بعض الفاظ ایسے ہیں جو بیک وقت مثبت معنوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں اور منفی معنوں میں بھی۔ ان الفاظ میں ایک لفظ انا بھی ہے۔ اس کے حامل افراد سے مثبت قدر کا حامل قرار دیتے ہیں جبکہ کسی کی انا کا شکار ہونے والے اسے ایک منفی قدر سمجھتے ہیں۔
کبھی کبھی یہ دلچسپ صورت حال بھی نظر سے گزرتی ہے کہ انا کے حامل لوگ اس سے چھٹکارا پانے کی خواہش کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ جن کے پاس انا نہیں ہوتی وہ اس کے حصول کے تمنائی بنے دکھائی دیتے ہیں۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ انا انسانی زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل تصور ہے۔ سوال یہ ہے کہ انا ہوتی کیا شے ہے؟
ہر انسان اپنی ذات کا ایک خاص تصور رکھتا ہے۔ یہ تصور اکثر صورتوں میں برا عمدہ، بڑا خوشگوار ہوتا ہے۔ عمر کے گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تصور پختہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہم رفتہ رفتہ اپنے اس تصور سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ تاہم جب کوئی ہمارے اس تصوّر کے بارے میں کسی منفی رائے یا ردِعمل کا اظہار کرتا ہے تو ہمیں اپنا یہ تصوّر بکھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور ہمیں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ عام طور پر اس تکلیف کو انا کو لگنے والی ٹھیس قرار دیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے انا گویا انسان کا وہ تصور ہے جو وہ اپنی ذات کے بارے میں رکھتا ہے۔
اپنی ذات کے مخصوص تصور کے حوالے سے ہر انسان معاشرے کے اندر اپنا ایک خاص مقام اور ایک خاص حیثیت فرض کرتا ہے۔ یہ حیثیت اور یہ مقام قریبی انسانی رشتوں کے درمیان بھی ہوتا ہے اور دیگر تمام انسانی رشتوں کے درمیان بھی۔ ہر انسان اپنے اس مخصوص مقام اور مخصوص حیثیت کے مطابق معاشرے کے ارکان سے ایک خاص قسم کے رویے کا متقاضی ہوتا ہے۔ عام تجربہ بتاتا ہے کہ جب کسی کو اس کے فرض کیے ہوئے مقام یا حیثیت کے مطابق اہمیت نہیں ملتی تو وہ اپنی انا کو مجروح ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہاں انا کے معنی اپنی اہمیت کے احساس کے ہوئے۔ انا کے بارے میں اسی طرح کے ایک دو تصورات اور پائے جاتے ہیں مگر ان پر ہم پھر کبھی بات کریں گے۔
آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ انا کے ان تصورات میں کئی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ ان کی سب سے اہم خامی تو یہ ہے کہ یہ تصورات واقعیت پر مبنی نہیں ہیں۔ یعنی ایک انسان اپنے بارے میں جو تصور قائم کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ واقعتاً ایسا ہی ہو بھی۔ اس اعتبار سے انا اپنے بارے میں قائم کیے گئے ایک غیر متوازن تصور کا نام ہے۔
تاہم ممکن ہے کہ ایک آدمی نے اپنے بارے میں جو تصور قائم کیا وہ مکمل طور پر نہ سہی بڑی حد تک درست ہو۔ گو اس کا امکان بہت کم ہوتا ہے کیونکہ اکثر انسان اپنے بارے میں معروضی انداز میں سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ تاہم ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ ایک انسان نے اپنے بارے میں درست تصور قائم کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں اس درست تصور کی کیا اہمیت ہے اور کیا معنویت ہے؟
ہماری حقیر رائے میں چونکہ اس طرح کے تمام تصورات شخص ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد کسی مابعد الطبعیاتی، مذہبی یا اخلاقی تصور پر نہیں ہوتی اس لیے یہ تصور کسی بھی اعتبار سے پوری طرح صحت مند قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے تصورات کے حامل افراد احساسِ کمتری کا شکار ہو کر ایک خاص قسم کے ذہنی تشدد کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں حسد کا غیر معمولی مادہ ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک حسد کا مادہ ان کے انا کے دعویٰ کی واضح ترین تردید ہے۔ کیونکہ جس کے پاس اپنی ذات کاکوئی تصور ہوتا ہے وہ رشک تو کرسکتا ہے مگر حسد نہیں۔ کیونکہ اپنی ذات کا تصور رکھنے کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اپنی محدودات کا علم ہے اور جب ہمیں اپنی محدودات کا علم ہوتا ہے تو پھر ہم اپنی محدودات سے باہر موجود چیزوں کی خواہش نہیں کرتے۔ اس لیے کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے امکانات کے دائرے سے باہر ہیں۔ اپنی محدودات کا علم یا احساس ہمارے اندر ایک طرح کے صبروشکر کے جزبہ کو جنم دیتا ہے۔ تاہم ایسے لوگوں کا حد سے بڑھا ہوا احساسِ کمتری اور حسد چیخ چیخ کر بتارہا ہوتا ہے کہ اپنی ذات کے بارے میں قائم کیے ہوئے ان کے تمام تصورات خود فریبی کی صورت کے سوا کچھ نہیں۔
ان افراد کی پہچان کی نمایاں ترین صورتیں یہ ہیں کہ یہ افراد اپنی خواہشات کو بے جا طور پر دوسروں پر ٹھونستے ہیں اور اس کو بجا تصور کرتے ہیں۔ ایسے افراد عام طور پر اپنی گفتگو یا بحث کو دلائل کے بجائے مفروضوں پر قائم کرتے ہیں۔ اپنی عمر اور تجربے کو علم کا نعم البدل قرار دینا ان کا عام وتیرہ ہوتا ہے۔
ان کی حساسیت کا عالم یہ ہوتا ہے کہ دوسرے پر اپنی تقاریر کے پہاڑ گراکر بھی اسے مسکراتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ جبکہ خود دوسرے کے ایک فقرے کے ملبے تلے دب کر ہذیان بکنے لگتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ صورت جھوٹی انا کی توسیع شدہ اور مسخ شدہ شکل یعنی انانیت کہلانے کی بجا طور پر مستحق ہے۔ انانیت کے ایک مثبت معنی بھی ہیں جو آگے بیان ہوں گے۔
سوال یہ ہے کہ حقیقی یا مثبت انا کس بلا کا نام ہے؟ عرض کیا جاتا ہے!!
ہر انسان دنیا میں ایک خاص جوہر لے کر پیدا ہوتا ہے اور یہ وہ جوہر ہے جس کی بنیاد پر انسان، انسان کہلانے کا مستحق بنتا ہے۔ یہ وہ شرف ہے جسے بیان کرتے ہوئے خالق کائنات نے کہا ہے کہ ’’میں نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا، ہمارے نزدیک یہ جوہر ہی انا ہے۔
اس جوہر کا تحفظ ہر انسان کا اولین فرض ہے۔ اس جوہر کے تحفظ کا احساس ہر انسان کی سب سے بڑی متاع ہے۔ جس انسان کے اندر یہ احساس فنا ہوجاتا ہے وہ انسان کے مرتبے سے گرجاتا ہے۔ یہ احساس مذہبی اور اخلاقی اصولوں سے مربوط اور ان سے بندھا ہوا ہوتا ہے۔
اپنے اس مخصوص جوہر کا یہ احساس شخصی تصور نہیں ہے۔ یہ ایک اتنا اجتماعی تصور ہے کہ پوری انسانیت ہی نہیں پوری کائنات اس کے اندر سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
یہ وہ انا ہے جو اپنی نام نہاد شخصیت کے تحفظ کے لیے نہیں اقدار کے تحفظ کے لیے سراٹھاتی ہے اور بروئے کار آتی ہے۔ انسان جب کسی خاص صورتِ حال میں محسوس کرتا ہے کہ اس عمل سے اس کا یہ جوہر مجروح ہوگا تو وہ انکار کی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔ یہاں اکثر صورتوں میں شخصیت کا تحفظ بھی اقدار کے تحفظ کا ہم معنی بن جاتا ہے مگر اس کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے اس جوہر کو پہچانے۔ یہ مثبت انا جب مثبت انانیت میں ڈھلتی ہے تو انسان اپنی جان تک کی پروا نہیں کرتا۔
یہی وہ انا ہے مذہب، انسان سے جس کی قربانی طلب کرتا ہے ’’مرجا اور ہوجا‘‘ کا فقرہ اسی انا کی قربانی کی طرف اشارہ ہے۔ چونکہ اس انا کی قربانی کے بعد محدود لامحدود کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس لیے اس کی قربانی کی ہمت بڑے بڑوں کو نہیں ہوتی۔ یہ بیک وقت بہت بڑی ترغیب اور بہت بڑا خوف ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں حقیقی اور عظیم ترین روحانی کشمکش پیدا ہوتی ہے۔
ہمارے خیال میں حقیقی اور جھوٹی انا کو پہچاننے کے سلسلے میں یہ باتیں مفید ہوسکتی ہیں۔ ذرا اپنے اردگرد نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ کون جھوٹی انا کو پوج رہا ہے اور کون سچی انا کا حامل ہے؟؟ کون اپنی نام نہاد شخصیت کے تحفظ میں مصروف ہے اور کون اقدار کے تحفظ میں۔ ہمارے خیال میں انسانوں کی اہمیت کا تعین اس پس منظر میں بھی کیا جانا چاہیے۔ کیا ہماری ان معروضات سے کسی کی انا کو ٹھیس پہنچی؟؟؟