اعتبار زندگی کے مفہوم کو گہرائی عطا کرتا ہے، اعتبار زندگی کا حسن و جمال ہے، اعتبار زندگی کا وقار ہے، اعتبار نہ ہو تو زندگی، زندگی کے بجائے شرمندگی بن جاتی ہے۔ شاعر نے کہا ہے
پہلے کیا نہ اعتبار پھر ہم پہ جان کی نثار
ایسے بھی ہم برے نہ تھے ایسے بھی ہم بھلے نہ تھے
اعتبار کا معاملہ یہی ہے۔ انسان اعتبار کرتا ہے تو وہ اعتبار کے لیے زندگی قربان کردیتا ہے اور اعتبار نہ ہو تو انسان کسی کو چار پیسے دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اعتبار کس چیز سے پیدا ہوتا ہے؟ اور بے اعتباری کس شے سے جنم لیتی ہے؟
اعتبار کی ایک بنیاد زندگی کا ٹھوس تجربہ ہے۔ رسول اکرمؐ کو نبوت عطا ہوئی اور آپ پر وحی نازل ہوئی تو آپ ؐنے اس بات کا ذِکر حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے بات سنی اور آپؐ کے نبی ہونے کی تصدیق کی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو آپ ؐکی ذات مبارکہ سے صداقت اور خیر کے سوا کسی اور چیز کا تجربہ نہیں تھا۔ یہی معاملہ حضرت خدیجہؓ اور حضرت علیؓ کا بھی تھا۔ یہاں تک کہ کفار اور مشرکین بھی آپ سے جھوٹ منسوب نہیں کرسکتے تھے۔ چناں چہ جب آپ نے پہاڑ پر کھڑے ہو کر کہا کہ اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے اس طرف ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا کہو گے؟ یہ سن کر کفار اور مشرکین نے کہا کہ ہم آپ کی بات کا اعتبار کریں گے کیوں کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ یہی معاملہ نجاش کے دربار میں پیش آیا۔ نجاش نے جب کفار مکہ سے پوچھا کہ کیا تم نے محمد کو جھوٹ بولتے دیکھا ہے، تو کفار نے کہا کہ نہیں ہم نے انہیں کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کفار اور مشرکین آپ کو صادق اور امین جانتے تھے تو وہ آپ پر فوراً ہی ایمان کیوں نہ لائے؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ نبوت کا تجربہ ان کی روحانی اور ذہنی استعداد سے بڑا تھا۔ ان میں سے بہت سے ایسے تھے جن پر آپ کا نبی ہونا آشکار ہوگیا تھا مگر وہ اتنے انا پرست تھے کہ انہوں نے اس بات کی گواہی سے بھی انکار کردیا جس کی تصدیق ان کے قلوب اور زبان کررہے تھے۔
رسول اکرم پر اعتبار کا معاملہ یہ ہے کہ مجدد الف ثانیؒ نے یہ تک فرمادیا ہے کہ ہم نے خدا کو بھی رسول اکرم کے ذریعے سے پہچانا۔ رسول اکرم نے فرمایا کہ خدا ایک ہے، ہم نے کہا کہ خدا ایک ہے، رسول اکرم نے فرمایا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، ہم سب کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، رسول اکرم نے فرمایا مجھے معراج ہوئی، دنیا کے ایک ارب 60 کروڑ مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ آپ کو معراج ہوئی۔ آپ نے انگلی کے ایک اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کردیا، ہم میں سے کسی نے یہ منظر اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا لیکن چوں کہ اس واقعے کی نسبت رسول اکرم کے ساتھ ہے اس لیے ہر مسلمان اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ آپ نے انگلی کے ایک اشارے سے چاند کو دو ٹکڑے کردیا تھا۔ رسول اکرم خاتم الانبیاءہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی صداقت کا تجربہ رہتی دنیا تک باقی رہے گا اور انسانیت آپ پر اعتبار کرکے اپنی اپنی انسانیت اور اپنی بندگی کی استعداد کو دریافت کرے گی۔
