پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اور پاکستان کی ہر چیز کو نظریاتی ہونا چاہیے تھا۔ مگر کچھ اور کیا پاکستان کی سیاست تک نظریاتی نہیں ہے۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کا اصرار ہے کہ عمران خان کی سیاست نے پاکستانی معاشرے کو تقسیم کیا ہے اور وہ غلط نہیں کہتے مگر پاکستان کی سیاست ہمیشہ شخصی، خاندانی، گروہی اور طبقاتی مفادات کی بنیاد پر تقسیم رہی ہے۔
پاکستان میں معاشرے کی تقسیم کا آغاز جنرل ایوب نے کیا۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر امریکا کی خفیہ دستاویزات کے مطابق وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو بتارہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کردیں گے۔ جنرل ایوب امریکیوں کو باور کرارہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ جنرل ایوب کے ان خیالات سے صاف ظاہر تھا کہ جنرل ایوب نے معاشرے کو فوجی اور غیر قومی میں تقسیم کردیا ہے۔ جنرل ایوب عام افراد کو ’’Bloody Civilians‘‘ کہا کرتے تھے۔ اس گالی کا کوئی جواز نہ تھا اس لیے کہ پاکستان جرنیلوں یا فوج نے نہیں بنایا تھا۔ پاکستان عام لوگوں نے بنایا تھا اور اس کے لیے تن من دھن کی قربانی دی تھی۔ جب تک جنرل ایوب نے مارشل لا نہیں لگایا تھا قوم اور فوج ایک وحدت تھے۔ ملک میں سول اور فوجی کی کوئی تفریق اور تقسیم موجود نہ تھی مگر جنرل ایوب نے مارشل لا لگاتے ہی ملک کو فوجی اور سول کی تقسیم کا شکار کردیا۔ جنرل ایوب نے مارشل لا لگا کر یہ اعلان کردیا تھا کہ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ملک کو فوج چلائے گی۔ جنرل ایوب جب تک اقتدار میں رہے شخصی اور ادارہ جاتی بنیادوں پر معاشرے کو تقسیم کیے رہے۔ جنرل ایوب کو مادرِ ملت فاطمہ جناح سے سخت خطرہ لاحق تھا انہوں نے صدارتی انتخابات میں حصہ لے کر جنرل ایوب کی شخصی اور فوجی آمریت کو چیلنج کیا تھا۔ چنانچہ جنرل ایوب نے اخبارات میں نصف صفحے کے ایسے اشتہارات شائع کرائے جن میں مادرِ ملت پر ایک کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا تھا یہ مادر ملت پر ایک بڑا بہتان تھا اور اس کی جرأت ایسا شخص ہی کرسکتا تھا جس کا کوئی مذہب اور جس
کی کوئی تہذیب نہ ہو اور جو شخص ادارہ جاتی مفادات سے اوپر اٹھنے کی صلاحیت ہی نہ رکھتا ہو۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اسلام ہی پاکستانی معاشرے کو وحدت مہیا کرسکتا تھا مگر جنرل ایوب نے ملک و قوم پر سیکولر ازم مسلط کرنے کی سازش کی۔ انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن سے سود کو حلال قرار دلوایا اور قوم پر ایسے عائلی قوانین مسلط کیے جن کی کوئی مذہبی بنیاد نہ تھی۔ جنرل ایوب سے پہلے کراچی ملک کا دارالحکومت تھا، کراچی کو یہ مرتبہ قائد اعظم کے فیصلے کے مطابق میسر آیا تھا مگر جنرل ایوب نے قائد اعظم کے فیصلے کو روند ڈالا اور انہوں نے دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا۔ یہ فیصلہ اس امر کا مظہر تھا کہ اب ملک کا سیاسی نظام پنجاب مرکز ہوگا۔ جنرل ایوب سے پہلے کراچی میں کوئی مہاجر پشتون آویزش موجود نہ تھی مگر جنرل ایوب نے اپنے شخصی مفادات کے لیے کراچی میں اس آویزش کو پیدا کیا اور اسے ہوا دی۔ جنرل ایوب نے اقتدار سویلینز سے چھینا تھا اور انہیں یہ اقتدار سویلینز ہی کو واپس کرنا چاہیے تھا مگر چونکہ جنرل ایوب کی حکومت شخصی اور ادارہ جاتی آمریت کی علامت تھی اس لیے جنرل ایوب نے دس سال کے بعد اقتدار جنرل یحییٰ کے حوالے کردیا۔
