اللہ تعالیٰ کو انسانوں سے اتنی محبت ہے کہ وہ انہیں صرف مسلمان نہیں بلکہ زندگی کے ہر دائرے میں حسن و جمیل دیکھنا چاہتا ہے۔ ایک حدیثِ قدسی کا مفہوم یہ ہے کہ ”دین“ کے تین درجے یا مراتب ہیں:
(1) اسلام، (2) ایمان، (3) احسان
اسلام یہ ہے کہ انسان زبان سے اقرار کرے کہ اللہ ایک ہے اور محمدؐ اس کے رسول ہیں۔ ایمان یہ ہے کہ اسلام انسان کے اعضاء و جوارح میں پھیل جائے۔ یعنی انسان اسلام پر مکمل طور پر عمل کرنے والا بن جائے۔ اور احسان یہ ہے کہ انسان اپنے ایمان کو حسین و جمیل بنالے۔
عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام یہ ہے کہ میں برائی ”کرنے سے“ رک جاؤں۔ ایمان یہ ہے کہ میں برا ”کہنے سے“ اجتناب کروں۔ احسان یہ ہے کہ میں برا ”سوچنے سے“ باز آجاؤں۔ یہ برائی سے پاک ہوجانے کی آخری منزل ہے۔ یہ درجہِ کمال ہے، اور کمال کبھی ”جمال“ کے بغیر نہیں ہوتا۔ جمال کمال کی ناگزیر صفت ہے۔
ایک اور اعتبار سے دیکھا جائے تو احسان عدل و انصاف کے تناظر میں نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے۔ عدل یہ ہے کہ کسی کو اُس کا حق ادا کردیا جائے۔ احسان یہ ہے کہ کسی کو اُس کے حق سے بھی زیادہ دے دیا جائے۔ احسان کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان خود پر دوسرے کو ترجیح دے۔ اس طرزعمل میں بھی کمال کا ایک عنصر ہے، اور یہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ کمال کبھی جمال کے بغیر نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کمال اور جمال جب ایک وحدت بن جاتے ہیں تو وہ چیز وجود میں آتی ہے جسے احسان کہا جاتا ہے۔ انسانی زندگی میں جمال کی یہ اہمیت ہے کہ انسان کی سب سے بڑی سعادت حسن و جمال کے تمام سرچشموں کا دیدار ہوگا۔ روایات میں آیا ہے کہ جب اہلِ ایمان جنت میں داخل ہوجائیں گے اور وہاں خوش وخرم ہوں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تمہیں سب کچھ عطا کردیا گیا؟ جنتی کہیں گے کہ بیشک ہمیں سب کچھ حاصل ہوچکا۔ اس مرحلے پر انہیں بتایا جائے گا کہ ابھی سب سے بڑا انعام باقی ہے اور وہ ہے دیدارِ الٰہی۔ اس کے بعد جنتی اپنے خالق و مالک کو اس طرح دیکھ سکیں گے جس طرح ہم چاند کو دیکھتے ہیں۔ دیدارِ الٰہی سے جنتیوں کو جو مسرت حاصل ہوگی اس کے آگے جنت کی مسرت کچھ بھی نہ ہوگی۔ اس لیے کہ ہرحسن، ہر جمال اور ہر کمال کا سرچشمہ ان کے سامنے ہوگا، اور جنتیوں کے اندر جمالِ الٰہی کو برداشت کرنے کی استعداد پیدا کردی جائے گی۔ یہ وہی جمالِ الٰہی ہوگا جس کی ایک تجلّی سے کوہِ طور ریزہ ریزہ ہوگیا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر رسول جس کا تحمل نہ کرسکے تھے۔ فرق یہ ہوگا کہ بعض جنتیوں کو دیدارِ الٰہی ایک مہینے میں ایک بار نصیب ہوگا، بعض کو ہفتے میں ایک بار، اور بعض کو یہ سعادت روز نصیب ہوگی۔ یہ فرق جنتیوں کے مراتب کے فرق کی وجہ سے ہوگا۔ اہلِ ایمان پر اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ انہیں اس زمین پر بھی حسن وجمال کا شیدائی اور حسن و جمال سے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ احسان کا لفظ قرآن مجید میں مختلف اصطلاحوں اور مختلف معنوں میں خود کو ظاہر کرتا ہوا ہمارے سامنے آتا ہے۔ مثلاً:
