ایاز امیر پاکستان کے معروف کالم نگار ہیں۔ ان کے تین بڑے غم ہیں۔ ان کا پہلا بڑا غم یہ ہے کہ پاکستان میں نہ شراب آسانی سے دستیاب ہے نہ اس سے سرِعام استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کا دوسرا غم یہ ہے کہ ملک میں مجرے کا کلچر ختم ہوگیا اور لاکھوں لوگ بہترین تفریح سے محروم ہوگئے۔ ان کا تیسرا غم یہ ہے کہ پاکستان میں اتنا اسلام، اسلام کیوں ہوتا ہے۔ ہم ایاز امیر صاحب کے دوست کیا ان کے دشمن بھی نہیں ہیں۔ چناں چہ ہمیں ان کے مذکورہ بالا تینوں غموں کا علم ان کے کالم تواتر کے ساتھ پڑھنے سے ہوا ہے۔ وہ شراب اور مجرے کی عدم دستیابی پر اتنے تواتر سے کالم لکھتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ البتہ وہ گاہے گاہے اس بات کا بھی ماتم کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام کا اتنا ذکر کیوں ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ ایاز امیر صاحب نے اس سلسلے میں کیا تحریر فرمایا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے، لکھتے ہیں۔
’’کل صبح گائوں میں بیٹھا جناب الطاف حسین قریشی صاحب کا کالم بعنوان ’’سید خوش خصال تھا، کیا تھا!‘‘ نظروں سے گزرا۔ کالم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے بارے میں ہے۔ قریشی صاحب لکھتے ہیں کہ جب 12 مارچ 1949ء کو آئین ساز اسمبلی سے قرار داد مقاصد کی منظوری ہوئی تو جماعت اسلامی نے ’’آٹھ نکات پر مبنی اسلامی دستور کا ہمہ گیر مطالبہ شروع کردیا‘‘۔ مزید لکھتے ہیں کہ ’’وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے تقریباً انہی نکات پر مشتمل بنیادی اصولوں کی رپورٹ 1952ء کے اواخر میں دستور ساز اسمبلی میں پیش کی، جس سے یہ امید پیدا ہوئی کہ دستور سازی کا مرحلہ جلد مکمل ہوجائے گا‘‘۔ یہ بھی بیان ہے کہ ’’اسی دوران مجلس احرار اور کچھ دوسرے علما نے فوری طور پہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ بڑی شدت سے شروع کیا‘‘۔ مولانا مودودی کے ایک پمفلٹ کا تذکرہ بھی ہے جو انہوں نے قادیانیت پر لکھا اور جو بقول قریشی صاحب خاصا مقبول ہوا۔ اسی اثنا میں 1953ء کی قادیانی مخالف تحریک بھڑکی جس کے بعد لاہور میں مارشل لا نافذ ہوا، مولانا مودودی اور کچھ دیگر زعما پر مقدمات قائم ہوئے اور مولانا مودودی کو موت کی سزا سنائی گئی۔
باخبر لوگ ان واقعات سے واقف ہیں۔ یہ ہماری عام نالج کی باتیں ہیں۔ ان سے البتہ ایک چیز ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان بنتے ہی ہمارے کئی طبقات اور کئی دانشور حضرات کن کارروائیوں میں اپنی توانائیاں صرف کرنے لگے۔ پاکستان کے نام سے جو نئی ریاست معرضِ وجود میں آئی اُس کی بھاری اکثریت مسلمانوں پہ مشتمل تھی۔ پاکستان کا مطالبہ ہی مسلمانیت پہ مبنی تھا۔ اس مطالبے کے نتیجے میں جب ہندوستان کا بٹوارا ہوا اور ایک نئی ریاست بن گئی تو ایک نکتہ جسے قطعاً کسی بحث کی ضرورت نہ تھی وہ اسلام تھا۔ زور تو اور چیزوں پہ ہونا چاہیے تھا کہ اس نومولود ملک کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ اسے ترقی کی راہ پہ کیسے گامزن ہونا چاہیے۔ انتظامی امور کیسے نبھائے جانے چاہئیں۔ نظام عدل میں اگر اصلاح کی ضرورت ہے تو یہ مقصد کیسے پورا کیا جائے۔ نظام تعلیم میں کن کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ نظام ریلوے اور نظام آبپاشی کو کیسے بہتر کیا جائے۔ ملک میں کن انڈسٹریوں کو فروغ ملنا چاہیے۔ سرمایہ کاری کن شعبوں میں ہونی چاہیے۔ قوم میں نظم و ضبط کیسے پیدا کیا جائے۔ ہندوستان سے کن بنیادوں پر تعلقات استوار کیے جائیں۔ دریائوں کے پانی کے مسئلے پر قومی موقف کیا ہونا چاہیے۔ مشرقی پاکستان اور باقی ماندہ پاکستان ہم آہنگی سے کیسے چل سکتے ہیں۔ آئین کیسا ہو اور اُس کی جلد تیاری کیسے ممکن ہوسکے۔
توجہ ہمیں ان مسائل پہ دینی چاہیے تھی لیکن سیاسی زعما بشمول خان لیاقت علی خان، دانشوران کرام وغیرہ نے الگ بحث شروع کردی۔ ضرورت تھی تشکیل آئین کی، آئین تو بن نہ سکا لیکن لیاقت علی خان کی حکومت مقاصد پاکستان بیان کرنے میں لگ گئی‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 9 اکتوبر 2021ء)
دنیا میں جتنی بھی نظریاتی ریاستیں ہوئی ہیں ان کے لیے نظریہ سب سے اہم چیز تھی اور ہے۔ سوویت یونین کا نظریہ سوشلزم تھا اور وہ 70 سال تک اسے سینے سے لگائے رہا۔ اس دوران سوویت یونین کے حکمرانوں نے معاشرے کے کسی بھی طبقے کو نظریے سے ایک انچ بھی ہٹنے نہیں دیا۔ چین بھی ایک نظریاتی ریاست ہے اور چین میں بھی سوشلزم کو فراموش کرنا ممکن نہیں۔ بلاشبہ چین نے سرمایہ دارانہ معیشت کا ماڈل اختیار کرلیا ہے۔ مگر چین آج بھی سیاسی سطح پر سوشلزم یا کمیونزم کو گلے سے لگائے کھڑا ہے اور چین کی کمیونسٹ پارٹی ملک
کی واحد سیاسی جماعت ہے۔ اسرائیل کا نظریہ یہودیت اور صہیونیت ہے اور کوئی شخص اسرائیل میں یہودیت اور صہیونیت کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتا۔ امریکا اور یورپ کا نظریہ سیکولرازم اور لبرل ازم ہے۔ مغربی ممالک آزادی، جمہوریت اور منڈی کی معیشت کو اہم سمجھتے ہیں۔ چناں چہ ان ممالک میں آپ آزادی، جمہوریت اور منڈی کی معیشت کے تصور کو ہدف تنقید نہیں بناسکتے۔ ایک طویل عرصے تک بھارت سیکولرازم کا علمبردار تھا اور نہرو کے زمانے میں کوئی سیکولر ازم کی اقدار کو چیلنج نہیں کرسکتا تھا۔ آج جدید بھارت کا نیا نظریہ ہندوتوا ہے اور بھارت میں کوئی شخص ہندوتوا کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتا۔ مگر پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ایسے جرنیل، سیاسی رہنما، دانش ور اور صحافی موجود ہیں جنہیں ملک کا نظریہ ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر پاکستان میں اسلام نہ ہو تو کتنا اچھا ہو۔ لیکن یہ سوچنے والے یہ نہیں جانتے کہ پاکستان اپنے نظریے ہی کی وجہ سے پاکستان ہے، پاکستان کا نظریہ نہیں ہوگا تو پاکستان بھی نہیں ہوگا۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اگر اسلام نہ ہوتا تو پاکستان کی تخلیق ناممکن تھی۔ تخلیق کیا برصغیر کے مسلمان قیام پاکستان کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے کہ اس مطالبے کو ایک جواز اور ایک مضبوط دلیل کی ضرورت تھی اور برصغیر کے مسلمانوں کی سب سے مضبوط دلیل اسلام تھا۔ یہ دلیل نہ ہوتی تو ایک قائداعظم کیا ایک ہزار قائداعظم بھی پاکستان نہیں بناسکتے تھے۔
