یہ دُنیا ایک بہت بڑے ہسپتال کا منظر پیش کررہی ہے جس میں ڈاکٹرز ہیں، نرسیں ہیں اور ’’توجہ کے طالب‘‘ مریض ہیں، ان میں سے کسی کی حیثیت مستقل نہیں۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کہیں مریض بن جاتے ہیں اور کہیں مریض ڈاکٹرز اور نرسوں کا روپ دھا لیتے ہیں۔ اس منظرنامے میں دو چیزیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ مریض اور ان کی توجہ کی طلب۔ ایسی توجہ کی طلب جس پر بیشتر صورتوں میں ’’محبت کا پانی‘‘ چڑھا ہوا ہے لیکن اس حقیقت کا اعتراف ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔
انسان بھلا یہ اعتراف کیسے کرسکتا ہے کہ اسے محبت کی نہیں صرف توجہ کی ضرورت ہے، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد محبت کی ضرورت سے محروم یا بے نیاز ہو گئی ہے اور نہایت خاموشی کے ساتھ محبت کی جگہ توجہ نے لے لی ہے۔ ایسی توجہ نے جو خود کو محبت کے روپ میں پیش کرتی رہتی ہے، مگر محبت اور توجہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
توجہ محبت کا ناگزیر حصہ یا جزوِ لاینفک ہے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ توجہ میں محبت کی آمیزش ہو، لیکن یہاں ہم توجہ کو جن معنوں میں استعمال کررہے ہیں ویسی توجہ میں محبت کے آمیز ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ توجہ کم و بیش ویسی ہی توجہ ہے جس کا مظاہرہ اچھے ہسپتالوں میں اچھے ڈاکٹرز اور اچھی نرسیں کیا کرتی ہیں۔ وقت پر چیک اپ، وقت پر دوا، وقت پر غذا۔ سب کچھ طے شدہ پروگرام کے تحت۔ یہ توجہ لائق تحسین ہے۔ لیکن یہ ہے ’’پیشہ ورانہ توجہ‘‘ اس توجہ میں انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کے کئی رنگ دیکھے جاسکتے ہیں لیکن محبت کا کوئی رنگ مشکل ہی سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ محبت تعلق سے پیدا ہوتی ہے اور ’’تعلق کے معاملات انسان دوستی اور انسانی ہمدردی سے بہت آگے جاتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ توجہ کی ضرورت بیماروں کو زیادہ ہوا کرتی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فی زمانہ انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد خود کو ’’بیمار‘‘ محسوس کرتی ہے۔ یہاں بیماری کا مفہوم جسمانی بیماری تک محدود نہیں، ممکن ہے کوئی خود کو جذباتی، نفسیاتی اور روحانی طور پر بیمار محسوس کرتا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بیماری کا تعین ممکن ہی نہ ہو، لیکن فرد محسوس کرتا ہو کہ وہ ’’ٹھیک‘‘ نہیں ہے۔ ایسی کیفیت میں توجہ ایک ’’دوا‘‘ کا کام کرتی ہے۔
گمشدگی کا احساس اور شناخت کی تلاش اور شناخت کے تعین کی ضرورت اس عہد کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ کروڑوں انسان درختوں کی طرح اکھڑے پڑے ہیں، وہ پرانی اور مانوس مٹی سے جدا ہوچکے ہیں اور نئی مٹی انہیں اور وہ نئی مٹی کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ یہ المیہ محض بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی کا نتیجہ نہیں کیونکہ اگر ایک نقل مکانی خارج میں وقوع پذیر ہورہی ہے تو دوسری نقل مکانی انسان کی داخلی زندگی کا ایک اہم منظر ہے اور یہ نقل مکانی خارج میں وقوع پذیر ہونے والی نقل مکانی سے کہیں زیادہ تباہ کن ہے۔ ان حالات میں توجہ انسان کو گمشدگی کے احساس سے عارضی طور پر سہی، نجات دلاتی ہے اور فرد کو شناخت کا سامان بہم پہنچاتی ہے اور یہ ایک ’’فطری‘‘ بات ہے۔ محبت ایسے ہی لوگ کرسکتے ہیں اور محبت ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہوسکتی ہے جو اپنے خارج اور داخل میں جڑیں رکھتے ہوں، جنہیں اپنی ذات کے حوالے سے ایک گونہ اطمینان حاصل ہو اور جنہیں عدم تحفظ کے احساس سے لاحق ہونے والے اندیشے لاحق نہ ہوں۔ عبید اللہ علیم کا ایک مشہور شعر ہے۔
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
یہ شعر اس حقیقت کا عکاس ہے کہ ’’محبت‘‘ فرد کی ضرورت نہیں، اس کی ضرورت صرف توجہ ہے۔ یہاں ’’عزیز اتنا ہی رکھو‘‘ کا مطلب یہی ہے۔ ’’جی سنبھل جائے‘‘ کے ٹکڑے میں کسی نہ کسی قسم کی بیماری کا تاثر بہت واضح ہے۔ ایسی بیماری کا تاثر جس کے لیے توجہ دوا کا کام کرتی ہے۔ مصرعہ ثانی کا مفہوم یہ ہے کہ محبت کا تجربہ شاعر کے لیے ناقابل برداشت ہے، کیوں ناقابل برداشت ہے؟ ایک تو اس لیے کہ شاعر کی ضرورت محبت نہیں توجہ ہے۔ دوسرے اس لیے کہ عدم تحفظ کا احساس بھی شاعر کی شخصیت کا حصہ ہے، اس لیے بہت زیادہ چاہے جانے سے اسے اپنا دم گھٹتا اور نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کسی سے محبت کے شدید جذبے کے تحت لپٹ جائے لیکن جس سے وہ لپٹے اسے محسوس ہو یا یہ اندیشہ لاحق ہو کہ یہ محبت کا اظہار ہے یا پسلیاں توڑنے کی سازش۔ یہاں پہنچ کر ہمیں فراق کا ایک بے مثال شعر یاد آتا ہے۔
کہاں ہر ایک سے بارِ نشاط اُٹھتا ہے
بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی
’’بارنشاط‘‘ محبت ہی میں اُٹھا سکتی ہے۔ یہ بوجھ بے چاری توجہ سے ہرگز نہیں اُٹھ سکتا، توجہ ریڑھ کی ہڈی سے محروم ہوتی ہے۔
سماجی تعلقات انسان کے لیے ہمیشہ سے اہم رہے ہیں، لیکن فی زمانہ یہ انسان کے لیے اتنے اہم ہوگئے ہیں کہ ان کے بغیر زندگی بے معنی اور ناممکن نظر آتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ان تعلقات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ تعلقات ایسے مقناطیسوں کا کردار ادا کرتے ہیں جو توجہ کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ خاندان، دولت، شہرت، عہدہ، منصب یہاں تک کہ لباس، اس کی تراش خراش اور انسان کی وضع قطع بھی سماجی تعلقات میں شامل ہے اور ان سب چیزوں سے صرف ایک کام لیا جاتا ہے، توجہ حاصل کرنے کا کام۔ ایسی فضا میں بے چاری محبت کے لیے کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟
ان سب چیزوں کا مرکز تلاش کیا جائے تو نگاہ جا کر ’’انا‘‘ پر ٹھہرتی ہے، جس کا اُصول حرکت ’’طاقت‘‘ ہے۔ ہر طرح کی طاقت۔ ایسی طاقت جو ہر چیز پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتی ہو تا کہ ان کے سوا کسی چیز کا وجود باقی نہ رہے اور باقی رہے تو اس کے کوئی معنی ہی نہ ہوں۔ انا کی اس توسیع پسندی کی راہ میں جو چیز بھی آتی ہے انا اسے مسمار کردیتی ہے۔ انا کا صرف ایک ہی جواب ہے’’محبت‘‘جس کی انتہا عشق ہے۔
محبت انا کی لگام ہے، اور عشق وہ فریضہ جس سے انا کی قلب ماہیت ہوتی ہے۔ اور وہ کائناتی انا کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہے، لیکن محبت اور عشق عصر حاضر کی ضرورت نہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا خریدار ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ انا کی سلطنت ہے، اس پر انا کی حکمرانی ہے۔
فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے
سبک ہوئے ہیں تو عیش ملال سے بھی گئے