ہماری دنیا ذرائع ابلاغ کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں ذرائع ابلاغ کی طاقت اتنی بڑھ گئی ہے کہ کبھی ذرائع ابلاغ زندگی کا حصہ تھے مگر آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی ذرائع ابلاغ کا حصہ بن گئی ہے۔ الٹی گنگا بہنا کبھی ایک محاورہ تھا مگر زندگی اور ذرائع ابلاغ کے تعلق میں یہ محاورہ ایک حقیقت بن گیا ہے۔ یہ ایک انتہائی ہولناک صورتِ حال ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کی قوت، ان کی کشش اور ان کے اثرات کو جتنے زاویوں سے ممکن ہو، دیکھا اور سمجھا جائے تاکہ ہم زندگی اور ذرائع ابلاغ کے تعلق کو اپنے انفرادی اور اجتماعی شعور کا حصہ بناکر ذرائع ابلاغ کی قوت اور اثرات کے منفی پہلوئوں سے بچ سکیں۔
جدید ذرائع ابلاغ کی پہلی صورت ’’اخبار‘‘ تھا، اور اخبار کا تشخص ’’خبر‘‘ سے متعین ہوتا تھا۔ اب خبر کا معاملہ یہ ہے کہ انسان کی معلوم تاریخ کا نوّے فی صد حصہ مذہب کے زیراثر بسر ہوا ہے، اور مذہب کے دائرے میں ’’خبر‘‘ ایک آسمانی شے تھی اور اس کا اصلِ اصول صداقت تھا۔ اگرچہ آسمانی خبر اور اخباری خبر میں کوئی قدر مشترک نہ تھی، مگر خبر کے مذہبی تصور کا اثر اخبار کی خبر پر بھی مرتب ہوا اور اخبار کی خبر کو بھی عام زندگی میں ’’سند‘‘ کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اگرچہ مذہبی تصور کے اس اثر کو جدید دنیا میں کہیں بھی تسلیم نہیں کیا گیا لیکن خبر اور اخبار کے ’’سند‘‘ ہونے کے تصور پر مذہبی روایت کا اتنا گہرا اثر موجود ہے کہ اس کے بغیر ہم خبر اور اخبار کی ’’سندیت‘‘ یا Authenticity کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں خبر کا مفہوم چونکہ واضح اور کروڑوں انسانوں کے شعور کا حصہ ہے اس لیے ہمارے یہاں اس بارے میں دو رائے نہیں ہیں کہ صحافت کا لفظ خود ’’صحیفہ‘‘ سے نکلا اور صحیفہ آسمانی کتاب کو کہا جاتا ہے۔ سیکولر دنیا کو خواہ اس حقیقت کا ادراک نہ ہو لیکن مذہبی شعور نے سیکولر معاشروں میں بھی خبر اور اخبار کو سند بنانے اور سند کو ایک قوت میں ڈھالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال بادشاہت کے ساتھ اہلِ مغرب کا تعلق ہے۔ یورپی دنیا کہنے کو ’’جمہوری دنیا‘‘ ہے اور اس دنیا نے بادشاہت سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کی ماں کہلانے والے برطانیہ تک میں بادشاہت ایک تاریخ، ایک روایت اور قدامت کی ایک علامت کے طور پر موجود ہے اور پوری برطانوی معاشرت اور نفسیات پر اس کا گہرا اثر آج بھی ہے۔ خبر اور اخبار کے حوالے سے یہی معاملہ مذہبی شعور کا بھی ہے۔ سیکولر دنیا میں بظاہر وہ سطح پر کہیں موجود نہیں لیکن اس نے پس منظر میں رہ کر خبر اور اخبار کو ایک طرح کی مذہبیت سے وابستہ کیا ہے۔ عالمی سطح پر خبر اور اخبار کی قوت اور اثر کا ایک حوالہ یہی مذہبیت ہے۔