دنیا بھر کی تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ جمہوریت سیاست اور سیاست کی جڑیں مضبوط کرتی ہے مگر جنرل یحییٰ کے دور میں ایسے انتخابات ہوئے جن سے ملک دولخت ہو کر رہ گیا۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ جمہوریت نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل یحییٰ نے شیخ مجیب کے جمہوری مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس سے مشرقی پاکستان میں جو سیاسی بحران پیدا ہوا اس کا حل سیاسی تھا مگر جنرل یحییٰ کی شخصی اور ادارہ جاتی آمریت نے مشرقی پاکستان پر فوجی آپریشن مسلط کردیا۔ جس سے حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ جنرل یحییٰ کی فکر کی جڑیں اگر نظریے، تہذیب اور تاریخ میں پیوست ہوتیں تو وہ کبھی مشرقی پاکستان میں سیاسی مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش نہ کرتے۔ مگر جنرل یحییٰ چونکہ شخصی اور ادارہ جاتی آمریت کی علامت تھے اس لیے ان کی حکمت عملی نے معاشرے کو اتنا تقسیم کردیا کہ ریاست اپنا ایک حصہ کھو بیٹھی اور دوٹکڑے ہوگئی۔ سقوط ڈھاکا کے بعد جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا جس نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ اور پانچ دیگر اعلیٰ فوجی اہلکاروں کے کورٹ مارشل کی سفارش کی مگر چونکہ ملک پر اسٹیبلشمنٹ کا غلبہ تھا اس لیے کسی اعلیٰ فوجی اہلکار کا کورٹ مارشل نہ ہو سکا۔ جنرل یحییٰ ملک توڑنے کے باوجود شان سے جئے اور مرے تو انہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو مقبول عوام سیاسی رہنما تھے۔ انہوں نے ملک کو 1973ء کا آئین دیا۔ انہوں نے ملک میں ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اسلامی ملکوں کی سربراہ کانفرنس کرائی۔ انہوں نے شراب پر پابندی لگائی، جمعے کی تعطیل کا اعلان کیا، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا مگر بدقسمتی سے ان کا دور شخصی آمریت کی علامت بن کر ابھرا۔ انہوں نے آزاد پریس کا گلا گھونٹ دیا۔ انہوں نے جسارت سمیت کئی اخبارات پر پابندیاں لگائیں۔ صحافیوں کو جیل میں ڈالا۔ سیاسی حریفوں کو قتل اور اغوا کرایا۔ انہوں نے ملک کو اسلامی آئین دینے کے باوجود ملک کو لبرل بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اسلامی سوشلزم ایجاد کرکے اسلام اور سوشلزم دونوں کو بدنام کیا۔ وہ 1977ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرسکتے تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کرائی۔ انہوں نے سندھ میں لسانی بل اور کوٹا سسٹم کے ذریعے شہری اور دیہی کی تفریق پیدا کی۔ چناں چہ بھٹو صاحب کے خلاف سیاسی طوفان برپا ہوگیا۔ بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک اگرچہ بظاہر اجتماعی سیاست کی ایک صورت تھی مگر اس تحریک کی شخصی بنیادیں اس کے نعروں سے عیاں تھیں۔ ان میں سے ایک نعرہ یہ تھا۔
ہل چلے گا
ہل چلے گا
گنجے کے سر پر ہل چلے گا
گنجا سر کے بل چلے گا
آج نہیں تو کل چلے گا
اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھٹو صاحب کے زمانے کی بنیادی حقیقت یہ تھی کہ پاکستان کی سیاست ’’پروبھٹو‘‘ اور ’’اینٹی بھٹو‘‘ میں تقسیم تھی۔ اگرچہ پی این اے کی تحریک کو تحریک نظام مصطفی بھی کہا گیا مگر بہرحال پی این اے کی تحریک پر بھٹو کی مخالفت کا رنگ زیادہ غالب تھا۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیا الحق نے ملک پر دوسرا مارشل لا مسلط کردیا۔ اس طرح بھٹو کی ’’سول آمریت‘‘ فوجی آمریت کی راہ ہموار کرنے والی حقیقت بن گئی۔
