خودکشی کا بڑھتا ہوا رحجان

ژاں پال سارتر نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ آج کل کا ڈراما فلسفیانہ اور فلسفہ ڈرامائی ہوگیا ہے۔ سارتر کا یہ خیال درست ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک فلسفہ ہی کیا آج کل کی ہر چیز ڈرامائی ہوگئی ہے۔ یہاں تک کہ موت بھی۔ آپ دیکھتے نہیں کہ دنیا خاص طور پر مغربی دنیا میں لوگ اتنی سہولت سے خودکشی کرنے لگے ہیں کہ اس پر کسی فلم یا اسٹیج کے منظر کا گمان ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ خودکشی اتنی سہل کیوں ہوگئی ہے؟
اس سوال کے جواب کی تلاش میں نکلیے تو طرح طرح کے جوابات سے سابقہ پڑتا ہے۔ ایک جواب یہ ہے کہ مسائل اتنے بڑھ گئے ہیں کہ انسان کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسائل بڑھے ہوں یا نہ بڑھے ہوں مگر انسانوں کی قوت برداشت بہرحال کم ہوگئی ہے۔ چنانچہ ان کے لیے ہر مسئلہ، بڑا مسئلہ بن جاتا ہے اور یوں وہ مسائل کے ہولناک گرداب میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ تیسری دنیا کے حوالے سے خودکشی کے مسئلے پر بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ لوگوں کے وسائل کم ہیں اور مسائل زیادہ۔ چنانچہ لوگ مسائل سے تنگ آکر بالآخر خودکشی پر مائل یا مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ فلموں نے محبت کے حوالے سے خودکشی کو رومینٹک بنا کر پیش کیا ہے اور نوجوانوں پر اب فلموں کا گہرا اثر ہے، چنانچہ محبت میں ناکامی کی صورت میں جانے والی اکثر خودکشیاں فلموں کا شاخسانہ ہوتی ہیں۔ اس رائے کا بھی اکثر اظہار کیا جاتا ہے کہ بنیادی اور ثانوی انسانی رشتے بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ہیں اور انسانوں کی بہت بڑی تعداد کے نفسیاتی اور جذباتی سہارے چھن گئے ہیں چنانچہ شخصی بحران کے کسی بھی مرحلے پر اسے دوسرے انسانوں سے کوئی مدد نہیں مل پاتی اس صورتِ حال نے خودکشی کو آسان بنادیا ہے۔ اس ضمن میں جس جواب کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ دراصل انسان مذہب سے بیگانہ ہوگیا ہے۔ خدا اور آخرت کی زندگی کا تصور اس کے ذہن سے نکل گیا ہے اور یہی وجہ خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سبب ہے۔ یہ چند اہم جوابات ہیں، ورنہ اس سوال کے متعلق جوابات کی فہرست بہت طویل ہوسکتی ہے۔ یہ جوابات انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں پوری طرح درست ہوں یا نہ ہوں لیکن ان کی نوعیت اور تعداد سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ زیر بحث مسئلے کی کئی جہات ہیں۔ اب ذرا آئیے! ان جوابات میں سے چند پر ایک اور نگاہ ڈال لیں۔
اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ فی زمانہ انسان کے مسائل بہت بڑھ گئے ہیں، لیکن مسائل کے بڑھ جانے کی بات وضاحت طلب اور تجزیے کی محتاج ہے۔ مسائل کے بڑھنے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ مسائل کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ انسان گلی سے لے کر عالمی سطح تک مسائل میں گھرا ہوا ہے اور حیرت انگیز طور پر ان تمام مسائل کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے۔ مسائل کے بڑھ جانے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ کسی زمانے میں جو مسائل سب کے مسائل نہیں ہوا کرتے تھے وہ بھی اب سب کے مسائل بن گئے ہیں۔ مسائل کے بڑھ جانے کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی چھوٹا سا مسئلہ بھی سیدھا سادا مسئلہ نہیں رہا۔ آپ اس کا تجزیہ کریں گے تو اس سے ایک اور مسئلہ برآمد ہو جائے گا اور پھر آپ کو محسوس ہوگا کہ اس مسئلے کا تعلق کسی دوسرے مسئلے سے ہے، اس طرح مسائل کا تعین اور تجزیہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن کر رہ جاتا ہے، لیکن چار باتیں ایسی ہیں جن سے مسائل کی شدت میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے۔ انسان کے لیے مسئلے کے ’’ذمہ دار‘‘ کا تعین ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ ذمہ دار کے تعین سے ایک طرف انسان کو نفسیاتی تسکین میسر ہوتی ہے اور دوسری جانب مسائل سے پیدا ہونے والے ردعمل کی اساس بننے والے خیالات و جذبات کے کتھارسس کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ اب ایک مسئلہ تو یہ ہوگیا ہے کہ مسائل کے ذمہ دار کا تعین مشکل ہوگیا ہے اور تعین ہو بھی جائے تو مجرموں کے کٹہرے میں کسی ’’انسان‘‘ کے بجائے ’’ادارہ‘‘ کھڑا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر بجلی کا مسئلہ ہے تو واپڈا اور کے ای اس کے ذمہ دار ہیں کوئی شخص کوئی فرد نہیں۔ صفائی کا مسئلہ ہے تو بلدیہ عظمیٰ کراچی اور بلدیہ عظمیٰ حیدر آباد اس کی ذمہ دار ہیں۔ یہ سلسلہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل تک چلا جاتا ہے۔ انسان نے ہزاروں یا لاکھوں سال ’’شخصی ماحول‘‘ میں بسر کیے ہیں جس میں اکثر مسائل کا ذمہ دار کوئی انسان ہوا کرتا تھا۔ خواہ وہ انسان آپ کا بھائی ہو، پڑوسی ہو یا بادشاہ وقت ہو، ایک محدود دائرے میں اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے لیکن زندگی کا ایک بڑا دائرہ اداروں کی گرفت میں آگیا ہے جن کا نام تو ہے لیکن شخصیت اور شخصی وجود نہیں۔ چنانچہ مسائل کی ذمہ داری کے تعین کے باوجود انسان کو وہ نفسیاتی تسکین حاصل نہیں ہوپاتی جو کسی دوسرے انسان کو ’’الزام‘‘ دے کر حاصل ہوتی ہے۔
مسائل کی شدت میں اضافہ کرنے والی دوسری بات یہ ہے کہ بیشتر مسائل کا حل ایک ’’امکان‘‘ بن کر رہ گیا ہے بلکہ کہیں کہیں تو یہ امکان بھی دور دور تک نظر نہیں آتا۔ انسان مسئلے کا بوجھ اس احساس کے ساتھ اُٹھا سکتا ہے کہ اس کا حل موجود ہے، خواہ یہ حل فوری طور پر انسان کی دسترس میں نہ ہو۔ لیکن اگر انسان کو محسوس ہونے لگے کہ مسئلے کا حل موجود نہیں، اگر موجود ہے تو اس کی دسترس میں نہیں تو پھر مسئلے کی شدت خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔ مجھ سے ایک دن چالیس پینتالیس سال کے ایک صاحب نے ایک گیت کے یہ بول سن کر کہ
بدلے گا زمانہ یہ ستاروں پہ لکھا ہے
ہنستے ہوئے کہا کہ میرے والد زمانے کے بدلنے کی باتیں کرتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوگئے اور تیس سال سے میں ہوش کی زندگی بسر کررہا ہوں۔ آخر زمانہ کب بدلے گا؟ ان کی بات کا اصل مفہوم صرف یہ تھا کہ زندگی کے بنیادی مسائل کب حل ہوں گے؟ اور ان کی بات اور لہجے سے بالکل عیاں تھا کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔ یہ تاثر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عام ہوتا چلا جارہا ہے۔
