سوشلزم کا زوال عہد ِ حاضر کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ سوشلزم نے نہ صرف یہ کہ روس اور چین میں انقلابات برپا کرکے دکھائے بلکہ اس نے آدھی سے زیادہ دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ 1980ء کی دہائی تک سوشلزم کا عالمی امیج یہ تھا کہ سوشلزم کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ ہم 1987ء میں جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں بی اے آنرز سال دوم کے طالب علم تھے۔ اس زمانے میں ہمارے ایک بزرگ دوست تھے۔ ان کا نام علی حیدر ملک تھا۔ ملک صاحب افسانہ نگار، نقاد اور اردو ادب کے استاد تھا۔ ان کے یہاں ہر جمعرات کو شام سات بجے سے رات 11 بجے تک ادبی محفل برپا ہوتی تھی۔ ہم اس محفل کا حصہ تھے۔ ایک دن علی حیدر ملک صاحب نے کہا کہ شاہنواز میاں اب جب کہ آپ ابلاغ عامہ کے طالب علم بن چکے ہیں تو کیوں نہ آپ ابھی سے صحافت کی عملی تربیت کا آغاز کردیں۔ ہم نے کہا کہ بتائیے کیا کرنا ہے۔ کہنے لگے ہندوستان سے ماہر غالبیات کمال صدیقی کراچی آئے ہوئے ہیں۔ آپ ان کا انٹرویو کر ڈالیں لیکن خیال رہے کہ کمال صدیقی مارکسٹ ہیں۔ آپ چوں کہ اسلام پرست ہیں اس لیے ان سے کوئی ایسا سوال نہ کیجیے گا کہ وہ مشتعل ہوجائیں اور انٹرویو دینے ہی سے انکار کردیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ہم اپنے ایک دوست خالد اسماعیل کے ساتھ کمال صدیقی سے انٹرویو کرنے پہنچے۔ وہ کراچی کے علاقے گلبرگ کے ایک مکان میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ ہم نے انٹرویو کے آغاز میں کچھ ہلکے پھلکے سوالات پوچھے مگر بالآخر ہم نے کمال صدیقی سے وہ سوال بھی کر ڈالا جو انہیں مشتعل کرسکتا تھا۔ ہم نے کہا کہ آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ مولانا مودودیؒ 1950ء کی دہائی ہی میں یہ فرما چکے ہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ کمیونزم کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی۔ آپ کا کیا خیال ہے سوشلزم کا زوال کب تک ہوجائے گا۔ ہمارا سوال سنتے ہی کمال صدیقی صوفے سے اُٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ کہنے لگے آپ خواب و خیال کی باتیں کررہے ہیں۔ سوشلزم دنیا کے دو غالب نظاموں میں سے ایک نظام ہے۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی انقلابی قوت ہے۔ اس نے روس اور چین میں انقلابات برپا کیے ہیں۔ سوشلزم کو زوال نہیں آسکتا۔ کہنے لگے کہ میاں جس دن سوشلزم کو زوال آجائے آپ ہمیں ایک خط کے ذریعے ضرور مطلع کیجیے گا۔ کمال صدیقی جذباتی لہجے میں جس وقت یہ بات کہہ رہے تھے انہیں معلوم نہیں تھا کہ سوشلزم کا زوال اب بہت دور کی بات نہیں۔ صرف تین سال بعد یعنی 1990ء میں سوشلزم کا ٹائی ٹینک ڈوب گیا۔ مولانا مودودیؒ کی پیش گوئی کے عین مطابق ایک وقت وہ آیا جب روس کے دارالحکومت ماسکو میں سوشلزم بے یارومددگار کھڑا تھا۔ اس کا کوئی والی وارث نہیں تھا۔ روس میں نہ صرف یہ کہ سوشلزم فنا ہوگیا بلکہ خود سوویت یونین کے بھی پرخچے اُڑ گئے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جب سوشلزم دنیا کا ایک غالب نظام تھا تو کسی سوشلسٹ اور کسی کمیونسٹ کو اس میں کوئی خامی نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن اب سابق سوشلسٹ عناصر کو سوشلزم میں عیب ہی عیب نظر آتے ہیں۔ زاہدہ حنا ایک سابق سوشلسٹ ہیں۔ انہوں نے چند روز پیش تر اپنے ایک کالم میں سوشلزم کے عیبوں کا تذکرہ کیا ہے۔
