پاکستان کے سیکولر عناصر آئے دن اس بات کا رونا روتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں میں نظریۂ سازش بہت مقبول ہے۔ سیکولر عناصر کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں نظریۂ سازش کی مقبولیت مسلمانوں کے اجتماعی احساسِ کمتری کا شاخسانہ ہے۔ چونکہ مسلمانوں کی اس روئے زمین پر کوئی حیثیت نہیں، اس لیے وہ اپنے خلاف سازشوں کا رونا رو کر خود کو اہم محسوس کرتے رہتے ہیں۔ بعض لوگ اس کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں نظریۂ سازش کی مقبولیت مسلمانوں کی بلاجواز خودپسندی اور بلاجواز احساسِ برتری کی علامت ہے۔ یہ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ اے مسلمانو! آخر تمہارے پاس ہے ہی کیا جو کوئی تمہارے خلاف سازش کرے گا؟ نہ تمہارے پاس سائنس ہے، نہ ٹیکنالوجی ہے، نہ معیشت ہے، نہ معاشرت ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں میں نظریۂ سازش کیوں پایا جاتا ہے اور اس کی مقبولیت کا کیا جواز ہے؟
ان سوالات کے جوابات کی تلاش کے لیے ہمیں مسلمانوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل یہودیوں اور عیسائیوں کو معلوم تھا کہ آپؐ کی بعثت کا مرحلہ قریب ہے، چنانچہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر ان کی بعثت ہمارے زمانے میں ہوئی تو ہم ان پر ایمان لائیں گے۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو یہودیوں اور عیسائیوں کی اکثریت نے آپؐ پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ یہودیوں کی اصل شکایت یہ تھی کہ آپؐ بنی اسمٰعیل میں کیوں پیدا ہوئے، اسرائیلیوں میں کیوں پیدا نہیں ہوئے؟ یہ بات یہودی اس طرح کہتے تھے جیسے خدا معاذ اللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسرائیلیوں میں پیدا کرنے کا پابند تھا۔ عیسائیوں کی اکثریت کا رویہ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں معاندانہ تھا، لیکن یہودی آپؐ کے خلاف عداوت میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے۔ چنانچہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان سمجھوتا ہوا تھا کہ اگر ان کے خلاف کسی نے کوئی اقدام کیا تو فریقین ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ لیکن غزوۂ خندق کے موقع پر یہودی کفار اور مشرکین کے ساتھ مل گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا معاہدے کی یہ کھلی خلاف ورزی سازش نہیں تھی؟ یہودیوں اور عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ تعلق کی جو دائمی نوعیت پیدا کی اُسے دیکھتے ہوئے قرآن نے مسلمانوں کو بتایا کہ یہودی اور عیسائی تم سے کبھی خوش نہیں ہوسکتے اِلاّ یہ کہ تم ان ہی کی طرح ہوجائو۔ یہ کسی مُلاّ یا مولوی کی دلیل نہیں، قرآن کی دلیل اور اس کا اعلان ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ یہودی اور عیسائی مسلمانوں سے کبھی خوش نہیں ہوں گے اس لیے انہیں جب اور جہاں موقع ملے گا وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں گے اور ان کے خلاف سازش کریں گے۔ سازش خفیہ اقدام کو کہتے ہیں، اور سازش یا تو طاقت ور کے خلاف کی جاتی ہے یا کسی کو طاقتور بننے سے روکنے کے لیے کی جاتی ہے، یا پھر اس کا سبب ’’حسدِ محض‘‘ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے خلاف سازش کی یہ تینوں صورتیں بروئے کار آئی ہیں اور آرہی ہیں۔