اس کے برعکس انسان کو ٹھوس منفی تجربات ہو جاتے ہیں تو ہر چیز سے اس کا اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کو دوچار لوگوں سے جھوٹ کا تجربہ ہو جائے تو اسے لگنے لگتا ہے کہ پوری دنیا جھوٹی ہے۔ کسی کو دوچار لوگوں سے دھوکے کا تجربہ ہو جاتا ہے تو اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ پوری دنیا دھوکے باز ہے۔ ہمارے ایک دوست کو جماعت اسلامی پسند نہیں تھی اور ہمیں اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ ایک دن کسی اور سے معلوم ہوا کہ ان کے والد جماعتی تھے اور انہوں نے زندگی کے ایک مرحلے پر دوسری شادی کرلی تھی، ہمیں یہ بات معلوم ہوئی تو ہم پر یہ ”راز“ کھلا کہ ہمارا دوست جماعت اسلامی کے خلاف کیوں ہے؟۔ اس نے ایک ذاتی تجربے کو عمومی صورت دے دی تھی۔ فرائیڈ کی کیس ہسٹریز میں ایک ایسے شخص کا تذکرہ موجود ہے جس کو کائنات میں کوئی نظم و ترتیب نظر نہ آئی تھی۔ فرائیڈ نے اس کا علاج کیا تو اس نے تسلیم کیا کہ کائنات میں کچھ نہ کچھ نظم و ترتیب موجود ہے لیکن پھر اس نے کہنا شروع کردیا کہ ہماری دنیا میں کوئی نظم و ترتیب نہیں ہے۔ فرائیڈ نے اس کا مزید علاج کیا تو اسے دنیا میں بھی نظم و ترتیب نظر آنے لگی۔ مگر پھر اس کو کہیں اور بدنظمی اور بے ترتیبی نظر آنے لگی۔ فرائیڈ نے اس کا مزید علاج کیا تو بالآخر معلوم ہوا کہ ان صاحب کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ ان کے تعلقات اپنی بیوی کے ساتھ خراب تھے، تعلق کی اس خرابی نے ان کے لیے دنیا اور کائنات تک کو بدنظمی سے ہمکنار کیا ہوا تھا۔ ہٹلر کا مسئلہ بھی یہی تھا، ہٹلر کو جنگ کی تیاری کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی چناں چہ اس نے جرمنی کے بینک مالکان سے رابطہ کیا لیکن جرمنی کے بینکاری نظام پر یہودیوں کا قبضہ تھا، یہودیوں نے ہٹلر سے کہا کہ آپ کو سرمایہ مل جائے گا مگر بلند شرح سود پر۔ ہٹلر اس تجربے سے مشتعل ہوگیا اس نے کہا کہ سرمایہ ہمارا ہے اور یہودی ہمیں ہی یہ سرمایہ بلند شرح سود پر فراہم کریں گے۔ ہٹلر نے یہودی بینکاروں سے حاصل ہونے والے ٹھوس منفی تجربے کو عمومی شکل دے دی۔ اسے لگا کہ تمام یہودی لالچی اور سازشی ہوتے ہیں۔ چناں چہ اس نے لاکھوں یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
مغرب میں خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس ٹوٹ پھوٹ کی ایک وجہ یہ ہے کہ زوجین ایک دوسرے کے ساتھ وفادار نہیں ہوتے۔ مغربی معاشروں میں بے وفائی کا تجربہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ مردوں اور عورتوں کی عظیم اکثریت ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ چناں چہ بے اعتباری ان کے مراسم کو گھن کی طرح کھاتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کا تعلق طلاق یا علیحدگی پر منتج ہوتا ہے۔ مغرب میں مرد و زن کے تعلقات میں اتنی خرابی در آئی ہے کہ بے اعتباری مغربی معاشرے میں ایک کلچر بن گئی ہے۔
انسان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی نسل، رنگ، زبان، جغرافیے، تاریخ اور تہذیب کو پسند کرتا ہے، غور کیا جائے تو اس بات میں کوئی برائی نہیں، مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اپنی چیزوں کی پسند ایک تعصب بن جاتی ہے۔ تعصب سے ”دوسراپا“ یا Otherness پیدا ہوتی ہے۔ انسان کی مشکل یہ ہے کہ وہ ”اپنے“ کو پسند اور ”دوسرے“ کو نا پسند کرتا ہے۔ خواہ اپنا کتنا ہی برا اور دوسرا کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو۔ چوں کہ دوسرا برا لگتا ہے اس لیے انسان اسے بے اعتباری سے دیکھتا اور برتتا ہے۔ روس کا سوشلسٹ انقلاب تاریخ کے بڑے واقعات میں سے ایک ہے، اس انقلاب نے اپنے اور پرائے کا ایک تصور پیدا کیا، اس انقلاب کی روح یہ تھی کہ جو کمیونسٹ ہے وہ اپنا ہے اور جو کمیونسٹ نہیں ہے وہ پرایا ہے۔ لیکن یہ تصور صرف خارج کی دنیا سے متعلق نہیں تھا بلکہ کمیونسٹوں کے ذہنی سانچے میں ایک ایسی کمزوری موجود تھی کہ خود سوویت یونین میں اپنے اور پرائے کا تصور موجود تھا۔ اس تصور کے تحت جو پولٹ بیورو اور کمیونسٹ پارٹی میں تھا وہ اپنا تھا اور اعتبار کے قابل تھا اور جو ان دائروں میں موجود نہیں تھا وہ ”دوسرا“ تھا اور اعتبار کے قابل نہیں تھا۔