بھٹو صاحب کے سات سالہ دور میں پاکستانی سیاست کچھ نہ کچھ نظریاتی تھی۔ مگر جنرل ضیا الحق کی ’’غیر سیاسی سیاست‘‘ نے سیاست کو نظریاتی تناظر سے یکسر محروم کردیا۔ جنرل ضیا الحق نے دس سال میں ایک جانب الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست خلق کی۔ دوسری جانب جونیجو لیگ پیدا کی۔ تیسری جانب الیکٹ ایبلز کا سیاسی کلچر پیدا کیا۔ جنرل ضیا الحق نے دس برسوں میں سیاست دانوں اور صنعت کاروں کے 200 ارب روپے سے زیادہ کے قرضے معاف کرکے سیاست میں بدعنوانی کے کلچر کو فروغ دیا۔
جنرل ضیا الحق نے الطاف حسین کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم بنایا۔ اور الطاف حسین نے اپنی سیاست کو الف سے لے کر یے تک شخصی بنا کر رکھ دیا۔ ہمیں الطاف حسین کی سیاست کا وہ ابتدائی زمانہ یاد ہے جب انہوں نے کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے سیاسی حریفوں پر رکیک حملے کیے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں میں امریکا کیوں جاتا ہوں لیکن کوئی غفورے (پروفیسر غفور) اور طفیلے (میاں طفیل) سے نہیں پوچھتا کہ وہ امریکا کیوں جاتے ہیں۔ الطاف حسین نے مولانا نورانی کا بھی مذاق اڑایا۔ انہوں نے مولانا نورانی کے پان کھانے کی اداکاری کرکے دکھائی اور اسٹیج پر فرضی پان کی فرضی پیک تھوکی۔
جنرل ضیا الحق نے صرف الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے ’’تحفے‘‘ ہی نہیں دیے، انہوں نے قوم کو میاں نواز شریف جیسا رہنما بھی فراہم کیا۔ میاں نواز شریف کو سیاسی حریف کے طور پر بے نظیر بھٹو فراہم ہوئیں۔ تجزیہ کیا جائے تو 1990ء کی پوری دہائی میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی شخصی اور گروہی کشمکش کی دہائی تھی۔ اس کشمکش میں میاں نواز شریف نے اخلاقی پستی کے کئی ریکارڈ قائم کیے۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کو سیاسی طور پر کمزور کرنے کے لیے ان کی خود ساختہ ننگی تصاویر بنوائیں اور انہیں پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے زمین پر پھکوایا۔ میاں صاحب اگر چہ ’’قومی سیاست‘‘ کررہے تھے مگر انہوں نے آئی جے آئی کی سیاست کے دور میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگوایا۔ اسلام میں سیاست عبادت اور خدمت ہے مگر میاں نواز شریف کے خاندان کے لیے سیاست مال بنانے کا ذریعہ ہے۔ ملک کے معروف صحافی ضیا شاہد نے میاں نواز شریف سے متعلق اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک دن میاں نواز شریف کے والد نے ان سے کہا ہے کہ میں نے نواز شریف کی سیاست پر تین ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ ضیا شاہد نے پوچھا اب آپ کیا چاہتے ہیں۔ میاں شریف نے کہا کہ نواز شریف کو اب مجھے 9 ارب روپے لوٹانا چاہئیں۔ بدقسمتی سے جس طرح ایک زمانہ میں پاکستانی سیاست پروبھٹو اور اینٹی بھٹو میں تقسیم تھی اب سیاست پرو عمران اور اینٹی عمران کیمپوں میں تقسیم ہے۔ پاکستان نظریے نے تخلیق کیا تھا اور نظریہ ہی ہمیں ایک بار پھر سیاسی پستی سے نکال سکتا ہے مگر نظریہ نہ عمران کو درکار ہے نہ نواز شریف کو نہ اسٹیبلشمنٹ کو۔