جدید مغرب کے اثرات نے مسرت کے حقیقی تصور کو مسخ کر دیا ہےانسانی تہذیب میں خوشی کا تصور معروضی یا Objective نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خوشی کے تصور کا تعلق کسی تہذیب کے تصورِ حقیقت، تصورِ انسان اور تصورِ زندگی سے ہے۔ اگر کسی تہذیب کا تصورِ حقیقت یا Concept of Reality روحانی ہوگا تو اس تہذیب میں مسرت اپنی اصل میں روحانی ہوگی۔ اس کے برعکس اگر کسی تہذیب کا تصورِ حقیقت مادی ہوگا تو اس تہذیب میں خوشی کا تصور بھی مادی چیزوں سے منسلک ہوگا۔ اس کی ایک مثال اسلامی اور جدید مغربی تہذیب ہے۔ اسلامی تہذیب کا تصورِ حقیقت روحانی یا مابعدالطبعیاتی ہے، اس لیے اسلامی تہذیب میں خوشی اپنی اصل میں روحانی اور اخلاقی ہے۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذیب میں اصل اور حتمی حقیقت مادہ ہے، چنانچہ اس تہذیب کے دائرے میں خوشی کا تصور اپنی اصل میں مادی ہے۔ تصورِ انسان کا قصہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں انسان روح، نفس اور جسم کا مجموعہ ہے، چنانچہ اس کی خوشیوں میں بھی یہ درجہ بندی ظاہر ہوتی رہے گی۔ اسی طرح اسلامی تہذیب کے دائرے میں انسانی شخصیت کی دو جہتیں ہیں: شعورِ حق اور شعورِ بندگی۔ چنانچہ اسلامی تہذیب میں انسان کی خوشی کا ایک دائرہ شعورِ حق سے متعلق ہوگا اور دوسرا دائرہ شعورِ بندگی سے۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذیب میں انسان صرف ایک جسمانی حقیقت ہے، چنانچہ اس کی خوشیاں بھی جسمانی دائرے سے متعلق ہیں، یا زیادہ سے زیادہ ذہنی دائرے تک۔ مگر ذہن بھی جدید مغربی تہذیب میں ایک مادی شے ہے اس لیے ذہنی خوشی بھی بدلے ہوئے عنوان کے باوجود اپنی اصل میں مادی خوشی ہی ہے۔ انسان کا تصورِ زندگی چونکہ اس کے تصورِ حقیقت اور تصورانسان ہی کی فرع ہے، اس لیے تصورِ زندگی پر بھی انسان کے تصورِ حقیقت اور تصورِ انسان ہی کا اثر ہوگا۔ اسلام کے تصورِ حیات میں انسان کے چار بنیادی رشتے ہیں: (1 انسان کا خدا سے رشتہ-2 انسان کا انسان سے رشتہ-3 انسان کا خود اپنی ذات سے رشتہ-4 انسان کا کائنات سے رشتہ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلامی تہذیب کے دائرے میں انسان کی خوشیوں کا تعلق بھی انہی رشتوں سے ہوگا، اس احتیاط کے ساتھ کہ انسان کے ہر رشتے پر خدا کے ساتھ تعلق کا سایہ ہوگا۔ خدا انسانوں کے باہمی رشتوں کے درمیان سے نکل جاتا ہے تو رشتوں کی نوعیت یکسر بدل کر رہ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ خود اپنی ذات اور کائنات سے بھی انسانی تعلق کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے۔ خیر یہ ایک الگ ہی قصہ ہے، یہاں سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تہذیب میں مسرت کا کوئی دائمی منشور پایا جاتا ہے؟ اگر ہاں، تو اس کی نوعیت کیا ہے؟ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں سورۂ العصر مسرت اور غم کے دائمی منشور کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ الگ بات کہ مفسرین نے اسے اس تناظر میں نہیں دیکھا۔ لیکن سورۂ العصر کے حوالے سے اس دعوے کی بنیاد کیا ہے؟ انسان کی زندگی میں آنے والا ہر خسارہ غم انگیز ہوتا ہے، اور اگر انسان خسارے سے محفوظ ہوجائے اور اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچ جائے تو اس سے بڑی مسرت کوئی نہیں ہوسکتی۔ اس حوالے سے سورۂ العصر کی اہمیت یہ ہے کہ وہ انسان کو چار اتنی بڑی نعمتوں اور مسرتوں سے ہم کنار کرتی ہے کہ ان مسرتوں کے آگے ہر مسرت ہیچ ہے، اور جس شخص کو یہ چار نعمتیں مسرتوں کی صورت میں حاصل ہوجائیں وہ دنیا کا کامیاب ترین اور مسرور ترین انسان ہے۔ آیئے سورۂ العصر کا ہزاروں بار پڑھا ہوا ترجمہ ایک نئے زاویے سے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں:’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘اس سورۂ مبارکہ کا پہلا فقرہ اس اعتبار سے ہولناک ترین فقرہ ہے کہ وہ دنیا کے آغاز سے دنیا کے اختتام تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کو خسارے اور اس اعتبار سے ٰغموں میں مبتلا دیکھتا ہے۔ لیکن اس خسارے سے بچنے کی چار شرائط ہیں، ایک یہ کہ انسان اللہ، اس کے تمام رسولوں اور اُن تمام امور پر ایمان لائے جن کا ذکر قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن خسارے سے بچنے کے لیے صرف ایمان لانا کافی نہیں۔ ایمان کا نتیجہ عملِ صالح کی صورت میں برآمد ہونا چاہیے۔ یہاں یہ حقیقت بھی آشکار ہوکر سامنے آتی ہے کہ اعمالِ صالحہ ایمان ہی سے برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایمان کے بغیر کسی عملِ صالح کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ مگر ایمان اور عملِ صالح بھی کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جس حق تک ہم پہنچ گئے ہیں اس کو خود تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس کو عام کریں، اسے دوسروں تک پہنچائیں اور اس کی تبلیغ کا حق ادا کریں۔ مگر یہ حق وہی ادا کرسکتا ہے جو ایمان لائے اور عملِ صالح کرنے والا ہو۔ اس لیے کہ قرآن صاف کہتا ہے کہ تم جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں۔ انسان کا جب قول اور عمل ایک ہوجاتا ہے تب ہی وہ دین یا حق کی تبلیغ کے قابل ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی ایمان لائے گا، عملِ صالح کرے گا اور حق کو بیان کرے گا تو تمام باطل پرست ضرور ناراض ہوں گے اور وہ حق کی تلقین کرنے والوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ جب ایسا ہوگا تو صبر کی ضرورت ہوگی۔ یہاں پہنچ کر انسان کے روحانی ارتقا کا دائرہ مکمل ہوجاتا ہے۔ روحانی دائرے کے مکمل ہونے سے روحانی مسرت بھی کامل ہوجاتی ہے۔اب آپ اس سورۂ مبارکہ کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ فرض کیجیے پوری دنیا روشنی میں جگمگا رہی ہے، اچانک ایک ندائے غیب پوری دنیا میں بلند ہوتی ہے: ’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی پوری دنیا اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے۔ خسارہ اندھیرا ہے، خسارہ غم ہے، اس لیے کہ خسارہ انسان کو نقصان پہنچانے والا ہے۔ جس چیز سے انسان کو نقصان ہو وہ غم انگیز اور درد انگیز ہوتی ہے۔ بہرحال پوری دنیا گھپ اندھیرے، گہرے ترین خسارے کے احساس میں ڈوب گئی ہے۔ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دے رہا۔ ہر دل کچھ جانے اور کچھ انجانے خوف سے دھڑک رہا ہے۔ کچھ وقت اسی کیفیت میں گزرتا ہے، اچانک وہی ندائے غیب پھر بلند ہوتی ہے:’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے‘‘۔ اس فقرے کے ادا ہوتے ہی دنیا میں جہاں جہاں ایمان تھا وہاں 40 فیصد روشنی لوٹ آئی۔ ایمان والوں کا 40 فیصد اندھیرا دور ہوگیا، انہیں 40 فیصد نقصان سے نجات مل گئی اور وہ 40 فیصد خوشی سے ہم کنار ہوگئے۔ لوگ کچھ دیر اسی کیفیت میں رہے، اچانک وہ ندا پھر بلند ہوئیس:’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے۔‘‘اس اعلان کے ساتھ ہی جہاں جہاں ایمان کے ساتھ صالح اعمال بھی موجود تھے وہاں وہاں 60 فیصد روشنی بحال ہوگئی، 60 فیصد اندھیرے اور 60 فیصد خسارے سے نجات مل گئی اور 60 فیصد مسرت انسانی وجود کا حصہ بن گئی۔ کچھ اور وقت گزرا اچانک وہ ندا پھر فضا میں گونجی:’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک اعمال کرتے رہے اور حق بات کی تلقین کرتے رہے‘‘۔ اس فقرے نے 80 فیصد روشنی بحال کردی اور 80 فیصد مسرت انسانوں کے دلوں میں رقص کناں ہوگئی۔ چند لمحوں بعد وہ آواز پھر فضا میں ابھری:’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، جو اعمالِ صالحہ کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘اس فقرے کے ساتھ ہی جہاں جہاں ایمان، اعمالِ صالحہ، حق کی تلقین اور صبر کی تاکید موجود تھی وہاں وہاں 100 فیصد روشنی بحال ہوگئی، سو فیصد اندھیرا دور ہوگیا، سو فیصد خسارے سے نجات مل گئی اور سو فیصد مسرت انسانوں کو میسر آگئی۔ اسی لیے ہم نے سورۂ العصر کو اسلامی تہذیب میں خوشی کا دائمی منشور قرار دیا ہے۔اس سورۂ مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا فائدہ بھی اپنی اصل میں روحانی ہے اور نقصان بھی۔ اسی لیے ان کی مسرت بھی روحانی ہے۔ ایمان، عملِ صالح، حق بات کی تلقین اور صبر میں سے کچھ بھی ’’مادی‘‘ نہیں۔ مگر افسوس اب مسلمانوں کی عظیم اکثریت نہ روحانی نقصان کے حوالے سے فکرمند ہوتی ہے، نہ مادی فائدے کے لیے اس میں بڑا تحرک پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس کی اکثر مسرتیں بھی روحانی نہیں رہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ امتِ مسلمہ روحانی فائدے اور روحانی نقصان اور روحانی مسرت کو بھول گئی ہے، مگر اب روحانی تصورات صرف اس کا ’’قول‘‘ ہیں۔ اس کا عمل ’’مادی اشیاء‘‘ ہیں۔ روحانیت صرف اس کی ’’آرزو‘‘ ہے، مگر ’’جستجو‘‘ اسے مادی چیزوں کی لاحق ہے۔ یہ ایک ہولناک تضاد ہے جس نے مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی وجود کو دو نیم کردیا ہے، اسے منقسم شخصیت یا Split Personality میں ڈھال دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوا؟اس کی وجہ جدید مغرب کے ساتھ ہمارا تعلق ہے۔ جدید مغرب اوّل و آخر ایک مادیت پسند وجود ہے۔ یہ مادیت پسند مغرب حق کی نقل کرتے ہوئے کہہ رہا ہے:’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو جدید مغرب پر ایمان لائے اور مادی ترقی ہی جن کے لیے سب کچھ ہے۔ بے شک کامیاب ہیں وہی لوگ جن کی فی کس آمدنی 20 ہزار ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ ترقی یافتہ ہیں وہی اقوام جن کی مجموعی قومی پیداوار مغرب کے کسی ملک کے برابر ہے، جس کی برآمدات زیادہ اور درآمدات کم ہیں۔ جس کے زرمبادلہ کے ذخائر امریکہ، برطانیہ، جرمنی یا فرانس کے برابر ہیں۔ روشن خیال ہیں وہی لوگ جو خدا اور مذہب کے باغی ہیں، جو صرف اپنی عقل کو پوجتے ہیں، جو آزادی اور جمہوریت پر ایمان لائے اور ان کے مطابق نیک اعمال کرتے رہے اور ضلالت و گمراہی کی ایک دوسرے کو تلقین اور اس سلسلے میں بے صبری کی تاکید کرتے رہے۔‘‘بلاشبہ امتِ مسلمہ کی عظیم اکثریت ابھی خدا اور مذہب کی ’’باغی‘‘ نہیں ہے، مگر اس کے سارے خواب، اس کے سارے مثالیں‘ اس کے سارے Ideal، اس کی ساری امیدیں، اس کی ساری مسرتیں مادی ہوچکی ہیں۔ امتِ مسلمہ مسرت کے دائمی منشور کو بھول چکی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار سمندرمیں اپنی انگلی ڈبو کر صحابہ کرامؓ سے پوچھا تھا: اس انگلی پر کتنا پانی لگا ہے؟ صحابہؓ نے فرمایا: ایک قطرہ یا اس سے کچھ زیادہ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاد رکھو انگلی پر لگا ہوا یہ پانی دنیا ہے، اور آخرت اس سمندر کی طرح ہے جس میں انگلی ڈبوئی گئی۔ مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت سمندر کی محبت میں مبتلا ہونے کے بجائے انگلی پر لگے ہوئے چند قطروں کی محبت میں مبتلا ہوگئی ہے، یہاں تک کہ اسے دنیا اور آخرت کے لیے کیے جانے والے اعمال کے ہولناک فرق اور خوفناک عدم توازن کا بھی شعور نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار صحابہؓ کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بکری کے اس مُردہ بچے کے پاس کھڑے ہوگئے۔ آپؐ نے صحابہؓ سے سوال کیا: تم میں سے کون اس بچے کو خریدنا پسند کرے گا؟ صحابہؓ نے کہا: کوئی بھی نہیں، مُردہ بکری کے بچے کو کون خریدے گا! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاد رکھنا دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے مرے ہوئے بکری کے بچے سے زیادہ حقیر دنیا کو اپنا کعبہ بنا لیا ہے اور وہ پوری زندگی اسی کعبے کا طواف کرتے رہتے ہیں اور مرتے دم تک تھکتے نہیں، بلکہ مرتے ہوئے بھی انہیں خیال آتا ہے کہ کاش اس کعبے کے دو چار چکر اور کاٹ سکتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور بے مثال ارشاد یاد آیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ہر امت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے‘‘۔ اور مال دو طرح سے امت کا فتنہ بنا ہوا ہے۔ ایک طرف امت کا وہ طبقہ ہے جس کے پاس مال کی فراوانی ہے، اور مال کی فراوانی اس کے لیے فتنہ بن گئی ہے۔ اس بات کا اندازہ کرنا ہو تو عرب کے بادشاہوں اور عرب کے شہزادوں اور شہزادیوں کی زندگی کو دیکھیں، ان کی زندگی میں عیش و عشرت کے سوا کچھ نہیں۔ ان میں نہ کوئی روحانی صلاحیت ہے، نہ علمی استعداد، نہ کوئی تخلیقی اہلیت۔ مکہ اور مدینہ کا قرب بھی ان کے حال کو بدل نہیں پا رہا۔ دوسری طرف امت کا وہ بڑا طبقہ ہے جو مال کی قلت کا شکار ہے، اور مال کی قلت اس کے لیے وبال بن گئی ہے۔ اس وبال کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ طبقہ مال کمانے کے سوا کچھ نہیں سوچتا۔ یہ پڑھتا ہے تو مال کمانے کے لیے، محنت کرتا ہے تو مال کمانے کے لیے۔ اس کو مال اور مال سے حاصل ہونے والا عیش مہیا ہوجاتا ہے تو اس طبقے کے اراکین خود کو ’’انسان‘‘ سمجھتے ہیں، خود کو ’’مہذب‘‘ سمجھتے ہیں، خود کو ’’کامیاب‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشادِ پاک یاد آگیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’بستیوں کے بہترین مقامات ان کی مساجد ہیں اور بدترین مقامات ان کے بازار‘‘۔ مگر ہم ’’منڈی کی معیشت‘‘ کے عہد میں سانس لے رہے ہیں، اور ہمارے لیے منڈی مسجد سے زیادہ ’’مقدس‘‘ اور ’’متبرک‘‘ ہوگئی ہے۔ ہم نے آج تک کسی کو نہ مسجد کی طرف خوشی خوشی جاتے دیکھا ہے اور نہ خوشی خوشی آتے دیکھا ہے۔ ہم مسجد جاتے ہیں تو ایک ’’عادت‘‘ کے تحت، ایک ’’ذمے داری‘‘ ادا کرنے۔ ہماری نمازوں میں کوئی محبت نہیں ہوتی۔ چونکہ محبت نہیں ہوتی اس لیے ہمیں نمازوں سے روحانی مسرت بھی فراہم نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے لوگ بازاروں میں اتنی خوشی کے ساتھ جاتے ہیں جیسے بازاروں میں ان کی ملاقات خدا سے ہونے والی ہو۔ وہ بازاروں سے چیزیں خرید کر لوٹتے ہیں تو ان کے چہرے کھلے ہوئے ہوتے ہیں، ان سے اتنی مسرت ٹپک رہی ہوتی ہے کہ گلاس کیا بالٹی بھر جائے۔ انسان، سرمائے اور چیزوں کے درمیان یہ تعلق ہے کہ انسان خالق ہے اور سرمایہ اور چیزیں انسان کی مخلوق۔ اصول ہے مخلوق کبھی خالق سے بڑی یا اس سے زیادہ اہم نہیں ہوسکتی، مگر ساری دنیا میں اور خود مسلم دنیا میں مخلوق خالق سے اہم ہوگئی ہے۔ انسان غیر اہم ہیں مگر دولت اور چیزیں بہت اہم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے عزت بھی ملتی ہے، اہمیت بھی اور مسرت بھی۔ ذرا سوچیے کہ جس شخص کی مسرت دولت اور چیزوں سے متعلق ہو اُسے مسلمان کیا انسان بھی کہا جاسکتا ہے؟

اعتبار زندگی کے مفہوم کو گہرائی عطا کرتا ہے، اعتبار زندگی کا حسن و جمال ہے، اعتبار زندگی کا وقار ہے، اعتبار نہ ہو تو زندگی، زندگی کے بجائے شرمندگی بن جاتی ہے۔ شاعر نے کہا ہے
پہلے کیا نہ اعتبار پھر ہم پہ جان کی نثار
ایسے بھی ہم برے نہ تھے ایسے بھی ہم بھلے نہ تھے
اعتبار کا معاملہ یہی ہے۔ انسان اعتبار کرتا ہے تو وہ اعتبار کے لیے زندگی قربان کردیتا ہے اور اعتبار نہ ہو تو انسان کسی کو چار پیسے دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اعتبار کس چیز سے پیدا ہوتا ہے؟ اور بے اعتباری کس شے سے جنم لیتی ہے؟
اعتبار کی ایک بنیاد زندگی کا ٹھوس تجربہ ہے۔ رسول اکرمؐ کو نبوت عطا ہوئی اور آپ پر وحی نازل ہوئی تو آپ ؐنے اس بات کا ذِکر حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے بات سنی اور آپؐ کے نبی ہونے کی تصدیق کی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو آپ ؐکی ذات مبارکہ سے صداقت اور خیر کے سوا کسی اور چیز کا تجربہ نہیں تھا۔ یہی معاملہ حضرت خدیجہؓ اور حضرت علیؓ کا بھی تھا۔ یہاں تک کہ کفار اور مشرکین بھی آپ سے جھوٹ منسوب نہیں کرسکتے تھے۔ چناں چہ جب آپ نے پہاڑ پر کھڑے ہو کر کہا کہ اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے اس طرف ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا کہو گے؟ یہ سن کر کفار اور مشرکین نے کہا کہ ہم آپ کی بات کا اعتبار کریں گے کیوں کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ یہی معاملہ نجاش کے دربار میں پیش آیا۔ نجاش نے جب کفار مکہ سے پوچھا کہ کیا تم نے محمد کو جھوٹ بولتے دیکھا ہے، تو کفار نے کہا کہ نہیں ہم نے انہیں کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کفار اور مشرکین آپ کو صادق اور امین جانتے تھے تو وہ آپ پر فوراً ہی ایمان کیوں نہ لائے؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ نبوت کا تجربہ ان کی روحانی اور ذہنی استعداد سے بڑا تھا۔ ان میں سے بہت سے ایسے تھے جن پر آپ کا نبی ہونا آشکار ہوگیا تھا مگر وہ اتنے انا پرست تھے کہ انہوں نے اس بات کی گواہی سے بھی انکار کردیا جس کی تصدیق ان کے قلوب اور زبان کررہے تھے۔
رسول اکرم پر اعتبار کا معاملہ یہ ہے کہ مجدد الف ثانیؒ نے یہ تک فرمادیا ہے کہ ہم نے خدا کو بھی رسول اکرم کے ذریعے سے پہچانا۔ رسول اکرم نے فرمایا کہ خدا ایک ہے، ہم نے کہا کہ خدا ایک ہے، رسول اکرم نے فرمایا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، ہم سب کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، رسول اکرم نے فرمایا مجھے معراج ہوئی، دنیا کے ایک ارب 60 کروڑ مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ آپ کو معراج ہوئی۔ آپ نے انگلی کے ایک اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کردیا، ہم میں سے کسی نے یہ منظر اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا لیکن چوں کہ اس واقعے کی نسبت رسول اکرم کے ساتھ ہے اس لیے ہر مسلمان اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ آپ نے انگلی کے ایک اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کردیا تھا۔ رسول اکرم خاتم الانبیاءہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی صداقت کا تجربہ رہتی دنیا تک باقی رہے گا اور انسانیت آپ پر اعتبار کرکے اپنی اپنی انسانیت اور اپنی بندگی کی استعداد کو دریافت کرے گی۔
اس کے برعکس انسان کو ٹھوس منفی تجربات ہو جاتے ہیں تو ہر چیز سے اس کا اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کو دوچار لوگوں سے جھوٹ کا تجربہ ہو جائے تو اسے لگنے لگتا ہے کہ پوری دنیا جھوٹی ہے۔ کسی کو دوچار لوگوں سے دھوکے کا تجربہ ہو جاتا ہے تو اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ پوری دنیا دھوکے باز ہے۔ ہمارے ایک دوست کو جماعت اسلامی پسند نہیں تھی اور ہمیں اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ ایک دن کسی اور سے معلوم ہوا کہ ان کے والد جماعتی تھے اور انہوں نے زندگی کے ایک مرحلے پر دوسری شادی کرلی تھی، ہمیں یہ بات معلوم ہوئی تو ہم پر یہ ”راز“ کھلا کہ ہمارا دوست جماعت اسلامی کے خلاف کیوں ہے؟۔ اس نے ایک ذاتی تجربے کو عمومی صورت دے دی تھی۔ فرائیڈ کی کیس ہسٹریز میں ایک ایسے شخص کا تذکرہ موجود ہے جس کو کائنات میں کوئی نظم و ترتیب نظر نہ آئی تھی۔ فرائیڈ نے اس کا علاج کیا تو اس نے تسلیم کیا کہ کائنات میں کچھ نہ کچھ نظم و ترتیب موجود ہے لیکن پھر اس نے کہنا شروع کردیا کہ ہماری دنیا میں کوئی نظم و ترتیب نہیں ہے۔ فرائیڈ نے اس کا مزید علاج کیا تو اسے دنیا میں بھی نظم و ترتیب نظر آنے لگی۔ مگر پھر اس کو کہیں اور بدنظمی اور بے ترتیبی نظر آنے لگی۔ فرائیڈ نے اس کا مزید علاج کیا تو بالآخر معلوم ہوا کہ ان صاحب کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ ان کے تعلقات اپنی بیوی کے ساتھ خراب تھے، تعلق کی اس خرابی نے ان کے لیے دنیا اور کائنات تک کو بدنظمی سے ہمکنار کیا ہوا تھا۔ ہٹلر کا مسئلہ بھی یہی تھا، ہٹلر کو جنگ کی تیاری کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی چناں چہ اس نے جرمنی کے بینک مالکان سے رابطہ کیا لیکن جرمنی کے بینکاری نظام پر یہودیوں کا قبضہ تھا، یہودیوں نے ہٹلر سے کہا کہ آپ کو سرمایہ مل جائے گا مگر بلند شرح سود پر۔ ہٹلر اس تجربے سے مشتعل ہوگیا اس نے کہا کہ سرمایہ ہمارا ہے اور یہودی ہمیں ہی یہ سرمایہ بلند شرح سود پر فراہم کریں گے۔ ہٹلر نے یہودی بینکاروں سے حاصل ہونے والے ٹھوس منفی تجربے کو عمومی شکل دے دی۔ اسے لگا کہ تمام یہودی لالچی اور سازشی ہوتے ہیں۔ چناں چہ اس نے لاکھوں یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
مغرب میں خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس ٹوٹ پھوٹ کی ایک وجہ یہ ہے کہ زوجین ایک دوسرے کے ساتھ وفادار نہیں ہوتے۔ مغربی معاشروں میں بے وفائی کا تجربہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ مردوں اور عورتوں کی عظیم اکثریت ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ چناں چہ بے اعتباری ان کے مراسم کو گھن کی طرح کھاتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کا تعلق طلاق یا علیحدگی پر منتج ہوتا ہے۔ مغرب میں مرد و زن کے تعلقات میں اتنی خرابی در آئی ہے کہ بے اعتباری مغربی معاشرے میں ایک کلچر بن گئی ہے۔
انسان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی نسل، رنگ، زبان، جغرافیے، تاریخ اور تہذیب کو پسند کرتا ہے، غور کیا جائے تو اس بات میں کوئی برائی نہیں، مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اپنی چیزوں کی پسند ایک تعصب بن جاتی ہے۔ تعصب سے ”دوسراپا“ یا Otherness پیدا ہوتی ہے۔ انسان کی مشکل یہ ہے کہ وہ ”اپنے“ کو پسند اور ”دوسرے“ کو نا پسند کرتا ہے۔ خواہ اپنا کتنا ہی برا اور دوسرا کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو۔ چوں کہ دوسرا برا لگتا ہے اس لیے انسان اسے بے اعتباری سے دیکھتا اور برتتا ہے۔ روس کا سوشلسٹ انقلاب تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ایک ہے، اس انقلاب نے اپنے اور پرائے کا ایک تصور پیدا کیا، اس انقلاب کی روح یہ تھی کہ جو کمیونسٹ ہے وہ اپنا ہے اور جو کمیونسٹ نہیں ہے وہ پرایا ہے۔ لیکن یہ تصور صرف خارج کی دنیا سے متعلق نہیں تھا بلکہ کمیونسٹوں کے ذہنی سانچے میں ایک ایسی کمزوری موجود تھی کہ خود سوویت یونین میں اپنے اور پرائے کا تصور موجود تھا۔ اس تصور کے تحت جو پولٹ بیورو اور کمیونسٹ پارٹی میں تھا وہ اپنا تھا اور اعتبار کے قابل تھا اور جو ان دائروں میں موجود نہیں تھا وہ ”دوسرا“ تھا اور اعتبار کے قابل نہیں تھا۔