مسائل کو شدید بنانے والی تیسری بات یہ ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد یہ محسوس کرتی ہے کہ وہ جن مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ان میں سے اکثر خود ان کے پیدا کردہ نہیں، یہ کسی اور کے پیدا کردہ مسائل ہیں۔ ’’کسی اور‘‘ میں دوسرے لوگ بھی شامل ہیں اور نظام بھی۔ چنانچہ وہ مسائل سے وہ تعلق محسوس نہیں کرتے جو مسائل کو بڑی حد تک ’’گوارا‘‘ بنادیا کرتا ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی بھی پائی جاتی ہے جو مسائل کو ’’انجوائے‘‘ کرتی ہے۔ یہ لوگ بالائی طبقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسائل آئسکریم یا موسم نہیں جنہیں انجوائے کیا جائے، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ کچھ لوگ مسائل میں گھر کر محسوس کرتے ہیں کہ وہ ’’اہم‘‘ ہیں اور کوئی ’’بڑی ذمہ داری‘‘ ادا کررہے ہیں۔ اس احساس سے ان کی انا کو تسکین ملتی ہے لیکن یہ احساس اس اعتبار سے فریب نظر آتا ہے کہ ان کا ان مسائل سے کوئی ذہنی، قلبی یا جذباتی تعلق نہیں ہوتا چنانچہ یہ مسائل انہیں بہت جلد تھکا دیتے ہیں۔
خودکشی کے مسئلے کو اگر صرف بڑھتے ہوئے مسائل کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کے بنیادی اور اہم اسباب یہی ہیں جن کا ہم نے ابھی سرسری سا تجزیہ کیا ہے۔ مسائل کی تعداد اور شدت میں اضافے سے داخلی عدم توازن پیدا ہوتا ہے اور لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نیوروسس کی کیفیات کی گرفت میں آجاتی ہے جس کے بعد خودکشی کا مرحلہ نہایت آسان ہوجاتا ہے۔
خودکشی کا عدم برداشت کے معاملے سے بھی گہرا تعلق ہے۔ لیکن قوت برداشت میں کمی بجائے خود ایک اہم مسئلہ ہے۔ ایسا مسئلہ جس کا گہرائی میں جا کر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر علی شریعتی نے کلچر سے متعلق اپنے ایک مضمون میں فرانس کی ایک ایسی کم عمر لڑکی کا ذکر کیا ہے جس نے اپنی چار آسٹریلین پالتو چڑیوں کے مرنے کے غم میں خودکشی کرلی تھی۔ شریعتی نے اس واقعے سے یہ نتیجہ نکالا کہ مغربی کلچر اپنی سطحیت کے باعث انسانوں میں ایک ایسی مصنوعی حساسیت کو جنم دے رہا ہے جو معمولی صدمات کو بھی برداشت نہیں کرپاتی۔ شریعتی کا مذکورہ مضمون پچیس تیس سال پرانا ہے اور اس وقت مغربی معاشرے میں چڑیوں اور بلیوں کے باعث خودکشی کے واقعات عام نہیں تھے لیکن اس کے باوجود ان کا تجزیہ درست ہے اور بعد کے حالات و واقعات اس تجزیے کی اصابت کو مزید درست ثابت کرتے چلے گئے۔ لیکن مسئلہ محض مصنوعی حساسیت تک محدود نہیں۔
انسان ’’ناکامی‘‘ سے ہمیشہ ڈرا ہے اور ڈرتا رہے گا لیکن جدید مغرب کی تہذیب نے ’’کامیابی‘‘ کو ایک قدر اور زندگی کا ہم معنی بنادیا ہے کبھی مذہبی انسان کا مسئلہ
To be or not to be
تھا لیکن اب مغرب میں انسان کا مسئلہ
To win or not to win
