پاکستان میں بائیں بازو کی ناکامی کے اسباب

ضمیر نیازی صحافت کے مورخ اور بائیں بازو کے معروف صحافی تھے۔ ان کی تصنیف Press in Chains مشہور زمانہ ہے۔ ضمیر نیازی ہمارے کرم فرمائوں میں سے تھے۔ وہ ہمارے کالم نہ صرف یہ کہ شوق سے پڑھتے تھے بلکہ بائیں بازو کے ممتاز لوگوں کو فوٹو اسٹیٹ کراکے ارسال کیا کرتے تھے۔ ضمیر نیازی کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ساری زندگی نظریاتی سیاست اور صحافت کے علمبردار رہے۔ ضمیر نیازی دائیں بازو ہی کے نہیں بائیں بازو کے بھی ناقد تھے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ پاکستان میں لیفٹ کیوں ناکام ہوا۔
ضمیر نیازی کا خیال تھا کہ پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک منظم نہیں ہوسکی۔ ان کے بقول قیام پاکستان کے بعد بائیں بازو کے لوگ بنے بنائے نظریات پر چل پڑے۔ انہوں نے سمجھا کہ یہی سب کچھ ہے۔ حالاں کہ ضمیر نیازی کے بقول بائیں بازو کے لوگوں کو حالات کے ساتھ چلنا چاہیے تھا۔ نئے ملک کے نئے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل تھے مگر لیفٹ کے لوگ بنے بنائے سانچوں سے نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ ضمیر نیازی کہا ہے کہ ایسے سانچے بیکری میں تو کام آسکتے ہیں لیکن عملی زندگی میں یہ سب باتیں نہیں چلتیں۔ ضمیر نیازی کے مطابق ideology کے ساتھ ساتھ Idol یعنی بت بھی اہم ہوتے ہیں۔ عام لوگ بتوں کے پیچھے چلتے ہیں۔ مگر بائیں بازو کے لوگ ایسے بت تیار نہ کرسکے۔ چناں چہ لوگ ان کے پیچھے نہ چل سکے۔ ضمیر نیازی کے مطابق بائیں بازو کے لوگوں میں انا پرستی بھی بہت ہے۔
پاکستان میں بائیں بازو کی ناکامی کے حوالے سے ضمیر نیازی کا تجزیہ کئی اعتبار سے چشم کشا ہے مگر اس تجزیے میں بائیں بازو کی ناکامی کے بنیادی اسباب بیان نہیں ہوسکے۔ پاکستان میں بائیں بازو کی ناکامی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بایاں بازو کروڑوں لوگوں کی زندگی میں مذہب کی اہمیت کا اندازہ نہ کرسکا۔ سوشلزم خدا، رسالت، وحی، آخرت غرضیکہ پورے مذہب کا منکر تھا۔ کارل مارکس مذہب کو عوام کی افیون کہا کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مذہب اپنی بنیاد میں ایک استحصالی قوت ہے۔ بائیں بازو کے لوگوں نے سوشلزم کے ان تصورات کو سینے سے لگالیا۔ چناں چہ ان کے درمیان جو خدا، رسالت، وحی اور آخرت کا سب سے زیادہ منکر تھا وہ اتنا ہی بڑا ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’ترقی پسند‘‘ تھا۔ اس طرح بایاں بازو پہلے دن سے پاکستان کے لوگوں کے مذہبی عقاید کا دشمن بن کر سامنے آیا۔ اسے اس بات کا شعور ہی نہیں تھا کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے لیے مذہبی عقائد خود زندگی سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ چناں چہ مذہبی لوگ مذہبی عقاید کو چھوڑنے کے بجائے مرنا پسند کرتے ہیں۔ چوں کہ سوشلسٹوں نے خدا اور مذہب کا مذاق اڑایا اس لیے معاشرے کی عظیم اکثریت ان سے متنفر ہوگئی۔ معاشرے کی مذہبی قوتوں کو سوشلسٹوں کے خلاف عوام سے صرف اتنی بات کہنی ہوتی تھی کہ یہ لوگ خدا اور مذہب کو نہیں مانتے باقی کا کام لوگوں کا ذہن خود کرلیتا تھا۔