ایاز امیر کو اس بات پر اعتراض ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ مولانا مودودی وغیرہ ان راہوں پر نکل لیے جن پر نکلنے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ بقول ایاز امیر کے پاکستان میں اسلام پر سب متفق تھے۔ ایاز امیر کا یہ تجزیہ سو فی صد غلط ہے۔ بلاشبہ ’’عوام‘‘ اسلام پر متفق تھے لیکن پاکستان کے ’’خواص‘‘ اسلام کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اسلام کو پسند نہ کرنے کے محّرکات مختلف تھے۔ مثلاً مسلم لیگ پر جاگیرداروں کا غلبہ تھا اور اسلام جاگیرداروں کا مسئلہ ہی نہیں تھا۔ چناں چہ مولانا مودودی قیام پاکستان سے پہلے ہی اس رائے کے حامل تھے کہ مسلم لیگ پاکستان کے نام سے جس اسلامی ریاست کا مطالبہ کررہی ہے اس میں اسلام کو غالب کرنے کی اہلیت مسلم لیگ کے پاس نہیں ہے۔ اس بنیاد پر بعض عناصر آج بھی مولانا مودودی کو قیام پاکستان کا مخالف باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالاں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دوقومی نظریے کی جیسی تشریح تحریک پاکستان کے دوران مولانا مودودی نے کی ویسی تشریح کہیں اور دستیاب نہیں تھی اور مسلم لیگ نے دو قومی نظریے سے متعلق مولانا کی تحریروں کو بڑے پیمانے پر شائع کرکے عوام تک پہنچایا۔ مولانا مودودی کے لیے اسلام سے مسلم لیگ کی دوری اتنا بڑا مسئلہ تھی کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے پہلے سیکرٹری جنرل قمر الدین خان کو قائد اعظم سے ملاقات کے لیے بھیجا۔ قمر الدین صاحب نے قائداعظم سے ملاقات میں قائداعظم کو بتایا کہ مولانا مودودی مسلم لیگ کے رہنمائوں اور کارکنوں کی نظریاتی عدم تربیت سے کتنے غیر مطمئن ہیں۔ قمرالدین خان صاحب کے اپنے بیان کے مطابق قائداعظم نے مولانا مودودی کے تجزیے سے اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا تو یہ کہا کہ میرے پاس اس تربیت کے لیے وقت نہیں ہے۔ قائداعظم نے کہا کہ میری ساری توانائی پاکستان بنانے پر صرف ہورہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اب پاکستان نہ بنا تو پھر کبھی پاکستان نہ بن سکے گا۔ بدقسمتی سے مسلم لیگ کے سلسلے میں مولانا مودودی کا تجزیہ سو فی صد درست ثابت ہوا۔ مسلم لیگ نے 1947ء سے 1956ء تک ملک میں اسلام کے غلبے کے لیے ایک قدم بھی نہ اٹھایا۔ بلاشبہ اس عرصے میں قرار داد مقاصد منظور ہوئی مگر اس قرار داد کی منظوری کا سبب لیاقت علی خان کی ذات تھی۔ تاہم اس قرار داد کو جنرل ضیا کے دور تک آئین کا حصہ ہی نہ بنایا جاسکا۔ لیاقت علی خان 1954ء میں شہید ہوگئے اور ایوان اقتدار میں اسلام کا پرچم بلند کرنے والی کوئی قدآور شخصیت موجود نہ رہی۔ یہاں تک کہ 1958ء میں جنرل ایوب نے ملک پر پہلا مارشل لا مسلط کردیا۔ مارشل لا کا نفاذ خلاف اسلام اور قیام پاکستان کے مقاصد سے متصادم تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ جنرل ایوب سیکولر ازم کے علمبردار تھے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیکولرازم کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں تھی مگر جنرل ایوب کی صورت میں ریاست مشرف بہ سیکولرازم ہوگئی تھی۔ جنرل ایوب صرف نام کے ’’سیکولرسٹ‘‘ نہیں تھے بلکہ انہوں نے عملاً اسلام کی بیخ کنی کے لیے اقدامات شروع کردیے۔ انہوں نے ایسے دانش ور پیدا کرلیے تھے جو کھل کر کہتے تھے کہ سود خلاف اسلام نہیں ہے۔ جنرل ایوب نے عائلی قوانین منظور کراکے اسلام پر ایک اور حملہ کیا۔ پاکستان میں سیکولرازم کا پھیلائو صرف جنرل ایوب کے عہد تک محدود نہ رہا۔
