکثر صحافی اپنے ’’عمل‘‘ سے زیادہ اپنے ’’پس منظر‘‘ کی وجہ سے جیل گئے۔جنرل ایوب کے زمانے میں صحافت نے ترقی کی ایک نئی منزل کو چھوا۔ جنرل ایوب نے 1964ء میں ٹیلی ویژن متعارف کرایا جس کے بعد صحافت حقیقی معنوں میں ’’الیکٹرونک عہد‘‘ میں داخل ہو گئی۔ ٹیلی ویژن شروع ہوا تو اس کے4 مقاصد بیان کیے گئے تھے:
1۔ اطلاعات کی فراہمی2۔ تعلیم کا فروغ3۔ تفریح مہیا کرنا4۔ قومی یکجہتی کا حصول
یہ مقاصد اپنی جگہ قابلِ قدر تھے، مگر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔ ٹیلی ویژن کی اطلاع سیاست کی نذر ہو گئی۔ تعلیم کے لیے ٹی وی کبھی استعمال ہی نہیں ہو سکا۔ ٹیلی ویژن کی تفریح رفتہ رفتہ مغربیت اور سطحیت کی نذر ہو گئی۔ 1971ء میں ملک ٹوٹ گیا جس سے ثابت ہو گیا کہ ٹیلی ویژن قومی یکجہتی کے فروغ کے سلسلے میں کچھ نہ کر سکا۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف ٹیلی ویژن کی ناکامی نہیں تھی۔ اخبارات و رسائل کا حال بھی مختلف نہ تھا۔ جنرل ایوب نے داخلی کمزوری کا شکار ہو کر بالآخر مارشل لا اٹھایا تو پاکستانی صحافت کے ایک بادشاہ نے جنرل ایوب سے کہا کہ آپ نے مارشل لا اُٹھا کر اچھا نہیں کیا، قوم کو اس کی مزید ضرورت تھی۔ جنرل ایوب نے کہا: آپ اپنے اخبار کے اداریے میں مارشل لا کی حمایت کر دیجیے میں دوبارہ مارشل لا لگا دوں گا۔
ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں قومی صحافت کو مزید سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان ادوار میں بھی صرف چند صحافی ہی مزاحمت کرتے نظر آئے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں سندھ میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے اور ہماری صحافت لسانی تفریق کا شکار ہو گئی۔ اخباروں میں لسانی حریفوں کے خلاف جھوٹی خبریں شائع ہونے لگیں۔ ایک اُردو اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ سندھ نیشنل الائنس کا جلوس کراچی کے علاقے صدر سے گزر رہا تھا کہ ایک مہاجر خاتون اپنی کار سمیت جلوس میں پھنس گئی۔ کار میں ان کے ساتھ ان کا بچہ بھی تھا۔ خبر میں کہا گیا تھا کہ جلوس کے شرکا نے عورت اور بچے پر حملہ کرکے انہیں مار ڈالا۔ اس خبر کی تحقیق کی گئی تو اس طرح کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں تھا ۔ اسی طرح ایک سندھی روز نامے نے خبر شائع کی کہ 9 سندھی خواتین کی لاشیں جناح اسپتال میں رکھی ہوئی ہیں ۔ خبر میں اطلاع دی گئی تھی کہ ان خواتین کو زیادتی کے بعد تشدد کر کے ہلاک کیا گیا ہے ۔ یہ واقعہ بھی تحقیق سے بے بنیاد ثابت ہوا ۔ تکنیکی ترقی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل ضیاء الحق کا دور صحافت کے لیے عروج کا دور تھا ۔ اس دور میں رنگین صحافت ایک نئے عہد میں داخل ہوئی ۔ کئی بڑے اخبارات نے بیک وقت مختلف شہروں سے اشاعت کا سلسلہ شروع کیا ۔ بڑے اخبارات کی اشاعت میں نمایاں اضافہ ہوا ۔ ان کی آمدنی کئی گنا بڑھی ۔ لیکن اس ترقی کے باوجود قومی صحافت ایک بارپھر قومی نصب العین کے تحفظ میں ناکام ثابت ہوئی ۔ بلکہ اس دور تک آتے آتے قومی صحافت قومی نصب العین کے تصور سے ہی محروم ہو گئی ۔ اس کے غالب حصے کے لیے مادی اور مالی مفادات اور تکنیکی ترقی کا حصول ہی سب کچھ بن گیا ۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نجی ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا ۔ اسے ’’ٹیلی انقلاب‘‘ کا نام دیا گیا ۔ لیکن یہ ٹیلی انقلاب سے زیاد ہ’’ٹیلی دھماکا‘‘ تھا یا کم از کم اب تک وہ انقلاب کے بجائے دھماکا ہی ثابت ہوا ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس دھماکے کی ’’ ابلاغی تابکاری‘‘ سے کروڑوں لوگ جھلس رہے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف نے اس دھماکے کے بارے میں اس تاثر کو عام کیا کہ وہ آزادی اظہار کے بڑے قائل ہیں ۔لیکن جنرل ایوب نے پاکستان میں ٹیلی ویژن اس لیے شروع نہیںکیا تھا کہ وہ آزادی اظہار کے بڑے قائل ہوگئے تھے ۔بلکہ بحیثیت جنرل وہ تا حیات اقتدار میں رہنے کے خواب دیکھ رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ٹیلی ویژن ان کے لیے پروپیگنڈے کا موثر ترین ذریعہ ثابت ہو گا ۔ جنرل پرویز مشرف کا معاملہ بھی یہی تھا ۔ وہ طویل عرصے تک اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ ٹیلی دھماکا اس سلسلے میں ان کے بڑے کام آ سکتا ہے ۔
ایلون ٹوفلر نے اپنی تصنیفFurture ock میں دوسری عالمی جنگ کا واقعہ تحریر کیا ہے ۔ واقعے کے مطابق برما کے محاذ پر بعض فوجیوں کے حوالے سے رپورٹ ہوا کہ وہ شدید فائرنگ کے دوران سو جاتے ہیں گولیاں ان کے آس پاس سے گزرتی رہتی ہیںمگر ان کی نیند نہیں ٹوٹتی ۔ ان فوجیوں کا نفسیاتی تجزیہ ہوا تو یہ بات سامنے آئی کہ میدان جنگ میں بد ترین فائرنگ کے دوران ان کے سو جانے کی وجہ سے بلا شبہ تھکن اورنیند کی قلت بھی ہے ، مگر اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کا ذہن اور ان کے اعصاب مسلسل رد عمل ظاہرکرنے سے قاصر ہیں۔ 24 گھنٹے جاری رہنے والی ٹیلی ویژن نشریات کا معاملہ بھی یہی ہے ۔نشریات کی اس قسم سے ناظرین پر ہزاروں’’پیغامات کی فائرنگ‘‘ ہوتی رہتی ہے۔ نتیجتاً اکثر لوگوں کا ذہن رد عمل ظاہر کرتے کرتے تھک جاتا ہے اور ان پر ایک طرح کی غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ ایسے لوگ آسانی کے ساتھ حکمرانوں کے ’’محکوم‘‘ اور عامل کے ’’معمول‘‘ بن سکتے ہیں۔
پاکستان میں ٹیلی دھماکے کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ملک میں ’’آرا کا سیلاب‘‘ آ گیا ہے۔ سیلاب کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں ہر طرف پانی ہوتا ہے مگر پینے کے لیے صاف پانی کی ایک بوند بھی آسانی کے ساتھ دستیاب نہیں ہوتی۔ مطلب یہ کہ پاکستان میں ٹیلی ویژن نے اچانک آرا کی ایسی کثرت کر دی ہے کہ عام لوگوں کی کوئی مستحکم رائے ہی نہیں رہی۔ بلا شبہ ان کے پاس ’’اطلاعات‘‘ بہت ہیں، مگر یہ اطلاعات بکھری ہوئی ہیں۔ انہیں باہم مربوط کر کے ’’علم‘‘ بنانے والا کوئی نہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ’’شعور‘‘ بکھری ہوئی اطلاعات سے نہیں علم سے نمو پاتا ہے۔
پاکستان میں ٹیلی ویژن کے عروج نے قومی صحافت کو سطحیت کی ایک نئی سطح فراہم کر دی ہے۔ ٹی وی چینلوں کے ’’اینکر پرسنز‘‘ کی اکثریت تو اتر کے ساتھ ’’الفاظ اگلنے والی مشین‘‘ بنی نظر آتی ہے۔ ٹاک شوز ’’مرغوں کی لڑائی‘‘ کا منظر پیش کر رہے ہیں اور سیاست دانوں کی ’’سماجی چھینک‘‘ اور ’’سیاسی جماہی‘‘ بھی ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن گئی ہے۔ یہ منظر نامہ علم، شعور اور تفہیم کی ہی نہیں اطلاعات کی بھی ضد ہے۔ ابھی یہ صورت صرف تشویشناک ہے لیکن جب ’’ٹیلی ویژن کا عروج‘‘ سطحیت کو قوم کا ’’ذوق‘‘ بنا دے گا تو ٹیلی ویژن کا عروج قومی شعور کے خلاف ایک کھلی سازش بن جائے گا۔ اس لیے کہ قوم کیا فرد کے ذوق کی طرف لوٹتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو ذوق کی بحالی میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔
پاکستان میں ٹیلی دھماکے نے عریانی و فحاشی کو ایک نئی وسعت اور ایک نئی گہرائی فراہم کی ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو پاکستان جیسے غریب معاشرے میں پر تعیش زندگی کی بڑے پیمانے پر پیشکش بھی ’’فحش‘‘ ہے۔ اس لیے کہ اس پیشکش میں غریبوں کے لیے ایک گہرا ملال، ایک گہری حرص اور ایک گہری ترغیب موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود نجی ٹیلی ویژن چینلوں کے اکثر ڈراموں، یہاں تک کہ عام پروگراموں کے ’’اسٹیٹس‘‘ بھی پر تعیش زندگی کا اشتہار بنے نظر آتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ فحش کا تعلق عورت کے مخصوص لباس اور تراش خراش کے ساتھ تھا، لیکن نیا ٹیلی ڈرامہ ’’موضوعات‘‘ میں بھی فحش کو گھسیٹ لایا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ طوائفوں اور کوٹھوں کے موضوعات پر ڈرامے پیش ہو رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ آخر یہ بھی تو معاشرے کا ’’مسئلہ‘‘ ہے۔ لیکن یہ استثانئی مثالوں کو عمومی بنانے کی کوشش ہے جس کا کوئی تکنیکی جواز نہیں ہے۔ اس لیے کہ پاکستان میں مسائل کی کمی نہیں، ملک کی 80 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے کھڑی ہے، ملک کی آدھی تاریخ فوجی آمریت اور باقی آدھی تاریخ سول آمریت اور سول نااہلیتوں کی نذر ہو گئی ہے۔ سیاست میں بدعنوانی عام ہے۔ سیاسی جماعتیں مافیائوں کا کردار ادا کر رہی ہیںَ ملک ی آزادی کا سودا ہو چکا ہے۔ ملک میں بیرونی مداخلت عروج پر ہے۔ ملک کی 70 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔ چوری ڈاکے عام ہیں۔ ان موضوعات میں ہزاروں کہانیاں ہیں، ہزاروں ڈرامے ہیں۔ مگر معاشرے کے ان اصل موضوعات پر تو کوئی ادب اور آرٹ تخلیق نہیں کر رہا ہے لیکن استثنائی مثالیں لوگوں کو خوب نظر آرہی ہیں۔ اس صورت حال کا مفہوم عیاں ہے۔ امریکا، بھارت اور ان کے مقامی ایجنٹ معاشرے کی مذہبی بنیادوں کو کھود ڈالنا چاہتے ہیں۔ وہ ملک پر عسکری، سیاسی اور سفارتی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ثقافتی دہشت گردی بھی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں ٹیلی ویژن کا عروج قوم کا اخلاقی زوال بن جائے گا۔
پاکستان میں ہونے والے ٹیلی دھماکے میں مذہب، مذہبی فکر، مذہبی طبقات اور مذہبی شخصیات کے لیے ایک تعصب اور جہل موجود ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ توہین رسالت کے مسئلے پر بھی ٹی وی چینلوں میں ایسے گفتگو ہوئی جیسے توہین رسالت کا مسئلہ گلی محلے کا مسئلہ ہو۔ جیسے اس مسئلے میں کوئی تقدیس، کوئی عظمت اور کوئی حساسیت نہ ہو۔ یہ مشاہدہ عام ہے کہ ہمارے ٹی وی چینل سیکولر اور لبرل جماعتوں کی چھوٹی چھوٹی سرگرمیوں اور معمولی اجتماعات کو بھی براہ راست پیش کرتے ہیں، لیکن مذہبی جماعتوں کی بڑی بڑی سرگرمیاں اور بڑے بڑے اجتماعات کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے، یا انہیں اس طرح پیش نہیں کیا جاتا جس طرح معروضی طور پر اور صحافتی اخلاق کے مطابق پیش کرنا چاہیے۔ ٹی وی کے مذاکروں میں یہ بات بھی نوٹ کی جاتی ہے کہ مذہبی شخصیت کو اقلیت کے نمائندے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مثلا مذہبی شخصیت ایک ہوتی ہے تو سیکولر شخصیات 3۔ اور عام طور پر سیکولر طبقات سے بھاری بھرکم شخصیات کو بلایا جاتا ہے اور مذہبی طبقات سے کمزور لوگ تلاش کرکے بلائے جاتے ہیں ۔
اس صورت حال کا ہولناک ترین پہلو یہ ہے کہ معاشرے کی عظیم اکثریت کو ان تمام حقائق کا علم ہی نہیں۔ وہ صحافت اور ٹیلی ویژن کے ذرائع اور ان کے مواد کو گہرائی سے دیکھتے ہی نہیں۔ چنانچہ ان حقائق کے شعور کو عام کرنا بجائے خود ایک جدو جہد بن گیا ہے ۔ کیا آپ اس جدو جہد میں اپناکردار ادا نہیںکریں گے ۔ ؟؟