سیکولر معاشروں میں یہ خیال عام ہے کہ جرائم کے محرکات اخلاقی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی، نفسیاتی، معاشی اور قانونی ہوتے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے دیکھا جائے تو مسلم اور سیکولر معاشروں کا فرق ایک معنی خیز اور دلچسپ صورت حال کو سامنے لاتا ہے۔ سیکولر معاشروں بالخصوص مغربی معاشروں کا سیاسی نظام انتہائی مستحکم اور منظم ہے۔ اس کے برعکس مسلم معاشروں میں نہ سیاسی نظام مستحکم اور منظم ہے اور نہ حکمرانوں کا معیار بلند ہے۔ مسلم معاشروں کو بادشاہ اور فوجی آمر کیا، جمہوری حکمران بھی اچھے دستیاب نہیں۔ معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم اور سیکولر معاشروں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ترقی یافتہ کہلانے والے سیکولر معاشروں کی فی کس آمدنی مسلم معاشروں سے کئی سو گنا زیادہ ہے۔ مسلم معاشروں اور ترقی یافتہ معاشروں کی معیشت کے حجم میں ہزاروں گنا کا فرق ہے۔ ترقی یافتہ سیکولر معاشروں میں خواندگی کی شرح تقریباً سو فیصد ہے، اس کے برعکس مسلم معاشروں میں یہ شرح انتہائی کم ہے۔ ترقی یافتہ سیکولر معاشروں میں افراد کے تحفظ کے لیے بہترین قوانین موجود ہیں، اور ان معاشروں میں پولیس کا ادارہ انتہائی فعال اور مؤثر ہے۔ اس حوالے سے مسلم معاشروں کا حال ابتر ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسلم معاشروں میں منفی نفسیاتی اور سماجی رجحانات اور جرائم کی شرح ترقی یافتہ معاشروں کے مقابلے پر انتہائی کم ہے۔ مثلاً مسلم معاشروں میں بہت کم لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ مسلم معاشروں میں طلاق کی شرح انتہائی کم ہے۔ سیکولر معاشروں کے مقابلے میں مسلم معاشرے خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے بہتر منظر پیش کررہے ہیں۔ امریکا میں بینکاری کے نظام میں جو زلزلے برپا ہوئے ان سے معلوم ہوا کہ امریکا جیسے ملک میں بڑے بڑے بینک دھوکہ دہی پر چل رہے تھے۔ اگر جرائم کے حوالے سے معاشیات اور سماجیات ہی سب کچھ ہیں تو سیکولر معاشرے روئے زمین کی ’’جنت‘‘ ہیں، اور جنت میں جرم کا نام و نشان بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس کے برعکس مسلم معاشرے سماجی اور معاشی اعتبار سے دنیا کا ’’جہنم‘‘ ہیں اور جہنم کو ہر طرح کے جرائم سے بھرا ہوا ہونا چاہیے تھا۔ لیکن عملی صورتِ حال یہ ہے کہ منفی نفسیاتی و سماجی رجحانات اور جرائم کے حوالے سے جہنم جنت سے بہتر منظر پیش کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا سبب کیا ہے؟
ایک فقرے میں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلم معاشرے ’’خدا مرکز‘‘ معاشرے ہیں، اور سیکولر معاشرے ’’انسان مرکز‘‘ معاشرے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا مرکز معاشرے کی معنویت اور افادیت کیا ہے؟ ایک خدا مرکز معاشرے بالخصوص اسلامی معاشرے میں خدا سے انسان کے تعلق کی چار جہتیں ہیں۔ خدا سے تعلق کی پہلی جہت یہ ہے کہ خدا کی ذات معنی کا سرچشمہ ہے۔ یعنی خدا نے جس چیز کو حق کہا ہے وہ حق ہے، جس چیز کو باطل کہا ہے وہ باطل ہے۔ خدا کے نزدیک جو چیز حلال ہے وہ حلال ہے اور خدا نے جس شے کو حرام قرار دیا ہے وہ حرام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زندگی میں جب بھی کسی چیز کے معنی کے تعین کا سوال اُٹھے گا تو صرف خدا کی ذات اور اس کے احکامات سے رجوع کیا جائے گا۔ مسلم معاشرے چونکہ اللہ تعالیٰ کو معنی کا سرچشمہ سمجھتے ہیں اس لیے ان معاشروں میں کبھی کسی بات اور کسی رجحان کی معنویت کا کوئی بحران پیدا نہیں ہوا۔ بلاشبہ قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ کے تفسیری علم میں بہت تنوع ہے، مگر اس تنوع میں ایک یک رنگی اور ہم آہنگی ہے، اور جن فرقوں نے قرآن مجید کی تفسیر اپنے فرقے کے مفادات کے مطابق کی ہے انہوں نے معنی کی سطح پر قرآن کا انکار کیا ہے، مگر ایسے فرقوں کی مسلم معاشرت میں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔
اس کے برعکس سیکولر معاشرے معنی کے بحران میں مبتلا ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بھارت کے ایک کالج میں پرنسپل نے بڑی جماعتوں کی طالبات کے جینز پہن کر آنے پر پابندی لگائی تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ طالبات کیا، طالبات کے والدین نے بھی سوال اُٹھایا کہ پرنسپل کو جینز پر پابندی کا حق کہاں سے حاصل ہوا؟ خود پرنسپل نے بھی اس سلسلے میں کہا تو یہ کہا کہ بڑی عمر کی طالبات کی جینز اکثر لڑکیوں کو چھیڑنے کا سبب بنتی ہے اور اس کی وجہ سے کالج میں اکثر جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کالج کی پرنسپل کا مؤقف بھی اخلاقی اور آفاقی نہیں تھا اور انہوں نے اس سلسلے میں وید، پران یا گیتا کا حوالہ نہیں دیا۔ جینز پر پابندی اُن کی ’’ذاتی رائے‘‘ تھی۔ اسی طرح اُن کے مؤقف کی مخالفت کرنے والوں کی رائے بھی ’’ذاتی‘‘ تھی۔ حال ہی میں دہلی میں ایک طالبہ کے ساتھ درندگی کا واقعہ ہوا تو اس سلسلے میں بھی ساری بحث ذاتی آراء کے گرد گھومتی رہی اور لوگ مسئلے سے نمٹنے کے لیے تکنیکی نوعیت کی تجاویز پیش کرتے ہوئے پائے گئے۔
سیکولر معاشروں میں معنی کے بحران کی ایک اور مثال یہ ہے کہ سیکولر معاشرے سگریٹ کے پیکٹ پر تو یہ لکھواتے ہیں کہ سگریٹ پینا صحت کے لیے ضرر رساں ہے، مگر امریکا ہو یا یورپ، اسرائیل ہو یا بھارت… کسی بھی جگہ شراب کی بوتل پر کوئی “Warning” درج نہیں ہوتی۔ حالانکہ شراب سے بھی کئی بڑے امراض لاحق ہوتے ہیں۔ اور شراب درجنوں قسم کے منفی روّیوں، رجحانات اور جرائم کا سبب بنتی ہے۔
سیکولر معاشروں میں معنی کے بحران کا ایک ثبوت یہ ہے کہ سیکولر معاشرے ایک جانب خواتین کے حقوق اور ان کی عزت و تکریم کے گن گاتے ہیں اور دوسری جانب انہوں نے عورت کو ایک شے یا Commodity بنادیا ہے۔ لیکن مسلم معاشروں کو صرف معنی کا تعین ہی دستیاب نہیں بلکہ ان کے معنی میں خدا سے تعلق کی وجہ سے ایک زبردست ’’تقدیس‘‘ بھی ہوتی ہے، اور معنی کے تعین اور ان کی تقدیس سے انسانوں کے فکر و عمل کی اس طرح تہذیب ہوتی ہے کہ دنیا کی کسی دوسری چیز سے ایسی تہذیب ممکن ہی نہیں۔