بن گیا ہے، چنانچہ وہاں محبت کرنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ انہیں محبت ہے یا نہیں اور یہ کہ ان کی محبت سچی ہے یا جھوٹی ہے بلکہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ محبت کامیاب ہے یا نہیں۔ یہ یقیناً پورے معاشرے کی صورت حال اور ہر انسان کی کیفیت نہیں لیکن وہاں کا عملی رجحان یہی ہے۔ یعنی کامیابی ہے تو زندگی ہے ورنہ زندگی کا کوئی وجود نہیں ہے اور اگر ہے تو اسے ہونے کا کوئی حق نہیں۔ نتیجہ، خودکشی۔ جاپان اور کئی دوسرے مغربی ملکوں سے ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ وہاں کا فلاں سیاستدان بدعنوانیوں میں ملوث تھا لیکن جب اس کی بدعنوانیاں سامنے آئیں تو اس نے خودکشی کرلی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جب تک بدعنوانیاں پوشیدہ تھیں زندگی کامیاب تھی لیکن بدعنوانیوں کے سامنے آنے سے زندگی ناکام ہوگئی۔
تیسری دنیا کے غریب ملکوں میں غربت کو عام طور پر خودکشیوں کا اہم محرک سمجھا جاتا ہے اور ایسا ہے بھی۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ آج سے پچاس یا سوسال پہلے جب دنیا میں آج کی نسبت کہیں زیادہ غربت تھی لوگ غربت سے تنگ آکر خودکشی نہیں کیا کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یقیناً یہ تھی کہ لوگوں کے مذہبی عقائد پختہ تھے اور وہ مسائل کو زندگی کا ’’حصہ‘‘ سمجھتے تھے اور تقدیر پر مطمئن رہتے تھے، لیکن اس سے قطع نظر ایک بات یہ بھی تھی کہ اس وقت ’’غربت‘‘ ایک معاشرتی اور معاشی کیفیت کا نام تھا لیکن عصر حاضر نے اسے ایک نفسیاتی ذہنی اور جذباتی کیفیت بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غربت ایک بڑی تعداد کے لیے ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔
غربت یا افلاس کی ایک سطح اور بھی ہوتی ہے۔ ممکن ہے آپ کی جیب میں ایک پیسہ نہ ہو لیکن اس کے باوجود آپ خود کو خدا، کائنات، اپنے معاشرے، تہذیب، محلے، خاندان اور اپنی ذات سے جڑا ہوا محسوس کرتے ہوں۔ لیکن ممکن ہے کہ آپ کی جیب بھری ہو اور آپ ان میں سے کسی سے بھی خود کو Relate نہ کرپاتے ہوں۔ عصر حاضر کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک ایسا افلاس پروان چڑھ رہا ہے جو انسانوںکو کسی چیز سے متعلق نہیں ہونے دیتا۔ اس صورت حال سے تنہائی نہیں اکیلا پن پیدا ہوتا ہے۔ ایسا اکیلا پن جو زندگی کے خاتمے ہی سے بامعنی بنتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
مذہب سے انسان کی د وری ایک سامنے کا مسئلہ ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو خودکشی کے تمام محرکات میں شامل ہے۔ یہ اور بات کہ کسی کو اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ لیکن خودکشی کے تناظر میں مذہب سے انسان کی دوری ایک مجرد بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ مذہب سے دوری کا خودکشی کے مسئلے سے کیا تعلق ہے۔ یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ خدا، آخرت اور مذہب کے دیگر اساسی تصورات کو رد کرتے ہی زندگی ’’میری زندگی‘‘ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر زندگی خدا کی بخشی ہوئی نعمت نہیں ہے تو پھر وہ اوّل و آخر میری زندگی ہے اور چونکہ وہ میری زندگی ہے، اس لیے مجھے پورا حق حاصل ہے کہ میں اسے جیسے چاہوں بسر کروں اور جیسے چاہوں ختم کروں۔ مغربی دنیا میں فرد کی زندگی ہر اعتبار سے ’’میری زندگی‘‘ بن چکی ہے جس پر نہ خداکا حق ہے، نہ معاشرے کا، نہ خاندان کا۔ بظاہر میری زندگی اچھی خاصی محترم ترکیب نظر آتی ہے لیکن تجزیہ کیا جائے تو ’’میری زندگی‘‘ اور ’’میری کار‘‘ اور ’’میرا کمپیوٹر‘‘ میں کوئی اساسی فرق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا میں لوگ اپنی زندگی کو کار اور کمپیوٹر ہی کی طرح برتتے ہیں۔