پاکستان کے بائیں بازو کا المیہ یہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ جس طرح سوشلزم یا کمیونزم نے روس، چین اور مشرقی یورپ میں مذہب کو شکست دے کر لامذہب معاشرہ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اس طرح وہ مسلم معاشروں بالخصوص پاکستان میں بھی غیر مذہبی معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ لیکن روس، چین اور مشرقی یورپ اور پاکستانی معاشرے میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ روس اور مشرقی یورپ میں سوشلزم کے ظہور سے پہلے عیسائیت بہت کمزور پڑ چکی تھی۔ یورپ کی عقل پرستی اور سائنس کی ترقی نے عیسائیت کو ماضی کی یادگار بنادیا تھا۔ چین میں کنفیوشزم اور تائو ازم ازگار رفتہ ہوچکے تھے۔ چناں چہ ہر جگہ سوشلزم آسانی کے ساتھ لامذہب معاشرے اور لامذہب ریاستیں قائم کرنے میں کامیاب رہا۔ لیکن برصغیر کے مسلمانوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ مذہب کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے تھے۔ ان کے لیے خدا اور مذہب ہر چیز سے زیادہ اہم تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ برصغیر میں جتنی بڑی تحریکیں چلیں مذہب کی بنیاد پر چلیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں اگرچہ کہیں کہیں ہندو بھی شامل تھے مگر یہ جنگ آزادی بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی جنگ آزادی تھی اور اس جنگ آزادی کی بنیاد جہاد کا تصور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے علما کو اس جنگ آزادی کا ذمے دار سمجھتے ہوئے انہیں بڑے پیمانے پر شہید کیا۔ بعض مورخین کے مطابق انگریزوں نے پانچ ہزار سے زیادہ علما کو شہید کیا۔ بلاشبہ کہیں کہیں ہندو بھی 1857ء کی جنگ آزادی کا حصہ بنے مگر انگریزوں نے جنگ آزادی کی سزا صرف مسلم خواص اور عوام کو دی۔ اہم بات یہ ہے کہ مذہب کی طاقت کے بغیر یہ جنگ آزادی برپا ہی نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ خلافت ترکی میں ختم ہورہی تھی اور خلافت کو بچانے کے لیے تحریک برصغیر میں چل رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے خلافت سیاسی معاملہ نہیں تھا بلکہ ان کے لیے خلافت ایک مذہبی تصور تھا جس کی بقا انہیں ہر چیز سے زیادہ عزیز تھی۔ اس تحریک کا ایک نعرہ تھا۔ بولیں اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جتنی آسانی سے مذہب کے لیے جان دیتے ہیں اتنی آسانی سے وہ کسی اور چیز کے لیے جان نہیں دیتے۔ خاص طور پر اجتماعی دائرے میں۔ تحریک خلافت برصغیر کی مقبول ترین تحریک تھی۔ اس کی عوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ گاندھی نے بھی خلافت تحریک میں حصہ لیا۔ حالاں کہ گاندھی ہندو تھا اور ایک ہندو کو خلافت کی بقا و سلامتی سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی۔ برصغیر میں مذہب کی قوت اس وقت بھی سامنے آئی جب برصغیر کے مسلمانوں نے برصغیر میں ایک علٰیحدہ مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اس الگ مملکت کا مطالبہ نسل، جغرافیہ اور زبان کی بنیاد پر نہیں مذہب کی بنیاد پر کیا۔ مذہب نہ ہوتا تو دو قومی نظریہ نہ ہوتا۔ دو قومی نظریہ نہ ہوتا تو پاکستان نہ ہوتا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک اس وقت اہم ہوئی جب ایک سیاسی تحریک سے تحریک نظام مصطفی میں تبدیل ہوئی۔ بھٹو صاحب سیکولر بھی تھے اور سوشلسٹ بھی۔ انہیں مذہب سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی مگر یہ مذہب کی قوت تھی جس نے بھٹو سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا۔ یہ مذہب کی طاقت تھی جس نے بھٹو سے شراب پر پابندی لگوائی۔ یہ مذہب کا جادو تھا جس نے بھٹو سے جمعے کی تعطیل کا اعلان کرایا۔ جنرل ضیا الحق ایک فوجی آمر تھے مگر جنرل ایوب، جنرل پرویز مشرف اور جنرل ضیا الحق میں یہ فرق تھا کہ جنرل ایوب اور جنرل پرویز مشرف سیکولر تھے اور جنرل ضیا الحق اسلام پسند۔ چناں چہ جنرل ضیا الحق نے معاشرے کو جتنا متاثر کیا جنرل ایوب اور جنرل پرویز مشرف مل کر بھی معاشرے کو اتنا متاثر نہ کرسکے۔ اس تناطر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں بایاں بازو معاشرے کی مذہبی ساخت کے خلاف کام کررہا تھا۔ چناں چہ وہ قیامت تک بھی کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔
بائیں بازو کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ مسلم معاشرے میں سوشلزم کی کوئی تاریخی حقیقت ہی نہیں تھی۔ پاکستان کے سوشلسٹ دانش ور سبط حسن نے سوشلزم کو مسلم معاشرے میں تاریخی بنیاد مہیا کرنے کے لیے ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا ’’موسیٰ سے مارکس تک‘‘۔ اس کتاب میں معاذاللہ سبط حسن نے سیدنا موسیٰؑ کو سوشلسٹ باور کرایا تھا۔ یہ ایک توہین رسالت کی واردات تھی۔ سیدنا موسیٰؑ ایک جلیل القدر پیغمبر تھے اور کوئی بھی پیغمبر سوشلسٹ نہیں ہوسکتا۔ سبط حسن نے ایک جگہ سیدنا ابوذر غفاری کو بھی سوشلسٹ قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ابوذر غفاری ایک جلیل قدر صحابی تھے اور ان کو سوشلسٹ قرار دینا جہالت اور حماقت کی انتہا تھی۔ ظاہر ہے کہ سوشلزم کو تاریخی بنیاد مہیا کرنے کی یہ کوشش جہل مرکب کے سوا کچھ نہ تھی۔ چناں چہ اس کتاب کا معاشرے پر رتی برابر بھی اثر نہ ہوا۔
پاکستان میں بائیں بازو کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ تھی۔ پاکستان کا بایاں بازو کسی بھی طرح ’’مقامی‘‘ نہیں تھا۔ اس کی اپنی کوئی پالیسی اور اس کا اپنا کوئی تناظر ہی نہیں تھا۔ اسے سوویت یونین سے جو حکم دیا جاتا تھا بایاں بازو اسی کو وحی کی طرح لیتا تھا اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس صورت حال نے بائیں بازو کو کبھی معاشرے سے ہم آہنگ نہیں ہونے دیا۔ ایک زمانے تک سوویت یونین اور چین ہم آہنگ تھے مگر پھر تاریخ کے ایک مرحلے پر سوویت یونین اور چین میں فاصلے پیدا ہوگئے۔ چناں چہ پاکستان کا بایاں بازو بھی روسی اور چینی دھڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک دھڑا روس سے کنٹرول ہوتا تھا تو دوسرا دھڑا چین کے زیر اثر تھا۔ بائیں بازو کا کوئی دھڑا بھی ایسا نہیں تھا جو پاکستان کے معروضی حقائق کے زیر اثر ہو۔ چوں کہ بائیں بازو نے پاکستانی معاشرے کو قبول نہیں کیا اس لیے معاشرے نے بھی بائیں بازو کو کبھی ہضم نہیں کیا۔
پاکستان میں بائیں بازو کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ اکثر سوشلسٹوں کے لیے سوشلزم ایک نعرہ تھا، وجودی حقیقت نہیں تھا۔ یعنی سوشلسٹ سوشلزم کا نعرہ تو لگاتے تھے مگر وہ خود سوشلزم کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے تھے۔ اس کی ایک بڑی مثال خود ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ وہ کہتے تھے کہ سوشلزم ان کی معیشت ہے مگر ان کی زندگی سے صرف جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی ٹپکتی تھی۔ بھٹو صاحب سوشلسٹ ہوتے تو اپنی ساری زمینیں غریبوں میں تقسیم کردیتے۔ انہوں نے ملک میں لینڈ ریفارم متعارف کرائیں مگر ان کی لاکھوں ایکڑ اراضی میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سوشلسٹوں کے قول و فعل کا تضاد انہیں لے ڈوبا۔ ضمیر نیازی صاحب کی اس بات میں بڑا وزن ہے کہ سیاست میں بتوں کی بڑی اہمیت ہے اور بایاں بازو کوئی بڑا بت نہ تراش سکا۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ معاشرے میں جو بت تراشے جاتے ہیں ان کا معاشرے کی مذہبی اور تہذیبی اقدار سے گہرا تعلق ہوتا ہے چوں کہ بایاں بازو معاشرے کی مذہبی اور تہذیبی اقدار ہی کو نہیں مانتا اسی لیے کوئی سیاسی بت نہ تراش سکا۔

Leave a Reply