(1) ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا۔(6:37)
(2) ہم نے آسمان میں بروج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے اسے مزین کیا۔ (16:15)
(3) ہم نے زمین پر جو بھی بنایا وہ اسی کی زینت کے لیے ہے۔ (7:18)
(4) اے فرزندانِ آدم ہرنماز کے وقت اپنی زینت اختیارکرلیا کرو۔(3:17)
(5) قرآن مجید میں چوپایوں کا ذکرکرتے ہوئے ان کے جو مقاصد بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
”تمہارے لیے ان کے اندر شام کو لوٹاتے وقت اور صبح کو لے جاتے وقت ایک عجیب جمال ہوتاہے“۔
(6) تمہاری صورت گری کی توحسین صورتیں بخشیں۔ (64:40‘3:64 )
(7) اللہ کے یہاں جو ٹھکانہ ہے اس میں بھی حسن ہے۔ (49:38)
(8) اور اللہ کے یہاں جو اجرہے وہ بھی حسن رکھتاہے۔ (195:13)
(9) اس دنیا میں حسن کاروں کے لیے حسین بدلہ ہے۔ (30:14)
(10) اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دو حکمت اور حسین وعظ وپند کے ساتھ۔ (135:14)
(11) ان کے ساتھ مباحثہ کرنا ہوتو خوبصورت ترین طریقہ اختیارکرو۔(125:14)
(12)اے ہمارے رب ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں ”حسنہ “ عطا فرما۔(201:2)
(13) جو ”خوب کاری“ کرے گا اسے دس گنا بدلہ ملے گا۔(16:16)
(14) کون ہے جو اللہ کو ”حسین قرض“ دے۔ (2:245)
(15) تاکہ وہ اہلِ ایمان کو جنگ کی ”حسین آزمائش “ میں ڈالے۔(17:8)
(16) کیا تمہارے رب نے تم سے ”حسین وعدہ“ نہیں کیاہے۔(86:20)
(17)حسین صبرسے کام لو۔(5:70)
(18) یہ ہیں وہ لوگ جن کے حسین ترین اعمال کو ہم قبول کرتے ہیں ۔(16:46)
(19) عمل صالح کرنے والوں کو ہم ان کے ”حسین ترین اعمال“ کا درجہ عطاکریں گے۔ (97:16)
(20) ہم نے انسان کو حسین ترین سانچے میں ڈھال کر بنایاہے۔ (4:49)
مولانا جعفر شاہ پھلواری نے ایک جگہ لکھا ہے کہ قرآن مجید میں کم وبیش 300 مقامات پر احسان اور اس کے مشتقات جیسے زینت، حسن اور جمال کا ذکر آیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کی پوری زندگی کو احسان کے سانچے میں ڈھلا دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ خود جمیل ہے اور وہ جمال کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود احسان کرنے والا ہے اور وہ احسان کرنے والوں یعنی محسنین سے محبت کرتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ انسان کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ اسی لیے ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو صرف اسوہ نہیں اسوئہ حسنہ یعنی حسین ترین اسوہ کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپؐ نے جو کچھ کیا اس میں جمال پیدا کردیا۔ آپؐ نماز پڑھتے تھے اور اس طرح پڑھتے تھے کہ گریے سے آپؐ کا دامن تر ہوجاتا اورپاؤں سوج جاتے۔ اس طرح آپؐ کی نماز ایک جمیل نماز بن جاتی۔ آپؐ سب سے زیادہ عطاکرنے والے تھے اور فیاضی کی انتہا آپؐ کی عطا وبخشش کو جمیل ترین بنادیتی۔ آپؐ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایسی محبت تھی کہ حضرت عائشہؓ پانی کے برتن میں جہاں سے پانی پیتیں وہیں سے آپ ؐپانی پیتے تھے، اور جہاں سے حضرت عائشہؓ گوشت تناول فرماتیں وہیں سے آپؐ بھی گوشت تناول فرماتے ۔ اس طرح آپؐ کی محبت جمیل ترین محبت بن جاتی۔ یہاں تک کہ آپؐ میدانؐ جنگ میں اس مقام پرکھڑے ہوکر جنگ فرماتے جہاں سب سے زیادہ خطرہ ہوتا۔ اس طرح آپؐ کا جہاد جمیل ترین جہاد بن جاتا۔ آپؐ نے فتح مکہ کے بعد بدترین دشمنوں کو معاف فرمادیا اور عفو ودرگزرکو ایسا جمال عطا کیا کہ پوری انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آپؐ کی سیرت کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص نے آپؐ کو ایک مقام پر ٹھیرنے کو کہا اور وعدہ کیا کہ میں ابھی لوٹ کر آتاہوں۔ مگر وہ گھرجاکر یہ بات بھول گیا اور آپؐ اسی مقام پر اس کا تین دن تک انتظارکرتے رہے۔ تین دن بعد اس شخص کو یاد آیا اور وہ اس مقام پر پہنچا تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا منتظر پایا۔ آپؐ نے اسے دیکھ کر فرمایا توصرف یہ کہ تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا۔ اس طرح آپؐ نے وعدے اور انتظارکو جمال کی بلندیاں عطاکردیں۔
صحابہ کرامؓ کی پاک سیرتیں بھی احسان کا کامل نمونہ تھیں۔ صحابہ کرام کا احسان اس واقعے میں مجسم ہوکر سامنے آتا ہے جس کی کوئی مثال تاریخِ انسانی میں موجود نہیں۔ مشہور واقعہ ہے کہ میدانِ جنگ میں تین صحابہ زخمی تھے کہ پانی پلانے والا ایک صحابی کے پاس پہنچا۔ وہ پانی پلانے ہی والا تھاکہ پاس ہی سے دوسرے زخمی نے پانی، پانی کی صدا بلندکی۔ پہلے صحابی نے پانی پلانے والے سے کہاکہ وہ سب سے زیادہ ضرورت مند ہیں پہلے انہیں پانی پلادو۔ پانی پلانے والا دوسرے زخمی کے پاس پہنچا اور پانی پلانے ہی والا تھا کہ تیسرے زخمی نے پانی طلب کیا۔ دوسرے زخمی نے کہا انہیں مجھ سے زیادہ پانی کی حاجت ہے پہلے انہیں پانی مہیا کرو۔ پانی پلانے والا تیسرے زخمی تک پہنچا تو دیکھا کہ ان کا انتقال ہوچکاہے۔ وہ پلٹ کر پہلے اور دوسرے زخمی کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی شہید ہوچکے ہیں۔ موت کو سامنے دیکھ کر انسان کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں مگر صحابہ کرامؓ کا مرتبہ یہ تھا کہ وہ موت کو سامنے دیکھ کر بھی مرتبہ احسان سے نیچے نہیں اترتے تھے۔ وہ موت کے گلے میں بانہیں ڈال کر بھی دوسروں کو خود پر ترجیح دیتے تھے۔ حسن کاری اور زندگی کو جمیل بنانے کا عمل ان کے لیے کوئی ”کمال“ نہیں بلکہ سانس لینے کی طرح فطری اور معمولی عمل تھا۔
فی زمانہ اکثر اہلِ ایمان کی زندگیاں اسلام اور ایمان کی چند کیفیات تک محدود ہوگئی ہیں۔ اکثر لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں احسان درکار ہی نہیں۔ کچھ لوگوں کو احسان درکار بھی ہوتا ہے تو احسان ان کے لیے وجودی مسئلہ یا Existential Problem نہیں ہوتا۔ یعنی احسان کی طلب ان کی روح اور ان کے قلب سے نمودار نہیں ہوتی بلکہ وہ ان کے لیے زیادہ سے زیادہ ایک ذہنی معاملہ ہوتا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک خودپسندی اور دوسری خودغرضی۔ خودپسند شخص کو کسی اور سے کیا، خدا اور اس کے رسول سے بھی محبت نہیں ہوسکتی، اور خودغرض شخص کبھی دوسرے کو اپنے آپ پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ ایسے لوگوں کے باطن میں کبھی احسان کا سورج طلوع نہیں ہوتا، اور ان کا وجود زندگی کی حقیقی لذت سے کبھی آشنا نہیں ہوتا۔