پاکستان کا نظریہ اور اس کی محبت پاکستان کا اصولِ تخلیق ہے۔پاکستان کا نظریہ اسلام کے سوا کچھ نہیں، اور اسلام میں یہ طاقت ہے کہ وہ اور اس کی محبت چیزوں کو عدم سے وجود میں لا سکتی ہے۔غور کیا جائے تو پاکستان کی ہر چیز عجیب اور انہونی ہے۔ دنیا کے ہر حصے میں مسلمان موجود ہیں مگر دنیا کے کسی حصے میں دو قومی نظریہ موجود نہیں تھا۔ دو قومی نظریہ موجود تھا تو برصغیر میں۔ بعض لوگ کم علمی کی وجہ سے سرسید کو دو قومی نظریے کا بانی کہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو قومی نظریہ مجدد الف ثانیؒ اور جہانگیر کے زمانے میں بھی موجود تھا۔ چنانچہ دو قومی نظریے کے تحت مجدد الف ثانیؒ نے جہانگیر کو یاد دلایا کہ گائے کے ذبیحے پر پابندی ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے لگائی گئی ہے، چنانچہ اس پابندی کو ختم کرو۔ جہانگیر کے دربار میں رائج سجدۂ تعظیمی بھی خلافِ اسلام تھا، چنانچہ مجدد الف ثانیؒ نے اسے بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ فردِ واحد تھے مگر چونکہ وہ حق پر تھے اور حق کی علامت تھے اس لیے بالآخر جہانگیر کو حضرت مجدد الف ثانیؒ کی بات ماننا پڑی۔ اورنگ زیب عالمگیر اور داراشکوہ کی کشمکش کو لوگ غلط فہمی کی وجہ سے دو شہزادوں کی کشمکش کہتے ہیں۔ یہ کشمکش اپنی اصل میں دو قومی نظریے اور ایک قومی نظریے کی آویزش تھی۔ داراشکوہ ہندو ازم سے متاثر تھا۔ وہ ہندوئوں کی مقدس کتاب کو قرآن کریم سے برتر قرار دیتا تھا۔ چنانچہ اورنگ زیب کو معلوم تھا کہ داراشکوہ بادشاہ بن گیا تو وہ جنوبی ایشیا میں اسلام اور مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔ چنانچہ اورنگ زیب نے دو قومی نظریے کی علامت بن کر ایک قومی نظریے کے علَم بردار داراشکوہ کا راستہ روکا۔ داراشکوہ کو اورنگ زیب ہی نہیں اُس کی نماز بھی سخت ناپسند تھی، چنانچہ وہ اورنگ زیب کا ذکر ’’وہ نمازی‘‘ کہہ کر کیا کرتا تھا۔ ذرا غور تو کیجیے کہ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی اورنگ زیب اور داراشکوہ کے زمانے میں دو قومی اور ایک قومی نظریے کی کشمکش برپا تھی۔ یہ کتنی عجیب اور انہونی بات ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی اور اورنگ زیب کا زمانہ تاریخی تناظر میں پاکستان کا ماضیِ بعید ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دو قومی نظریے کے شعور نے مسلم برصغیر کی تین بڑی شخصیتوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ سرسید ایک زمانے میں ایک قومی نظریے کے قائل تھے۔ وہ ہندو اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں کہتے تھے، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ کانگریس اردو اور فارسی کو کچل رہی ہے اور ہندی کو فروغ دے رہی ہے تو سرسید نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ کانگریس کا حصہ نہ بنیں، انہیں اپنے سیاسی مفادات عزیز ہیں تو اپنا الگ سیاسی پلیٹ فارم بنائیں۔ اقبال سرسید سے کہیں زیادہ وسیع المشرب تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں گرونانک کی تعریف کی ہے، مہاتما بدھ کو سراہا ہے، اور رام کو ’’امام ہند‘‘ کہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ ہمالہ پر نظم لکھتے تھے، انہیں ہندوستان سارے جہاں سے اچھا نظر آتا تھا، اور انہیں ’’خاکِ وطن‘‘ کا ہر ذرّہ ’’دیوتا‘‘ نظر آتا تھا۔ یہ قوم پرستی کی انتہا تھی، اس لیے کہ صرف ایک ہندو ہی خاکِ وطن کے ذرّے کو دیوتا کہہ سکتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے دو قومی نظریے کے شعور کے ذریعے اقبال کی قلبِ ماہیت کردی، اور اقبال دیکھتے ہی دیکھتے ’’شاعرِ اسلام‘‘ بن کر ابھرے۔ انہوں نے پوری امت کے درد کو اپنا درد بنا لیا، پوری امت کی تقدیر کو اپنی تقدیر سے منسلک کرلیا، اور وہ یہ کہتے ہوئے نظر آئے:
