بیسویں صدی نے جن چند بتوں کی پوجا کی ہے اُن میں سے ایک بت عمل کا بھی ہے۔ اس صدی میں عمل کی پوجا اس کثرت، تواتر اور شدت کے ساتھ ہوئی ہے کہ عمل کی بنیاد یعنی خیال، بے خیالی کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔ بلکہ عمل، عمل کی گردان نے اس طرح کا تاثر پیدا کیا ہے کہ جیسے خیال اور عمل کے درمیان کوئی رشتہ ہی نہیں پایا جاتا، اور اگر کوئی رشتہ پایا جاتا ہے تو یہ رشتہ تضاد کا ہے۔ یعنی جہاں خیال ہوگا وہاں عمل نہیں ہوگا۔ اس تاثر نے ہمارے یہاں روزمرہ کی زندگی میں اس طرح کے فقروں کے چلن کو عام کیا ہے:
’’ارے صاحب! فلسفہ مت بگھارئیے، عمل کیجیے عمل۔‘‘
فلسفے کو اگر ہم روایتی معنوں میں لیں تو فلسفہ حقیقت کی تلاش اور دانش کی محبت کے سوا کچھ بھی نہیں، اور میں نہیں سمجھتا کہ حقیقت کی تلاش اور دانش کی محبت سے بڑا عمل کوئی اور ہوسکتا ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے لکھا ہے کہ بعض لوگ محنت کے نتیجے میں صرف پسینہ پسینہ ہوکر رہ جاتے ہیں، یعنی ان کی محنت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ میرے خیال میں یہ پوری صدی ہی پسینہ پسینہ ہوکر رہ گئی ہے بلکہ اس کے پسینے سے تو بدبو بھی آرہی ہے۔
براہِ مہربانی میری اس گفتگو سے ہرگز یہ نتیجہ نہ نکالا جائے کہ میں عمل کے خلاف ہوں۔ میں عمل کے نہیں، اس مہمل اور مہلک عمل پرستی کے خلاف ہوں جس نے خیال کو بے توقیر کرکے رکھ دیا ہے۔
دنیا کے ہر عمل کی بنیاد کسی نہ کسی خیال پر ہوتی ہے۔ خیال کی دو اقسام ہوتی ہیں: ایک اضطراری اور ایک مستقل۔ اضطراری خیال ایک خاص وقت کے بعد بالعموم ہمارا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ مستقل خیال بھی دوطرح کا ہوتا ہے، ایک مستقل خیال وہ ہوتا ہے جو صرف ہمارے ذہن تک محدود رہتا ہے، جب کہ ایک مستقل خیال وہ ہوتا ہے جو ہمارے خون کا جزو بن جاتا ہے۔ جب کوئی خیال انسان کے خون کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر اس سے عمل کا مطالبہ نہیں کیا جاتا، اس کا عمل خودبخود وجود میں آجاتا ہے۔ تاہم اس مرحلے سے قبل ہر خیال Purification کے عمل سے گزرتا ہے۔ خیال جتنا مصفا ہوکر انسان کے خون کا حصہ بنے گا اس کی فکر اتنی ہی مستحکم اور گہری ہوگی، اور اس کا عمل اتنا ہی برجستہ، یقینی اور مستقل ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ خیال اور عمل میں ایک ایسی کامل ہم آہنگی پیدا ہوگئی تھی کہ جس کی مثال کسی اور زمانے میں نہیں ملتی۔ اِدھر ایک خیال آتا تھا اور اُدھر اس پر اس طرح عمل شروع ہوجاتا تھا جیسے وہ خیال برسوں اس معاشرے کے باشندوں کی روح میں پرورش پاتا رہا ہو۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا تھی؟ میرے خیال میں اس کی وجہ یہی تھی کہ اُس زمانے میں ہر خیال اپنی مصفّا ترین (Purest) شکل میں موجود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ انسانی قلب میں فوری طور پر اُتر جاتا تھا۔ جب کہ اِس وقت کوئی خیال بھی ایسا نہیں ہے جو مصفّا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہر خیال کی قبولیت بہت کم ہوکر رہ گئی ہے۔ ممکن ہے اس قبولیت اور اس ناقبولیت کی اور بھی وجوہات ہوں، مگر میرے خیال میں یہ ایک بنیادی وجہ ضرور رہی ہوگی۔ چنانچہ اس وقت ہر خیال کو مصفّا (Pure) بنانے کی ضرورت ہے، اور خالص روایتی معنوں میں فلسفہ اس کام کے بہت سے ذریعوں میں سے ایک ذریعہ ہوسکتا ہے۔ وہ فلسفہ جس کی ایک باطنی جہت بھی ہے۔
عمل پرستوں کو خیال کے معنی تو خیر کیا معلوم ہوں گے انہیں تو عمل کے معنی بھی معلوم نہیں۔ ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ عمل خیال کی ٹھوس شکل کو کہتے ہیں۔ ہر عمل کسی نہ کسی خیال کی ٹھوس شکل ہوتا ہے۔ خیال جتنا بڑا ہوتا ہے عمل بھی اتنا ہی بڑا ہوتا ہے، خیال میں جتنی خیر ہوتی ہے عمل میں بھی اتنی ہی خیر ہوتی ہے۔
آپ میری اب تک کی گفتگو سے شاید یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں خیال اور عمل کے فلسفے پر گفتگو کرنا چاہ رہا ہوں۔ جی نہیں، میں کسی اور ہی مسئلے پر گفتگو کرنے جارہا ہوں، لیکن اس مسئلے پر گفتگو سے پہلے پس منظر کے طور پر یہ گفتگو ناگزیر تھی۔ کیونکہ اس کے بغیر بہت سے لوگوںکے لیے آئندہ گفتگو کو سمجھنا مشکل ہوسکتا تھا، تو آئیے اصل مسئلے پر بات کرتے ہیں۔
خیال کو مصفّا بنانے کا مرحلہ اُس وقت سب سے زیادہ مشکل ہوجاتا ہے جب آپ کو ایک جیسے دو خیالات کے درمیان تفریق کرنی پڑے… ایسے خیالات کے درمیان جو بظاہر ہم معنی ہوں لیکن حقیقت میں ہم معنی نہ ہوں۔ اگر آپ اپنے مروج فکری سرمائے پر نظر ڈالیں گے تو دیکھیں گے کہ اس میں کئی خیالات ایسے ہیں جن کو ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ بعض خیالات کے درمیان اگر تفریق قائم نہ کی جائے تو اس کے نتائج ممکن ہے زیادہ سنگین نہ ہوں، لیکن کچھ خیالات اور تصورات ایسے ہیں جن کے درمیان تفریق نہ کرنے کے نتائج ایک دو دن پر نہیں صدیوں پر محیط ہوتے ہیں، اس لیے ان کے درمیان تفریق بہت ضروری ہے۔
ایک روز ہمارے ایک دوست نے کہا کہ ہمارا مقصد ایک اسلامی معاشرے کا قیام ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر آپ اسلامی معاشرے کے بجائے اسلامی تہذیب کہیں تو اچھا ہے۔ اس کے بعد اُن سے جو گفتگو ہوئی اُس سے ظاہر ہوا کہ وہ اسلامی معاشرے اور اسلامی تہذیب کے تصورات کے درمیان موجود فرق کو نہیں سمجھتے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے افراد ہیں جو اس فرق کو نہیں سمجھتے، حالانکہ میرے نزدیک ان دونوں تصورات کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔
