معروف کالم نویس یاسر پیرزاد نے اپنے ایک حالیہ کالم میں یہ لکھا ہے کہ معاشروں کی بقا و سلامتی کے لیے اہداف اور مقاصد کا تعین ضروری ہوتا ہے۔ یاسر پیرزادہ کے مطابق یہ کام معاشرے کے دانش وروں اور فلسفیوں کا ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے مقاصد اور اہداف کا تعین کریں۔ یاسرپیرزادہ نے لکھا ہے کہ امریکا میں تھامس پین نے معاشرے کی رہنمائی کی۔ روس میں جیورجی یلاکو نوف معاشرے کا رہنما بن گیا۔ فرانس میں والٹیر اور روسو معاشرے کی نظر بن گئے۔ برطانیہ میں ایڈ منڈبروک معاشرے کا دماغ بن کر کھڑا ہوگیا۔ یاسر پیرزادہ کے بقول جرمنی میں ہٹلر نے جو کچھ کیا وہ نطشے کے فلسفے کا نتیجہ تھا۔ یاسر پیرزادہ نے لکھا ہے کہ پاکستان کو 75 سال ہوگئے ہم ابھی تک معاشرے کے مقاصد اور اہداف کا تعین نہیں کرسکے ہیں۔ ہمیں نہ کوئی دانش ور ملا نہ فلسفی جو ہمیں بتاتا کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ یاسرپیرزادہ نے لکھا ہے کہ اگر ہمیں مقامی دانش ور اور فلسفی دستیاب نہیں تو کیا ہوا ہمیں دنیا کے ان دانش وروں کے افکار کو اختیار کرلینا چاہیے جن کے نظریات کی روشنی میں دنیا کے کئی معاشروں نے وہ نظام تشکیل دیا جسے ہم رشک سے دیکھتے ہیں۔ یاسر پیرزادہ کے بقول جب تک ہم ترقی یافتہ ملکوں کے دانش وروں کی پیروی نہیں کریں گے ہمارا حال بھی اس بچے جیسا رہے گا جو اسکول تو جاتا ہے مگر کچھ سیکھ کر نہیں دیتا۔
(روزنامہ جنگ۔ 22 مارچ 2022ء)
یاسرپیرزادہ خیر سے خود اچھے خاصے دانش ور ہیں۔ وہ اکثر اپنے کالموں کے ذریعے بتاتے رہتے ہیں کہ انہوں نے کون کون سی کتاب پڑھ ڈالی ہے اور اس کتاب کے مطالعے نے انہیں کیا سکھایا ہے مگر اس کے باوجود انہیں اتنی سی بات معلوم نہیں کہ پاکستانی قوم دنیا کی ان قوموں میں سے نہیں ہے جس کے پاس علم و دانش کی کمی ہو۔ پاکستانی معاشرے کی اکثریت مسلمان ہے اس کے پاس سیکھنے کے لیے قرآن ہے جو اُم الکتاب ہے۔ مسلمانوں کے لیے قرآن سے بڑی کتاب کا تصور محال ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن ہمیں علم و عمل کی جو دولت عطا کرسکتا ہے وہ دنیا کی کروڑوں کتابیں بھی عطا نہیں کرسکتیں۔ قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ تم خدا سے کہو اے خدا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ یاسر پیرزادہ بتائیں 75 سال میں پاکستان کے کس حکمران نے قرآن کی اس رہنمائی کو دستورِ حیات بنایا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کی اکثریت تو قرآن پر ایمان ہی نہیں رکھتی۔ رکھتی تو وہ قرآن کو دستورِ حیات ضرور بناتی۔ یاسر پیرزادہ کا کیا خیال ہے کیا کبھی جنرل ایوب، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف نے ایک بار بھی قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھا ہوگا؟ چوں کہ پاکستان کے حکمرانوں کی اکثریت قرآن کو رہنما ہی نہیں مانتی اس لیے وہ خدا کی عبادت بھی نہیں کرتی اور اس سے مدد بھی نہیں مانگتی۔ اس کے برعکس پاکستان کے تمام فوجی اور سول حکمران امریکا کے آگے جھکتے ہیں اور اس سے مدد مانگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو مسلم معاشرہ خدا کی عبادت، عبادت کی طرح نہیں کرے گا اور صرف خدا ہی سے مدد نہیں مانگا وہ کیونکر باشعور ہوگا؟ وہ کیسے شعور کا حامل ہوگا؟ وہ کیسے نموپائے گا؟ قرآن کہتا ہے کہ زمانے کی قسم دنیا کے تمام انسانی خسارے میں ہیں۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے۔ جو نیک اعمال کرتے رہے۔ جو حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔ یہ دنیا اور آخرت میں مکمل کامیابی کا فارمولا ہے۔ یہ وہ فارمولا ہے جس پر عمل کرکے مسلمانوں نے کئی صدیوں تک آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کی۔ یہ وہ فارمولا ہے جس پر عمل کرکے مسلمانوں نے قیصر و کسریٰ کو شکست دی۔ یہ وہ فارمولا ہے جس نے مسلمانوں کو وہ ہزاروں عظیم شخصیات عطا کیں جو آج بھی مسلمانوں کی عظمت کی علامتیں ہیں۔ قرآن وہ کتاب ہے جس کے نزول کا آغاز علم کی اہمیت پر اصرار سے ہوا۔ قرآن وہ کتاب ہے جو مسلمانوں سے کہتا ہے کہ تم ’’تفکر‘‘ سے کام کیوں نہیں لیتے۔ تم تدبّر کیوں نہیں کرتے۔ قرآن وہ کتاب ہے جو مسلمانوں کو بتاتی ہے کہ علم رکھنے والا اور علم نہ رکھنے والا کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ یاسر پیرزادہ بتائیں پاکستان کے جرنیلوں اور اقتدار میں آنے والے سیاست دانوں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے کب معاشرے کو ’’علم مرکز‘‘ یا Knowledge Centric بنایا؟ ہمارے حکمرانوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ علم اور شعور کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر معاشرے میں صاحب ِ علم اور صاحب ِ شعور لوگوں کی تعداد ایک حد سے بڑھ جائے گی تو پھر فوجی اور سول آمروں کے لیے معاشرے میں کوئی گنجائش اور برداشت باقی نہیں رہ جائے گی۔ چناں چہ پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی علم اور شعور کی آبیاری اور فروغ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ان کے لیے علم اور شعور کیا ان کے لیے تو ’’سچی خبر‘‘ یا صحیح اطلاع بھی ایک ایٹم بم کی طرح ہوتی ہے۔ چناں چہ پاکستان کے ہر حکمران نے ملک میں صحافت اور ذرائع ابلاغ کا گلا گھونٹا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے ’’لفافہ صحافت‘‘ کو فروغ دیا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ ذرائع ابلاغ کے مالکان اور عامل صحافیوں کے ضمیر خریدے ہیں۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ مسلمانوں نے قرآن کے علم اور اس کے پیدا کردہ کردار کی بنیاد پر صدیوں تک دنیا کی قیادت کی۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ جب مسلمانوں کے پاس نہ سائنس تھی نہ ٹیکنالوجی تھی نہ بڑی معیشت تھی تب بھی مسلمان قرآن اور سنت کو عزیز رکھنے کی وجہ سے پوری دنیا پر غالب تھے۔ پھر ایک وقت آیا کے مسلمانوں نے اپنے علم کی بنیاد پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے دائروں میں بھی دنیا کی امامت کی۔ مغرب کے ممتاز دانش ور اب یہ اعتراف کرنے لگے ہیں کہ مغرب کے پاس ایک علم بھی ایسا نہیں جو اس نے مسلمانوں سے حاصل نہ کیا ہو۔ کیمیا کا علم مسلمانوں نے مغرب کو دیا۔ طب کا علم مسلمانوں کے پاس سے مغرب پہنچا۔ فلکیات کا علم مسلمانوں نے اہل مغرب کو عطا کیا۔ ریاضی میں مسلمان صدیوں تک مغرب کے استاد رہے ہیں۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں نے گزشتہ 75 سال میں کبھی معاشرے میں مسلمانوں کی علمی روایت کو زندہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے معاشرے کے سامنے تقوے اور علم کو معیار کے طور پر پیش نہیں کیا۔ انہوں نے معاشرے پر طاقت اور دولت کی پوجا سکھائی۔ انہوں نے ہمیشہ اہل پاکستان کو مغرب کا ادنیٰ غلام بنانے کی کوشش کی۔ سوال یہ ہے کہ جو حکمران قرآن و سنت سیکچھ نہیں سیکھتے وہ دانش وروں سے کیا سیکھیں گے؟
ویسے دیکھا جائے تو پاکستان کے پاس دانش وروں کی کوئی کمی نہیں۔ پاکستان کے پاس سب سے بڑا دانش ور اقبال ہے۔ اقبال مصور پاکستان ہیں اور ان کا شمار دنیا کے عظیم ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ اقبال کی شاعری پوری امت مسلمہ کے لیے ’’پیغامات‘‘ سے بھری ہوئی ہے۔ اقبال کی شاعری کا ایک اہم تصور خودی ہے۔ اقبال کی شاعری میں خودی کے تصور کی تین صورتیں ہیں۔ اقبال کی شاعری میں خودی ایک مقام پر ’’انا‘‘ ہے۔ اس سے بلند تر درجے پر خودی ’’خودشناسی‘‘ ہے۔ تیسرے درجے پر خودی کا مفہوم ’’خدا شناسی‘‘ ہے۔ ذرا دیکھیے تو اقبال خودی کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔
’’تو رازِ کُن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہوجا، خدا کا ترجماں ہوجا
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سرِّ زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہوجا
٭٭
خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل
خودی ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل
٭٭
یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام بادشاہی
٭٭
خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