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
جہاں تک قائداعظم کا معاملہ ہے، وہ اپنے ظاہر میں سرسید اور اقبال سے زیادہ ’’مغربی‘‘ نظر آتے تھے۔ وہ عملاً کانگریس کا حصہ تھے اور سروجنی نائیڈو انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہتی تھیں، اور وہ غلط نہیں کہتی تھیں۔ محمد علی جناح ہندومسلم اتحاد کے سب سے بڑے سفیر تھے، مگر دو قومی نظریے کے شعور نے محمد علی جناح کو تاریخ کے اسٹیج پر قائداعظم بناکر کھڑا کردیا۔ نہ صرف یہ، بلکہ قائداعظم نے دو قومی نظریے کی تشریح و تعبیر میں پوری زندگی کھپا دی۔
یہ بھی ایک سامنے کی بات ہے کہ 1940ء کا زمانہ قوم پرستی کا زمانہ تھا، اور قوموں کی تعریف تین چیزوں سے متعین ہوتی تھی: ان کی نسل سے، ان کے جغرافیے سے، اور ان کی زبان سے۔ یہ وہ عہد تھا جب روس میں انقلاب برپا ہوچکا تھا اور دنیاکا وسیع علاقہ کمیونزم کے زیر اثر جا چکا تھا، اس لیے کہ کمیونزم ایک انقلابی قوت بن کر ابھر رہا تھا۔ مگر برصغیر کے مسلمانوں نے نہ قومیت کا دامن تھاما، نہ کمیونزم کی طرف دیکھا۔ انہوں نے دیکھا تو اسلام کی طرف، اسلامی تہذیب کی طرف، اسلامی تاریخ کی طرف، اسلامی اقدار کی طرف، اسلامی ورثے کی طرف۔ انہوں نے کہا ہمارا تشخص اسلام ہے اور اس کی بنیاد پر ہم ہندوئوں سے مختلف قوم ہیں۔ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں، ہندو بے شمار بتوں کو پوجتے ہیں۔ ہماری تہذیب کچھ ہے، ہندوئوں کی تہذیب کچھ اور۔ ہمارے ہیروز الگ ہیں۔ چنانچہ ہم ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنے دین، اپنی تہذیب، اپنی اقدار اور اپنے تاریخی تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے پاکستان چاہیے۔ اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار نہرو نے کہا تھا کہ کیا جناح مسلمانوں کو Dark Ages میں لے جانا چاہتے ہیں! اس لیے کہ مذہب کی بنیاد پر تو سیاست Dark Ages ہی میں ہورہی تھی۔ نہرو کا یہ بیان جھوٹ پر مبنی تھا۔ گاندھی خود مذہب کی سیاست کررہے تھے… ہندو مذہب کی سیاست۔ شدھی کی تحریک مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنا رہی تھی اور گاندھی کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ گاندھی خود اپنی زبان سے ’’رام راج‘‘ کی بات کررہے تھے اور رام راج ایک مذہبی تصور تھا۔ بہرحال ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو دو قومی نظریہ خود کو بیسویں صدی میں پوری طرح ظاہر کررہا تھا اور اس کی بنیاد پر بالآخر پاکستان بن کر رہا۔
دنیا کی مشکل یہ ہے کہ وہ ’’ظاہر پرست‘‘ ہے، چنانچہ لوگوں کو قائداعظم کے بدن پر کوٹ، پتلون اور ٹائی نظر آتی تھی، ان کی انگریزی دکھائی دیتی تھی، ان کا سگار نظر آتا تھا، مگر کوئی ان کے باطن کو نہیں دیکھتا تھا جو اول و آخر قدیم تھا، مذہبی تھا۔ اتنا مذہبی جتنا کہ ہر مسلمان کے باطن کو ہونا چاہیے۔ ذرا قائداعظم کی تقریر کا یہ اقتباس تو ملاحظہ کیجیے۔ قائداعظم نے 30 اکتوبر 1947ء کو فرمایا:
