اس وقت دنیا بھر اور خاص طور پر ہمارے ملک میں دو لفظوں کا استعمال وسیع پیمانے پر ہورہا ہے، ان میں سے ایک لفظ ’کلچر‘ ہے اور دوسرا ’بحران‘۔ جہاں تک کلچر کا تعلق ہے تو اس کے استعمال کا یہ عالم ہے کہ بات کلاشنکوف کلچر سے ہوتی ہوئی ٹیکس کلچر تک آپہنچی ہے۔ لفظ بحران کا یہ حال ہے کہ جہاں ہاتھ ڈالیے، بحران برآمد ہوجاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ بھی اپنی جیب تک میں احتیاط سے ہاتھ ڈالتے ہیں کہ مبادا وہاں سے بھی بحران برآمد ہوجائے۔ لیکن وہ اندیشہ ہی کیا جو پورا نہ ہو، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے یہاں بحران کا کلچر بھی نہ صرف یہ کہ پیدا ہوچکا ہے، بلکہ تیزی کے ساتھ پھل پھول رہا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بحران کا لفظ کثرت سے اس لیے استعمال ہورہا ہے کہ وہ موجود ہے۔ لیکن کلچر کا لفظ ہر جگہ اس لیے بروئے کار آرہا ہے کہ کلچر موجود نہیں۔
پروفیسر کرار حسین نے کہیں لکھا ہے کہ جب آدمی کا عشق توانا ہوتا ہے تو وہ اس کا ذکر بھی نہیں کرتا، مگر جب عشق کمزور پڑجاتا ہے تو پھر وہ محبوب سے بات بات پر یہ کہتا ہے کہ میں تم پر مرتا ہوں۔ کلچر کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ جب تک ہمارے کلچر کی جڑیں واقعتاً مضبوط تھیں تو اس لفظ کا استعمال کثرت سے نہیں ہوتا تھا، لیکن جب سے کلچر کے بحران نے ہمیں گرفت میں لیا ہے ہر جانب سے کلچر کلچر کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا ہی نہیں۔
زندگی میں دیکھنے کی بات صرف یہی نہیں ہوتی کہ اس میں نئے رجحانات در آئے ہیں، بلکہ دیکھنے کی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ نئے رجحانات نے پہلے سے موجود رجحانات کی جگہ لی ہے، کیوں کہ عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ کہیں کسی شے کی کمی سے جو خلا پیدا ہوتا ہے اُسے کوئی دوسری شے آکر پُر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس اعتبار سے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم کلچر کا لفظ وسیع پیمانے پر استعمال کررہے ہیں تو یہ لفظ کس حقیقت، کیفیت یا لفظ کی جگہ استعمال ہورہا ہے۔ یہاں حقیقت اور کیفیت والے الفاظ اہم ہیں، اس لیے کہ ضروری نہیں کہ لفظ ہی لفظ کی جگہ لے، لفظ میں معنی بھی ہوتے ہیں اور ایک کیفیت بھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کلچر کا لفظ مذہب سے متعلق کیفیت کو نہایت خاموشی سے Replace کررہاہے۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو خود مذہب کو کلچر یا تہذیب کا حاصل سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ تصور بھی یکسر فنا نہیں ہوگیا ہے کہ مذہب کلچر پیدا کرنے والے عوامل میں اہم ترین عامل ہے۔ کم از کم ہمارے یہاں اس تصور کو اب بھی درست تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود کلچر کا لفظ مذہب کے تصور، جامعیت اور نزاکت(Sophisticatio کی جگہ لے رہا ہے۔ جہاں تک جامعیت کا تعلق ہے تو کلچر کے بارے میں سمجھا یہی جاتا ہے کہ وہ زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہے، اور نہ صرف یہ، بلکہ اس کے بہترین اسلوب کا کام بھی زندگی کی صورت گری اور عکاسی کرتا ہے۔ تاہم یہ ایک ایسی بات ہے جس کا شعور اور احساس عام نہیں، اور اس لیے عام نہیں کہ ہم مذہب اور کلچر کے امتیاز سے آگاہ نہیں رہے۔
