مسلم دنیا کی تاریخ کے تین بڑے سانحے ہیں: سقوطِ بغداد،سقوطِ دِلّی اور سقوطِ ڈھاکا۔ ان سانحات میں سقوطِ ڈھاکا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ اس کی چار وجوہ ہیں:
(1) سقوطِ ڈھاکا کے نتیجے میں ایک ملک ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔
(2) 90 ہزار فوجیوں نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالے۔
(3) ملک کی آبادی کے ایک حصے نے ملک کے خلاف بغاوت کی۔
(4) سقوطِ ڈھاکا کو بھلا دیا گیا اور اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ سقوطِ ڈھاکا ہوا ہی کیوں؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ پاکستان کوئی ایسا ملک نہیں تھا جو تاریخ کے صفحات پر عرصے سے موجود ہو۔ پاکستان ایک ’’تاریخی تجربہ‘‘ تھا اور اس تاریخی تجربے کے عظیم الشان ہونے میں کوئی شبہ نہیں تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کا مقابلہ دو بڑی طاقتوں سے تھا۔
ایک جانب انگریز تھے جو وقت کی سپر پاور تھے، دوسری جانب ہندو تھے جو خود کو پورے ہندوستان کا اصل مالک سمجھتے تھے۔ مسلمانوں کی مشکل یہ بھی تھی کہ وہ بکھرے ہوئے تھے اور منظم نہیں تھے۔ مگر برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ نے انگریزوں کا بھی مقابلہ کیا، ہندوئوں سے بھی پنجہ آزمائی کی اور خود کو منظم اور متحرک کرکے بھی دکھایا۔ پاکستان کے عظیم الشان تجربہ ہونے کا ایک ثبوت یہ تھا کہ پاکستان قومیت کی معروف تعریف یا کسی اور رائج الوقت نظریے کی بنیاد پر وجود میں نہیں آیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کرتے ہوئے نہ قومیت کی معروف تعریف کا سہارا لیا‘ نہ اپنی مدد کے لیے سوشلزم کو آواز دی، نہ انگریزوں کے ساتھ سازباز کی، نہ ہندوئوں کے ساتھ سودے بازی کی راہ ہموار کی۔ انہوں نے کہا تو یہ کہا کہ ہماری اصل اسلام ہے اور ہم اسلام کی بنیاد پر ہندوئوں سے مختلف قوم ہیں، چنانچہ ہمیں اپنے نظریۂ حیات کے مطابق پوری زندگی بسر کرنے کے لیے ایک الگ ملک چاہیے۔ اس بات کا مفہوم یہ تھا کہ پاکستان جیسے عظیم الشان تاریخی تجربے کی اصل طاقت اسلام تھا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے پاکستان کا خواب دیکھنے والے قوم پرست اقبال کو اسلام پرست اقبال بنایا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے محمد علی جناح کو قائداعظم کا روپ دیا۔ یہ اسلام تھا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی ’’بھیڑ‘‘ کو ’’قوم‘‘ کی صورت دی۔ یہ اسلام تھا جس نے برصغیر کے ’’منجمد‘‘ مسلمانوں کو ’’متحرک قوت‘‘ میں ڈھالا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے مسلمانوں کی قیادت اور عوام کے درمیان اعتبار اور اعتماد کا رشتہ قائم کیا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے مسلمانوں کو قیام پاکستان کے نتیجے میں ہونے والے بے پناہ جانی اور مالی نقصان کو جذب کرنے کی استعداد مہیا کیا۔ یہ اسلام ہی تھا جو مسلمانو ں کا ماضی‘ حال اور مستقبل تھا۔ چنانچہ پاکستان کے اتحاد اور ترقی کے سلسلے میں اسلام ہی کو مرکزی کردار ادا کرنا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے قائداعظم کے انتقال کے بعد اسلام، اس کی تعلیمات، اس کے تقاضوں اور اس کے مطالبات ہی کو سب سے زیادہ نظرانداز کیا گیا۔ اسلام کا تقاضا یہ تھا کہ اسے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تصور اور عمل کی سطح پر مرکزیت عطا کی جائے۔ لیکن قائداعظم کے بعد آنے والے حکمرانوں نے اسلام کو پاکستان کا مرکزی حوالہ بننے ہی نہیں دیا۔ قائداعظم کے بعد ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگیا اور حکومتیں آئے دن بدلنے لگیں، چنانچہ اسلام کی مرکزیت قائم ہی نہ ہوسکی۔ 1958ء میں جنرل ایوب نے مارشل لا لگادیا، اور وہ ایک سیکولر حکمران تھے۔ جنرل ایوب رخصت ہوئے تو انہوں نے اقتدار جنرل یحییٰ کے حوالے کردیا اور جنرل یحییٰ کو پاکستان کے نظریے سے کوئی دلچسپی نہ تھی، بلکہ ان کی عملی زندگی پاکستان کے نظریے کی ضد تھی۔ چنانچہ جس نظریے نے بھیڑ کو قوم بنایا تھا اُس نظریے کی عدم موجودگی نے قوم کو ہجوم میں تبدیل کردیا اور ہجوم کی نفسیات پاکستان کو لے ڈوبی۔
ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اسلام صرف ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک عظیم الشان تہذیب کا عَلم بردار ہے، چنانچہ اسلام کا ایک تقاضا یہ تھا کہ معاشرے کی تشکیل اور حکومت کے بندوبست میں عدل کے تصور کو بنیادی اہمیت دی جائے، اس لیے کہ عدل کے بغیر ریاست تو کیا ایک چھوٹے سے خاندان کو بھی نہیں چلایا جاسکتا۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کی اجتماعی زندگی کو عدل سے ہمکنار نہ ہونے دیا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی 54 فیصد اور مغربی پاکستان کی آبادی 46 فیصد تھی، مگر اہلِ مشرقی پاکستان سے کہا گیا کہ وہ وسائل کی تقسیم میں ’’مساوات‘‘ یا Parityکا اصول اپنائیں۔ یعنی قومی وسائل میں اپنے 6 فیصد حصے سے دستبردار ہوکر اسے مغربی پاکستان کے حوالے کردیں۔ اس مطالبے کا کوئی اخلاقی‘ سیاسی‘ سماجی اور معاشی جواز نہ تھا، مگر مشرقی پاکستان کے لوگوں نے پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے مساوات کے اس اصول کو تسلیم کرلیا۔ لیکن بدقسمتی سے مساوات کے اصول پر بھی ایمان داری کے ساتھ عمل درآمد نہ ہوسکا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے حکمران طبقے سے شکایات عام ہونے لگیں اور 1954ء میں مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں ایسی تقاریر ریکارڈ کی گئیں جن میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ انصاف نہ کیا گیا تو پاکستان متحد نہیں رہ سکے گا۔ مگر یہ تقاریر نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئیں۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان میں انصاف کا گلا گھونٹا تو ناانصافی نے پاکستان کا گلا کاٹ دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی مشرقی پاکستان الگ ہوا پاکستان کے حکمران طبقے نے کہا کہ اب وسائل آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہوں گے، جس صوبے کی جتنی آبادی ہے اُسے اتنے ہی وسائل مہیا کیے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال پاکستان کے حکمران طبقے کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟ کیا یہ کہ اسے اسلام اور پاکستان سے محبت ہے، یا یہ کہ اسے اسلام اور پاکستان دونوں سے دلچسپی نہیں۔ اس طبقے کا مسئلہ صرف اپنے اور اپنے گروہ کے مفادات کا تحفظ ہے۔ جب ان مفادات کا تحفظ ’’مساوات‘‘ کے اصول کے تحت ہوسکتا تھا تو مساوات کا راگ الاپا گیا، اور جب آبادی کی اکثریت کا اصول مفید مطلب ہوسکتا تھا تو مساوات کے تصور کو دفن کرکے اکثریت کا اصول اختیار کرلیا گیا۔ لیکن اس تماشے میں پاکستان کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا ذمے دار کون تھا؟ امریکہ؟ بھارت؟ بنگالی؟ یا پاکستان کا بے ضمیر حکمران طبقہ؟
مشرقی پاکستان کے ساتھ ناانصافی صرف معاشی اور سماجی میدان ہی میں روا نہ رکھی گئی، 1970ء میں بالغ حقِ رائے دہندگی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے تو ان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کرلی۔ اصول‘ ضابطے‘ اخلاقیات اور سیاسی حرکیات کا تقاضا تھا کہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کیا جائے، لیکن اقتدار شیخ مجیب کے حوالے نہ کیا گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ تاریخ کے اس مرحلے پر بھٹو صاحب نے معاملات خراب کیے۔ انہوں نے اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ لگایا اور کہا کہ جس منتخب رکن نے ڈھاکا جاکر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی جرأت کی اُس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا بھٹو صاحب محض انتخابات جیت کر اتنے طاقت ور ہوگئے تھے کہ وہ جنرل یحییٰ پر حکم چلانے لگیں؟ ظاہر ہے کہ اقتدار جنرل یحییٰ کے پاس تھا اور اگر وہ چاہتے کہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کیا جائے تو بھٹو صاحب اُنٰ کے آگے زبان نہیں کھول سکتے تھے۔ مگر جنرل یحییٰ نے خود بھی اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کرنے میں رتی برابر دلچسپی نہ لی۔ چنانچہ اقتدار کی، حقدارکو عدم منتقلی کے اصل ذمے دار جنرل یحییٰ ہیں۔ جو لوگ اس سلسلے میں بھٹو صاحب کو جنرل یحییٰ سے زیادہ طاقتور ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ دراصل جنرل یحییٰ کو پاکستان کے دولخت ہونے کی ذمے داری سے بچانا چاہتے ہیں، ورنہ یہ وہی بھٹو تھے جو 1977ء میں ایک اور جرنیل کی ٹھوکروں میں آگئے۔ جنرل ضیاء الحق نے نہ صرف یہ کہ بھٹو صاحب کو ان کی مقبولیت کے زمانے میں اقتدار سے الگ کردیا بلکہ ان کو پھانسی بھی دے دی اور بھٹو صاحب جنرل ضیاء کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ سوال یہ ہے کہ جو بھٹو وزیراعظم ہونے کے باوجود 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کا کچھ نہ بگاڑ سکے وہ 1970ء میں وزیراعظم بنے بغیر جنرل یحییٰ کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟ جنرل یحییٰ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیتے تو بھٹو صاحب اس کے خلاف بیان دینے کی پوزیشن میں بھی نہ ہوتے۔
سقوطِ ڈھاکا کا ایک سبب پاکستان کے جرنیلوں کا اپنی ہی قوم کو فتح کرنے کا شوق ہے۔ اس شوق کی ابتدا جنرل ایوب کے مارشل لا سے ہوگئی تھی۔ تاہم جنرل یحییٰ نے مشرقی پاکستان کے سیاسی مسئلے کو عسکری مسئلے میں ڈھال کر اس شوق کو مزید آگے بڑھا دیا۔ جنرل یحییٰ اور جنرل ٹکا خان کا خیال تھا کہ وہ بنگالیوں کو فتح کرلیں گے۔ جنرل نیازی فرما رہے تھے کہ ہم بنگالیوں کی نسل بدل ڈالیں گے۔ لیکن بنگالیوں کی نسل تو نہ بدل سکی البتہ پاکستان کا جغرافیہ ضرور بدل گیا۔ جغرافیے کی اس تبدیلی کے سلسلے میں پاکستان کے جرنیلوں کا یہ تصور بھی اہم تھا کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کیا جائے گا۔ اس تصور کے تحت مشرقی پاکستان میں کبھی بھاری توپ خانہ نہیں رکھا گیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھارت کی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ صورت حال کس نے پیدا کی جس میں بھارت کو مداخلت کے مواقع فراہم ہوئے؟ کیا اس صورت حال کا ذمے دار بھی بھارت تھا؟
تاریخ بتاتی ہے کہ انسان بھوک برداشت کرلیتا ہے مگر ذلت برداشت نہیں کرتا۔ پاکستان کے حکمران طبقے کا ایک جرم یہ بھی ہے کہ اس نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کی شعوری طور پر تذلیل کی۔ اس تذلیل کا ایک پہلو یہ تھا کہ فوج میں بھرتی کے لیے مارشل ریس کا نظریہ ایجاد کیا گیا اور کہا گیا کہ فوج میں شمولیت کے سلسلے میں قد انتہائی اہم ہے۔ چونکہ بنگالیوں کے قد چھوٹے تھے اس لیے انہیں فوج کے قابل نہ سمجھا گیا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ بنگالیوں کے رہن سہن اور لباس کا مذاق اڑاتا تھا۔
صدیق سالک نے جو خیر سے فوجی تھے، اپنی تصنیف ’’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ میں بنگالیوں کی تذلیل کے کئی واقعات درج کیے ہیں۔ لیکن سقوطِ ڈھاکا کا تعلق صرف ہمارے ماضی سے نہیں بلکہ حال سے بھی ہے۔
گھر میں بچے سے ایک گلاس ٹوٹ جاتا ہے تو والدین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ گلاس کیوں ٹوٹا؟ مگر پاکستان کے حکمران طبقے کی مجرمانہ ذہنیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ملک ٹوٹ گیا اور اس نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ملک کیوں ٹوٹا۔ یہاں تک کہ سقوطِ ڈھاکا کے بعد قائم ہونے والے حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ بھی آج تک پوری منظرعام پر نہیں آسکی۔ ہمارے حکمران طبقے نے آج تک اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں کی کہ وہ سقوطِ ڈھاکا کو نصاب کا حصہ بناتے اور اپنی نئی نسل کو بتاتے کہ قائداعظم کا پاکستان آدھا کیوں رہ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نصاب میں موجود ہی نہیں۔ یہ سانحہ نصاب میں موجود ہے مگر انتہائی سرسری انداز میں، جس سے اس سانحے کے بارے میں کوئی بنیادی بات معلوم نہیں ہوتی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اسلام کو آج بھی ہماری ریاستی زندگی میں وہ مرکزیت حاصل نہیں جو اسے ہونی چاہیے۔ بلاشبہ 1973ء کا آئین اسلامی ہے مگر ہمارے حکمران طبقے نے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنایا ہوا ہے۔ یعنی اس نے اسلام کو آج تک آئین سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ معاشی اور سیاسی انصاف آج کے پاکستان کا بھی مسئلہ ہے اور ہمارے جرنیل ماضی کی طرح آج بھی سیاسی اور عملی مسائل کو فوجی آپریشنز کے ذریعے حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سقوطِ ڈھاکا آج بھی ہمارے تعاقب میں ہے اور ہماری اجتماعی نفسیات اس سے بے نیاز نہیں ہوسکی ہے۔