زاہدہ حنا نے لکھا ہے کہ سوویت یونین میں مارکسزم کی بنیاد پر جو سیاسی نظام وضع کیا گیا تھا وہ جمہوری نہیں آمرانہ تھا۔ لینن کے انتقال کے بعد اقتدار جوزف اسٹالن کے ہاتھ میں آگیا اور اسٹالن نے سوویت یونین میں بدترین شخصی آمریت قائم کردی۔ اسٹالن نے پارٹی میں اپنے مخالفوں کا صفایا کردیا۔ اس نے فوج اور پارٹی بیورو کریسی کے ذریعے ملک پر بھیانک آمرانہ نظام مسلط کردیا۔ عام شہری کیا اسٹالن کے نائبین بھی اسٹالن سے اختلاف نہیں کرسکتے تھے۔ اسٹالن کے بعد خروشچیف اقتدار میں آئے۔ انہوں نے اسٹالن کے دور پر تنقید کی۔ خروشچیف کی تقریر سن کر ایک صاحب نے کہا کہ آپ کو یہ تنقید اسٹالن کے سامنے کرنی چاہیے تھی۔ خروشچیف چند لمحوں تک خاموش رہا۔ پھر اس نے کہا کہ جس شخص نے یہ سوال کیا وہ اُٹھ کر اپنے سوال کو دہرائے۔ حاضرین پر سکتہ طاری ہوگیا اور کوئی شخص خوف کے مارے اپنی نشست سے کھڑا نہیں ہوا۔ خرو شچیف نے کہا کہ جس خوف سے یہ بات کہنے والا کھڑا نہیں ہوا اسی خوف سے میں نے بھی اسٹالن سے اختلاف کرنے کی جرأت نہیں کی۔ زاہدہ حنا کے بقول سوویت یونین میں اظہار رائے کی آزادی بھی نہیں تھی۔ نہ کوئی سیاسی جماعت بنائی جاسکتی تھی اور نہ حکومت کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہوسکتے تھے۔ ادیبوں، شاعروں اور دانش وروں کو یہ آزادی نہیں تھی کہ وہ ریاستی نظریے یا پالیسی کے خلاف کچھ لکھ سکیں۔ جن لوگوں نے ایسا کیا انہیں سامراجی دلّال قرار دے کر ذلیل کیا گیا۔ زاہدہ حنا کے بقول سوشلزم کے زوال کی ایک وجہ یہ تھی کہ سوویت یونین نے اپنے زیادہ تر وسائل کو فوج اور اسلحے پر خرچ کیا۔ بلاشبہ زاہدہ حنا کی ان باتوں میں بڑی صداقت ہے مگر اخلاقی طور پر انہیں بھی یہ سب باتیں اس وقت کرنی چاہیے تھیں جب سوشلزم عالمگیر نظریہ اور سوویت یونین اس عالمگیر نظریے کا مرکز تھا۔ اس وقت تمام سوشلزم منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے رہے اور اب ان کی لمبی لمبی زبانیں سوشلزم کی تنقید کے حوالے سے حرکت میں ہیں۔
غور کیا جائے تو زاہدہ حنا نے سوشلزم کے زوال کے جو اسباب بیان کیے ہیں ان میں بعض بنیادی اسباب کا ذکر موجود نہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو سوشلزم کی ناکامی کی بنیادی وجہ سوشلزم کے ’’تصور انسان‘‘ کی ناکامی ہے۔ دنیا کی ہر تہذیب، ہر معاشرہ اور ہر نظام انسان کا ایک مخصوص تصور رکھتا ہے۔ جیسا کسی تہذیب اور معاشرے کا تصور انسان ہوتا ہے ویسا ہی اس تہذیب اور معاشرے کا سیاسی اور سماجی نظام بھی ہوتا ہے۔ مثلاً اسلام کا تصور انسان یہ ہے کہ انسان بیک وقت ایک روحانی حقیقت بھی ہے اور اخلاقی و سماجی وجود بھی۔ اس کی ایک جبلت معاشی ہے، ایک جبلت جنس ہے۔ چناں چہ اسلام نے رسول اکرمؐ اور خلافت راشدہ میں جو نظام بنایا اس میں انسان کی مذکورہ بالا تمام ضروریات کا خیال رکھا گیا۔ اسلام میں روحانی اعتبار سے فرد کا شعورِ بندگی سب سے زیادہ اہم ہے۔ چناں چہ اس شعورِ بندگی کے لیے توحید، رسالت اور آخرت کے عقیدے رکھے گئے۔ عبادات کا ایک جامع نظام وضع کیا گیا۔ انسان کی جنسی جبلت کی تسکین کے لیے نکاح اور خاندان کے ادارے کا تصور پیش کیا گیا۔ انسان کی معاشی جبلت کی تسکین کے لیے رزق حلال کا تصور وضع کیا گیا۔ سود سے پاک معاشی نظام کھڑا کیا گیا۔ سود کو ممنوع اور تجارت کو پسندیدہ قرار دیا گیا۔ انسان کے اخلاقی وجود کی تشکیل کے لیے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا تصور پیش کیا گیا۔ سوشلزم کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ اس نے معاش کو انسان کی پوری زندگی بنادیا۔ اس نے انسان کے روحانی حقیقت ہونے کا انکار کیا۔ اس نے معروضی اخلاقیات کے تصور پر خط ِ تنسیخ پھیردیا۔ اس نے انسانی وجود کے گہرے نفسیاتی، جذباتی اور احساساتی مطالبات سے صرف نظر کر کھڑا کردیا۔ ایک زمانہ تھا کہ ناول اور افسانے کے دائرے میں روس پوری دنیا کی قیادت کرتا تھا۔ روس میں دوستو وسکی اور ٹالسٹائے جیسے ناول نگار موجود تھے۔ دوستو وسکی نے چار بڑے ناول لکھے ذلتوں کے مارے لوگ، ایڈیٹ، جرم و سزا اور کرامازوف برادران۔ ایسے ناول نہ پہلے عالمی ادب میں لکھے گئے نہ بعد میں لکھے گئے۔ ٹالسٹائے کے ناولوں جنگ وامن اور انا کارنینا جیسے ناول بھی عالمی ادب میں موجود نہیں۔ بلاشبہ دوستو وسکی اور ٹالسٹائے عظیم ہیں۔ انہوں نے بڑا ادب خلق لیکن مگر ان کا بڑا ادب ان کے بڑے تصور انسان کا حاصل ہے۔ سوشلزم انقلاب نے روس کے تصور انسان کو پست کردیا۔ چناں چہ روس میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد کوئی بڑا ادیب کوئی بڑا ناول نگار اور کوئی بڑا افسانہ نگار پیدا نہیں ہوا۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد روس میں صرف پروپیگنڈا ادب تخلیق ہوا۔ اس صورت حال نے سوشلسٹ انسان کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا اور سوشلسٹ انسان بالآخر اپنی جہنم جیسی زندگی سے عاجز آگیا۔
روس کے سوشلسٹ انقلاب نے روس میں مذہب کی کیسی پیاس پیدا کی۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ 1990ء سے اب تک روس میں عیسائیت مسلسل فروغ پارہی ہے۔ وسطی ایشیا کی نوآزاد مسلم ریاستوں میں بھی اسلام کا احیا ہوا ہے۔ سابق سوشلسٹ معاشروں میں مذہب کا احیا دراصل مذہب کے تصورِ انسان کی واپسی کے مترادف ہے۔
سوشلزم کے زوال کا ایک سبب بلاشبہ آزادی اظہار کی نفی تھا۔ سوویت یونین میں آزادی اظہار کی پابندی کا کیا عالم تھا اس کا ایک اظہار ایک لطیفے سے جس طرح ہوسکتا ہے کسی دوسری چیز سے اس طرح نہیں ہوسکتا۔ کہتے ہیں کہ سوویت یونین کے سائنس دانوں نے کارل مارکس کے مُردے کو زندہ کرلیا۔ مارکس ریڈیو ماسکو پہنچا تو ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر نے اس پہچان لیا اور پوچھا کہ آپ کی کوئی خواہش ہو تو بیان کیجیے۔ مارکس نے کہا کہ وہ سوشلسٹ سوویت یونین کے عوام سے خطاب کرنا چاہتا ہے۔ اسٹیشن ڈائریکٹر نے کہا کہ اس کے لیے آپ کو تقریر لکھ کر دینی ہوگی۔ مارکس نے تقریر لکھ دی تو اسے بتایا گیا کہ اس کی پوری تقریر نشر نہیں ہوسکتی۔ مارکس نے تقریر کو آدھا کردیا۔ اسے بتایا گیا کہ سینسر کی وجہ سے اس کی آدھی تقریر بھی نشر نہیں ہوسکتی۔ ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچی کہ مارکس سے کہا گیا کہ وہ ایک فقرے میں قوم سے جو کچھ کہنا چاہیں کہہ سکتے ہیں۔ کارل مارکس نے جو ایک فقرہ لکھا وہ یہ تھا۔
’’دنیا کے پرولتاریو مجھے معاف کردو‘‘۔
پال کینیڈی نے بڑی طاقتوں کا عروج و زوال نامی اپنی کتاب میں چار بڑی طاقتوں یعنی سلطنت عثمانیہ، سلطنت برطانیہ، سوویت یونین اور امریکا کے زوال کی بنیادی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ان طاقتوں کے اخراجات ان کی آمدنی سے بڑھ گئے۔ بلاشبہ سوویت یونین کی توسیع پسندی نے اس کے اخراجات کو اس کی آمدنی سے بہت بڑھادیا تھا۔