یہ کل کی بات ہے کہ شریف خاندان عمران خان پر الزام لگا رہا تھا کہ وہ مذہبی کارڈ استعمال کررہے ہیں۔ شریف خاندان کے نزدیک عمران خان کی ریاست مدینہ ایک مذہبی کارڈ تھی۔ عمران خان کی رحمت اللعالمین اتھارٹی مذہبی کارڈ تھی۔ عمران خان کے ہاتھ میں موجود تسبیح ایک مذہبی کارڈ تھی۔ اسلاموفوبیا پر عمران خان کے بیانات مذہبی کارڈ تھے۔ مگر میاں شہباز شریف نے ابھی اپنے عہدے کا حلف بھی نہیں اٹھایا تھا کہ انہوں نے ایک مذہبی کارڈ استعمال کر ڈالا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ میاں شہباز شریف کی تقریب حلف برداری میں قرآن مجید فرقان حمید کی جس آیت کی تلاوت کی گئی اس کا ترجمہ یہ ہے۔
’’کہو کہ اے خدا، اے بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے۔ تو جس کو چاہے عزت دے اور تو جسے چاہے ذلیل کرے۔ ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور تو بیشک ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
جیسا کہ ظاہر ہے شریف خاندان نے یہ آیات عمران خان کی رخصتی اور اقتدار پر اپنے قبضے کے تناظر میں استعمال کیں۔ شریف خاندان ان آیات کے ذریعے قوم کو باور کرانا چاہتا تھا کہ یہ اللہ ہی ہے جس نے عمران خان سے بادشاہی چھین کر انہیں ذلیل کردیا اور یہ شریف خاندان ہے جسے اللہ نے بادشاہی عطا کرکے عزت سے نوازا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شریف خاندان کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی کہ اللہ نے عمران خان سے بادشاہی چھینی ہے اور انہیں ذلیل کیا ہے اور اللہ نے شریف خاندان کو بادشاہی بخشی ہے اور اسے عزت دی ہے۔ کیا میاں نواز شریف کو ان حقائق کا ’’الہام‘‘ ہوا ہے۔؟ کیا میاں شہباز شریف نے یہ باتیں کشف سے معلوم کی ہیں؟ کیا مریم نواز نے کوئی سچا خواب دیکھ کر یہ سب کچھ جانا ہے؟ ظاہر ہے کہ الہام، کشف اور سچے خواب کا تعلق نفس امارہ کی گرفت میں جکڑے ہوئے لوگوں سے نہیں ہوتا ان چیزوں کا تعلق نفوس مطمئنہ سے ہوتا ہے۔ اس تناطر میں دیکھا جائے تو شریف خاندان نے قرآن کے وسیلے سے جھوٹ بولنے کی ایک شرمناک مثال قائم کی ہے۔ بالفرض محال اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے عمران خان سے بادشاہی چھین کر انہیں ذلیل کیا ہے تو شریف خاندان سے تین بار بادشاہی چھین کر اسے تین بار ذلیل کیا جاچکا ہے۔ عمران خان کا تو یہ پہلا تجربہ ہے البتہ شریف خاندان تین بار بادشاہی چھیننے اور ذلیل ہونے کے تجربات سے گزر چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پھر کس بات پر اُترا رہا ہے؟ اقتدار چھیننے اور ذلیل ہونے کے سلسلے میں شریف خاندان کی تاریخ عمران خان سے کہیں زیادہ عبرت ناک ہے۔
یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس کسی بھی طرح سے دولت آجاتی ہے وہ اپنے بارے میں طرح طرح کی خوش گمانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ بہت ذہین ہیں کیوں کہ اگر وہ ذہین نہ ہوتے تو ان کے پاس اتنی دولت کیسے ہوتی۔ وہ خیال کرنے لگتے ہیں کہ خدا بھی ان پر مہربان ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے پاس بے پناہ دولت کیسے آتی۔ اس سلسلے میں انہیں اپنے ’’مقدس‘‘ ہونے کا بھی گمان ہونے لگتا ہے۔ دولت کے ساتھ اقتدار بھی ایسے افراد کے ہاتھ میں آجاتا ہے تو ان کی خودپسندی اور بڑھ جاتی ہے۔ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صاف کہا ہے کہ دنیا تو ایک دھوکے کی ٹٹی یا ایک Smoke Screen ہے۔ رسول اکرمؐ ایک بار صحابہ کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ رسول اکرمؐ بکری کے اس مرے ہوئے بچے کو دیکھ کر ٹھیر گئے۔ صحابہ بھی کھڑے ہوگئے۔ رسول اکرمؐ نے صحابہ سے مخاطب ہو کر کہا تم میں سے کون بکری کے اس مرے ہوئے بچے کو خریدنا پسند کرے گا۔ صحابہ نے کہا ایک تو یہ بکری کا بچہ ہے اس پر مرا ہوا بھی ہے اسے تو ہم مفت بھی لینا پسند نہیں کریں گے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا یاد رکھو دنیا اس بکری کے مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔ رسول اکرمؐ کی ایک اور حدیث ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ دنیا اگر مچھر کے پر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کافروں اور مشرکوں کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔ مگر افسوس ہزاروں مال دار اپنی دولت پر تکبر کرتے ہیں۔ اسے اہم جانتے ہیں، اس سے محبت کرتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی عنایت خاص سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ اسلام صاف کہتا ہے کہ فضیلت تو صرف دو چیزوں میں ہے۔ تقوے میں یا پھر علم میں۔ لیکن ہمارے معاشرے ہی میں نہیں پوری مسلم دنیا میں دولت اور طاقت کی پوجا ہورہی ہے اور تقوے اور علم کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ اقتدار کی ہر صورت کا خدائی منصوبے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ نمرود بھی ایک بادشاہ تھا مگر اس کی خودپسندی اور اس کا تکبر اتنا بڑھا ہوا تھا کہ وہ خود کو خدا سمجھنے لگا تھا۔ سیدنا ابراہیمؑ سے اس نے یہی کہا کہ تمہارا خدا جو کام کرتا ہے وہ تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ تو کیا نمرود کی بادشاہی قابل تعریف ہے۔ کیا ایسی بادشاہی پر اترایا جاسکتا ہے؟ فرعون بھی ایک بادشاہ تھا۔ مگر اس کی گمراہی اور ضلالت بھی بڑھی ہوئی تھی اور اس نے سیدنا موسیٰؑ اور سیدنا ہارونؑ کی بات سن کر نہ دی۔ تو کیا معاذ اللہ فرعون کو بادشاہی دے کر خدا نے اسے بڑی عزت دی تھی۔؟ چنگیز خان نے لاکھوں کلو میٹر کا علاقہ فتح کرلیا تھا مگر اس کی بادشاہی ظلم پر مبنی تھی اور اس میں کوئی قابل تعریف بات نہ تھی۔ برطانیہ کی سلطنت اتنی وسیع تھی کہ اس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا مگر انگریزوں کی یہ بادشاہی ظلم اور استحصال پر کھڑی ہوئی تھی اور خدا کسی ظالم اور استحصال کرنے والے کو خود مقتدر نہیں بناتا۔ چناں چہ سلطنت برطانیہ کی بادشاہت میں بھی کوئی حقیقی عزت موجود نہ تھی۔ ہمارے عہد میں امریکا کا سکہ پوری دنیا میں چل رہا ہے۔ سو سے زیادہ ملکوں میں امریکا کے فوجی اڈے موجود ہیں۔ امریکی ڈالر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پوجا جارہا ہے مگر امریکا کے اس غلبے اور اس بادشاہت میں انسانیت کے لیے کوئی خیر نہیں۔ چناں چہ امریکی بادشاہت میں کوئی حقیقی تکریم موجود نہیں۔ اسلامی تاریخ میں حسینؓ اور یزید کی کشمکش موجود ہے۔ اقتدار اور بادشاہی یزید کے ہاتھ میں تھی۔ وہی کامیاب بھی رہا۔ مگر عزت و تکریم حسینؓ کے حصے میں آئی۔ برصغیر میں مغلوں نے تین سو سال سے زیادہ حکومت کی مگر مغلوں میں جس بادشاہ کی بادشاہی کی تعریف ہوئی وہ صرف اورنگزیب ہے۔ اکبر کو اکبر اعظم اور مغل اعظم کہا جاتا ہے مگر اسلامی تاریخ میں جو توقیر اورنگزیب کی ہے وہ کسی دوسرے مغل بادشاہ کی نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہی فی نفسہٖ کوئی چیز نہیں۔ اصل چیز ہے احکام شریعت کے مطابق حکومت کرنا۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ میں بادشاہی کس چیز کی بناپر ’’عطا‘‘ ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر اقبال کا یاد آنا فطری بات ہے۔ اقبال نے انسانوں کی عظمت کی اصل بنیاد کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
ولایت، پادشاہی، علمِ اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
اقبال کہہ رہے ہیں خدا جب کسی کو اپنا دوست بناتا ہے تو اس کی وجہ اس کا رنگ و نسل نہیں ہوتی۔ اس کی بنیاد ان کا مال و زر نہیں ہوتا بلکہ وہ جب کسی کو اپنا ولی یا دوست بناتا ہے تو اس کی وجہ ایمان ہوتا ہے۔ اس طرح جب وہ کسی کو اقتدار عطا کرتا ہے، بادشاہی سے نوازتا ہے اس کی بھی کوئی دنیاوی وجہ نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ بھی ایمان ہوتا ہے، اسی طرح جب وہ کسی کو علم اشیا کی جہانگیری یا ان پر تصرف عطا کرتا ہے تو اس کی بنیاد بھی ایمان ہوتا ہے۔ سیدنا عمرؓ کے زمانے کا واقعہ ہے، ان کے زمانے میں دریائے نیل خشک ہوگیا، اہل مصر میں رواج تھا کہ جب دریائے نیل خشک ہوجاتا تھا تو وہ کسی کنواری لڑکی کی قربانی دیتے تھے مگر اب اسلام آچکا تھا چناں چہ عہد جاہلیت کی رسم کی پیروی نہیں کی جاسکتی تھی۔ چناں چہ لوگ سیدنا عمرؓ کے پاس پہنچے۔ سیدنا عمرؓ نے دریائے نیل کے نام خط لکھا۔ خط میں لکھا کہ اگر تو اللہ کے حکم سے رواں ہوتا ہے تو یہ خط ملتے ہی رواں ہوجا اور اگر تیرا رواں کرنے والا کوئی اور ہے تو خشک پڑا رہ۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ میرا خط دریائے نیل میں ڈال دینا۔ خط دریائے نیل میں ڈال دیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دریائے نیل میں پانی رواں دواں ہوگیا۔ یہ سیدنا عمرؓ کے حکم کی نہیں ان کی ایمان کی کرامت تھی۔ ذرا شریف خاندان بتائے تو اس کے پاس ایمان کی کتنی دولت ہے؟ شریفوں کا طویل تجربہ بتاتا ہے کہ وہ اتنا خدا سے نہیں ڈرتے جتنا امریکا اور یورپ سے ڈرتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں کیوں اقتدار دینے لگا؟
بدقسمتی سے شریف خاندان کو تو بادشاہی ملی بھی نہیں۔ پاکستان میں حقیقی بادشاہی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔ ذرا شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کو ایک طرف رکھ کر خارجہ اور داخلہ پالیسی تو بنا کر دکھائیں۔ پاکستان کی طویل تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان میں سول حکمران ’’بادشاہ‘‘ نہیں صرف ’’کلرک‘‘ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ’’اقتدار‘‘ نہیں صرف اقتدار کا ’’دھوکا‘‘ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود شریف خاندان اپنی بادشاہی پر اترا رہا ہے۔