یہ ایک اہم اور دل چسپ بات ہے کہ ایک جانب تو ہم کلچر کی ہمہ جہتی کے شعوری یا لاشعوری طور پر قائل ہیں، لیکن دوسری جانب ہم نے کلچر کو چند باتوں تک محدود کرلیا ہے، مثلاً آپ کسی سے پوچھیے کہ سندھ کا کلچر کیا ہے؟ وہ آپ کو سندھی زبان، لوک موسیقی، لوک رقص اور اجرک کی طرف متوجہ کردے گا۔ بلاشبہ یہ سندھ کے کلچر کے مظاہر ہیں، لیکن کیا کلچر اتنا محدود اور مختصر ہوتا ہے! اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کلچر کا لفظ ظاہر پرستی، سطحیت اور Reductionist رویّے کا مظہر نظر آئے گا۔
اگرچہ بظاہر لفظ کلچر کے ساتھ کوئی ’’تقدیس‘‘ وابستہ نہیں کی گئی، لیکن ایک غیر اعلانیہ تقدیس کو کلچر سے لپٹے ہوئے دیکھنا دشوار نہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اب کلچر کے نام پر ہر چیز پیش کی جاسکتی ہے، یہاں تک کہ وہ چیزیں بھی جو واضح طور پر اینٹی کلچر ہوتی ہیں لیکن آپ ان پر اعتراض نہیں کرسکتے، اور اگر اعتراض کریں گے تو کہا جائے گا کہ ارے آپ تو کلچر کی مخالفت کررہے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس امر پر دال ہے کہ لفظ کلچر سے غیر اعلانیہ تقدیس وابستہ کردی گئی ہے۔ بلاشبہ حقیقی کلچر میں تقدیس کا عنصر ہوتا ہے، لیکن اس عنصر کا تعین خود کلچر یا اس کے کسی مظہر سے نہیں ہوتا، کیونکہ تقدیس کا معاملہ براہِ راست مذہب سے متعلق ہے، اور اس لیے متعلق ہے کہ تقدیس مذہب کے سوا کہیں سے آہی نہیں سکتی۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ کلچر کے لفظ سے عام طور پر جو جھوٹی تقدیس وابستہ کی جاتی ہے وہ کیا ہے؟ تجزیہ کیا جائے تو یہ تقدیس ’’مزے‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں، ہمیں جس چیز میں مزا آئے وہ ہمارے لیے اہم ہوجاتی ہے، اور جو چیز ہمارے لیے اہم ہو، ہم اس کا دفاع کرتے ہیں خواہ وہ چیز بدترین انحراف ہی کیوں نہ ہو۔
کلچر کا لفظ جتنا عام ہو گیا ہے اس سے خیال آتا ہے کہ یا تو ہم بہت مہذب ہوگئے ہیں یا ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ بہت سی چیزیں پردے کا کام دیتی ہیں۔ کلچر کا لفظ بھی بیشتر صورتوں میں ہمارے لیے پردے کا کام دیتا ہے۔ یہ ہماری سفاکی کا پردہ ہے، ہمارے پُرتشدد مزاج کا پردہ ہے، ہماری بے دلی اور لاتعلقی کا پردہ ہے، ہماری بے حسی اور بدتہذیبی کا پردہ ہے، ہمارے اتھلے پن کا پردہ ہے۔
دیکھا جائے تو کلاشنکوف کلچر، اور ٹیکس کلچر میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ کلاشنکوف، کلچر کی ضد ہے، اور پیسے سے آج تک ’’کلچر‘‘ پیدا نہیں ہوسکا ہے۔ لیکن ہم مذکورہ تراکیب کو کثرت سے استعمال کررہے ہیں، اور یہ صورت حال بجائے خود کلچر کے زوال کی عکاسی ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ کسی چیز کے وسیع پیمانے پر استعمال کو کلچر کہنے میں کیا مضائقہ ہے، لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس طرح کی صورتِ حال کے بیان کے لیے کئی الفاظ استعمال ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہم ان الفاظ کو استعمال کرنے کے بجائے کلچر کا لفظ ہی بروئے کار لانا پسند کررہے ہیں، مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب سے معاشرے میں کلاشنکوف کی وبا عام ہوئی، قتل و غارت گری میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مثلاً کہا جا سکتا ہے کہ کلاشنکوف کے طوفان نے معاشرے میں امن وامان کا مسئلہ پیدا کردیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر ہمیں کوئی اور لفظ پسند نہیں آتا۔ ہمارا شعور کلچر کی جانب ہی لپکتا ہے۔ یہ محض لفظ کا غلط استعمال نہیں ہے، بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہے۔ گو لفظوں کا غلط استعمال بھی اب بہت عام ہوگیا ہے، مثلاً لوگ ’’زنا بالجبر‘‘ کو ’’زیادتی‘‘ کہتے اور لکھتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ ہم بہت مہذب ہوگئے ہیں، لیکن جناب! یہ خوشی کا نہیں رونے کا مقام ہے۔