جنرل یحییٰ بھی تین سال تک خلاف اسلام اقدامات کا دریا بہاتے رہے۔ 1970ء کے بعد ملک کے سیاسی افق پر بھٹو صاحب طلوع ہوئے تو ان کے ہاتھ میں ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا پرچم تھا۔ ان کے دور میں مغربیت بہت تیزی کے ساتھ پاکستانی معاشرے کا حصہ بنی۔ ان حالات نے مولانا مودودی اور علما کی بڑی تعداد کو پاکستان میں اسلام کے مستقبل کے حوالے سے فکر مندی میں مبتلا کردیا۔
پاکستان میں اسلام کو صرف مغرب زدگان ہی سے خطرہ لاحق نہیں تھا۔ پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی بہت منظم تھی۔ اس کا اثر معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص طلبہ، محنت کشوں، شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں پر بہت گہرا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سوویت یونین سے فکری اور مالی غذا لیتی تھی اور پاکستان میں امریکا تک کو کمیونسٹ انقلاب کا خطرہ لاحق تھا۔ اس سلسلے میں پنڈی سازش کیس کی اہمیت بنیادی ہے۔ اس کیس کی اصل حقیقت تو کسی کو بھی معلوم نہیں۔ مگر اس کیس کی دستیاب تفصیلات بتاتی ہیں کہ کمیونسٹ سازش اور بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضے کی کوشش کررہے تھے۔ کمیونزم کی تاریخ یہ ہے کہ کمیونسٹ انقلاب ہمیشہ روس سے برآمد کیا گیا۔ صورت حال اتنی سنگین تھی کہ اگر مولانا مودودی نے اسلامی جمعیت طلبہ اور محنت کشوں کی مختلف تنظیموں کے ذریعے کمیونسٹوں کو کامیابی سے چیلنج نہ کیا ہوتا تو دنیا کی کوئی طاقت کمیونسٹوں کو معاشرے اور ریاست پر غالب آنے سے نہیں روک سکتی تھی۔ قادیانیت کا فتنہ بھی کوئی معمولی فتنہ نہیں تھا۔ اس فتنے نے اپنا جھوٹا پیغمبر تک خلق کر ڈالا تھا۔ اس فتنے نے اپنا لٹریچر پیدا کیا۔ اس فتنے کو برطانیہ سمیت مختلف مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بیان کے مطابق قادیانی سائنس دان عبدالسلام نے پاکستان خفیہ ایٹمی پروگرام کی تفصیلات امریکیوں کو فراہم کیں۔ چناں چہ مولانا مودودی نے قادیانیت کے خلاف علم جہاد بلند کیا تو یہ کوئی مولانا مودودی کا ’’شوق‘‘ نہیں تھا۔ مولانا اس فتنے کی طاقت اور اس کے مضمرات سے آگاہ تھے۔
ایاز امیر کا شکوہ ہے کہ پاکستان میں غیر ضروری طور پر اسلام، اسلام کی صدائیں بلند کی جاتی رہی ہیں۔ حالاں کہ قیام پاکستان کے 74 سال بعد پھر پاکستان میں اسلام کی حالت یہ ہے کہ ہمارا آئین اسلامی ہے۔ قرار داد مقاصد آئین کا حصہ ہے۔ مگر ریاست میں کہیں اسلام موجود نہیں۔ اسلام سود کو اللہ اور رسول کے خلاف جنگ قرار دیتا ہے اور پاکستان کے حکمران سود پر پابندی لگانے کے لیے آمادہ نہیں۔ ہمارے عدالتی نظام پر اسلام کا کوئی اثر نہیں۔ ملک میں حدود کا نفاذ ایک خواب ہے۔ معاشرے میں دہشت گردی، رشوت، جھوٹ، مکر اور کام چوری عام ہے۔ ملک کی تمام بڑے سیاسی جماعتیں گلے گلے تک کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ اس فضا میں اسلام کو بالادست بنانے کی بات ہوتی ہے تو یہ بات قابل فہم ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اور صرف اسلام ہی پاکستان کو پاکستان بناسکتا ہے۔