مذہب کی طرح تاریخ بھی خبر کے تصور کا ایک بنیادی حوالہ ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب خبر پہ بادشاہ کا حق ہوتا تھا۔ ریاستی نظام سے وابستہ ہزاروں اہلکار ملک کے کونے کونے سے ’’خبریں‘‘ جمع کرکے بادشاہ کو فراہم کرتے تھے۔ اس طرح خبر ایک ’’شاہی چیز‘‘ تھی۔ عام لوگوں کے پاس یا تو خبر ہوتی ہی نہیں تھی یا اکا دکا خبریں ہوتی تھیں، اور یہ خبریں بھی ان تک بہت تاخیر سے پہنچتی تھیں۔ لیکن اخبار کے اجراء نے اچانک بادشاہ کے لیے تیار ہونے والی ’’خاص ڈش‘‘ کو ’’عوامی شے‘‘ بنادیا اور کوئی شخص اخبار کی قیمت ادا کرکے پورے ملک کیا دنیا بھر کی خبروں سے آگاہ ہوسکتا تھا۔
اخبار کے ظہور سے پہلے انسانی تہذیب کتاب کی تہذیب تھی۔ اس تہذیب میں علم کا سرچشمہ کتاب تھی۔ کتاب کی بالادستی کی اس فضا میں ہر شعبہ ٔ علم کے مخصوص تصورات تھے، مخصوص تاریخ تھی، مخصوص اصطلاحیں تھیں، اور یہ تمام چیزیں اپنی تفہیم کے لیے قاری سے پوری زندگی یا زندگی کا ایک بڑا حصہ طلب کرتی تھیں۔ چنانچہ علم مخصوص لوگوں کی میراث تھا۔ لیکن اخبار نے علم کو بھی ’’عوامی‘‘ بنادیا۔ اس سلسلے میں کہیں اخبار نے علم کو واقعتاً آسان کرکے بیان کیا، لیکن اکثر صورتوں میں اخبار نے یا تو علم کا تاثر ’’خلق‘‘ کیا ہے یا علم کا ’’دھوکا‘‘ ایجاد کیا ہے۔ لیکن یہ بات اخبارات کے قارئین کی عظیم اکثریت نہ سو سال پہلے سمجھتی تھی نہ اب سمجھتی ہے۔ اس لیے کہ اخبار کے اکثر قارئین کے لیے علم کے ’’تاثر‘‘ اور علم کے ’’دھوکے‘‘ کا ’’نشہ‘‘ بھی بہت ہے۔ اخبار کی قوت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ یہ کہیں تہذیب، کہیں علم اور کہیں خواندگی کا معیار بن گیا ہے۔ حالانکہ آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے تک مہذب، ذہین اور خواندہ اْس شخص کو سمجھا جاتا تھا جو اپنی مادری زبان کی شاعری سے ’’لطف اندوز‘‘ ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
جدید ذرائع ابلاغ میں اخبار کے بعد دوسرا طاقت ور ترین میڈیم ریڈیو کی صورت میں سامنے آیا۔ ریڈیو نے اخبار کے لفظ کو ’’انسانی آواز‘‘ کے ذریعے ایک جانب ’’زندہ‘‘ کردیا اور دوسری جانب لفظ کے انسانی تشخص کو ایسے نئے پن سے ہمکنار کیا جس کا اس سے پہلے انسان کو کوئی تجربہ ہی نہیں تھا۔ تیسری جانب ٹیکنالوجی نے ریڈیو کو عالمگیریت عطا کردی۔ ان تمام چیزوں نے مل جل کر ریڈیو کو ایک ’’جادوئی شے‘‘ بنادیا۔ ریڈیو کی دنیا میں ریڈیو کے لیے سب سے صحیح، سب سے خوبصورت اور سب سے بامعنی نام بھارت نے رکھا۔ اس نے اپنے سرکاری ریڈیو کو ’’آکاش وانی‘‘ کا نام دیا، جس کا مطلب آسمان سے نازل ہونے والا پیغام یا ’’صدائے غیب‘‘ ہے۔ لیکن فلم کے آگے ریڈیو کا حسن و جمال بھی ماند پڑگیا۔
فلم کہانی کا ’’جدید روپ‘‘ تھی۔ لیکن ادب کی ساری قوت خیال کو تجربہ اور معلوم کو محسوس و جمیل بنانے میں تھی، لیکن فلم نے ’’محسوس‘‘ کو ’’موجود‘‘ بھی بنادیا۔ چنانچہ ’’فوری اثر‘‘ کے اعتبار سے فلم کی قوت کہانی کی قوت سے کئی سو گنا بڑھ گئی۔ اگرچہ فلم کہانی کا جدید روپ ہے مگر فلم میں کہانی کی طرح زندگی کا ایک تجربہ یا ایک رخ نہیں بیان کیا جاتا، بلکہ اس میں ناول کی طرح پوری زندگی کو بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے فلم کی قوت کا راز یہ ہے کہ وہ 30 سال کی زندگی کو تین گھنٹے میں بیان کردیتی ہے جس سے زندگی اور اس کے بیان کی شدت یا Intensity ہزاروں گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلم کا اثر گہرا ہو یا نہ ہو، شدید ضرور ہوتا ہے۔