’’اگر ہم قرآن کریم سے تحریک و رہنمائی حاصل کریں تو فتح بالآخر ہماری ہوگی۔ میں آپ لوگوں سے بھی فقط یہی مطالبہ کرتا ہوں کہ ہم میں سے ہر وہ شخص جس تک یہ پیغام پہنچے پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کا عہد کرے، اور اس کے لیے ضرورت پڑے تو اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائے‘‘۔
(قائداعظم کی منتخب تقاریر۔ ریسرچ اکیڈمی لاہور۔ چوتھا ایڈیشن صفحہ 448-447)
آپ قائداعظم کی تقریر کے اس اقتباس کو غور سے پڑھیے۔ وہ کہہ رہے ہیں ہمارا سب کچھ قرآن ہے۔ ہمیں تحریک ملے گی تو قرآن سے۔ رہنمائی ملے گی تو قرآن سے۔ فتح حاصل ہوگی تو قرآن سے۔ اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ قائداعظم جیسا کہ بعض لوگوں کو غلط فہمی ہے ’’مسلم قوم پرستی‘‘ کا شکار نہیں تھے۔ ان کے لیے سب کچھ قرآن تھا۔ مسلمان قرآن سے تھے، قرآن مسلمانوں سے نہیں تھا۔ چنانچہ پاکستان قائداعظم کے لیے جغرافیہ نہیں تھا، کسی نسل کی علامت نہیں تھا، کسی زبان سے مخصوص نہیں تھا، بلکہ اس کا محور اور مرکز قرآن بننے والا تھا۔ اس تقریر سے ظاہر ہے کہ قائداعظم پاکستان کو قرآن کے مطابق اسلام کا قلعہ بنانا چاہتے تھے، اسی لیے انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ پاکستان کے لیے کوئی بھی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں۔ ظاہر ہے جو ریاست قرآن کو مرکز بنائے گی صرف اسی کے لیے ہر قسم کی قربانی طلب کی جا سکتی ہے۔
بلاشبہ کسی بھی قوم کے لیے آزادی بڑی اہم ہے، مگر قائداعظم کی آزادی ’’مجرد‘‘ نہیں تھی۔ قائداعظم کی آزادی بھی اسلام یا نظریے سے وابستہ تھی۔ چنانچہ قائداعظم نے 18 جون 1945ء کو فرمایا:
’’پاکستان کا مطلب صرف حریت و آزادی نہیں بلکہ نظریۂ اسلام ہے جس کا تحفظ لازم ہے، اور یہ نظریہ ہمیں ایک قیمتی تحفے اور خزانے کے طور پر ملا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ دوسرے بھی ہمارے ساتھ شریک ہوں گے‘‘۔
(Teaching of Quaid-e-Azam. By Rizwan Ahmed- page-61)
قائداعظم نے صاف کہا ہے کہ ان کے لیے آزادی بجائے خود کوئی قدر نہیں تھی، انہیں آزادی بھی وہی عزیز تھی جو انہیں اسلام تک لے کر جائے، جو انہیں اجتماعی زندگی میں اسلام کو مرکز و محور بنانا سکھائے۔ ایسی آزادی کو ہی قائداعظم حقیقی آزادی سمجھتے تھے۔ یعنی قائداعظم کو سیکولر یا لبرل آزادی درکار نہیں تھی۔ انہیں اسلامی آزادی درکار تھی۔ اس تقریر میں قائداعظم نے پاکستان کے نظریے کو ایک ’’قیمتی تحفہ‘‘ اور ’’خزانہ‘‘ قرار دیا ہے، اس لیے کہ اس کا تعلق اسلام سے ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر اسلام نہ ہوتا تو قائداعظم قیام پاکستان کی جدوجہد نہ کرتے۔
برصغیر میں ہمارے تمام بڑے مجددین اور بڑی شخصیات اسلام کے احیاء کی جدوجہد کرتی رہی ہیں۔ مجدد الف ثانی نے بھی یہی کیا۔ شاہ ولی اللہ نے بھی یہی کیا۔ اقبال اور مولانا مودودی کی پوری فکر بھی احیائی تھی۔ قائداعظم عالم نہ ہونے کے باوجود اسی فکر کے حامل تھے۔ ذرا ان کی تقریر کا یہ حصہ تو ملاحظہ کیجیے۔ فرماتے ہیں:
’’ہم دس کروڑ نفوس کی ایک قوم ہیں جو اس عظیم برصغیر کے باشندے ہیں اور ہم ایک شاندار ماضی اور تاریخ رکھتے ہیں۔ آئیے خود کو اس کا اہل ثابت کریں اور اسلام کی حقیقی نشاۃ ثانیہ کو رونما کریں، اور اس کی شان و شوکت کو ازسرنو جِلا بخشیں‘‘۔
(Speeches and writings of Mr Jinnah By Jamil-ud-din vol 1 page 550)
