امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے عراق کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں جن سے امریکا اور دیگر مغربی ملکوں کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ لیکن بالآخر ثابت ہوا کہ عراق کے پاس ایسے ہتھیار نہیں تھے۔ اس صورتِ حال کے بعد برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اچانک پینترا بدلا اور فرمایا کہ ہمیں یقین ہے کہ تاریخ ہمارے اقدام کو صحیح قرار دے گی۔ ٹونی بلیئر نے یہ بات اس طرح کہی جیسے مستقبل میں تاریخ نویسی کا کام انہی کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ اپنی جارحیت کے بارے میں جو چاہیں گے لکھ سکیں گے۔ ایسا نہ ہوتا تو ٹونی بلیئر کو معلوم ہوتا کہ تاریخ بے رحم ہوتی ہے۔ وہ دودھ اور پانی کو الگ کردیتی ہے، بلکہ حال کے دکھ ماضی کی تلخیوں کو بھی زندہ کردیتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد مغربی دنیا نے اسلام اور مسلمانوں کو اس طرح دہشت گردی اور انتہا پسندی سے وابستہ کیا ہے کہ مسلمان یورپی طاقتوں کے نوآبادیاتی تجربات کو بھی یاد کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
موجودہ حالات کے مطابق کچھ اضافہ ہو سکتا ہے…
مسلمانوں کا ایک بہت ہی بڑا تلخ نوآبادیاتی تجربہ 1857ء کی جنگِ آزادی ہے۔ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو اس جنگ ِآزادی سے دور رکھنے کے لیے یقین دلایا کہ اگر وہ مجاہدینِ آزادی سے دور رہا تو اس کی بادشاہت اور مراعات کو کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ لیکن انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر سے کیے گئے عہد کو پورا نہ کیا۔ اس کے برعکس انہوں نے شہزادوں کے سر کاٹ کر بہادر شاہ ظفر کو تحفے کے طور پر بھیجے۔ یہاں تک کہ انہوں نے بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان میں مرنے اور دفن بھی نہ ہونے دیا۔ دنیا کی عظیم الشان سلطنت کا مالک رنگون کے ایک کمرے میں کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگیا اور گمنامی میں مرگیا۔ اس بے بسی اور کسمپرسی کا اظہار بہادر شاہ ظفر کی شاعری میں ہوا ہے جس کی علامت اُس کا یہ شعر ہے ۔
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
لیکن بہادر شاہ ظفر کا ذاتی المیہ 1857ء کی جنگ آزادی کا محض ایک فیصد ہے۔ انگریزوں نے جنگ آزادی کو غدر اور بغاوت کا نام دیا، حالانکہ انگریزوں کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ جنگِ آزادی زیادہ سے زیادہ ’’خانہ جنگی‘‘ کہلانے کی مستحق تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پورے ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ تھا، اور ہندو ہی نہیں مسلمان بھی انگریزوں کی ’’رعیت‘‘ تھے، اور رعیت حکمرانوں سے ناراض ہو تو اس کو قتل عام اور نسل کشی کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ اس سے بات چیت کی جاتی ہے، مذاکرات کا اہتمام کیا جاتا ہے، رعایا کی جائز شکایات کا ازالہ کیا جاتا ہے اور اسے مطمئن کرکے ’’زیادہ وفادار‘‘ بنایا جاتا ہے۔ اس کی مثال برطانیہ اور آئرلینڈ کی جنگ ِآزادی لڑنے والی تنظیم شین فین کے تعلقات ہیں۔ شین فین نے کئی دہائیوں تک مرکزی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی، مگر برطانیہ نے آئرلینڈ کو قتل گاہ میں تبدیل نہیں کیا، بلکہ بالآخر اس نے شین فین کے ساتھ مذاکرات کیے اور پُرامن بقائے باہمی کی صورت نکالی۔ لیکن1857ء کی جنگِ آزادی کی ہولناکی اتنی بڑھی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ جنگِ آزادی کے حوالے سے لکھی جانے والی کتابوں کے مطابق چند روز کے اندر صرف دِلّی میں 27 ہزار افراد شہید کیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق پورے ہندوستان میں تقریباً 52 ہزار علماء کو شہید کیا گیا۔ انگریزوں کے فوجیوں پر طاقت اور انتقام کا بھوت اس طرح سوار تھا کہ صرف مسلمان ہونا بھی جرم بن گیا تھا۔ انگریزوں کے فوجی لوگوں کو پکڑتے اور پوچھتے ہندو ہو یا مسلمان؟ جیسے ہی یہ معلوم ہوتا کہ پکڑا جانے والا مسلمان ہے تو اسے قتل کردیا جاتا۔ انگریزوں کا ایک زخمی فوجی دِلّی کے ایک محلے میں داخل ہوا اور اس نے ایک گھر کے زنان خانے میںگھسنے کی کوشش کی۔ اہلِ خانہ نے اسے ایسا کرنے سے روکا، اور صرف اتنی مزاحمت پورے محلے کا سنگین جرم بن گئی۔ محلے کے تمام مردوں کو جمع کرکے جمنا کے کنارے لے جایا گیا اور کہا گیا کہ جو جمنا کے پانی کی طرف بھاگ کر جان بچا سکتا ہے بھاگ جائے، اور جو نہیں بھاگ سکتا مرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جمنا کی ریت خونِ مسلم سے تربتر ہوگئی۔ جن لوگوں نے بھاگ کر جمنا میں چھلانگ لگائی وہ جمنا میں ڈوب کر مرگئے۔ جنگِ آزادی نے انگریزوں کی اخلاقیات اور نفسیات کو کتنا پست کردیا تھا اس کا اندازہ انگریز مصنف باس ورتھ اسمتھ کے اس اقتباس سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ باس ورتھ لکھتا ہے:
’’بعض افسر رومی بربریت کے جوش میں اصرار کررہے تھے کہ دلّی شہر کو جو ہندوستان کا سرمایۂ افتخار اور اس کا دارالحکومت تھا… ڈھاکر زمین کے برابر کردیا جائے اور زمین کو شور زار بنادیا جائے۔ دوسرے اس سے بھی آگے بڑھ کر مذہبی جنون میں اس بات پر زور دے رہے تھے کہ جامع مسجد کو جو دنیا کی شاندار ترین اور نفیس ترین عمارتوں میں سے ایک تھی، کھدوا دیا جائے یا کم از کم اس کے کلس پر صلیب نصب کرکے اسے گرجے میں تبدیل کرایا جائے۔‘‘
باس ورتھ کے مطابق بعض انگریزوں نے دہلی میں ہل چلوانے کی تجویز دی۔ بڑی تعداد میں مساجد کو بارکوں میں تبدیل کیا گیا۔ وہاں کتے رکھے جاتے اور خنزیر ذبح کیے جاتے۔ دہلی کے باہر دیگر شہر اور دیہات بھی انگریزوں کی درندگی سے نہ بچے۔ یہ مسلمانوں کی مزاحمت اور حکمت عملی تھی کہ وہ اپنا وجود بچانے میں کامیاب رہے، ورنہ انگریزوں نے نسل کشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ انگریزوں کا دور ظلم وجبر اور ریاستی دہشت گردی کا دور تھا جس میں مسلمانوں کے خاتمے کی کوشش کی گئی۔ یہ یہودیوں کے خلاف ہٹلر کے ہولوکاسٹ سے بھی بڑا ہولوکاسٹ تھا جس میں ایک کروڑ سے زیادہ انسانوں کا خون بہایا گیا۔
ان حقائق کے باوجود برطانیہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے جمہوریت کی ماں ہے۔ انسانی حقوق کے منشور میگناکارٹا کا مرکز ہے۔ تہذیب و شائستگی کی علامت ہے۔ فکر وتدبر کا استعارہ ہے۔ ڈپلومیسی کا مینارہ ہے، اور ان کا وزیراعظم پانچ برس میں چھ لاکھ مسلمانوں کو نگل جانے والی جارحیت ایجاد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تاریخ ہمارے اقدام کو سراہے گی، اس کا جواز پیش کرے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ اگر مغربی دنیا کے خلاف گواہ بن کر کھڑی ہوگئی تو اہلِ مغرب صدیوں تک کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
لیکن 1857ء کی جنگِ آزادی میں صرف منفی پہلو ہی نہیں ہیں۔ اس جنگ ِآزادی نے برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کو غلامی کی نفسیات کا اسیر ہونے سے بچالیا اور برصغیر کے مسلمان اس جنگ کے صرف 80 سال بعد اس قابل ہوگئے کہ وہ برصغیر میں ایک آزاد وطن کے قیام کے لیے ایک عظیم الشان تحریک برپا کرسکیں۔ 1857ء کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا جس بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان ہوا اسے جذب کرنا آسان نہ تھا، مگر برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے اسے جذب کرکے دکھادیا، اور ثابت کیا کہ وہ انتہائی منفی تجربوں سے بلند ہوکر سوچ اور عمل کرسکتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو تحریکِ پاکستان کبھی بھی پُرامن نہیں ہوسکتی تھی۔