فلم کے میڈیم میں یہ بات خلقی طور پر یا In-built موجود ہے کہ وہ ’’ہیرو‘‘ کے تصور کے بغیر تخلیق نہیں ہوسکتی۔ کہانی اور ناول میں ’’کردار‘‘ ہوتے ہیں اور ان کرداروں میں کوئی ’’ہیرو‘‘ بھی ہوسکتا ہے، لیکن ہزاروں کہانیاں اور افسانے ہیرو کے بغیر بھی لکھے گئے ہیں۔ لیکن فلم ’’ہیرو‘‘ کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔ اور فلم کا ہیرو کوئی بھی ہوسکتا ہے… بادشاہ، سپاہی، عاشق، مزدور، یہاں تک کہ ڈاکو بھی۔ فلم کا یہ پہلو فلم کی طاقت کو بہت بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت ہیرو کو پسند بھی کرتی ہے اور خود کو اْس کے ساتھ متشخص یا Identify بھی کرتی ہے۔ چارلی چپلن کی فلموں کا ہیرو اپنی اصل میں ’’مسخرہ‘‘ ہے۔ یہ مسخرہ چونکہ ’’ہیرو‘‘ ہے اس لیے چارلی چپلن کے مسخرے نے کئی دہائیوں تک کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا ہے اور اس نے لوگوں پر وہی اثرات مرتب کیے ہیں جو ایک ’’ہیرو‘‘ کو کرنے چاہئیں۔
فلم اپنی اصل میں ’’بصری تفکر‘‘ یا Visual thinking ہے۔ چنانچہ اس میں زبان کا کردار اہم ہونے کے باوجود محدود ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا سب سے بڑا مظہر چارلی چپلن کی فلم Modern Times ہے جسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اگر اس میں مکالمے ہوتے تو فلم تباہ ہوجاتی۔ لیکن یہ فلم کی طاقت نہیں اس کی کمزوری ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ فلم کے میڈیم کی یہ کمزوری عصر حاضر میں اس کی سب سے بڑی قوت بن گئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دنیا بھر میں انسانوں کی لسانی اہلیت اور صلاحیت کمزور ہورہی ہے اور انسانی تہذیب زیادہ سے زیادہ بصری اور حسی ہوتی جارہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اب دنیا میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جن سے لفظ کے ذریعے ابلاغ مشکل اور متحرک تصویر کے ذریعے آسان ہے۔ مذہب اور ادب سے دوری نے ایک ایسی دنیا تخلیق کردی ہے جس میں ’’معنی‘‘ سے زیادہ ’’تاثر‘‘ کا ابلاغ اہم ہوگیا ہے، اور تاثر کے ابلاغ کے لیے فلم سے بہتر کوئی ذریعہ ہو ہی نہیں سکتا۔ بلاشبہ تاثر بھی معنی سے عاری نہیں ہوتا، لیکن تاثر میں معنی مغلوب اور تاثر غالب ہوتا ہے۔