اقبال کہہ رہے ہیں کہ اے مسلمان، اے انسان، تو تخلیق کا راز ہے تو اگر خود پر عیاں ہوجائے اور اپنی خودی کو پہچان لے تو تُو خدا کا ترجمان بن سکتا ہے۔ تو شب و روز کے جبر سے نجات حاصل کرکے ان سے بلند ہوسکتا ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی اتنی اہم چیز ہے کہ اگر اسے علم سے فروغ دیا جائے تو یہ غیرت جبریل پیدا کرتی ہے اور اگر خودی عشق محکم ہوجائے تو وہ قیامت میں ڈھل سکتی ہے۔ اقبال کا پیغام یہ ہے کہ جو خودی کو پہچان جاتا ہے بادشاہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ ان باتوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خودی ایک انقلابی تصور ہے اور اس کے ذریعے فرد، قوم، ملت اور امت کو عظیم الشان بنایا جاسکتا ہے مگر 75 سال میں پاکستان کے کسی حکمران نے اقبال کے فلسفہ ٔ خودی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اقبال کا خودی سے متعلق ایک اور شعر ہے۔ اقبال نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے۔
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
پاکستان کا حکمران طبقہ اگر اقبال کے صرف اس شعر کو پرچم میں ڈھال لیتا تو قوم انقلاب سے دوچار ہو جاتی ہے۔ مگر اقبال کے فلسفہ ٔ خودی کے برعکس پاکستان کے حکمرانوں کا فلسفہ یہ ہے۔
میرا طریق فقیری نہیں امیری ہے
خودی کو بیچ امیری میں نام پیدا کر
چناں چہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے تمام حکمران عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ انہوں نے قوم کی اجتماعی خودی کو امریکا، یورپ، عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے یہاں گروی رکھ دیا ہے۔ انہوں نے قوم پر 120 ارب ڈالر کے قرض کا بوجھ لاد دیا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے ’’فقیری‘‘ کے تصور کو ’’گناہ‘‘ بنا دیا ہے۔ ان باتوں سے ہمیں یاد آیا کہ اقبال نے اپنی شاعری میں آزادی کے ترانے گائے ہیں اور غلامی کی مذمت فرمائی ہے۔ ذرا دیکھیے تو کہ اقبال آزادی اور غلامی کے تعلق پر کیا کہہ گئے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال
کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات
آزاد کا ہر لحظہ پیامِ ابدیت
محکوم کا ہر لحظ نیا مرگِ مفاجات
٭٭
محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پرسوز و طرب ناک
آزاد کی دولت دلِ روشن، نفسِ گرم
محکوم کا سرمایہ فقط دیدئہ نمناک
محکوم ہے بیگانۂ اخلاص و مروت
ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک
ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش
وہ بندئہ افلاک ہے وہ خواجۂ افلاک
اقبال کے یہ تصورات ڈیڑھ سو سال سے ہم سب اور 75 سال سے پاکستان کے حکمرانوں کے سامنے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے نے اقبال کی اس رہنمائی سے استفادہ کرتے ہوئے معاشرے میں آزادی کو کتنا فروغ دیا ہے اور غلامی کی کتنی بیخ کنی کی ہے۔ برصغیر نے اقبال کے بعد مولانا مودودی کی صورت میں ایک بلند پایہ دانش ور اور مفکر پیدا کیا۔ اقبال کا اثر تو صرف اردو اور فارسی دنیا تک محدود ہے مگر مولانا کی کتب دنیا کی 75 زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں اور مولانا کی تحریروں نے کروڑوں انسانوں کی زندگی کو بدلا ہے مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے مولانا سے استفادے کے بجائے انہیں ہمیشہ اپنا دشمن ہی سمجھا۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر انہیں حکمرانوں نے سزائے موت سنادی تھی۔ جہاں تک پاکستان کے عام دانش وروں کا تعلق ہے تو ان کی عظیم اکثریت حکمرانوں کی کاسہ لیس ہے۔ ان کے پاس کوئی بڑا اور انقلابی خیال ہے ہی نہیں۔ یہ دانش ور ہمیشہ سے طاقت مرکز تھے اور یہ ہمیشہ طاقت مرکز رہیں گے۔ جہاں تک یاسرپیرزادہ کے اس خیال کا تعلق ہے کہ ہمیں مغرب کی ترقی یافتہ قوموں کے دانش وروں سے کچھ سیکھنا چاہیے تو ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اقبال نے ہمیں ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی