حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اکثر لوگ اپنی عادات و خصلات میں اپنے آبا و اجداد کے بجائے معاصرین کا عکس ہوتے ہیں۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے اور اس سے اس امر پر روشنی پڑتی ہے کہ انسانی شخصیت کی تعمیر میںجینیات (Genetice) سے زیادہ اس ماحول کا حصہ ہوتا ہے جس میں انسان سانس لیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی کلیہ نہیں ہے اور حضرت علیؓ نے بھی اپنی گفتگو میں ’’اکثر‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے لیکن بہرحال عمومی صورتِ حال یہی ہے۔
ماحول بلاشبہ ایک بہت بڑی قوت ہے‘ لیکن یہ قوت دو دھاری تلوار کی طرح ہوتی ہے‘ اس لیے کہ ماحول میں مثبت اور منفی رجحانات بیک وقت کار فرما ہوتے ہیں۔ لوگ جہاں مثبت رجحانات سے استفادہ کرتے ہیں وہیں منفی اثرات بھی انہیں متاثر کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ بات بہت اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ کسی فرد کا اصولِ حیات اور اصولِ حرکت کیا ہے اور وہ اصول کتنا مستحکم ہے۔
یہ بات اس لیے اور بھی اہم ہے کہ ماحول انسان کی عادات و خصلات کی تشکیل نہیں کرتا بلکہ وہ بجائے خود اصول بن جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ بہت ’’اچھے‘‘ ہوتے ہیں لیکن ان کی اچھائی ’’اچھا بننے‘‘ کی خواہش کے بجائے اچھا ’’نظر آنے‘‘ کی خواہش کا نتیجہ ہوتی ہے۔ انہیں مسلسل یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ ان کے آس پاس موجود لوگ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اگر لوگوں کی رائے اچھی ہو تو وہ مطمئن رہتے ہیں لیکن اگر رائے خراب ہو تو وہ رائے کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کوئی بھی قربانی دینے پر تیار ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسانی شخصیت پر ماحول کا سب سے ہولناک اثر یہی پڑتا ہے۔ ماحول شخصیت کا اصل اصول بن جائے تو شخصیت دو نیم ہو جاتی ہے پھر انسانی وجود میں دو یا دو سے زائد شخصیتیں مقیم ہو جاتی ہیں۔ ایک شخصیت اچھی ہوتی ہے‘ لیکن یہ اچھی شخصیت مصنوعی شخصیت ہوتی ہے۔ ایک شخصیت بری شخصیت ہوتی ہے جو حقیقی شخصیت ہوتی ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ حقیقی شخصیت چھپی رہتی ہے اور مصنوعی شخصیت عیاں رہتی ہے۔ اس صورت حال سے جو دھوکا خلق ہوتا ہے اس سے اللہ کی پناہ طلب کرنی چاہیے اس لیے کہ یہ دھوکا اتنے رجحانات پیدا کرتا ہے کہ کسی اور کو کیا خود انسان کو بھی یہ معلوم نہیں رہتا کہ اس کی حقیقی شخصیت کون سی ہے اور مصنوعی شخصیت کون سی؟
انسانی تاریخ میں جبر و اختیار کی بحث آج بھی اہم ہے اور ہمیشہ اہم رہے گی۔ اگرچہ یہ بحث کبھی فیصل ہوئی نہ ہو سکتی ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو زیر بحث موضوع سے اس بحث کا بہت گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ آبا و اجداد کی عادات و خصلات میں انسانی آزادی کا کوئی امکان ہی نہیں۔ انسان اپنی جینز (Genes) کو خلق نہیں کرتا نہ کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس ماحول میں انسان کی آزادی کا امکان ہے اور انسان اپنے ماحول کو کسی نہ کسی حد تک بدل سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ماحول کا جبر جینز کے جبر سے زیادہ سخت ہو چلا ہے۔
کہنے کو تو ہمارا دور فردیت اور فرد پرستی کا دور ہے‘ جس میں انفرادیت کو مرکزی اہمیت حاصل ہے لیکن تجزیہ کیا جائے تو انفرادیت ایک نایاب شے ہے‘ ہمارے آس پاس جو کچھ ہے‘ یکسانیت ہے۔ ایک ایسی ہولناک یکسانیت جس کی انسانی تاریخ میں نظیر تلاش نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ ایک ایسی بات ہے جسے لوگ مشکل ہی سے تسلیم کریں گے۔ اس لیے کہ وہ یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ یہ زمانہ فرد کی آزادی کا زمانہ ہے اور انسان کچھ بھی کرنے میں آزاد ہے لیکن یہ آزادی روایتی معاشروں کی یکسانیت سے زیادہ پابندی کا شکار ہے اس لیے کہ اس میں کسی مستقل اصول اور مستقل پیمانے کو دخل نہیں۔ اس کا اگر کوئی اصول ہے تو صرف اور صرف خارجی ماحول اس ماحول ہی میں اتنی یکسانیت ہے کہ مختلف نظر آنے کی خواہش جان لیوا حد تک انسانوں پر غالب آچکی ہے لیکن اگر کوئی کہیں مختلف ہے تو لباس اور فیشن میں ان کی شخصیتوں اور عادات و خصلات میں کوئی فرق نہیں اور اس دائرے میں ان کی انفرادیت اور نام نہاد آزادی کا سراغ لگانا دشوار ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اب لباس اور فیشن کا تنوع بھی محض ایک مفروضہ ہے‘ اس لیے کہ لوگ اب ایک طرح کا لباس اور ایک طرح کا فیشن کرتے نظر آتے ہیں۔
غور کیا جائے تو ماحول اتنی بڑی قوت ہے کہ اس کی اسیری ہر اعتبار سے مسلم ہے۔ جو لوگ ماحول سے مطابقت پیدا کرتے ہیں وہ تو خیر ماحول کے اسیر ہوتے ہی ہیں لیکن تجربہ شاہد ہے کہ ماحول سے انحراف بھی دراصل ماحول کے کسی نہ کسی جزو اور پہلو پر اصرار کرتا ہے یا اسے Confirm کرتا ہے۔ ماحول سے بہت بڑا انحراف کیا جائے تو زمانہ وہ انحراف انقلاب کہلاتا ہے اور حسنِ اتفاق سے ہمارے سامنے کئی انقلابات کی مثالیں ہیں ان میں سب سے بڑا انقلاب سوشلسٹ انقلاب تھا۔ اب کہنے کو تو یہ انقلاب سرمایہ داری کے خلاف بہت بڑی بغاوت اور اس سے بہت بڑا انحراف تھا لیکن تجزیہ کیا جائے تو یہ انقلاب سرمایہ داری کا ایک شاخسانہ نظر آتا ہے اور دونوں نظاموں کے اساسی تصورات میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا تصورِ انسان ایک ہے‘ دونوں کے تصورِ زندگی میں کوئی فرق نہیں‘ دونوں کا کائناتی تناظر یا Cosmic View ایک ہے‘ زندگی کی اساسی معنونیت کے لحاظ سے دونوں میں کوئی اختلاف نہیں… فرق ہے تو وسائل کی تقسیم اور ذرا سے سماجی منظر نامے یا ذرا سی Social Setting کا اور ظاہر ہے کہ کوئی بڑا فرق نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ فی زمانہ ماحول سے بہت بڑا انحراف بھی کافی مشتبہ چیز بن چکا ہے اور یہ بات پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گئی ہے کہ اصول اور پیمانے پر اصرار کیا جائے۔ مگر لوگ اب اصول اور پیمانے کی بات سے اتنا ڈرتے ہیں کہ جیسے اصول یا پیمانہ موت کا فرشتہ ہو۔