اعتبار اور بے اعتباری کا یہ کلچر اتنا بڑھا کہ سوویت یونین میں باپ اولاد کی اور اولاد باپ کی مخبری کرسکتی تھی۔ شوہر بیوی کے لیے اور بیوی شوہر کے لیے جاسوس ہوسکتی تھی۔ بھائی بھائی کے خلاف کے جی بی اور پولیس کو رپورٹ کرسکتا تھا۔ اس صورتِ حال نے سوویت معاشرے میں انسانی تعلق کے پرخچے اُڑا دیے اور سوویت یونین بے اعتباری کا جہنم بن گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ سوویت یونین معاشی بدحالی کی وجہ سے ٹوٹا اور اس بات میں ایک حد تک صداقت موجود ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ سوویت یونین کا انہدام افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کا نتیجہ تھا اور یہ تجزیہ بھی جزوی طور پر درست ہے لیکن سوویت یونین کی ناکامی دراصل اس کے تصور انسان کی ناکامی تھی اور سوویت یونین کے تصور انسان کی ناکامی میں بے اعتباری کے کلچر کا بھی ایک کردار ہے۔
مغرب مسلمانوں کے سلسلے میں صدیوں سے جو تصور قائم کیے ہوئے ہے اس میں دو سراپے یا Otherness کا کردار بنیادی ہے۔ چوں کہ مسلمان مغرب کے لیے ”دوسرے“ ہیں اس لیے بے اعتبار ہیں۔ ترکی آئینی اعتبار سے سیکولر ہے، ترکی کا پورا مالیاتی نظام سود پر کھڑا ہوا ہے، ترکی میں شراب خانے عام ہیں، یہاں تک کہ ترکی میں جسم فروشی کو قانونی تحفظ حاصل ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ترکی یورپ ہی کا ایک ملک نظر آتا ہے مگر ترکی پچاس سال سے یورپ کا حصہ بننے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے مگر یورپ کبھی ایک بہانہ کرتا ہے کبھی دوسرا لیکن وہ ترکی کو یورپی یونین کا رکن بنانے پر آمادہ نہیں ہے۔ یورپ کہتا نہیں مگر اس کا طرزِ فکر اور طرزِ عمل چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ترکی ”دوسرا“ ہے۔ ترکی ناقابل اعتبار ہے۔ یہی معاملہ یورپ، امریکا میں آباد ہونے والے مسلم تارکین وطن کا ہے۔ فرانس یورپ کا سب سے لبرل اور سب سے سیکولر ملک ہے مگر فرانس نے 60 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو دیوار سے لگایا ہوا ہے۔ مسلمان فرانس کے پوش علاقوں میں گھر نہیں لے سکتے، مسلمان کتنی ہی اور کیسی ہی تعلیم حاصل کیوں نہ کرلیں ان کے لیے روزگار کے دروازے بند ہی رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی تقریباً صفر ہے۔ فرانس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلمانوں پر ”نظر“ رکھتے ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان اہلِ فرانس کے لیے دوسرے ہیں، ناقابلِ اعتبار ہیں، مشتبہ ہیں، اہل فرانس ہی نہیں پورا یورپ، پورا یورپ ہی نہیں پورا مغرب مسلمانوں کے سلسلے میں بے اعتباری کو ”مذہب“ بنائے ہوئے ہے۔ اس مذہب میں ماورا کی جھلک ہے، اس مذہب کی اپنی ایک تقدیس ہے۔
تجزیہ کیا جائے تو ہمارے یہاں سول اور ملٹری کا امتیاز بھی اپنے اور دوسرے کے تمام رنگوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ ہمارے جرنیل فوجیوں کو ”اپنا“ اور سویلینز کو ”دوسرا“ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فوجیوں کے رہائشی علاقے الگ ہیں، سویلینز کے الگ۔ چوں کہ فوجی سویلینز کو دوسرے سمجھتے ہیں اس لیے سویلینز فوجیوں کے نزدیک بے اعتبار بھی ہیں۔ یہ بے اعتبار ملک کے سیاسی عدم استحکام کا بنیادی سبب ہے۔