ماضی میں مسلمانوں کے خلاف سازش کی ایک بڑی مثال مسلم اسپین ہے۔ مسلمانوں نے اسپین کے وسیع علاقے میں 600 سال تک حکومت کی، اور اس حکومت کا ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ اس کے دائرے میں یہودی اور عیسائی خوب پھلے پھولے۔ ان میں دانشور تھے، فلسفی تھے، شاعر تھے، تاجر تھے، حکومتی اہلکار تھے۔ لیکن مسلمانوں کی حکومت ختم ہونے کے ساتھ ہی منظرنامہ یکسر تبدیل ہوگیا۔ عیسائی طاقت ور ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کے سامنے انتخاب کی تین صورتیں رکھیں: (1) اسلام چھوڑ دو اور عیسائی ہوجائو، (2)اسپین چھوڑ کر کہیں بھی چلے جائو، (3)یا قتل ہونے کے لیے تیار رہو۔ چنانچہ عیسائیوں کے اسپین میں یہ تینوں کام ہوئے۔ عیسائیوں نے مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بھی بنایا، انہیں اسپین سے بے دخل بھی کیا اور انہیں قتل بھی کیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان اپنی ریاستوں میں مذہبی اقلیتوں پر جزیہ لگاتے تھے، چنانچہ عیسائیوں کو بھی اپنے زیر نگیں آجانے والے مسلمانوں پر جزیہ لگادینا چاہیے تھا، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو عیسائی بنایا، قتل کیا اور انہیں ان کے چھ سو سال پرانے گھروں سے بے دخل کردیا۔ سازش اگر معمول سے ہٹا ہوا عمل ہوتی ہے تو اسپین میں مسلمانوں کے خلاف بہت بڑی سازش کے سوا کیا ہوا؟
سقوطِ بغداد مسلمانوں کی تاریخ کا ایک ہولناک واقعہ ہے، اور اس واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ تاتاریوں کی بے پناہ عسکری طاقت کو جلال الدین خوارزم نے کامیابی کے ساتھ چیلنج کیا اور چنگیز خان کی فوجوں کو کئی محاذوں پر شکست سے دوچار کیا۔ لیکن جلال الدین خوارزم کی عسکری قوت محدود تھی اور اسے مزید فوجیوں کی ضرورت تھی۔ خلیفۂ بغداد اسے یہ طاقت فراہم کرسکتا تھا۔ جلال الدین نے خلیفۂ بغداد سے مدد کی درخواست کی اور خلیفہ نے اس کی درخواست قبول کرلی، مگر دربارِ خلافت میں تاتاریوں کے زرخرید موجود تھے، جن میں ریاست کے اعلیٰ ترین اہلکار شامل تھے۔ ان اہلکاروں نے خلیفہ کو ڈرایا کہ اگر آپ نے جلال الدین کی مدد کی تو چنگیز جو اب تک آپ کا دشمن نہیں، آپ کے خلاف ہوجائے گا۔ رہا جلال الدین، تو وہ آپ کی طاقت سے قوت پکڑ کر آپ کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، چنانچہ آپ کو جلال الدین کی ہرگز مدد نہیں کرنی چاہیے۔ خلیفہ ڈر گیا اور اُس نے جلال الدین کی مدد سے انکار کردیا۔ جلال الدین محدود لشکر کے ساتھ جب تک چنگیز خان کے خلاف لڑ سکتا تھا، لڑا، اور پھر تاریخ کے صفحات پر غائب ہوگیا۔ لیکن جلال الدین کے منظر سے ہٹتے ہی تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ سوال یہ ہے کہ یہ سانحہ سازش کا نتیجہ نہیں تھا تو اور کیا تھا؟
برصغیر میں ٹیپو سلطان اور بہادر شاہ ظفر کے حوالے سے بھی ایسی ہی صورتِ حال پیش آئی۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کی کامیاب مزاحمت کی تھی اور اُس نے کئی محاذوں پر انگریز فوج کو شکست کا مزا چکھایا تھا، مگر انگریز میر جعفر اور میر صادق کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب رہے اور ٹیپو کو اندرونی سازشوں کے نتیجے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیپو شہید ہوا تو انگریزوں نے نعرہ لگایا کہ اب ہندوستان ہمارا ہے۔ ٹیپو انگریزوں کو شکست دیتا تو جنوبی ایشیا کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ بہادر شاہ ظفر آخری مغل بادشاہ تھا اور 1857ء کی جنگ ِ آزادی تک دہلی کے قلعے میں محدود ہوچکا تھا، لیکن پھر بھی وہ پورے ہندوستان کا جائز حکمران تھا۔ اُس وقت مسلمانوں کی مزاحمتی قوت کا ایک اہم کردار جنرل بخت خان تھا۔ جنرل بخت خان نے بہادر شاہ ظفر سے قلعے میں ملاقات کی اور اسے بتایا کہ پورا ہندوستان آج بھی آپ کے ساتھ ہے، آپ قلعے سے نکلیں اور انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی قیادت کریں، آج نہیں تو کل انگریزوں کو شکست ہوگی۔ بہادر شاہ ظفر نے جنرل بخت خان سے اتفاق کیا اور اس کی مدد کا وعدہ کیا۔ لیکن بہادر شاہ ظفر کا وزیراعظم تک انگریزوں کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ اس نے بہادر شاہ ظفر کو ڈرایا کہ اگر اس نے بخت خان کے ساتھ تعاون کیا تو انگریز اس سے ناراض ہوجائیں گے اور ساری مراعات واپس لے لیں گے۔ چنانچہ بہادر شاہ ظفر نے قلعے میں محصور رہنا پسند کیا اور جنرل بخت خان کے ساتھ کھڑے ہوکر مزاحمتی کردار ادا کرنا پسند نہ کیا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار تو اس کے ہاتھ سے گیا ہی، وہ اپنی ریاست میں دفن تک نہ ہوسکا۔
اسرائیل کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ 1948ء سے پہلے اسرائیل کا کوئی وجود نہ تھا، لیکن یورپی طاقتوں نے اعلانِ بالفور کے تحت فلسطینیوں کے خلاف سازش کی اور یہودیوں کی ریاست کا جواز پیدا کیا۔ یورپ نے یہودیوں پر ظلم کیا تھا، اور اگر اہلِ یورپ کو یہودیوں سے ہمدردی تھی تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ یہودیوں کو یورپ میں کوئی ریاست عطا کردیتے، مگر انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے فلسطین میں اسرائیل کے نام سے یہودیوں کی ریاست قائم کی۔ یہودیوں نے کہا کہ ڈھائی ہزار سال پہلے فلسطین ہمارا تھا چنانچہ اس پر ہمارا حق ہے۔ لیکن اگر یہودیوں کے اس دعوے کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر بھارت، امریکا اور آسٹریلیا کی تاریخ بھی یکسر بدل کر رہ جائے گی۔ اس لیے کہ بھارت دو ڈھائی ہزار سال پہلے آریوں کا ملک نہیں تھا، دراوڑوں کا ملک تھا۔ امریکا تین سو سال پہلے ریڈ انڈینز کا ملک تھا۔ اور آسٹریلیا ڈھائی سو سال پہلے ایب اوری جنز کا ملک تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کا نہ کوئی اخلاقی جواز ہے نہ تاریخی۔ یہاں تک کہ اُس کے قیام کا سیاسی جواز بھی نہیں تھا، کیونکہ جس وقت اسرائیل قائم ہوا علاقے میں یہودی اقلیت تھے اور انہوں نے اسرائیل کے قیام کے لیے کوئی سیاسی تحریک برپا نہیں کی تھی۔ لیکن ان حقائق کے باوجود اسرائیل موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سازش نہیں تو اور کیا ہے؟
پاکستان کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ تقسیمِ برصغیر کے فارمولے کی رو سے کشمیر پاکستان کا حصہ تھا مگر بھارت نے فوج کشی کے ذریعے سازش کی اور کشمیر پر قبضہ کرلیا۔ تقسیمِ برصغیر کے اوریجنل نقشے میں کلکتہ اور فیروزپور پاکستان کا حصہ تھے، مگر لارڈ مائونٹ بیٹن نے ریڈکلف پر دبائو ڈال کر نقشہ بدلوا دیا، اور یہ دونوں علاقے بھارت کو مل گئے۔ 1971ء میں پاکستان دولخت ہوگیا اور بلاشبہ ایسا ہماری کمزوری سے ہوا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت کی مدد کے بغیر مشرقی پاکستان بنگلادیش نہیں بن سکتا تھا۔