قائداعظم کی تقریر کا یہ اقتباس ثابت کرتا ہے کہ قائداعظم نے پاکستان صرف اس لیے بنایا تاکہ یہاں اسلام کے پورے تہذیبی تجربے کا احیاء ہوسکے۔ اسی لیے انہوں نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بھی کہا۔ قائداعظم چاہتے تھے کہ دنیا یہ نہ کہے کہ اسلام اچھا تو ہے مگر عہدِ حاضر میں اس پر عمل نہیں ہوسکتا۔ قائداعظم چاہتے تھے کہ وہ ثابت کریں کہ اسلام صرف ماضی کے لیے نہیں تھا، وہ حال اور مستقبل کے لیے بھی ہے۔ بلاشبہ قائداعظم مجدد نہ تھے، مگر وہ مجددین کی فکر کے حامل ضرور تھے، اور یہ قائداعظم جیسے جدید تعلیم یافتہ انسان کے حوالے سے معمولی بات نہیں۔
یہ تمام حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان بہت عظیم مقاصد کے حصول کے لیے وجود میں آیا تھا۔ اس کی پشت پر صرف ہماری تاریخ کا تحرک نہیں تھا بلکہ ماورائے تاریخ قوتیں بھی قیام پاکستان کے لیے متحرک تھیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کو عہدِحاضر میں سب سے بڑی روحانی اور تہذیبی قوت ہونا چاہیے تھا، مگر بدقسمتی سے پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں نے قائداعظم کی فکر، ان کی بصیرت، ان کے وژن، ان کی جدوجہد، ان کی قربانیوں اور ان کے ورثے سے غداری کی۔ جنرل ایوب پاکستان کو سیکولر دیکھنا چاہتے تھے۔ جنرل پرویز کا تصورِ پاکستان لبرل پاکستان تھا۔ بھٹو صاحب پاکستان کو ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نمونہ بنانا چاہتے تھے۔ جنرل ضیاء پاکستان کو ’’ضیائی اسلام‘‘ میں ڈھالنے کے لیے کوشاں تھے۔ میاں نوازشریف اور بے نظیر کا سرے سے کوئی نظریہ ہی نہیں تھا ،عمران خان کہاں کھڑے ہیں یہ انہیں بھی نہیں معلوم۔ چنانچہ یہ تمام حکمران پاکستان، نظریۂ پاکستان اور قائداعظم کی فکر کے غدار ہیں۔ ان غداروں نے قائداعظم کے “Original Pakistan” کو ختم کردیا۔ پاکستان کے غدار حکمران آدھا پاکستان لے ڈوبے۔ موجودہ پاکستان بچا کھچا پاکستان ہے، اور اس پاکستان کی حالت بھی خراب ہے، اس کی معیشت بھی خراب ہے، سیاست بھی خراب ہے، معاشرت بھی خراب ہے، تعلیم بھی خراب ہے، نظامِ انصاف بھی خراب ہے، قوانین اور ان کے نفاذ کا معاملہ بھی خراب ہے… اور یہ تمام باتیں بتا رہی ہیں کہ یہ قائداعظم کا پاکستان نہیں بلکہ ان کی فکر کے غداروں کا پاکستان ہے۔ پاکستان کو آج دنیا کے دس طاقت ور ترین ملکوں میں سے ایک ہونا چاہیے تھا، مگر پاکستان دنیا کے تیس طاقت ور ملکوں میں بھی شامل نہیں۔ البتہ پاکستان کی ایک چیز اب بھی غیر معمولی ہے۔ پاکستان کا نظریہ۔ یہ وہ طاقت ہے جو کسی وقت بھی متحرک ہوکر ’’کُن‘‘ کی قوت سے ایک نئی دنیا تخلیق کرسکتی ہے۔ اس نظریے نے جناح کو قائداعظم بنایا۔ قوم پرست اقبال کو عظیم اقبال بنایا۔ صحافت میں برسرِکار مولانا مودودی کو مفکرِ اسلام بنایا۔ اس نظریے نے برصغیر کے مسلمانوں کی بھیڑ کو قوم میں ڈھالا۔ اس نظریے نے برصغیر کے مسلمانوں کو فرقہ وارانہ، مسلکی، گروہی، صوبائی اور لسانی تعصبات سے بلند کیا۔ ہم اپنے وجود کی پوری صداقت سے آج بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا مقدر ایک عظیم ملک بن کر ابھرنا ہے۔ برصغیر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آدھی امت بستی ہے۔ برصغیر نے دنیاکو سب سے زیادہ مسلمانوں کا تحفہ دیا ہے، چنانچہ پاکستان کا نظریہ متحرک ہوکر کسی بھی وقت ایک نئی دنیا تخلیق کرسکتا ہے۔ جو ماضی میں ہوچکا ہے، وہ حال میں بھی ہوسکتا ہے۔