میری ناقص رائے میں مغربی فکر کے زیر اثر معاشرے کا تصور صرف چند اداروں کی تنظیم، ان کے مابین عمل (Interaction) اور ان کے وظائف تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ان اداروں میں بھی بنیادی اہمیت سیاسی اور معاشرتی اداروں کو حاصل ہے۔ چنانچہ فی زمانہ معاشرتی تبدیلی کے معنی سیاسی اور معاشی اداروں کی تبدیلی یا اصلاح تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں مغرب کے معاشروں میں ان اداروں کو اتنی اہمیت حاصل ہوگئی ہے کہ ان کا پورا ڈھانچہ سیاست اور معاشیات کی بنیادوں پر استوار ہوگیا ہے۔ مجھے تو مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی بھی انہی اداروںکا آف شوٹ نظر آتی ہے۔ یہ بات میں مغرب کے گزشتہ پچاس برسوں کے بارے میں کہہ رہا ہوں، کیونکہ اس سے قبل مغرب کے بیشتر معاملات کے پس پشت مغربی فلسفے کی کارفرمائی کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ مغربی فلسفے کی یہ کارفرمائی آج بھی دیکھی جاسکتی ہے مگر ایک زیریں لہر (Under Current) کے طور پر۔
جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا کہ مغربی فکر کے زیراثر ہمارے یہاں معاشرتی تبدیلی کے معنی سیاسی اور معاشی اداروں کی تبدیلی یا ان کی اصلاح ہوکر رہ گئے ہیں۔ میرے کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ معاشرے کے دیگر اداروں یا رویوں کی تبدیلی کا ہمارے یہاں کوئی تصور موجود نہیں۔ یہ تصور موجود ہے مگر اس پر اتنا زور نہیں دیا جارہا جتنا سیاسی اور معاشی اداروں کی تبدیلی پر دیا جارہا ہے۔ اس زور کی وجہ بھی صاف ظاہرہے، اور وہ یہ ہے کہ سیاسی اور معاشی اداروں کی تبدیلی کے ذریعے معاشرے کے دیگر اداروںکی تبدیلی کی راہ نکلتی ہے۔ یہ ادارے معاشرے کی مجموعی قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کا بیشتر حصہ سیاسی اداروں اور معاشی اداروںکے دائرے اور دائرۂ اثر سے بہت دور نمو پذیر ہوتا اور پھلتا پھولتا ہے۔ انسانی زندگی کا یہ وہ حصہ ہے جس سے انسانی زندگی کی معنویت متعین ہوتی ہے۔ یہ مابعدالطبیعات اور علوم و فنون وغیرہ کا حصہ ہے جہاں انسانی روح اور انسانی نفس کے بنیادی تقاضے اور سرگرمیاں اظہار میں آتی ہیں۔ جہاں انسان خدا، کائنات، دیگر انسانوں اور خود اپنے ساتھ تعلق یا بے تکلفی کے رشتے قائم کرتا ہے اور ان رشتوں کی بلندی اور پستی کی منزلیں طے ہوتی ہیں۔ اسلامی نقطہ نگاہ کے مطابق زندگی کا یہ وہ حصہ ہے جس سے ہمارے سیاسی اور معاشی رویوں کا تعین ہوتا ہے۔
معاشرے کی اصطلاح انسانی زندگی کے اس اہم ترین حصے پر زور دیتی نظر نہیں آتی۔ اس کے برعکس تہذیب کی اصطلاح انسانی زندگی کے ان دونوں حصوں پر محیط ہے، بلکہ وہ انہیں ایک ہم آہنگ کُل کی حیثیت میں دیکھتی ہے۔ تہذیب کی اصطلاح میں معاشرے کے اندر انسانی زندگی کے مطالبات اور ترجیحات کی ایک خاص ترتیب کا تصور موجود ہوتا ہے۔ اس ترتیب میں الف کا مقام الف کی جگہ، اور ب کا مقام ب کی جگہ ہے۔ نہ الف ب کی جگہ لے سکتا ہے اور نہ ب الف کا متبادل ہوسکتا ہے۔
چنانچہ اسلام نے اپنے ظہور کے بعد معاشرتی تبدیلی نہیں بلکہ ایک تہذیبی تبدیلی پیدا کی، جس میں انسانی نفس اور انسانی روح کے ہر تقاضے کا ایک خاص مقام متعین کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف جغرافیائی، تہذیبی اور ثقافتی رویّے رکھنے والے خطے اسلام کی روشنی سے منور ہوتے چلے گئے۔