اعتبار اور بے اعتباری کا یہ کلچر اتنا بڑھا کہ سوویت یونین میں باپ اولاد کی اور اولاد باپ کی مخبری کرسکتی تھی۔ شوہر بیوی کے لیے اور بیوی شوہر کے لیے جاسوس ہوسکتی تھی۔ بھائی بھائی کے خلاف کے جی بی اور پولیس کو رپورٹ کرسکتا تھا۔ اس صورتِ حال نے سوویت معاشرے میں انسانی تعلق کے پرخچے اُڑا دیے اور سوویت یونین بے اعتباری کا جہنم بن گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ سوویت یونین معاشی بدحالی کی وجہ سے ٹوٹا اور اس بات میں ایک حد تک صداقت موجود ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سوویت یونین کا انہدام افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کا نتیجہ تھا اور یہ تجزیہ بھی جزوی طور پر درست ہے لیکن سوویت یونین کی ناکامی دراصل اس کے تصور انسان کی ناکامی تھی اور سوویت یونین کے تصور انسان کی ناکامی میں بے اعتباری کے کلچر کا بھی ایک کردار ہے۔
مغرب مسلمانوں کے سلسلے میں صدیوں سے جو تصور قائم کیے ہوئے ہے اس میں دو سراپے یا Otherness کا کردار بنیادی ہے۔ چوں کہ مسلمان مغرب کے لیے ”دوسرے“ ہیں اس لیے بے اعتبار ہیں۔ ترکی آئینی اعتبار سے سیکولر ہے، ترکی کا پورا مالیاتی نظام سود پر کھڑا ہوا ہے، ترکی میں شراب خانے عام ہیں، یہاں تک کہ ترکی میں جسم فروشی کو قانونی تحفظ حاصل ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ترکی یورپ ہی کا ایک ملک نظر آتا ہے مگر ترکی پچاس سال سے یورپ کا حصہ بننے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے مگر یورپ کبھی ایک بہانہ کرتا ہے کبھی دوسرا لیکن وہ ترکی کو یورپی یونین کا رکن بنانے پر آمادہ نہیں ہے۔ یورپ کہتا نہیں مگر اس کا طرزِ فکر اور طرزِ عمل چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ترکی ”دوسرا“ ہے۔ ترکی ناقابل اعتبار ہے۔ یہی معاملہ یورپ، امریکا میں آباد ہونے والے مسلم تارکین وطن کا ہے۔ فرانس یورپ کا سب سے لبرل اور سب سے سیکولر ملک ہے مگر فرانس نے 60 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو دیوار سے لگایا ہوا ہے۔ مسلمان فرانس کے پوش علاقوں میں گھر نہیں لے سکتے، مسلمان کتنی ہی اور کیسی ہی تعلیم حاصل کیوں نہ کرلیں ان کے لیے روزگار کے دروازے بند ہی رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی تقریباً صفر ہے۔ فرانس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلمانوں پر ”نظر“ رکھتے ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان اہلِ فرانس کے لیے دوسرے ہیں، ناقابلِ اعتبار ہیں، مشتبہ ہیں، اہل فرانس ہی نہیں پورا یورپ، پورا یورپ ہی نہیں پورا مغرب مسلمانوں کے سلسلے میں بے اعتباری کو ”مذہب“ بنائے ہوئے ہے۔ اس مذہب میں ماورا کی جھلک ہے، اس مذہب کی اپنی ایک تقدیس ہے۔
تجزیہ کیا جائے تو ہمارے یہاں سول اور ملٹری کا امتیاز بھی اپنے اور دوسرے کے تمام رنگوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ ہمارے جرنیل فوجیوں کو ”اپنا“ اور سویلینز کو ”دوسرا“ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فوجیوں کے رہائشی علاقے الگ ہیں، سویلینز کے الگ۔ چوں کہ فوجی سویلینز کو دوسرے سمجھتے ہیں اس لیے سویلینز فوجیوں کے نزدیک بے اعتبار بھی ہیں۔ یہ بے اعتبار ملک کے سیاسی عدم استحکام کا بنیادی سبب ہے۔

 

Leave a Reply