غربت اور خودکشی میں بظاہر بہت فرق ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں حقائق ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں اور اپنی انتہا پر کم و بیش ایک جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ تیسری دنیا میں اگر انتہائی غربت خودکشی کا سبب بن رہی ہے تو مغربی دنیا میں انتہائی امارت خودکشی کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ لیکن یہاں تیسری دنیا کی اصطلاح اس اعتبار سے مبہم ہے کہ تیسری دنیا میں سیکولر معاشرے بھی ہیں اور مذہبی معاشرے بھی، اور مذہبی معاشروں کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ وہاں غربت خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو، خودکشی کے واقعات بہرحال کم ہوتے ہیں۔ یہ رائے غلط نہیں۔ مذہبی معاشروں اور خاص طور پر مسلم معاشروں میں خودکشی کے واقعات کا تناسب مغربی معاشروں کے مقابلے پر بہت کم ہے، لیکن اس کے باوجود اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم معاشروں میں بھی خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ خود پاکستان کی صورتِ حال یہ ہے کہ کم و بیش روزانہ اخبارات میں خودکشی کے ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جن کا محرک غربت ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے اور کسی زمانے میں ایسا کیوں نہیں ہوتا تھا؟
اس سوال پر غور کرنے کے آغاز کے ساتھ ہی مذہب ایک اہم حقیقت اور ایک اہم عنصر کے طور پر سامنے آجاتا ہے، اور اس حوالے سے بے بنیاد سی بات یہ کہی جاتی ہے کہ خدا پر ایمان کی کمی اور دلوں سے روزِ آخرت کے خوف کا نکل جانا، یا اس کا کم ہوجانا خودکشی کا سبب بن رہا ہے۔ کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی خدا پر ایمان رکھتا ہو اور روزِ آخرت کا قائل ہو مگر پھر بھی خودکشی جیسے بھیانک جرم کا ارتکاب کرلے۔ یہ تجزیہ غلط نہیں، لیکن اس کی خامی یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں مسئلہ انتہائی سادہ (Simple) ہوجاتا ہے اور اس میں ایک طرح کی تجرید (Abstraction) بھی در آتی ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ مسئلے پر، مسئلے کے مذہب سے تعلق کے بنیادی پہلوئوں اور ان کی اہم جزیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے غور کیا جائے۔ مثال کے طور پر مذہب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی ایک سطح تک محدود نہیں، بلکہ وہ زندگی کی ہر سطح پر بنیادی حقیقت کی حیثیت سے بروئے کار آتا ہے یا Operate کرتا ہے۔ خدا کے تصور ہی کو لیجیے، اس کی ایک سطح اور ایک جہت ہے کہ انسان خدا کا تصور بھی نہیں کرسکتا، اور وہ خدا کا جو تصور کرے گا وہ یقیناً غلط ہوگا۔ لیکن خدا کے تصور کی ایک سطح اور ایک جہت یہ ہے کہ وہ ہماری رگِ جان سے بھی قریب ہے اور ہم اسے اس کے صفاتی ناموں کے ذریعے جانتے اور پہچانتے ہیں کہ وہ رحیم ہے، کریم ہے اور قہار ہے۔ مگر یہ اس مسئلے کا ایک رُخ ہے، اس کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ غربت کے مسئلے کا سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظام سے بھی گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کی نوعیت کو ظاہر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ماضی اور حال کا موازنہ کریں۔
غربت کا ایک مخصوص تصور بے شک عصرِ حاضر کی ایجاد ہے، لیکن فی نفسہٖٖ غربت آج کی پیداوار نہیں بلکہ اس کا وجود ہر دور میں رہا ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیے، آج سے ڈیڑھ دو سو سال پہلے کم غربت نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود لوگ غربت کی وجہ سے خودکشی پر مائل نہیں ہوتے تھے۔ خودکشیاں ہوتی تھیں لیکن ان کے محرکات کچھ اور ہوتے تھے۔ تو کیا اس سے یہ رائے قائم کی جائے کہ اُس زمانے میں لوگ خدا اور مذہب پر زیادہ ایمان رکھتے تھے؟ یقیناً یہ بات بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ بعض ایسی علامتیں بہت واضح طور پر مختلف سطحوں پر کام کررہی تھیں جنہیں مذہبی خیال کیا جاتا تھا، مثلاً ایک بادشاہ کی علامت ہی کو لے لیجیے۔ فی زمانہ بادشاہت پر بہت تنقید ہوتی ہے اور ممکن ہے کہ یہ تنقید درست ہو، لیکن بادشاہت کا یہ پہلو بہت اہم ہے کہ بادشاہ کی حیثیت ظل اللہ کی تھی اور بادشاہ خاص اللہ میاں کے یہاں سے آتے تھے۔ بادشاہ اچھا ہو یا برا، لیکن ُاس کے اس پہلو کو عوامی قبولیت حاصل تھی، اور یہ وہ بات تھی جو بادشاہوں کے ظلم و ستم کو گوارا بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کرتی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ جمہوریت بادشاہت کے مقابلے پر اچھی چیز ہو، اور جمہوری حکمران بادشاہوں کے مقابلے میں بہت بہتر نظر آتے ہوں، لیکن جمہوری حکمران جو کچھ بھی ہوتے ہیں ’’عوام کے بنائے ہوئے‘‘ ہوتے ہیں، اور جو چیز عوام نے خود بنائی ہو اُس میں ’’ماورائیت‘‘ کا شائبہ کم ہی ہوا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری حکمران عوام کو اپنی ’’تقدیر‘‘ کبھی محسوس نہیں ہوسکتے، اسی لیے وہ ان کے ظلم و ستم کو بھی اس طرح برداشت نہیں کرسکتے جس طرح بادشاہوں کے ظلم و ستم برداشت کیا کرتے تھے۔
بادشاہ عوام کی تقدیر تھا اور اس کے ساتھ ہی اس کا نظام اور اس نظام سے پیدا ہونے والی سماجی اور معاشی زندگی بھی عوام کی تقدیر تھی۔ مطلق تقدیر پرستی کا یہ ماحول اور یہ تصور خامیوں سے پُر تھا اور اس میں انسانی وقار اور اس کے ارادے اور جدوجہد کی بڑی حد تک نفی ہوجاتی تھی، لیکن زیر بحث موضوع کے حوالے سے اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ لوگوں کو اپنی حالت ناقابلِ برداشت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ معاشرے میں صرف دو ہی طبقے تھے: امراء کا طبقہ اور غریبوں کا طبقہ۔ متوسط طبقے کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ بادشاہوں، نوابوں اور امراء کی زندگی غریبوں کے لیے دُور کا نہیں خواب کا منظر تھی، اور وہ ہر آن اپنی زندگی کا کسی دوسرے کی زندگی سے موازنہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ جمہوری طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ نہ حکمران عوام کی تقدیر ہوسکتے ہیں اور نہ ان کا نظام عوام کو اپنی تقدیر محسوس ہوتا اور نہ اس نظام سے پیدا ہونے والی سماجی و معاشی حالت انہیں اپنی تقدیر محسوس ہوتی ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ صنعتی نظام نے ایک بہت بڑا متوسط طبقہ پیدا کردیا۔ یہ طبقہ عوام ہی کے طبقے سے نمودار ہوا ہے، اور یہ طبقہ اور اس کی زندگی اس بات کی علامت بن گئی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کوشش کے ذریعے اُن آسائشوں کا حصول ممکن ہے جو کبھی خواب کا منظر تھیں۔
صنعتی نظام نے جمہوریت اور متوسط طبقے ہی کو نہیں ایک ایسے تصورِ زندگی کو بھی خلق کیا ہے جس میں مادی پیش رفت ہی سب کچھ ہوکر رہ گئی ہے۔ اس تصور میں تقدیر، قناعت، صبر اور ان جیسے تصورات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ ان کا مفہوم انجماد ہے یا پسماندگی۔ اس تصورِ زندگی نے غربت کے لفظ کو ایک نیا مفہوم دیا ہے، اور غربت صرف دولت سے محرومی کا نام ہوکر رہ گئی ہے۔ حالانکہ کسی مذہبی معاشرے میں دولت سے محرومی کو کبھی غربت نہیں سمجھا گیا۔
ایک حدیثِ مبارکہ میں ایسے افلاس سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کو کہا گیا ہے جو انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ بے شک اس حدیث ِ پاکؐ کا ایک اشارہ دولت کی قلت سے پیدا ہونے والے افلاس کی جانب ہے، اور انسانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی رہی ہے جن کے لیے غربت نفسیاتی تجربہ اور نفسیاتی حقیقت بن جائے تو وہ کفر کی طرف جاسکتے ہیں۔ لیکن افلاس محض ایک معاشی تصور نہیں ہے، اس میں ایمان اور فرد کی ذہنی صلاحیتوں سے لے کر اس کے معاشرتی اور خاندانی رشتوں تک بہت کچھ آجاتا ہے۔ انسان وسائل سے محروم ہو لیکن اس کے پاس ایمان کی دولت ہو، ذہنی صلاحیتیں موجود ہوں، اس کا معاشرتی ربط و ضبط قائم ہو اور بنیادی انسانی رشتے اعتبار کے حامل ہوں تو دولت کی قلت سے پیدا ہونے والی غربت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ چنانچہ مذکورہ حدیث ِ پاک میں افلاس کے تصور کو دولت کی قلت تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے۔
