ماضی، حال اور مستقبل کی اکائی میں زیادہ اہمیت حال اور مستقبل کو دی جاتی ہے اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے حال اور مستقبل کی اہیت میں مزید اضافہ ہورہا ہے، یہاں تک کہ ماضی کی طرف دیکھنے کے عمل کو نفسیاتی اور جذباتی اعتبار سے اچھا نہیں سمجھا جاتا اور جو لوگ ماضی کی طرف دیکھتے ہیں انہیں ماضی پرست، ماضی کا مردہ، قدامت پرست اور نہ جانے کن کن ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ماضی کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں۔ لوگ ماضی کو دیکھتے ہیں لیکن اس عمل میں ایک سطحی سی رومانویت ہوتی ہے یا پھر اس بات پر اصرار کہ ہماری جڑیں بھی ہیں۔ لیکن ان جڑوں سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ اس سوال پر کم ہی غور کیا جاتا ہے۔
جدیدیت کے زیر اثر کہنے والوں نے کہا ہے کہ جو گزر گیا وہ ہمارے لئے بے سود ہے البتہ جو ہورہا ہے اور جو ہونے والا ہے وہ ہمارے لئے اہم ہے، اس لئے ہمیں فکر کرنی چاہئے تو اس کی اور منصوبہ بندی کرنی چاہئے تو اس کے لئے۔ حال اور مستقبل کی اہیت پر اس اصرار کی اپنی معنویت ہے۔ انسان اپنے حال اور اپنے مستقبل سے بے نیاز نہیں ہوسکتا لیکن جہاں تک حال اور مستقبل کو سمجھنے کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے بعض حقائق ایسے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ان حقائق میں سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ وقت اور تجربے کے تناظر میں حقیقی وجود صرف ماضی کا ہے۔ حال اور مستقبل اس حقیقی وجود کے مقابلے پر محض ایک قیاس کی حیثیت رکھتے ہیں اور کبھی کبھی تو یہ قیاس بھی تحلیل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے، وہ لمحہ جو گزر رہا ہے ہمارا حال ہے اور چونکہ ابھی وہ گزر رہا ہے، اس لئے اس کو متعین نہیں کیا جاسکتا اور نہ اسے سمجھا جاسکتا ہے، البتہ جب یہ لمحہ گزر کر ہمارا ماضی بن جائے گا تو اس کو متعین کیا جاسکے گا۔ پھر س کا تجزیہ اور تحلیل ممکن ہوسکے گی، پھر اس سے کوئی معنی برآمد کئے جاسکیں گے۔ وہ لمحے جو ابھی آئے نہیں ہیں ہمارا مستقبل ہیں، لیکن یہ لمحے نامعلوم ہیں اور جو لمحے نامعلوم ہوں ان کے خدوخال مرتب نہیں ہوسکتے، البتہ جب یہ لمحے حال سے گزر کر ماضی بن جائیں گے تو پھر ان کے خدوحال ازخود عیاں ہوجائیں گے اور ہم انہیں دیکھ کر ان سے کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حال اور مستقبل کا کوئی وجود ہی نہیں۔ جو کچھ ہے صرف ماضی ہے۔
بعض لوگ ماضی، حال اور مستقبل کی اس تقسیم کو درست تسلیم نہیں کرتے اور وہ اس بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس کا لب لباب یہ ہے کہ ماضی پچاس، سو سال یا اس سے زیادہ پرانی چیز ہے۔ حال آج ہے کل ہے، آئندہ پانچ سات برسوں پر محیط ہے اور مستقبل بیس پچیس سال بعد آنے والا زمانہ ہے۔ ہمیں ماضی، حال اور مستقبل کی اس تعریف اور تقسیم پر کوئی اعتراض نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ وقت کا بنیادی یونٹ کیا ہے، لمحہ منٹ، دن، مہینہ، سال یا کچھ اور؟ ظاہر ہے کہ وقت کا بنیادی یونٹ اگر لمحہ ہے تو پھر ماضی، حال اور مستقبل کی مذکورہ تقسیم کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
اس سلسلے میں ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ وقت، ایک ناقابل تقسیم اکائی ہے اور وہ ایک رواں دواں حقیقت ہے زمانہ صرف ایک ہی ہے اور قدیم و جدید کا قصہ کم نظری کی دلیل ہے۔ یہ ہمارے علامہ اقبال ہیں، لیکن علامہ نے ایک دوسری جگہ یہ بھی کہا ہے کہ
جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہوگا یہی ہے اک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی، اُسی کا مشتاق ہے زمانہ
اب پہلی مثال کو دیکھا جائے تو ماضی کے ساتھ ساتھ حال اور مستقبل کا قصہ بھی ایک ہوجاتا۔ البتہ دوسری مثال کا مفہوم یہ ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل کا وجود ہے۔ تاہم ان دونوں مثالوں کا باہمی ارتباط بھی ممکن ہے اور وہ یہ کہ اگرچہ وقت اپنی اصل میں ناقابل تقسیم اکائی ہے لیکن انسانی تصور اور اشیا میں اس کا ظہور ماضی، حال اور مستقبل کو پیدا کرنے کا باعث ہے، اقبال کے یہاں تغیر پر بہت زور ہے اور مذکورہ شعر اس زور کا آئینہ دار ہے، لیکن تغیر ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کے حوالے سے ماضی، حال اور مستقبل کا تصور از خود سامنے آجاتا ہے۔
وقت کے حوالے سے گفتگو کے اور زاویے بھی موجود رہے ہیں لیکن ان زاویوں میں بھی ماضی، حال اور مستقبل کا تصور مضمر ہے اور نہ صرف یہ بلکہ ان زاویوں کے بارے میں بھی ماضی کی وہی اہمیت متعین ہوتی ہے جس کا ہم نے ابتدائی سطور میں ذکر کیا ہے۔
یہاں ہماری نظروں سے یہ پہلو اوجھل نہیں ہونا چاہئے کہ قران مجید میں نہ صرف یہ کہ ماضی یا گزرے ہوئے زمانے کا ذکر بار بار آیا ہے بلکہ ماضی کو ایک دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’ہم تمہیں گزری ہوئی امتوں کے قصے یونہی نہیں سناتے بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ تم ان سے سبق سیکھو‘‘۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں وقت کے تاریخی ظہور اور تناظر کو اساسی اہمیت دی گئی ہے۔ جہاں تک احادیث مبارکہ کا تعلق ہے تو ان میں مستقبل پر بھی بہت زور ہے اور ان میں مستقبل میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات کا ذکر ہے، لیکن یہاں مستقبل کوئی سیال یا مبہم حقیقت نہیں بلکہ ایک متعین حقیقت ہے۔ اس اعتبار سے وہ مستقبل کے عروج تصور کے بجائے ماضی کے تصور سے ہم آہنگ ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو فی زمانہ حال اور مستقبل پر جو اصرار ہے اس کی شدت حیرت انگیز ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ لوگ جس چیز کو سمجھ سکتے ہیں اسے پرانا کہہ کر رد کردیتے ہیں اور جس چیز کو سمجھ نہیں سکتے اسے سینے سے لگائے ہوتے ہیں۔