اگرچہ دنیا کی آبادی کا نصف مذہب کے دائرے سے باہر کھڑا ہے، مگر مذہب کا انکار کرنے والے بھی ’’نیک و بد‘‘ کا انکار نہیں کرسکتے۔ البتہ نیک و بد کے سلسلے میں ان کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ فلم کا کمال یہ ہے کہ وہ نیک و بد کی کشمکش کا سب سے زیادہ ’’عصری اظہار‘‘ یا Contemporary Expression بن گئی ہے۔ یعنی فلم کے میڈیم نے انسانی فطرت میں موجود نیک و بد کے قدیم ترین تصور کو جدید ترین اظہار عطا کردیا ہے۔ اس ’’امتزاج‘‘ نے فلم کو عصرِ حاضر کی زبان اور اظہار ہی نہیں اس کا ’’لہجہ‘‘ بھی بنادیا ہے۔ ادب کی مختلف اصناف میں نیک و بد کا بیان آتو رہا ہے لیکن وہ اتنا ’’عصری‘‘ نہیں ہے جتنا فلم کا اظہار ہے۔
یہ بات کم لوگ سمجھتے ہیں کہ فی زمانہ صاحب ِ علم، ذہین، حتیٰ کہ خوبصورت ’’نظر آنا‘‘ بھی اتنا اہم نہیں ہے جتنا ’’عصری‘‘ یا ’’Contemporary‘‘ نظر آنا ہے۔ اس سلسلے میں فلم کا کوئی ثانی ہے نہ کوئی حریف۔
عصرِ حاضر میں انسان کی زندگی اتنی دھماکا خیز ہو گئی ہے کہ اسے ڈرامائی عنصر کے بغیر بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔ فلم میں ڈرامائی عنصر فلم کی ’’ضرورت‘‘ کے طور پر موجود ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ فلم کے میڈیم کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔
فلم عہدِ حاضر میں رومانس کی پیشکش کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئی ہے۔ اگرچہ مغرب میں بہت سی فلمیں رومانوی نہیں ہوتیں، مگر دنیا میں بننے والی 60 سے 70 فی صد فلموں کا موضوع رومانس ہے۔ رومانس میں نوجوانوںکی دلچسپی اس لیے ہوتی ہے کہ یہ ان کا مشاہدہ اور تجربہ ہوتا ہے۔ رومانس میں پختہ عمر کے لوگوں کی دلچسپی اس لیے ہوتی ہے کہ وہ خود کو کچھ نہ کچھ نوجوان محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ پھر عصر حاضر میں دنیا دولت پرستی، تشدد، جنگ و جدل اور نفرت و حقارت کے جذبات سے اتنی بھر گئی ہے کہ رومانوی فلمیں بہت سے لوگوں کے لیے ’’نفسیاتی اور جذباتی پناہ گاہ‘‘ کا کام انجام دیتی ہیں، کچھ لوگوں کے لیے رومانوی فلمیں حقیقت سے فرار کا ’’اچھا موقع‘‘ ہیں، کچھ لوگوں کے لیے رومانس میں اس کی قلت کی وجہ سے واقعتا معنی ہوتے ہیں۔ ان تمام اسباب نے فلم کی طاقت کو بے پناہ کردیا ہے۔ جنوبی ایشیا کی فلموں میں شاعری اور موسیقی کی موجودگی نے فلموں کی ’’رومانویت‘‘ کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔ فلم کی قوت کے یہ پہلو ٹیلی ڈرامے میں بھی ایک حد تک موجود ہیں۔
البتہ ٹیلی وژن کی 24 گھنٹے کی نشریات انسانی تاریخ کا بالکل انوکھا واقعہ ہیں، اور ان نشریات نے انسانی زندگی کو اطلاعات کے سمندر میں دھکیل دیا ہے۔ اس صورت حال نے کروڑوں انسانوں کے تناظرکو ’’اطلاعاتی‘‘ یا ’’خبری‘‘ بنادیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پہلے ذرائع ابلاغ زندگی کا حصہ تھے اور اب زندگی ذرائع ابلاغ کا حصہ بن گئی ہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ مسئلہ انسان کے ’’ہونے یا نہ ہونے‘‘ کا ہے۔ شیکسپیئر ہمارے دور میں ہوتا تو کہتا کہ مسئلہ صرف ہونے یا نہ ہونے کا نہیں ٹیلی وژن پر ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔ جو ٹیلی وژن پر موجود ہے حقیقی وجود اسی کا ہے، جو ٹیلی وژن پر موجود نہیں وہ موجود ہو کر بھی موجود نہیں۔