ہمارے مذہب اور دنیا کے دیگر مذاہب نے بھی زندگی کے بارے میں ایک سیدھی سادی مگر انتہائی منطقی اور لاجواب دلیل قائم کی ہے یعنی زندگی خدا کی بخشی ہوئی نعمت ہے، اس لیے انسان کو اسے اپنے ہاتھ سے ختم کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ دلیل اس شخص کے لیے کار آمد ہوسکتی ہے جو خدا اور مذہب کو مانتا ہو۔
اگرچہ ہم لوگ بھی بڑی حد تک مغربی بن چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے یہاں زندگی خواہ اچھی ہو یا بُری ہو، کامیاب ہو یا ناکام ہو بہرحال ’’میری زندگی‘‘ نہیں بنی ہے۔ ہم اسے خدا کی بخشی ہوئی نعمت سمجھتے ہیں اور اس پر کسی نہ کسی حد تک خدا کا حق تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اپنی زندگی پر ملت، معاشرے اور خاندان کے حق کو درست سمجھتے ہیں اور اسے ادا کرنے کی ٹوٹی پھوٹی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار اور بے پناہ مسائل کے باوجود مسلم معاشروں میں خودکشی کا رجحان بہت کم ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیسے جیسے مغربی تہذیب کے اثرات کا دائرہ پھیل رہا ہے ویسے ویسے ’’میری زندگی‘‘ کا نعرہ مقبول ہورہا ہے اور خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔
’’میری زندگی‘‘ کے تصور کا تقاضا ہے کہ زندگی سے شدت کے ساتھ محبت کی جائے لیکن اس محبت کی کوئی جڑ بنیاد نہیں ہوتی۔ فرد پر جیسے ہی یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اس کی حیات پرستی جڑ بنیاد سے محروم ہے اور وہ ایک جذباتی خلا میں معلق ہے تو زندگی کی محبت، زندگی سے نفرت میں بدل جاتی ہے اور اس نفرت کی آگ کو سرد کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس پر موت کا پانی چھڑک دیا جائے۔
انسان جن چیزوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت پر غور کیے بغیر زندگی گزارتا ہے اور گزارنا چاہتا ہے ان میں سے ایک چیز دولت بھی ہے۔ یہ حقیقت انسان اور دولت کے تعلق کے ناجائز ہونے پر دلیل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ انسان اپنے اور دولت کے تعلق کی نوعیت پر غور کیوں نہیں کرتا کیوں نہیں کرنا چاہتا۔ اس سوال کا بہت اچھا جواب ایک مغربی مفکر نے دیا ہے۔
اس نے کہا ہے کہ لوگوں نے بائبل کی اس روایت کو کہ پیسے سے محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے، اس بات سے بدل دیا ہے کہ پیسہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اس طرح انہوں نے الزام اپنے لالچ کے بجائے پیسے پر ڈال دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر حقیقی صورت حال یہ ہے تو پھر انسان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنے اور دولت کے تعلق کی نوعیت پر غور کو التواء میں رکھے کیونکہ غوروفکر سے اس پر ایسی حقیقت آشکار ہوسکتی ہے جو اس کی برداشت سے باہر ہو یا جو دولت اور انسان کے تعلق کو بدل کر رکھ دے۔
یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ انسان اپنی محبت کے اعتراف میں بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ بار بار اس بات کا اظہر و اعتراف کرتا ہے کہ اسے اپنے بیوی بچوں سے محبت ہے۔ اسے اپنے پالتو حیوانات سے محبت ہے۔ اسے اپنا وطن اور اپنا گھر عزیز ہے لیکن دولت سے بے انتہا محبت کے باوجود انسان دولت کی محبت کے اعتراف سے گریز کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ انسان اپنے لالچ کی ذمہ داری قبول کرنے سے ڈرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس ذمہ داری کو دولت کے سرمنڈھا رہنے دیا جائے، لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دولت کی محبت کے اعتراف میں انسان پر دولت کی فوقیت کا پہلو نکلتا ہے اور انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ خواہ وہ ہزار چیزوں کو خود پر فوقیت دیے ہوئے ہو لیکن وہ یقین اس بات پر کرنا چاہتا ہے کہ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور اسے ہر شے پر فوقیت حاصل ہے۔ دولت پر بھی… لیکن سوال یہ ہے کہ انسان دولت کی محبت میں کیوں مبتلا ہوتا ہے؟
بلاشبہ دولت کی محبت کی ایک وجہ انسان کی ہوس اور لالچ کا مادہ ہے۔ لیکن بات صرف اتنی سی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اکثر مقامات پر دولت کو خود سے زیادہ طاقتور اور خود سے زیادہ اہل محسوس کرتا ہے۔ جو کام انسان خود برسوں میں نہیں کرسکتا دولت ایک لمحے میں کردیتی ہے۔ دولت کی یہ حیثیت دولت میں ایک (جعلی) مادرائیت پیدا کردیتی ہے۔ دولت کی طاقت اس کا رسوخ اس مادرائیت کے سامنے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ دولت سے محبت کی جڑیں اس مادرائیت کے احساس میں پیوست ہوتی ہیں۔ دولت کی مادرائیت کے احساس کے الفاظ ہم نے جان بوجھ کر استعمال کیے ہیں کیونکہ یہ مادرائیت مبہم احساس کی سرحد سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ شعور کے ایک لمحے کی روشنی بھی اسے فنا کردینے کے لیے کافی ہے۔ تاریخ میں یہ سوال بارہا اٹھایا گیا ہے کہ وہ کون سی شے ہے جو دولت کے حوالے سے ہونے والے استحصال اور ظلم کے خیال کو دولت مندوں کے ذہن میں پنپنے نہیں دیتی۔ بلاشبہ یہ شے دولت سے پیدا ہونے والا تکبر بھی ہے۔ یہ شے دولت کی طاقت کا احساس بھی ہے۔ یہ شے برتری کا خیال بھی ہے۔ لیکن ان سب سے زیادہ مذکورہ مادرائیت اس کی ذمہ دار ہے۔
دولت کے مقابلے پر کئی اور حقائق کو سامنے لایا جاتا ہے۔ مثلاً: علم، طاقت اور حسن۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ علم کی اپیل اور رسائی محدود ہے، لاعلم اس سے ناواقف رہتے ہیں اور وہ علم رکھنے والے کی توقیر نہیں کرسکتے۔ سقراط بھی جس کا دعویٰ تھا کہ وہ فلسفے کو آسمان سے زمین پر لے آیا ہے، معاشرے کے ایک حصے ہی کو متاثر کرسکا تھا اور اس کے حلقہ اثر میں شامل بیشتر افراد نوجوان تھے۔ طاقت بہت اہم چیز ہے اور اس میں بھی غضب کی کشش ہے لیکن اس کے مظاہرے کے مواقع بہرحال محدود ہوتے ہیں۔ حسن، عوام و خواص اور جاہل اور عالم سب کو متاثر کرتا ہے مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ آپ حسن کی تعریف تو کرسکتے ہیں، اس کی محبت میں گرفتار بھی ہوسکتے ہیں مگر خود حسین نہیں بن سکتے۔ اس کے برعکس دولت کا سکہ ہر جگہ چلتا ہے۔ وہ جاہل کی بھی ضرورت ہے اور عالم کی بھی۔ طاقتور بھی اس میں کشش محسوس کرتا ہے اور کمزور بھی۔ بلاشبہ علم سے زندگی ’’زندگی‘‘ بنتی ہے مگر دولت سے زندگی ’’زندگی‘‘ نظر آتی ہے۔ دولت کی یہ ہمہ گیری اور یہ ’’ظاہریت‘‘ دولت کی محبت کی دوسری بنیادی وجہ ہے۔ غالباً دولت کی مذکورہ ہمہ گیری اور ’’ظاہریت‘‘ ہی کی وجہ سے کہا گیا ہے کہ دولت کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔
اس گفتگو سے متعلق ایک اہم سوال یہ ہے کہ دولت کی محبت کا مفہوم کیا ہے؟ بلاشبہ دولت بہت اہم چیز ہے لیکن اس کے باوجود اس کی حیثیت ایک ’’ذریعے‘‘ سے زیادہ نہیں مگر جب دولت ذریعے کے بجائے خود ایک مقصد بن جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دولت کی محبت میں مبتلا ہوگیا ہے۔ ذریعے کی حیثیت سے انسان دولت کو استعمال کرتا ہے لیکن دولت کی محبت میں مبتلا ہوتے ہی دولت انسان کو استعمال کرنا شروع کردیتی ہے۔
کسی زمانے میں اس بات کو ثابت کرنے کے لیے دولت انسان کو کس طرح استعمال کرتی ہے چند ہی مثالیں تلاش کی جاسکتی تھیں اور یہ مثالیں بھی اس اعتبار سے مجرد تھیں کہ وہ عام لوگوں کا تجربہ نہیں تھیں مگر اب دولت کے ہاتھوں انسان کے استعمال سے آگاہ ہونے کے لیے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر چند اشتہارات دیکھ لینا کافی ہے۔ دولت نے انسان کو استعمال کرنے کے لیے جو موثر ترین سانچہ تیار کیا ہے اسے عرفِ عام میں معیار زندگی کہتے ہیں جو Standard of living کا نہایت غلط ترجمہ ہے۔ بہرحال ہم سب کسی نہ کسی درجے میں اس سانچے میں ڈھلتے جارہے ہیں۔ اگرچہ کوئی ماہر نفسیات ابھی تک ’’جبلت مال‘‘ کا سراغ نہیں لگا سکا ہے، لیکن فی زمانہ انسان اور دولت کے باہمی تعلق کی جو نوعیت ہوگئی ہے اسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اکثر انسانوں میں جنسی جبلت کی سطح کی ایک ’’جبلت مال‘‘ بھی کام کررہی ہے۔ یہ ایک ایسی جبلت ہے جو دوسری فطری جبلتوں کے برعکس کبھی کمزور ہی نہیں ہوتی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہر امت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ مال کا فتنہ مال کی محبت ہی سے شروع ہوتا ہے اور مال کی محبت مال کی کثرت سے بھی پیدا ہوتی ہے اور مال کی قلت سے بھی۔ مسلم دنیا کا جائز لیا جائے تو اس میں یہ دونوں صورتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ایک طرف اتنی دولت ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے کہاں خرچ کیا جائے اور دوسری جانب اتنا افلاس ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ پیسہ کہاں سے لایا جائے۔ امت کا فتنہ اگر مال ہے تو پھر ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلی فرصت میں دولت سے اپنے تعلق کی نوعیت پر غور کریں اور اگر دولت ہمارے لیے بجائے خود مقصد بن گئی ہے تو اسے ’’ذریعے‘‘ کے مرتبے پر لانے کی کوشش کریں۔

Leave a Reply