مسلم دنیا کی حالیہ تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اہلِ مغرب پندرہ بیس سال پہلے کہا کرتے تھے کہ اسلام جمہوری طریقے سے اقتدار میں نہیں آسکتا، وہ صرف ڈنڈے کی قوت کے ذریعے اپنا اظہار کرسکتا ہے۔ لیکن الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کی، تاہم الجزائر کی فوج نے مغربی طاقتوں کے اشارے پر انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہ آنے دی اور وہ اسلامی فرنٹ کے حامیوں پر ٹوٹ پڑی۔ حماس نے فلسطین میں انتخابی کامیابی حاصل کی مگر اس کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ نہ چلنے دیا گیا۔ مصر میں اخوان کی حکومت کو ایک سال بعد نہ صرف گرادیا گیا بلکہ دو تین ماہ میں فوج نے پانچ چھ ہزار لوگوں کو سرعام مار ڈالا اور ہزاروں کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ مسلمانوں سے محبت کی مثالیں ہیں یا ان کے خلاف سازشوں کی مثالیں؟ نائن الیون کا واقعہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس واقعے کی بنیاد پر امریکا نے افغانستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا، مگر وہ آج تک اس واقعے میں افغانستان یا اسامہ بن لادن کے ملوث ہونے کو شہادتوں کے ذریعے ثابت نہیں کرسکا۔ عراق کا معاملہ تو بالکل ہی واضح ہے۔ امریکا نے الزام لگایا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، چنانچہ ہم عراق پر حملہ کریں گے۔ لیکن عراق سے کچھ بھی برآمد نہ ہوسکا اور بعدازاں امریکا نے خود تسلیم کیا کہ اس کی معلومات غلط تھیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سازش نہیں تو اور کیا ہے؟
ان حقائق کا مفہوم عیاں ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش نہیں ہورہی وہ بجائے خود مسلمانوں کے خلاف سازش کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ مسلمانوں کے حوالے سے آدھی بات اور آدھی حقیقت کا بیان ہے۔ پوری بات اور پوری حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی حالتِ زار صرف سازشوں کا نتیجہ نہیں، اس میں مسلمانوں کی اپنی کوتاہیوں کا بھی دخل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف سازش نہیں ہورہی وہ جھوٹ بولتا ہے، لیکن جو شخص یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف صرف سازش ہورہی ہے وہ بھی جھوٹ بولتا ہے اور اسے کسی اچھے ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔ لیکن مسلمانوں کی حالت کا خود ان سے کیا تعلق ہے؟ اس سوال کا جواب ایک فقرے میں دینا ہو تو کہا جائے گا کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے دین کے لیے جان تو دے سکتے ہیں مگر اس کو بسر نہیں کرسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے دین جذبہ تو ہے، شعور نہیں۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ انہوں نے تاریخ کے طویل سفر میں جب بھی عروج حاصل کیا ہے اس کی صرف دو بنیادیں رہی ہیں: ایک تقویٰ اور دوسری علم۔ اور اس وقت مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے تقویٰ اور علم کو ترک نہیں کیا ہے تو ان دونوں سے تعلق کمزور ضرور کرلیا ہے۔ لیکن مسلمانوں کی یہ حالت عارضی ہے۔ مسلمان اِس دنیا میں فنا اور مغلوب ہونے کے لیے برپا نہیں ہوئے۔ مسلمانوں کا عروج اور غلبہ دنیا کی تقدیر ہے اور دنیا بہت دیر تک اپنی تقدیر سے نہیں بھاگ سکتی۔