خدا مرکز معاشرے بالخصوص اسلامی معاشرے میں خدا سے تعلق کی دوسری جہت یہ ہے کہ خدا صرف معنی کا سرچشمہ ہونے کی وجہ سے محورِ عقیدت، محبت و اتباع نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ خدا ہمارا خالق، رازق اور مالک ہے۔ وہ چاہتا تو ہمیں خلق ہی نہ کرتا۔ کرتا تو پیڑ، پودا، حیوان یا پتھر بنادیتا، مگر اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا، اور بناکر چھوڑ نہیں دیا، بلکہ ہمارے رزق کا اہتمام بھی کیا۔ لیکن اس کائنات، اس دنیا اور خود انسان کے اندر جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان خدا ہی کی طرف سے آیا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر چلا جائے گا۔ مطلب یہ کہ خدا ہی ہمارا اور ہماری ہر چیز کا مالک ہے۔ چنانچہ انسان کو ازراہِ عقیدت و محبت ہی نہیں ازراہِ احسان بھی خدا ہی کی بات ماننی چاہیے، اس کی اور اس کے رسولؐ کی اتباع کرنی چاہیے۔ ان حقائق کا معمولی سا شعور بھی اگر انسان کو فراہم ہوجائے تو اس کے بہت سے منفی روّیوں اور رجحانات کا ازخود علاج ہوجاتا ہے۔
خدا سے تعلق کی تیسری اہم جہت یہ ہے کہ خدا حاضر و ناظر ہے۔ یعنی وہ ہر جگہ اور ہر لمحہ موجود ہے۔ انسان جو کررہا ہے وہ اس سے بھی آگاہ ہے، جو کچھ کرنا چاہتا ہے اس سے بھی واقف ہے۔ یعنی وہ ہمارے ظاہر ہی پر نہیں باطن پر بھی پوری طرح مطلّع ہے۔ قانون اور پولیس کا خوف بہت اہم ہے۔ لیکن قانون اور پولیس صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں، پھر انہیں جرم ثابت کرنے کے لیے شہادتیں بھی درکار ہوتی ہیں، اور جرم کرنے والے شہادتوں کو مٹاکر قانون، پولیس اور عدالت کا کام انتہائی مشکل بنادیتے ہیں۔ لیکن خدا کا علم ہر چیز پر محیط ہے اور اس کے یہاں انسان کا ہر لمحہ ریکارڈ پر ہے۔ خدا کا یہ تصور جس شخص کے شعور میں رچ بس جاتا ہے وہ جرم کیا اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ مسلم معاشروں پر بہت نہیں مگر کچھ نہ کچھ اس تصوّر کا اثر ہے۔
خدا کے ساتھ تعلق کی چوتھی اہم جہت یہ ہے کہ ہم دنیا میں جو کچھ کررہے ہیں وہ یہیں ضائع نہیں ہوجائے گا، بلکہ آخرت میں ہمارے سامنے آکھڑا ہوگا۔ یہاں تک کہ کسی نے ایک ذرّے کے برابر نیکی کی ہوگی تو وہ اسے دیکھ لے گا، اور اگر کسی نے ذرّے کے برابر بدی کی ہوگی تو وہ مجسم ہوکر سامنے آجائے گی، اور پھر جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی وہ جنت میں جائے گا اور جس کی بدیاں زیادہ ہوں گی وہ جہنم کا حقدار ہوگا۔ اس تصور کا شعور انسان کے تکبر، بے مہار قوت و اختیار اور ہر ممکن منفی رجحان کا زور توڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ اس تصور سے معلوم ہوتا ہے کہ بالآخر ہر نیکی یا ہر بدی ہماری ہی طرف لوٹ کر آنے والی ہے اور کسی انسان کے لیے اس سے مفر ممکن نہیں۔ مسلم معاشروں پر اس تصور کا بھی کچھ نہ کچھ اثر ہے۔ خدا کے ساتھ تعلق کی یہ جہتیں مسلم معاشرے میں خدا کے شعور، اس کی محبت اور اس کے خوف کو اس طرح راسخ کردیتی ہیں کہ انسان کی خارجی نگرانی اور خارجی نظم و ضبط کے تمام تصورات اور ادارے ’’اضافی‘‘ ہوجاتے ہیں۔ اسلام قانون، ضابطوں اور پولیس کے تصور کا مخالف نہیں، مگر وہ قانون پر انحصار کرنے کے بجائے شعورِ حق، خدا کی محبت اور اس کے خوف پر انحصار کو اہمیت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں قانون اور پولیس پر بہت کم انحصار کیا گیا۔ حضرت عمرؓ کے زمانے کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ ایک بوڑھی عورت نے اپنی بیٹی کو دودھ میں پانی ملانے کو کہا۔ اس کے جواب میں بیٹی نے ماں کو یاد دلایا کہ امیرالمومنین نے دودھ میں پانی ملانے سے منع کیا ہے۔ ماں نے کہا: امیرالمومنین کون سا ہمیں دیکھ رہے ہیں! لڑکی نے کہا: مگر خدا تو دیکھ رہا ہے۔ آج مسلم معاشروں کی اخلاقی حالت بہت خراب ہے اور خدا سے تعلق کی یہ چاروں جہتیں جو باہم مربوط ہیں مسلم معاشروں میں بہت مؤثر دکھائی نہیں دیتیں، مگر ان جہتوں کا تھوڑا بہت شعور مسلم معاشروں میں موجود ہے، اور یہی شعور بے پناہ سیاسی، معاشی، سماجی اور نفسیاتی مسائل کے باوجود مسلم معاشروں کو سنگین جرائم اور انتہائی منفی رجحانات سے محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس سیکولر معاشرے تمام تر مادی اور انسانی وسائل کے باوجود منفی رجحانات اور جرائم کے سیلاب کی زد میں ہیں۔ چونکہ ان معاشروں کی سیاسی اور معاشی حالت اچھی ہے اس لیے ان کے ظاہر و باطن کی خرابیاں پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے نہیں آتیں۔
مسلم معاشروں کا ایک اور پہلو اس حوالے سے اہم ہے کہ اسلام صرف انسان کے فکر و عمل کو اخلاقی بنیادیں فراہم کرکے نہیں رہ جاتا، بلکہ وہ فرد کو معاشرے سے گہرے طور پر متعلق کرکے اسے معاشرے کی خرابیوں سے مقابلے کے لیے تیار کرتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیثِ پاک کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس طاقت ہو تو برائی کو طاقت سے روک دو۔ طاقت نہ ہو تو برائی کو زبان سے روکو۔ یہ بھی ممکن نہ ہو تو کم از کم برائی کو دل میں برا خیال کرو، مگر یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلامی معاشرے میں حق و باطل کے درمیان جو معرکہ برپا ہے اس میں کوئی مسلمان بھی ’’غیر جانب دار‘‘ یا اس معرکے سے ’’لاتعلق‘‘ نہیں ہے۔ اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ برائی کی مزاحمت مسلمان کے لیے سیاسی، سماجی یا قانونی تقاضا نہیں ہے، بلکہ یہ ’’تقاضائے ایمان‘‘ ہے۔
اس حدیثِ پاک کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ برائی کی مزاحمت ’’مشروط‘‘ نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس برائی کو طاقت سے روکنے کی اہلیت نہ ہو مگر ان کے پاس اسے زبان سے برا کہنے کی طاقت ضرور ہوگی، لیکن اگر کسی کے پاس یہ طاقت بھی نہ ہو تو اس کے دل پر بہرحال کسی کا اختیار نہیں۔ اس پر لازم ہے کہ وہ دل میں برائی کو برا خیال کرے۔ مگر اسے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایمان کا پست ترین درجہ ہے اور کوئی مسلمان ایمان کے پست ترین درجے پر مطمئن نہیں ہوسکتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسے کم از کم برائی کے خلاف ’’لسانی جہاد‘‘ کی طرف آنا ہی ہو گا۔ اور لسانی جہاد کا مطلب خطرات کو دعوت دینا ہے۔ خطرات کو دعوت دینے کا مطلب مولانا مودودیؒ کی اصطلاح میں ’’شہادت ِحق‘‘ کا فرض ادا کرنا ہے۔ بلاشبہ مسلم معاشرے اس حدیث ِپاک سے بہت دور کھڑے ہیں، مگر ان معاشروں میں انسانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد پر اس حدیث ِپاک کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشروں میں برائی کی مزاحمت ایک ’’روایت‘‘ کا درجہ رکھتی ہے اور اس روایت نے مسلم معاشروں کو ہمیشہ باطل، گمراہی، ضلالت اور جرائم کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے بچایا ہے۔