دیکھا جائے تو عصرِ جدید کا بنیادی المیہ ہی یہ ہے کہ ایک طرف وہ فرد کی آزادی کا اعلان کررہا ہے اور اسے یقین دلا رہا ہے کہ اس کی زندگی امکانات سے پُر ہے، لیکن دوسری جانب وہ فرد کو اُس کے ہر حقیقی اور بنیادی رشتے سے کاٹتا چلا جارہا ہے۔ چنانچہ اگر مذہبی معاشروں میں بھی لوگ غربت کی وجہ سے خودکشی کررہے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ محض غربت اُن کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگئی، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے پوری زندگی ہی ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے۔ زندگی کے ناقابلِ برداشت ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ معاشرتی اور خاندانی تعلق اور تعلقات کا نظام درہم برہم ہورہا ہے۔ چنانچہ افرادِ معاشرہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ تنہا ہیں اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ غربت تو ڈیڑھ دو سو سال پہلے بھی تھی مگر اُس وقت غربت کو بانٹ کر زندگی بسر کرنے والے بھی تھے، مدد اور تعاون کو آجانے والے بھی تھے۔ مدد اور تعاون کرنے والے اب بھی ہیں گو ان کی تعداد کم ہوگئی ہے، لیکن غربت کو بانٹنے والے، اسے share کرنے والے اب خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اب کتنے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سربراہِ خاندان کی غربت اور فلاکت کو بانٹ لیں؟ اب تو مشاہدہ بتاتا ہے کہ اولاد والدین سے بہت کچھ پانے کے باوجود یہ شکایت کرتی ہے کہ آپ نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؟
اسلام میں معاشرتی تعلقات کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے۔ ہمارا دین بتاتا ہے کہ مسلمان ایک امت ہیں اور وہ تو ایک جسم کی طرح ہیں اور ایک دیوار کی طرح ہیں۔ ہمارے دین کو دو مسلمانوں کے درمیان یہ تک گوارا نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ ایک دوسرے سے بات چیت بند رکھیں۔ اسلام میں پڑوس ہمارے گھر کی توسیع کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان تمام تصورات سے ایک ایسا معاشرتی نظام وجود میں آتا ہے جس میں کسی معاشرتی آویزش یا بیگانگی کی کوئی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ دراصل یہ ہمارے بنیادی مذہبی تصورات کے انتہائی نچلی سطح تک پھیلائو کی ایک صورت ہے، اور اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ اپنی کچھ رحمتیں، برکتیں اور نعمتیں براہِ راست نازل کرتا ہے اور کچھ رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں کو وہ انسانوں میں انسانوں کے ذریعے تقسیم کرتا ہے۔ اس صورتِ حال کے ذریعے اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کے رگِ جاں سے قریب ہونے کے تجربے سے گزرتے ہیں، اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے لیے تجربہ ہی سب کچھ یا بہت کچھ ہوتا ہے، لیکن اگر یہ تجربہ باقی نہ رہے یا اگر اس تجربے پر سے ان کا ایمان اُٹھ جائے تو پھر ان کے لیے ہر طرف ایک خلا ہی خلا ہوتا ہے، انہیں ہر راستہ بند نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ تیزی کے ساتھ ان خصائص کا عاری ہورہا ہے جو ہمارے مذہب کو مطلوب و مقصود ہیں۔ لوگ معاشی سہاروں ہی سے نہیں.. سماجی، نفسیاتی اور جذباتی سہاروں سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔ یہ صورت حال ان کی شخصیتوں میں ایسے عدم توازن کو جنم دے رہی ہے جو انہیں کسی بھی مرحلے تک پہنچا سکتا ہے۔ خودکشی کے مرحلے تک بھی۔