اگر ہم معاشرے کی اصطلاح کو وسیع معنوں میں استعمال کریں تو بھی معاشرہ بہرحال ایک خاص جغرافیائی اور ثقافتی حد بندی ہی کا نام قرار پائے گا، جس میں تشکیل پذیر ہونے والا انسانی زندگی کا بڑے سے بڑا تجربہ بھی ایک محدود تجربہ ہی رہے گا۔ اس سلسلے میں ہم ایران کے انقلاب کو مثال کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔ ایران کا تجربہ توقع کے بہت برعکس تہذیبی قوت کے بجائے ایک معاشرتی تجربہ بن کر رہ گیا۔ اس کے ملکی، تہذیبی اور جغرافیائی تصورات نے اسے اپنی حد بندیوں سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے دوسرے معاشروں پر اس کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عربوں نے تو خیر اسے جنگ میں الجھا کر اس کے اثرات سے خود کو محفوظ کرلیا، مگر پاکستان اور افغانستان پر بھی اس کے اثرات اس طرح مرتب نہیں ہوسکے جس طرح توقع تھی۔
اس پورے مسئلے سے متعلق ایک سوال قارئین کے ذہن میں اُٹھ سکتا ہے اور وہ یہ کہ معاشرے کی اصطلاح کو تبدیلی کے کسی بھی مرحلے پر تہذیب کی اصطلاح سے بدلا جاسکتا ہے تو پھر اس وقت اس تبدیلی کی کیا ضرورت ہے؟ عرض ہے کہ اگر آپ انسان کو برسوں تک دو فٹ چھلانگ لگانے کے لیے تیار کرتے رہیں گے تو اسے دو فٹ تک چھلانگ لگانے کی عادت پڑ جائے گی، اگر پھر اس سے کہیں گے کہ اب چار فٹ چھلانگ لگائو تو وہ اس کے لیے نہ تو تیار ہوگا اور نہ ہی اس کے لیے چار فٹ چھلانگ لگانا ممکن ہوگا۔ چنانچہ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم اسے ابتدائی مرحلے پر ہی چار فٹ تک چھلانگ لگانے کی عادت ڈال دیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تبدیلی کے آغاز کے اس مرحلے پر اگر ہم ’’اسلامی معاشرے‘‘ کی اصطلاح کو اسلامی تہذیب کی اصلاح سے بدل دیں تو ان شاء اللہ اس کے بڑے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔
اس بحث کے سلسلے کا آخری نکتہ یہ ہے کہ معاشرتی تبدیلی عام طور پر دیرپا ثابت نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس تہذیبی تبدیلی بڑی دیرپا ثابت ہوتی ہے۔ معاشرتی تبدیلی کے دیرپا نہ ہونے اور تہذیبی تبدیلی کے دیرپا ہونے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ معاشرتی تبدیلی ایک محدود تبدیلی ہوتی ہے جو انسان کے صرف چند تقاضوں کی تسکین کرتی ہے۔ چنانچہ تبدیلی کے بعد جب انسان کے ناآسودہ مطالبات اور تقاضے (جو کہ اپنی نہاد میں روحانی ہوتے ہیں) سراٹھاتے ہیں تو تبدیلی کے خلاف ایک ردِعمل پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ روس، چین اور ایران کے تجربات اس سلسلے میں ہماری خاصی رہنمائی کرتے ہیں، بلکہ مغرب نے اس صدی میں جس قسم کی معاشرتی تبدیلی پیدا کی اُس کے خلاف ردعمل کے پیدا ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ پورے انسان کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے پیدا کی گئی ہے۔ تو صاحبانِ کشف و کمال آپ کیا کہتے ہیں بیچ اس مسئلے کے… معاشرہ یا تہذیب؟